سیاست و سیادت

محترم قاری محمد حنیف ڈار صاحب کی کل دو اقساط میں پوسٹ ہونے والی تحریر،
جس پہ کچھ اپنے اور سارے بیگانے ابھی تک شامِ غریباں منارہے ہیں! 😊😊
صاحبزادہ ضیاء ناصر
--------------------------------------
بنو ھاشم و بنو امیہ !

ایک سیاسی تجزیہ ـ

تحریر؛ قاری محمد حنیف ڈار

بنو ھاشم اور بنو امیہ کی سیاسی چپقلش اسلام سے صدیوں پہلے کی ھے جس کا دین کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ھے ، نبئ کریمﷺ پر ایمان لانے کے بعد بنو امیہ نے دین کے معاملے میں تو کوئی اختلاف نہیں کیا ، وھی کلمہ وھی نماز اور وھی دیگر احکام جو بنو ھاشم تسلیم کرتے تھے بنو امیہ بھی ان کے سامنے سر جھکائے رھے ، سیاسی طور پر بنو ھاشم کی مخالفت کرنے کے باوجود نبئ کریم ﷺ سے بنو امیہ کی محبت لازوال و بے مثال رھی ، وہ نبئ کریم ﷺ کی ایک ایک نشانی ھزاروں اور لاکھوں میں خریدتے ،کوئی نبئ کریم ﷺ کی چادر کو کفن بنانا چاھتا تو کسی اور چیز کو بطور تبرک اپنی قبر میں رکھنے کی وصیت کرتا ، اس لئے بنو ھاشم اور بنو امیہ کے درمیان دین کو خواہ مخواہ کھینچ کر لانا امت کے لئے نقصان دہ ثابت ھوا ھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے مخالفین کے درمیان کوئی دینی جھگڑا نہیں تھا نہ ھی حضرت علیؓ نے مذھبی اختلاف کی بنیاد پر کلمہ الگ بنایا تھا اور نہ ھی کوئی امام بارگاہ بنائی تھی ، سارے مسلمان سیاسی اختلاف کے باوجود ایک ھی مسجد میں نماز پڑھتے تھے ـ

سیاست میں کوئی وراثت نہیں ھوتی ، جو قبضہ کر لے حکومت اسی کی ھوتی تھی ـ  سابقہ انبیاء میں بھی حکومت کا وراثت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رھا اور حضرت زکریا نے وارث نبوت کا مانگا تھا ، یرثنی و یرث من آل یعقوب ، پھر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصے میں ایک قضیئے کا فیصلہ ذکر کر کے یہ بات واضح کی گئ کہ حضرت سلیمان سیاسی معاملات کو باپ سے بہتر سمجھتے تھے جبکہ باپ جنگی معاملات کے ماسٹر تھے ، تو گویا دو چیزیں اقتدار کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں ، جنگی صلاحیت اور سیاسی تدبر ،، بنو امیہ دونوں میں فائق رھے ،، جنگی صلاحیت سے اسلام کو تین براعظموں تک پھیلا دیا اور سیاسی تدبر سے دشمنوں کو بھی دوست بنا لیا ،، جبکہ بنو ھاشم اس معاملے میں ڈھیلے رھے ، یہ بات چل رھی ھے نبئ کریم ﷺ کے وصال کے بعد کی صورتحال کے تناظر میں ـ  سیاسی اقتدار مفت میں بنو ھاشم کی مٹھی میں آتا اور ان کی بے تدبیری کی وجہ سے ریت کی طرح مٹھی سے نکل جاتاـ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعتِ خلافت ھو چکی تھی، مگر وہ جن حالات میں ھوئی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مدینے پر باغیوں نے یلغار کی اور خلیفہ اسلام کو شھید کر دیا ، یہ وہ کام تھا جس کی خود مدینے میں حضرت عثمان غنیؓ کے بعض اقدامات سے ناراض صحابہ کو بھی توقع نہیں تھی ، ان کے نزدیک کسی عام مسلمان کا قتل بھی قابلِ قبول نہیں تھا جبکہ یہاں خلیفہ وقت کی سر بیدردی سے کاٹ دیا گیا تھا ، یہ مصریوں اور عراقیوں کی یلغار تھی جو نہ صحابہؓ کی عظمت سے واقف تھے اور نہ خلافت کےادارے کی اھمیت کو سمجھتے تھے ـ

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شھادت کے بعد پہلا موقع تھا کہ حضرت علی خود آگے بڑھ کر حضرت عثمانؓ کی میت کو سنبھالتے اور اس کی تجھیز وتکفین کے بعد جنازے کی امامت کرتے تو یہ جنازہ خود بخود سرکاری طور پر ( Handover Takeover Ceremony ) بن جاتا سارے مدینے کی ھمدردیاں بھی ان کے ساتھ ھو جاتیں اور خونِ عثمانؓ سے برأت بھی ثابت ھو جاتی ـ نیز حالات پر ان کی گرفت بھی ثابت ھو جاتی ـ مگر بدقسمتی سے ایسا ھوا نہیں ـ حضرت علی بوجوہ ایسا کرنے میں ناکام رھے خلیفہ کی نعش مبارک بےگور وکفن کئ دن پڑی رھی اور چھپ چھپا کر پانچ سات افراد نے رات کے اندھیرے میں ان کو اس جگہ دفن کر دیا جو بعد میں بقیع میں شامل ھو گئ مگر اس وقت تک یہود کے مردے دفنانے کی جگہ تھی ـ یہ پہلا موقع تھا جب بنو ھاشم نے ہاتھ آیا ھوا اقتدار کھو دیا ـ  حضرت عثمانؓ کے جنازے نے بتا دیا کہ مدینے پر صرف اور صرف باغیوں کا ھولڈ ھے اور شیر خدا بھی اس ھولڈ کے سامنے بےبس ھے ـ اس صورتحال میں جو لوگ بھی مدینے سے نکل کر مکہ پہنچے انہوں نے یہی بتایا کہ مدینہ باغیوں کے سامنے سرنڈر کر گیا ھے اور وہ ھر طرف دندناتے پھر رھے ہیں یہانتک کہ امھات المومنین بھی ان کی دست درازی سے محفوظ نہیں ـ

ان حالات میں جب حضرت علیؓ نے بیعت کا تقاضا کیا تو ان کو باغیوں کا نمائندہ ھی سمجھا گیا کہ باغی ان کے تقدس اور مقام کو استعمال کر کے اقتدار تک پہنچنا چاھتے ہیں ، دوسری جانب مالک اشتر جو بہترین جرنیل مگر سخت مزاج شخص تھے ، اور جس طرح حضرت عمرفاروقؓ کے بارے میں مشہور ھے کہ ان کا ہاتھ تلوار کے دستے پر رھتا تھا کہ "  اس کی گردن نہ اڑا دوں یا رسول اللہ " بالکل اسی مزاج کا بندہ تھا جبکہ یہ وقت اس قسم کی کسی ایکٹیوٹی کا متحمل نہیں ھو سکتا تھا ، امت پُرسے کی حقدار تھی نہ مالک اشتر کی دھمکیوں کی ، وہ دروازے پر تلوار لئے بیٹھا تھا ، جس شخص کو بلایا جاتا تھا اس کے لئے ایک ھی ضابطہ تھا کہ بیعت کر کے ھی زندہ نکل سکتے ھو ،؛

حضرت حسنؓ سیاسی مدبر تھے انہوں نے حضرت علیؓ کو مشورہ دیا کہ ان حالات میں آپ کا بیعت لینا عثمان کے خون کو اپنے سر لینا ھے ، جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کافی طویل تبصرہ کیا ،، حضرت طلحہ و زبیررضی اللہ عنھما کو خلافت کی بیعت کی پیشکش ایک اخلاقی قدم کے سوا کچھ نہیں تھی جن لوگوں نے حضرت علیؓ کوشھید خلیفہ کا جنازہ نہیں پڑھانے دیا وہ ان کو خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار بھلا کب دینے والے تھے اور جنہوں نے ایک قائم و دائم خلیفہ کو شھید کر دیا تھا وہ بیعت کے بعد ان دونوں کو کمرے سے زندہ کب نکلنے دینے والے تھے ، ان دونوں نے سوچنے کے لئے وقت مانگا اور مدینہ چھوڑ دیا ،،
ایسے وقت جب کہ شام میں حضرت نائلہ کی کٹی ھوئی انگلیوں اور شھید خلیفہ کے خون آلود کپڑوں کی نمائش جاری تھی ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا امیرِ شام حضرت معاویہؓ کو معزول کرنا بھی محل نظر ھے ـ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ نے جو کہ سیاسی مدبر تھے اور حضرت علیؓ کے حامیوں میں سے تھے ، انہوں نے عرض کیا کہ آپ سب سے پہلے معاویہؓ سے اپنی خلافت کی بیعت تو لیں تا کہ وہ آپ کی اطاعت کے پابند ھو جائیں ،مگر حضرت علی نے ان کا یہ مشورہ نہ مانا اور اسی رات حضرت مغیرہ بن شعبہ بھی مدینہ چھوڑ کر مکے روانہ ھو گئے ،

ایران کے ساتھ جنگ کے دوران حضرت عمرفاروقؓ خود عراق کے محاذ پر جانا چاھتے تھے ، مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان کو بار بار روکتے رھے اور فرماتے کہ آپ اسلام کی چکی کا وہ ایکسل ہیں جس پر دونوں پتھر قائم ہیں اور چل رھے ہیں ـ اگر آپ خدانخواستہ وھاں شھید ھو گئے تو سارا تانا بانا بکھر کر رہ جائے گا ، اس لئے آپ یہاں رہ کر اپنے جرنیلوں کو لڑائیں مجرد آپ کا وجود ھی جرنیلوں اور سپاہیوں کے لئے قوت کا باعث ھے ـ
مگر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے وہی کام سر زد ھو گیا جس کا خدشہ وہ حضرت عمرؓ کے بارے میں ظاھر کرتے تھے ـ مدینے جیسے قدرشناس شہر اور وفادارساتھیوں سے نکل کر حضرت علیؓ کا عراق کی طرف کوچ آپ کے لئے سیاسی اور فوجی دونوں لحاظ سے نقصان دہ ثابت ھوا ـ مکہ والوں کا مدینے کی بجائے عراق کی طرف کوچ اصل میں حضرت علیؓ کو مدینے کے قلعے سے نکالنے کی چال تھی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے مخالفین کو بالکل مایوس نہیں کیا اور مدینہ چھوڑ کر اس طرح عازم عراق ھوئے کہ پھر کبھی پلٹ کر آنا نصیب نہ ھوا ، مخالفین نے آپ کو ایسی دلدل میں گھسیٹ لیا تھا کہ جس میں ایک بلا پیچھا چھوڑتی تھی تو دوسری گھیر لیتی تھی ـ

عراق اور اس کی نفسیات ـ

عراق ایک ایسا ملک تھا جو کبھی ایران کے پاس چلا جاتا تو عراقی ایرانیوں کے حقے بھرنے لگتے اور مٹھی چاپی میں لگ جاتے ،، دو چار سال بعد رومی عراق کو چھین لیتے تو عراقی رومیوں یعنی ترکوں کی  مونچھوں کو تیل لگانے لگتے اور ان کی تھکاوٹ دور کرنے کے سامان کرتے ،نتیجہ یہ کہ عراقی  نسل در نسل اس کیفیت میں رہ کر بزدل ، بے ضمیر ، منافق اور دھوکے باز  بن گئے تھے یہ وھی خصوصیات ہیں جو اسرائیلیوں میں فرعون کی غلامی کے دوران پیدا ھو گئ تھیں ، نتیجہ یہ کہ ایک شعلہ بار اور حسی معجزے دکھانے والے رسول کی موجودگی میں بھی وہ زمین سے بلند ھونے کی طرف مائل نہ ھوئے اور بیت المقدس کے دروازے سے دھتکار کر میدان تیہہ میں چالیس سال کے لئے قید کر دیئے گئے  ، منافقت عراقیوں  کے لئے عیب نہیں بلکہ چالاکی اور ھوشیاری تھی جس کے ذریعے وہ دونوں قوموں کو بیوقوف بناتے تھے ـ لگائی بجھائی کرنا ، ایک فریق کو دوسرے کے خلاف بھڑکانا ان کا وطیرہ تھا اور یہی کچھ انہوں نے حضرت علیؓ ، حضرت حسنؓ اور پھر حضرت حسینؓ کے ساتھ کیا ،، گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مدینے کو چھوڑ کر کوفے آنا اپنے ساتھ اپنی اولاد کو بھی ان بھیڑیوں کے غول کے حوالے کرنے کا سبب بنا ـ

اس بات کا ادراک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی بعد میں ھوا ، آپؓ جب صلح کی بات کرتے تو عراقی شور مچاتے مگر جب لڑائی کا وقت آتا تو پیٹھ دے جاتے ـ حضرت حسنؓ کے ساتھ انہوں نے یہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے صلح کو ترجیح دی یوں امت کے دونوں دھڑے ایک ھو گئے اور عام الجماعہ منایا گیا کہ امت کے دونوں دھڑے ملکر  دوبارہ ایک جماعت بن گئے ہیں ـ حضرت امیر معاویہؓ نے کبھی اپنی خلافت کا دعوی نہیں کیا ،، تا آنکہ جنگ صفین کے بعد مذاکراتی کمیٹی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نمائندے نے حضرت علیؓ کی مدینے کی بیعت کو کالعدم قرار دے دیا جس کو باقاعدہ معاہدے میں درج کیا گیا ،، جب حضرت معاویہ کے نمائندے کو کہا گیا کہ وہ اپنے لیڈر کو معزول کریں تو انہوں نے عرض کیا کہ سرکار میرے لیڈر نے تو دعوئ خلافت کیا ھی نہیں ھے جو میں ان کے دعوئ خلافت کو کالعدم قرار دوں ،، یوں میدان میں جیتی گئ جنگ مذاکرات میں ھار دی گئ ـ حضرت علی ؓ کو پتہ چل گیا تھا کہ جو فوجی قوت مجھے اس جنگ میں دستیاب تھی ایسی اب ممکن نہیں ھے ، نیز مدینے کی جس بیعت کی وجہ سے آپکی حیثیت شرعی خلیفہ کی سی تھی وہ بھی اب ہاتھ سے نکل گئ ھے لہذا اب یہ دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پر مستقل قائم ھو گئے ہیں  چنانچہ صفین سے واپسی پر حضرت علیؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ میرے بعد معاویہ کو لازم پکڑنا کیونکہ اگر وہ بھی ہاتھ سے نکل گئے تو پیچھے بس بھیڑیئے ہی ھونگے ـ جنگ صفین کے بعد مذاکرات میں حضرت علیؓ کے نمائندے حضرت ابوموسی الاشعریؓ کے حضرت علیؓ کو معزول کر دینے کے بعد جب حضرت معاویہ شام پلٹے تو اپنی خلافت کا اعلان کر دیا ـ اس لئے کہ ان کے نزدیک اب امت بغیر کسی خلیفہ کے تھی ،،

حضرت عبداللہ ابن زبیرـ

معاویہ بن یزید کے خلافت سے ھٹ جانے کے بعد شام سمیت تمام صوبوں نے حضرت عبداللہ ابن زبیر کی بیعت کر لی ،، بنو امیہ کے ایک گروہ نے شام میں الضحاك بن قيس کی قیادت میں جو کہ شام کے حاکم تھے عبداللہ ابن زبیر کی بیعت کر لی ،، مروان جو کہ مدینے کا حاکم تھا وہ عبداللہ ابن زبیر کی خدمت میں حاضر ھوا اور تمام بنو امیہ کی طرف سے بیعت کی پیش کش کی اس شرط پر کہ بنوامیہ کی سابقہ خطاؤں سے درگزر کر کے عام معافی کا اعلان کیا جائے ، جس پر حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ نے بھڑک کر کہا کہ واللہ جب تک ایک ھاشمی کے بدلے دس اموی قتل نہ کر لوں میری آتش انتقام ٹھنڈی نہیں ھو گی ، یہ سن کر مروان وھاں سے نکل آیا اور راتوں رات شام کی راہ لی ـ حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کے ساتھیوں نے ان کو سمجھایا کہ آپ نے گھر آئے اقتدار کو ٹھوکر مار دی ھے ،بنو امیہ کی بیعت آپ کی راہ کا ھر کانٹا دور کر دیتی مگر اب وہ اپنے دفاع کے لئے جوڑ توڑ کرتے رھیں گے ، بات حضرت ابن زبیر کی سمجھ میں لگ گئ ،مگر موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا انہوں نے قاصد دوڑایا مگر مروان نے کہا کہ اب بات ختم ھو گئ ھے ـ

مروان نےشام جاتے ہی بنو امیہ پر اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور ایک جماعت لے کر اموی گورنر الضحاک بن قیس پر حملہ آور ھوا ، ضحاک بن قیس کو شکست ھوئی اور شام مروان کے ہاتھ رھا ، مروان نے فورا مصر کا قصد کیا اور مصر فتح کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز بن مروان کو وھاں کا حاکم بنا دیا ،، مصر کے ہاتھ سے نکلنے سے زرعی اجناس اور دیگر ضروریات کے سلسلے میں عبداللہ ابن زبیر مشکلات کا شکار ھو گئے ، اس کے بعد مروان نے دو لشکر بھیجے ایک حجاز کی طرف جس کو شکست ھوئی دوسرا عراق کی طرف جو اپنے پورے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رھا مگر مروان کے بعد اس کے بیٹے عبدالملک نے حجاز و عراق بھی قابو کر لئے ـ ابن زبیر شھید ھو گئے اور اموی ریاست و سیادت تمام عرب کے علاوہ اسپین تک پھیل گئ جو وھاں ۹ سو سال کے لگ بھگ تک قائم رھی ـ

یوں صرف چند جملوں نے اقتدار کو بنو ھاشم سے پھر دور کر دیا ـ

عباسی خلافت پر پھر ان شاء اللہ لکھونگا ،، جو لکھا گیا ھے یہ بلا تعصب لکھا گیا ھے ،جو کہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ھے ،مروان حدیث میں ثقہ گردانے گئے ہیں اور امام بخاری سمیت دیگر محدثین نے ان سے روایات لی ہیں نیز مروان کو فقیہہ اور علم دوست بھی سمجھا جاتا ھے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری