دلی کے شعلے ظفر جی
دلی کے شعلے.تیسراحصہ.ظفرجی کے قلم سے

زرد کوٹھی کا معرکہ بھی اپنی مثال آپ تھا....زرد کوٹھی مجاھدین کی ایک فارورڈ پوسٹ تھی......یہ مورچہ دہلی کے کشمیری دروازے سے نصف میل دور تھا.........پہلے یہ ڈاک بنگلہ ہوا کرتا تھا.....جنگ آزادی کے متوالوں نے ریت کی بوریاں لگا کر اسے مورچہ بنا دیا .......یہاں دو چھوٹی توپوں اور بیس بندوقوں کے علاوہ ....پانی کے گھڑے..برتن....خوراک ....منجی بستر سب موجود تھا..مجاھدین زرد کوٹھی سے فائرنگ کرکے انگریز فوج کو سارا دن پریشان رکھتے - ہر روز نماز مغرب اور فجر کے بعد ڈیوٹی تبدیل ہوتی...اور تازہ دم سپاہ یہاں پہنچ جاتی... تفصیل سے پڑھئے
27 اگست......بروز اتوار کی ایک گرم شام تھی...جعفر حسین , محمد سعید اور اقبال بھائ کی ڈیوٹی ختم ہورہی تھی....ان کے ساتھ کالی داس , گنیش اور دوسرے جنگجو تھے-
اس دن مغرب کے بعد ڈیوٹی سنبھالنے ملواڑی رضاکار مجاھد آئے...جعفر حسین نے ڈیوٹی حوالے کرتے ہوئے پہریدار گوری شنکر کو اچھی طرع سمجھایا " دیکھو بھائ....رات کو سونا نہیں ...فرنگی کا کچھ اعتبار نہیں....وہ کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے..."
گوری شنکر بولا " بھین...تمہو سپاہی ہووے...ہمن سپاہی نہیں......نیند آوت تو سو جاوت ہیں....."
جعفر حسین سڑ کر بولا " بھاڑ میں جاؤ...........جب سر پر پڑے گی تو خود ہی جان جاؤ گے کہ کتنے بیس کا سو ہوتا ہے"
یہ کہ کر وہ ڈیوٹی سے فارغ ہونے والے سپاہیوں کو ساتھ لے کر کشمیری دروازے کی طرف بڑھ گیا.....دلی کے دروازے رات کو بند کردیے جاتے تھے......جعفر حسین نے ساتھیوں کے مشورے سے دروازہ کھلوانا مناسب نہ سمجھا.....سپاہی لوگ تھے....بندوقیں سر کے نیچے دھرے کشمیری دروازے کے سامنے تھڑے پر ہی سو گئے.............
ادھر زرد کوٹھی والوں کو بھی نصف شب جماہیاں آنا شروع ہوگئیں.....گوری شنکر ساتھی پہرے داروں سے بار بار کہ رہا تھا " بھین...الو کی طرع جاگنیں کی جرورت کا ہے......کیوں مفت میں کھجل ہوویں......انگریج راتوں کو تھوڑی آویں .......اپن تو سووت ہیں..بھائ......" یہ کہ کر کھولی میں جا کے سوگیا....دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی آنکھیں موندنے لگے........
رات دو بجے کے قریب جب سارے ملواڑی خراٹے لینے لگے تو گوری شنکر دبے پاؤں آٹھا....پہلے ایک ایک بندے کو چیک کیا...جب اطمینان ہو گیا کہ سب گھوڑے گدھے بیچ سوئے ہیں.....تو زرد کوٹھی سے نکل کر گرتا پڑتا سیدھا انگریز کیمپ میں جا پہنچا.......سودا وہ دن کو ہی 30 روپے میں طے کر چکا تھا.........
چنانچہ میجر جارج اسمتھ 28 گورکھوں کو ساتھ لئے ننگے پاؤں پہاڑی سے اترا.....اور زرد کوٹھی آن دھمکا......پہلے اطمینان سے اسلحہ سمیٹا.......پھر گورکھوں کو اشارہ کیا......انہوں نے برچھیوں...ڈنڈوں...کلہاڑیوں سے ملواڑیوں کی درگت بنانی شروع کی.....کیمپ میں دھائ مچ گئ.....ملواڑی روتے چیختے کشمیری دروازے کی طرف بھاگے...
جعفر حسین اور اس کے ساتھی جو تھڑے پر سورہے تھے ان کی چیخیں سن کر جاگ گئے......اور پوزیشن لے کر لیٹ گئے..اب جو یہ بھاگم بھاگ پہنچے تو ان کو لعنت ملامت کی اور کہا ہمارے پیچھے لیٹ جاؤ...جارج اسمتھ ملواریوں کے پیچھے اندھا دھند بھاگتا کشمیری دروازے تک آن پہنچا.....وہ اس تاک میں تھا کہ دروازہ کھلتے ہی شہر میں داخل ہو جائے گا.....لیکن خود نشانے پر آگیا.....جعفر حسین کی بندوق سے نکلنے والی گولی نے جارج اسمتھ کو دھول چٹا دی....اس کے بعد تو وہ فائرنگ ہوئ کہ خدا کی پناہ......کشمیری گیٹ پر لگی توپوں نے بھی آگ برسانی شروع کردی........ سیاہ برج پر بیٹھے توپچی مجاھدین نے بھی توپوں سے انھا دھند گولے بسائے ......کشتوں کے پشتے لگ گئے.......گوروں اور گورکھوں کی وہ دھلائ ہوئ کہ خدا کی پناہ......گورکھے میجر اسمتھ کی لاش چھوڑ کر زرد کوٹھی میں جا چھپے.......اور وہاں سے فائرنگ کرتے رہے.......ساری رات جنگ ہوئ..... اگلے دن دوپہر تک میجر اسمتھ کی لاش کشمیر گیٹ اور زرد کوٹھی کے بیچ پڑی رہی.......
دونوں طرف سے اس لاش کے حصول کےلیے ڈیڑھ دن تک جنگ ہوتی رہی....آخر اگلی رات ایک مجاھد لیٹ کر لاش تک پہنچا....اور ہتھیار اتار کر جیبیں خالی کیں....اور لاش کو ادھر ہی چھوڑ دیا..............!!!
مجاھدین کی اس کامیابی نے اہل دلی کا مورال ایک بار پھر اونچا کر دیا.....!!!
دہلی کی جنگ اب عوامی جنگ کی صورت میں نمایاں ہو چکی تھی.....دہلی کے شہری اور اردگرد کے دیہات پوری طرع قومی فوج کی مدد کر رہے تھے.....نانگلی گاؤں کے بہادر عوام فوج کے ساتھ برابر جنگ میں حصہ دار تھے....نجف گڑھ ...پانی پت اور سونی پت کے زمیندار بھی ان کے شانہ بشانہ تھے......شہزادوں کے علاوہ امراء میں امین الدین خان ...تاج الدین خان بھی فوج کے ہم رکاب تھے....الور سے مولانا فضل الحق خیر آبادی بھی دلی تشریف لا چکے تھے..انہوں نے دلی کی مسجد میں تمام علماء کرام کو جمع کیا اور بخت خان کی موجودگی میں فتوی جہاد پر سب کو اکٹھا کیا....دلی کی فضا ایک بار پھر نعرہء تکبیر سے گونج اٹھی تھی...

جنرل نکلسن کے پاس قادری کی غلیلیں نہیں.......24 پاؤنڈر کی توپیں تھیں .......
اب وہ مزید صبر نہیں کرسکتا تھا.......
دلی اس کی آنکھوں کے سامنے اڑھائ ماہ سے چٹان کی طرع سر اٹھائے کھڑا تھا.......تخت برطانیہ کے وہ غلام جو کبھی فرنگی کے سامنے آنکھ اٹھاتے ہوئے کانپتے تھے ...اب بندوق اٹھائے کھڑے تھے.......بادشاہ جو کبھی نان جویں کےلیے بھی فرنگی کا محتاج تھا.......کشکول توڑ کر پستول لئے پھرتا تھا........
بریڈ اسمتھ جو نکلسن کا چیف انجینئر تھا.......ایک زبردست پلان تیار کر چکا تھا.....فصیل شہر کو توڑنے کا پلان........لیکن جنرل ولسن کوئ رسک لینے کو تیار نہ تھا.....اور پنجاِب سے آیا میجر جنرل نکلسن مورچے میں بیٹھ مزید وقت ضائع کرنا گناہ سمجھ رہا تھا.....انگریز کی ہائ کمانڈ نے بھی اشارہ دے دیا کہ اگر جرنل ولسن دلی کا محاصرہ نہیں توڑ سکتا تو میجر جرنل نکلسن کو موقع دیا جائے ...........
نکلسن کی پہلی تدبیر شہر میں مجاھدین کے روپ میں کچھ فوج داخل کرنے کی تھی.......اس مقصد کےلیے کچھ ٹاؤٹ بھی تیار کیے گئے.....لیکن یہ لوگ چیک پوسٹ والوں کی نظر میں آگئے....اور دھر لیے گئے.......اس سازش میں لال قلعے میں چھپے ہوئے غدار پورے کے پورے شامل تھے......!!!!
لال قلعے میں کھٹملوں سے زیادہ جاسوس بھرے پڑے تھے...... محبوب علی خان....امین الدین خان ........مرزا الہی بخش ....رام جی داس گڑوالا.....متھراداس...سالک رام.....پل پل کی خبریں انگریز تک پہنچا رہے تھے........
مجاھدین اگر دلی میں انگریزوں کو بال بچوں سمیت مارنے کی بجائے جنگ کے شروع دنوں میں ہی ان جاسوسوں پر چھری چلا دیتے تو...اس وقت معاملات کسی اور ڈھب پر جا رہے ہوتے...لیکن جوش میں ہوش بھلا کہاں رہتا ہے....!!!
انگریزوں نے 28 اگست کو کشن گنج والے مورچے پر بھرپور حملہ کیا......یہ چوکی بھی دلی سے محض نصف کلومیٹر دور تھی....29 اگست کو بھی تمام دن شہر پر گولہ باری ہوتی رہی.....دلی میں تمام فوج ریڈ الرٹ پر تھی ....حملہ کسی وقت بھی وقت متوقع تھا....شہر کا چلتا پھرتا میڈیا بار بار یہ خبر چلا رہا تھا کہ انگریز شہر کے قریب نئے مورچے بنا رہا ہے تاکہ فصیل شہر کو توڑا جاسکے.......فتح کے خبط میں مبتلا جنونی مثبت خبریں ہی سننا چاہ رہے تھے.......چناچہ ہر سچی خبر سنانے والے پر انگریز کے جاسوس کا شائبہ ہوتا......دلی کی گلیوں میں میڈیا کی سرعام دھلائ روز کا معمول بن چکی تھی....
بہادر شاہ ظفر نے جنگی کونسل کا اجلاس طلب کیا تاکہ دفاعی صورت حال پر غور کیا جاسکے...مگر حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے تھے......شہر میں اناج کی کمی ہو چکی تھی......چالیس ہزار مہمان مجاھدین دھرنا دیے بیٹھے تھے....اناج کہاں سے پورا ہوتا.....اوپر سے توپوں میں ڈالنے کےلیے گندھک کی کمی.....تاجروں سے شہزادے تقریبا چار لاکھ روپیہ بھتہ وصول کر چکے تھے.....حالات دیکھ کر تاجر بھی غیر اعلانیہ ھڑتال پر چلے گئے..........فوج کا بجٹ پانچ لاکھ تہتر ہزار روپے ماہانہ تھا....
لیکن ان حالات میں بھی انقلابیوں کی ہمت اور حوصلہ دیکھنے کے لائق تھا........!!!
3 ستمبر کو انگریز نے دریائے جمنا کا پل اڑانے کی کوشش کی تاکہ مجاھدین کی رسد بند کی جائے لیکن دوہزار مجاھدین نے یہ حملہ پسپا کرکے انہیں بھاری نقصان پہنچایا.........اسی طرع دوسرے دن انہوں نے دلی کے کابلی دروازے کے سامنے مورچہ بنانے کی کوشش کی......لیکن مجاھدین کی شدید فائرنگ سے مورچہ بنانے والے مورچے کے اندر ہی دفن ہو کر رہ گئے.....
بخت خان کو اطلاع ملی کہ انگریز کی ایک بھاری رسد پانی پت کی طرف سے رجھ پہاڑی پر آرہی ہے.....اس رسد کو روکنا ازحد ضروری تھا ....اس نے فورا بادشاہ کو اطلاع دی اور کہا کہ ....آپ شہزادہ مغل کی کمان میں فورا سپاہ بھیج کر اس رسد کو روکیں...... شہزادہ محترم اس وقت باتھ روم میں عرق گلاب سے غسل فرمارہے تھے......باہر اپنے بارے میں کھسر پھسر سنی تو...وہیں سے آواز لگائ....."سازش...سازش....سازش......کسی اور کو ماموں بناؤ...ہم نہیں جانے والے.!!!!"
چنانچہ آپس کی اس رقابت کے نتیجے میں 6000 ڈبے ایمونیشن کے بخیرو خوبی انگریز کیمپ تک پہنچ گئے......
چھ ستمبر کو بادشاہ نے خود توپوں اور مورچوں کا معائینہ کیا......فوجیوں کی پریڈ ہوئ...اور ان سے عہد لیا گیا کہ وہ ہر صورت میں ڈٹے رہیں گے....چاھے جان چلی جائے لیکن مقابلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے....
شہر بھر میں نقیب ڈھول بجا کر اعلان کر رہا تھا..".سنو سنو....ہر خاص و عام سنو..... بادشاہ اور شہزادے مغل بخت کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر شخص چاہے وہ شاہی ملازم ہے یا نہیں....ھندو ہے یا مسلم .......انگریزوں سے جنگ کےلیے نکلے........جو شخص بھی گھر بیٹھا رہا...اسے شاہی حکومت کا دشمن تصور کیا جائے گا....."
رسد پہنچنے کے بعد انگریز فوج کو ایک نئ طاقت مل چکی تھی.....چناچہ 6 ستمبر کو انجینئر بریڈ اسمتھ کے پلان پر عمل درامد شروع ہوگیا....سب سے پہلے رجھ پہاڑ کے عین شمال میں شہر کے نزدیک پہلی بیٹری لگا دی گئ ......یہ بیٹری 24 پاؤنڈ وزنی گولے والی توپ اور 9 پاؤنڈ کے ہلکے گولے والی توپوں پر مشتمل تھی.....اور ان کو لگاتے ہوئے کئ ہندو مزدور مجاھدین کی فائرنگ کی زد میں آکر مرے- لیکن کارکنوں کی کون سی کمی تھی نکلسن کے پاس.....دومرتے...تو تین اور بھیج دیے جاتے......یہ بیچارے بھی مجبور تھے....آگے سے انقلابی مارتے تھے.....پیچھے ہٹتے تو صاحب بہادر بھوننے کو تیار بیٹھا تھا......روتے پیٹتے مورچے بناتے رہے......
11 ستمبر کو ان نوتعمیر شدہ مورچوں سے دن رات مسلسل فائرنگ کی گئ.....اور 13 ستمبر تک انگریز دلی کی فصیل میں پہلا شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو گیا.....رات کو انجینئر بریڈ نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ اس شگاف کا معائینہ کر کے بتایا کہ ان کے ذریعے شہر میں باآسانی داخلہ ممکن ہے..

جان سے پیاری ایلیزا ........!!!
بہت سی اچھی خبریں تمہیں بتانی ہیں.... ہمارے پاس شہزادوں کے خطوط آنا شروع ہوگئے ہیں......ان کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر ہمارے حمایت میں کھڑے ہیں....وہ صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں....آج ہی ایک سفیر ملکہء زینت محل کی طرف سے آیا ہے جو بادشاہ کی چہیتی بیگم ہے اور بہت اہم سیاسی شخصیت ہے......اس نے صلح کے معاہدے اور شرائط کے لیے بادشاہ پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے کی بھی پیشکش کی ہے......یہ خطوط ہائ کمان کو بھجوا دیے گئے ہیں.....اگر صلح ہو گئ تو.....ہم محاصرہ ختم کردیں گے......پھر میں بھی تم سے آن ملوں گا.......میرا انتظار کرنا.....
تمہارا محبوب....... ہروے حارث گریتھورڈ
23 اگست 1857 رجھ ماؤنٹین - دلی
لیکن یہ سب بیکار تھا.......جس قوم میں غداری کی دراڑ پڑ چکی ہو اس سے بھلا کون معاہدے کرتا ہے.....چنانچہ اوپر سے یہی احکامات آئے کہ.....شہزادوں کے خطوط کو ردی کی ٹوکری میں پھینکو..........مذاکرات کا وقت گزر چکا .........بھرپور کاروائ کرکے بغاوت کو کچل دو....
دلی پر حملے کےلیے فوج کو چار دستوں میں تقسیم کر دیا گیا.......پہلے دستے کی قیادت میجر جنرل نکلسن کر رہا تھا...اس دستے نے فصیل کے اس شگاف سے داخل ہونا تھا جو ایک دن پہلے گولہ باری کے نتیجے میں پیدا کیا گیا تھا........دوسرے دستے نے آبی مورچے کے شگاف سے داخل ہونا تھا اور اس کی قیادت برگیڈیئر جونسن کر رہا تھا...تیسرے دستے نے کرنل کیمپل کی سرکردگی میں دلی کے مرکزی دروازے "کشمیری گیٹ" کو بارود سے اڑانا تھا اور اندر داخل ہونا تھا......چوتھا دستہ برگیڈیئر لونگ فیلڈ کی قیادت میں اسٹینڈ بائ رکھا گیا...
.دوسری طرف انقلابی مجاھدین بھی یہ آخری معرکہ لڑنے کےلیے پرتول رہے تھے.... ان کے اندر بے شک ہمت اور جرات کی کوئ کمی نہ تھی....لیکن انہیں کوئ فوجی تجربہ بھی نہ تھا.....بس جوش و خروش کے ابلتے جزبات سے دیوانہ ہو کر سر کے چاروں طرف تلوار گھمانا جانتے تھے.....ان کے بدن پر ثابت کپڑے بھی نہ تھے- وہ بھوکے مرتے تھے مگر وطن اور دین کا جزبہ انہیں پھر میدان جہاد میں لا کھڑا کر دیتا تھا.......
صبح صبح ......محمد بخش کی نظر سب سے پہلے شہر پناہ کے شگاف پر پڑی....وہ بھاگا بھاگا نتھولال کے پاس گیا...کہ کماندار کو خبر کرے...گھوڑوں کا بھی قحط پڑ گیا تھا......کہ جنگی اخراجات پورے کرنے کےلیے جرنل بخت خان نے بہت سے گھوڑے بھی بیچ دیے تھے....نتھولال نے دوڑ لگائ اور کماندار کو جاکر بتایا....شہر کے دوسرے سرے سے بیل گاڑی منگوائ....پھر کشمیری دروازے سے ریت کی بوریاں لادیں.......سارا دن کھپ گیا........تب جاکر شگاف کی مرمت ہوئ........
88 ستمبر.....حملہ شروع ہوا ....اور دونوں طرف سے توپوں کے دھانے کھل گئے....مجاھدین نے ہر انگریز توپ کے مقابلے میں ایک توپ لگا رکھی تھی.....ان کا سب سے مستحکم مورچہ سیاہ برج والا مورچہ تھا.....جو ٹھیک ٹھیک نشانے پر گولے پھینک رہا تھا.....
سیاہ برج کے کچھ ہی فاصلے پر لکڑیوں کا ایک ٹال پڑا ہوا تھا.....انگریز نے کسی طرع اس ٹال میں آگ لگادی........مجاھدین کچھ نہ سمجھ سکے......لیکن چالاک دشمن کی یہ چال کام آئ.........اس نے ٹال سے اٹھتے دھویں کی آڑ میں اپنی توپوں کو آگے بڑھایا....اور یوں سیاہ برج کے انتہائ قریب سے قلعہ شکن توپوں کے گولے فائر ہونے لگے....مجاھدین نے سر بکف ہوکر مقابلہ کیا....لیکن انگریز فوج کی شدید بمباری کی تاب نہ لا سکے.........اور یوں 12 ستمبر کو سیاہ برج کا مورچہ ٹوٹ گیا...!!!!!
پھر آہستہ آہستہ فوجیں بڑھتی چلی گئیں......ہر روز ایک نئ خبر......قدسیہ باغ پر قبضہ......لڈلو کیسل پر قبضہ......کسٹم کوٹھی پر قبضہ........جہاں قبضہ ہوتا .....وہیں توپخانہ نصب ہوجاتا..........گھروں .....مسجدوں ......مندروں میں زور و شور سے دعائیں ہونے لگیں.......یا اللہ انگریز کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں........انگریز پر آسمانی بجلی گر جائے...اس کی فوج کھڑی کھڑی زمین میں دھنس جائے........یا الہی....کوئ راستہ نکال.....مجاھدین کی نصرت فرما......
بادشاہ اپنے محل کی بالکونی میں کھڑا حالات و واقعات پر غور کر رہا تھا کہ مصاحب نے اطلاع دی....."حضور دلی کا سب سے بڑا ھندو جوتشی بالے رام شرف باریابی چاھتا ہے" بادشاہ نے سر ہلا کر اجازت دے دی-
بالے رام دور سے ہی رال لیلا پڑھتا آیا....." کرپا کر.... بھگوان کرپا کر....دوسرے گھر کے پرانڑیں....فرنگی کو نشٹ کر .....حضور کاہے کو اداس ہوویں...جب تک بالے رام جندہ ہے......انگریج دلی کی دیوار کبھو نہ ٹاپے .......ہم پراتھنا کرے گا.......انگریج نشٹ ہو جاوے گا...ہم کو ایک کمرہ دیجو.....ہم پراتھناں کرے گا.......فرنگی نرگ سدھاوے گا......."
شاہی محل میں بالے رام کو ایک کمرہ دے دیا گیا....تاکہ وہ پراتھنا کرکے انگریز کو بھگا سکے.......!!!!
بادشاہ جب بہت متفکر ہوتے تو اپنے پیرومرشد حضرت حسن عسکری کو طلب فرمالیتے.......پیرومرشد ہر روز عالم رویا سے کوئ ایسی خبر بادشاہ کو لا کر سناتے کہ بادشاہ کا حوصلہ پھر سے جوان ہو جاتا.........ظاہری حالات دن بدن شکست کی طرف جارہے تھے....لیکن پیرومرشد فتح دلی کے ساتھ ساتھ فتح ھندوستان کی خوشخبریاں لا رہے تھے.

سپاہی کرم علی نے سلام پھیرا ہی تھا کہ اس نے کسی بڑے پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سنی.
رات ہی اس نے جامع مسجد میں مولوی سرفراز علی سے سنا تھا کہ آسمان سے فرشتے مجاھدین کی مدد کےلیے اتریں گے - وہ بھاگا بھاگا جامع مسجد گیا تاکہ سب کو خبر کرے- مسجد میں صبح ہی صبح شدید بحث چل رہی تھی- کوئ سوا سو آدمی جمع تھا اور کان پڑی آواز سنائ نہ دیتی تھی.....مولوی سرفراز اور مولوی عبدالغفور کے بیچ مناظرہ چل رہا تھا...
" یہ جہاد نہیں ہے.....ہرگز جہاد نہیں ہے....جہاد ...اسلامی حکومت کے قیام کےلیے ہوتا ہے........تم لوگ مغل حکومت کے قیام کےلیے لڑ رہے ہو.........." مولوی عبدالغفور نے کہا...
"تم بھول رہے ہو عبدالغفور.......ہمارے پاس حاجی امداداللہ کافتوی موجود ہے......فضل حق خیر آبادی اسی مسجد میں جہاد کا فتوی دے کر گئے ہیں....حضرت خواجہ قطب الدین دھلوی اس فتوے کی توثیق کر چکے ہیں.....مت بھولو کہ بادشاہ سلامت خود مرید ہیں...حضرت خواجہ سرکار کے.....اور کون سا فتوی چاہیے تمہیں......اگر موت سے ڈرتے ہو تو سورج نکلنے سے پہلے پہلے دلی سے نکل جاؤ....ہم نہیں روکیں گے تمھیں......لیکن یاد رکھو......موت ایک دن آکر رہے گی.....چاہے جہاں بھی جا چھپو..." مولوی سرفراز علی کی آواز گونجی-
"میں موت سے نہیں ڈرتا سرفراز علی......اور نہ مجھے ان اکابرین کی نیت پر شک ہے...لیکن یاد رکھو...اگر ہم یہ جنگ جیت بھی گئے...اور فرنگی ھندوستان سے بھاگ بھی گیا...تو ھندوستان کے اقتدار پر نہ تو مولانا فضل الحق جیسا نیک بخت بیٹھے گا.....اور نہ ہی حاجی صاحب جیسا خوش بخت....اگر بیٹھے گا تو کرپشن کا بے تاج بادشاہ.... شہزادہ مغل بخت........یا پھر ...شریک چئرمین......جواں بخت...."
"ہم آہستہ آہستہ ملک میں اسلامی نظام لے آئیں گے عبدالغفور " مولوی سرفراز نے آہستگی سے کہا " ...مبادہ کوئ ہندو نہ سن لے.
"یہ لائیں گے اسلامی نظام...نازونعم میں پلے ہوئے.....جو شہزادے جنگ کے دوران کبھی لاہوری دروازے سے باہر نہیں نکلے....کبھی میدان جنگ کا منہ نہ دیکھا.....بس تلوار لٹکائے دلی کے اندر ہی گھوڑے دوڑائے پھرتے ہیں....وہ اسلامی نظام لائیں گے.....بادشاہ خود کیوں نہیں نکلتا میدان جنگ میں....کب تک محل کے اندر بیٹھا رہے گا...کیا اسے خبر نہیں کہ مجاھد بھوکے پیاسے لڑ رہے ہیں......
"بادشاہ آج خود میدان جنگ میں نکلیں گے......." اچانک مسجد کے داخلی دروازے سے شہزادہ خضر سلطان کی آواز آئ سب نے مڑ کر دیکھا.......اب بحث کی کوئ گنجائش نہیں بچی تھی.....دلی کی جامع مسجد نعرہء تکبیر......نعرہء رسالت.....اور نعرہء حیدری سے گونج اٹھی .......!!!!
بادشاہ محل کی ڈیوڑھی میں بیٹھا اپنے مشیر خاص حکیم احسن علی خان اور بیگم زینت محل کے ساتھ پلان B پر غوروفکر کر رہا تھا کہ دربان نے جنرل بخت خان اور شہزادہ خضر سلطان کی آمد کی اطلاع دی....."لو اب ان کی سن لیں..." یہ کہ کر ملکہ اندر خلوت گاہ میں چلی گئیں...آنے والوں کے ساتھ مولوی سرفراز علی اور مولوی عبدالغفور بھی تھے....آداب شاہی کے بعد شہزادہ گویا ہوا..." حضور ....مجاھدین اور دلی کی عوام..... چاھتے ہیں کہ جہاں پناہ خود میدان جنگ میں ان کے ہم رکاب ہوں.....اور شوق قیادت فرمائیں.."
حکیم احسن اللہ خان نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن بادشاہ نے اشارے سے اسے چپ کرا دیا
"جنرل بخت خان....بخدا ہم اسے اعزاز سمجھتے ہیں کہ نسل تیموری کی آخری سانس بھی میدان کارزار میں تم ہو...لیکن کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ محاذ جنگ سے اچھی خبریں آنا کیوں بند ہوگئیں .......پہلے "لوڈلو کیسل" فتح ہوا...پھر قدسیہ باغ ہاتھ سے گیا....پھر کسٹم کوٹھی ....پھر پھر سیاہ برج کا مورچہ بھی ٹؤٹ گیا....ابھی حکیم احسن اللہ خان نے خبر دی ہے کہ کابلی دروازے پر بھی فرنگی کا قبضہ ہو چکا ہے........انگریز چھ ہزار سپاہ کے ساتھ دلی کے دروازے پر دستک دے رہا ہے........اور تم ....چالیس ہزار مجاھدین کے ساتھ ان کا مقابلہ نہیں کر پا رہے......کل اگر وہ لال قلعہ پر پہنچ گیا تو ....تم....کیا اسے ہماری طرف سے صلح کے سفید پھول پیش کروگے.." بادشاہ کی بات سن کر حکیم احسن اللہ خان کے چہرے پر خوشی کا ایک رنگ آکر چلا گیا.....پلان B کا زہر اب کام دکھا رہا تھا....
" حضور...جنگیں ہمیشہ جوش وجزبے سے ہی جیتی جاتی ہیں...."جرنل بخت خان ایک مختصر وقفے کے بعد گویا ہوا .."کاش آپ دیکھتے کہ ھندوستان کی آزادی کےلیے بھوکے ننگے مجاھدین کس طرع پروانہ وار اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں...شہنشاہ کو اپنے درمیان پا کرمجاھدین کے حوصلے بڑھ جائیں گے ...."
بادشاہ نے چاروناچار وعدہ کر لیا.....اور دیوان خاص میں تشریف لے گئے....حکیم احسن اللہ خان ان کے ہمراہ تھا....جنرل بخت خان کچھ دیر بادشاہ کو جاتے دیکھتا رہا....وہ بہت کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر آداب شاہی آڑھے آرہا تھا....وہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ چوڑی گراں کا بارودخانہ تباہ کرکے مجاھدین کی پیٹھ میں چھری گھونپنے والا حکیم احسن اللہ خان اس وقت آپ کے دیوان خاص میں کیا کر رہا ہے...وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود انگریز کی رسد روکنے کےلیے شہزادہ مغل بخت کو کیوں نہ روانہ کیا گیا...لیکن بصیرت افروز جرنیل چپ رہا...اور خاموشی سے پلٹ آیا.......
دیوان خاص میں پھر پلان BB کی کچھڑی پکنے لگی.......اس بار مرزا الہی بخش بھی چمچہ چلا رہا تھا........
"حضور مٹھی بھر دہشت گردوں کے ہاتھ یرغمال مت بنیے.....یہ جہادی نہیں فسادی ہیں.....12 مئ سے پہلے دلی میں امن امان تھا....بلکہ پورا ھندوستان سکون کی چادر اوڑھے سو رہا تھا.....ان فسادیوں نے پورے ملک کا سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے...میری مانئے تو اب بھی صلح کا امکان موجود ہے..... میجر ھڈسن اب بھی راضی ہیں.....لیکن اگر آپ میدان جنگ میں انگریز کے دوبدو ایک بار کھڑے ہوگئے تو واپسی مشکل ہو جائے گی.....مت جائے حضور......مت جائے...."
ادھر دلی دروازے پر 100 ہزار انسانوں کا ھجوم جمع تھا....سب بادشاہ کی آمد کا انتظار کر رہے تھے....دلی کا چلتا پھرتا میڈیا..میدان جنگ میں بادشاہ کی بنفس نفیس آمد کو بڑی اہمیت دے رہا تھا..عوام کا جوش وجزبہ دیدنی تھا....لیڈر اگر میدان میں قوم کے ساتھ شانہ ملا کر کھڑا ہو جائے تو مردہ قوم میں بھی زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے.....
دلی کی فصیلوں پر شب نے اپنی سیاہ چادر ڈال دی....لیکن بادشاہ نہ آسکا.....عوام اب آہستہ آہستہ اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھی....
جب حکمران اور جنگجو ایک پچ پر ہوں تو معرکہ......جہاد فی سبیل اللہ کہلاتا ہے.....جب دونوں کی پٹڑی جدا ہو جائے تو وہی جہاد دہشت گردی کہلاتا ہے....آتنگ واد کہلاتا ہے !!!
اگلی صبح سپاہی کرم علی نے پھڑپھڑاہٹ سن کر آسمان کی طرف دیکھا تو.......دو بڑے گدھ منڈلا رہے تھے....
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں