کاشف رفیق

لاڈلے پر سو خون معاف ہیں ۔۔۔۔۔
( کاشف رفیق محسن ۔ کراچی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قدر پاک اور شفاف سر زمین پر جہاں کے دستور میں 62 اور 63 جیسی عظیم ترین اخلاقی معیار کی حامل شقیں رقم کی گئی ہوں اور ایک منتخب وزیر اعظم محض اس بنا پر تا حیات نا اہل کر دیئے گئے ہوں کہ انھوں نے انتخابی گوشوارے میں ایک ایسی متوقع تنخواہ کا اندراج نہیں کیا جو وہ مستقبل قریب میں لے سکتے تھے  لہذا وہ صادق نہ رہے یہ امر محال ہے کہ کوئی شرابی یا زانی ایوان اقتدار میں قدم بھی رکھ سکے ۔ اس قدر پاکباز سماج میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی نوع کی اخلاقی گراوٹ میں مبتلا کوئی شخص تخت شاھی کے سہانے خواب دیکھ پائے گا ۔ سیتا وائٹ اور ٹیریان کے حوالے سے خان صاحب کے حمایتی کہتے ہیں کہ خان صاحب نے اگر اس گناہ یا جرم کا ارتکاب کیا بھی تو پاکستان سے باہر اور اسے جوانی کی غلطی سمجھ کر بھول جانا چاہئے اور پھر اس وقت خان صاحب کے پاس کوئی عہدہ بھی تو نہیں تھا وہ ایک عام پاکستانی شہری تھے مگر کیا ، کیا جائے کہ شق 62 اور 63 پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیئے جس معیار کا تعین کرتی ہے اس میں لفظ پارسائی تو ضرور لکھا ہے مگر یہ بریکٹ نہیں کیا گیا کہ آیا پارسائی پر جغرافیائی سرحدوں کا بھی اطلاق ہوگا ؟ اور پھر اللہ بھلا کرئے ریحام کا جس نے محض ٹیریان کی گردان کرنے والوں کو شرمندہ ہی کر ڈالا ہے اور انکا دعوی ہے کہ انکے سابق مجازی خدا ایسے پانچ مزید بچوں کے بھی دعویدار ہیں جن کی ماووں سے انھوں نے کبھی نکاح نہیں کیا ۔ اسکے علاوہ ریحام نے خان صاحب کے " اخلاقی معیار " اور " ذوق سلیم " کی جن " بلندیوں " کا ذکر کیا ہے انکا بین السطور میں بھی تذکرہ کرنے سے راقم الحروف عاجز ہے ۔
دوست کہتے ہیں کہ کیا مشکل ہے زرداری صاحب کے پاس اعتزاز جیسے قابل ماہر قانون موجود ہیں ایک پٹیشن دائر کریں اور خان صاحب کو 62 ۔ 63 کی سولی پر لٹکوا دیں میاں صاحب کے پاس بھی راجہ صاحب جیسے گوھر نایاب ہیں مگر یہ دونوں حضرات جانے کیوں خان صاحب کو ڈھیل دیئے ہوئے ہیں اور ادھر خان صاحب کے طبلچی چیخ چیخ کر آج بھی اعلان کر رہے ہیں کہ ان حضرات کو نہ کوئی ڈیل ملے گی نہ ڈھیل ۔ ان سادح لوح دوستوں سےگزارش ہے کہ یہ فریضہ تو الیکشن سے پہلے بھی انجام دیا جا سکتا تھا جبکہ اسے ثابت کرنے کیلئے تصدیق شدہ مواد ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے مگر عملی طور پر ایسا ہوا نہیں ؟ شائد اس لیئے کہ بات لاڈلے کی تھی اور مسند انصاف 70 برسوں کی یرغمال ۔ آج بھی ایک " کڑے احتساب " کی تلوار ان دونوں صاحبان کے سروں پر لٹک رہی ہے جبکہ مفتوح کراچی کی قیادت کے سر پر یہ تلوار گرائی جا چکی ہے ۔ ایسے سیاسی احتساب کو کل کا مورخ جانے کیا کہے گا مگر دور حاضر میں اسے بادشاہ گروں کی خر مستیوں ہی کا نام دیا جا سکتا ہے ۔
ہمیں نہ تو زلفی بخاری کے برطانوٰی شہری ہونے پر اعتراض ہے نہ ہی انکے وزیر مملکت بننے پر مگر حامد میر کے اس اعتراض میں وزن ضرور نظر آتا ہے کہ اگر اس انداز میں میاں صاحب نے اپنے کسی غیر ملکی دوست کو نوازا ہوتا تو خان صاحب کا ایک دھرنا تو پکا تھا اور نیشنل مڈیا پر دفاعی تجزیہ کاروں کی فوج بھی اسے یک زبان ہو کر ملک دشمنی قرار دے ڈالتی مگر لاڈلے کیلئے سب جائز ہے ۔ خان صاحب فرماتے ہیں انڈیا ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا سہولت کار تالیاں بجاتے ہیں اور کل جب میاں صاحب آدھا قدم اتھانے کی بھی کوشش فرماتے تھے تو تالیاں بجانے والے جنگ کے طبل بجاتے تھے اور انھیں غدار وطن قرار دیتے تھے ۔

گذشتہ ہفتے ہمارے فعال ترین انٹیلی جنس اداروں نے ارشاد فرمایا تھا کہ خان صاحب کو تحریک طالبان افغانستان کی جانب سے جان سے مارنے کی پلاننگ کی اطلاعات مل رہی ہیں لہذا اب خان صآحب پبلک میں نہیں جائیں گے حفاظتی حصار میں رہینگے جس پر بد گمانی کا شکار عوام نے یہ جانا کہ شائد اب بادشاھی صرف اکیلے بادشاہ گر ہی کرینگے لیکن خان صاحب کے زرخیز ذہن نے اس انٹیلی جنس افواہ کو سنجیدگی سے لیا اور انھوں نے اپنی جان بچانے کا ایک سیاسی طریقہ جان کر اعلان کر دیا کہ کراچی کے افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دے دی جائے گی ۔ خان صاحب کو بجا طور پر یہ دعوی ہے کہ اپنے ریاستی سہولت کاروں کی مدد سے وہ کراچی فتح کر چکے مگر یہ اعلان کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ افغان مہاجرین اگر 30 لاکھ کی تعداد میں کراچی میں موجود ہیں تو 50 لاکھ سے متجاوز افغان مہاجرین خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی آباد ہیں یہ سمجھنا کہ یہ اعلان حب علی میں کیا گیا یا بغض معاویہ میں کوئی راکٹ سائنس نہیں اپنے مقبوضات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے کیا گیا یہ اعلان اس وقت خان صاحب کے حلق میں پھنس گیا جب انکے اتحادی اختر مینگل نے اس فیصلے کے خلاف سیشن کا بائیکاٹ کر دیا ان سے خان صاحب کے اتحاد کے بنیادی نقطوں میں افغان مہاجرین کی با عزت واپسی کا نقطہ سر فہرست تھا جسے خان صاحب اپنی " مصروفیات " کے سبب زبانی یاد نہ رکھ سکے اور بہر حال انھیں اعلان کرنا پڑا کہ ابھی یہ صرف تجویز ہے کوئی فیصلہ باہمی مشاورت کے بعد ہی کیا جائے گا ۔  جن لوگوں کو کراچی کی قیادت کا دعوی تھا وہ خان صاحب کے اس بے سروپا اعلان پر خاموش ہی رہے شائد اس لیئے کہ انکی نظر میں خود انکی پاکستانی شہریت مشکوک ہو چکی ہے یا وہ کسی نظر نہ آنے والے ایسے دباو کا شکار ہیں جو انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر اپنا پاکستانی ہونا ثابت کریں سو کراچی کی قیادت کی دعویدار یہ دونوں جماعتیں ہی اپنے طرز عمل سے کراچی کے عوام کی نمایندگی کا حق کھو چکیں ایک  کراچی فتح کرنے کی دعویدار جماعت نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے غیر حقیقی اور غیر فطری عدم توازن کو نظر انداز کر کے ایک ناقابل عمل اعلان کیا تو دوسری جماعت کراچی کی نمایندہ جماعت ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھ گئی حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی کی نمایدنگی کا حق کراچی کے عوام کے پاس ہے اور موجودہ الیکشن میں عوام نے یہ حق کسی کو تفویض ہی نہیں کیا کیونکہ عوام بائیکاٹ پر تھے ۔ بہرطور خان صاحب 62 – 63 کی کسوٹی پر اپنی " پارسائی " کا جھنڈا گاڑیں ، کسی غیر ملکی کو وزیر بنائیں یا مخصوص سیاسی عزائم کیلئے کسی کو پاکستانی شہریت دیں یا کسی سے پاکستانی شہریت چھین لیں بادشاہ گروں کے لاڈلے ہیں اور لاڈلے پر سو خون معاف ہیں ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری