اویس قرنی
جو پڑھے اس کا بھلا ، جو نہ پڑھے اس کا مجھ پر احسان ہوگا
شیخ سعدی گلستان میں فرماتے ہیں : (مفہوم) میں نے ایک حکیم سے پوچھا زندہ رہنے کیلئے کتنا کھانا کافی ہوتا ہے؟ حکیم نے جواب دیا:۔"29 تولے"
ایک اوسط جسامت والے انسان کیلئے روزانہ 29 تولے خوراک اس کے جسمانی نظام کارفرما رکھنے کیلئے کفایت کرتی ہے۔ اس سے زیادہ جتنا بھی کھا لیا جائے ، جو بھی کھا لیا جائے، چاہے وہ کشتہ ِ فولاد ہو یا کشتہِ سونا ہو، وہ چربی کی صورت توانائی ریزرو کولڈ سٹوریج میں چربی کی صورت سٹور کرلیا جاتا ہے۔
اور احمق انسان اس چربی کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ، جو وہ کئی سال تک بھی استعمال نہیں کر سکتے ، جبکہ اس دوران یہ بوجھ روزانہ کے حساب سے بڑھتا رہتا ہے۔
صحت مند رہنے کے خواہش مند سب ہیں ، لیکن صحت مند رہنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
کھانا کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن اندھا دھند کھانا عذاب کو دعوت دینا ایک برابر ہے۔ ہر چیز اپنے منفرد خواص (خصوصیات) رکھتی ہے۔ مختلف اشیا کے خواص مختلف اشیا کے خواص سے ٹکراؤ کی فطرت رکھتے ہیں۔ جیسے دودھ کے فائدے بچوں سے بڑوں تک سب کو معلوم ہیں ، ان سے انکار نہیں ، اسی طرح اچار ، کنو مالٹے ، لیموں کے فوائد پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان سب اشیا کے خواص کی آپس میں نہیں بنتی۔ دودھ پی کر چند منٹ بعد مالٹا کھا لیا ، اچار چکھ لیا یا لیموں کا شربت پی لیا تو ، معدے کے اندر ان سب غذاؤں کے فوائد میں پانی پت کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔
اس جنگ سے جو دھواں (بخارات) اٹھتا ہے ، اس کے اپنے الگ خواص ہیں۔ دھواں ہو یا بخارات ہوں ، ان کی خاصیت ہے کہ یہ اوپر اٹھتے ہیں۔ لہذا معدے میں چھڑی اس جنگ کے نتیجے میں اٹھنے والے بخارات بھی صعود کرتے ہیں ، اور سر میں جمع ہو جاتے ہیں۔ انسانی طبع سرد ہو تو یہ بلغم کی صورت اختیار کر سکتے ہیں، اور اگر انسانی طبع گرم ہو تو یہ سر کے نازک مقامات پر دباؤ ڈالتے ہیں ، نتیجے میں انسان آنکھ کا درد ، اور سر میں درد وغیرہ محسوس کرتا ہے۔
سر میں درد ہوا ہے ، تو محض سنی سنائی کے یقین پر ڈسپرین ، پونسٹان قبیل کی پین کلرز پھانک لی جاتی ہیں۔اور درد غائب ہو جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دوائیں درد دور نہیں کرتیں ، بلکہ درد کا احساس ختم کردیتی ہیں۔ جس وجہ سے درد ہوا تھا ، وہ وجہ اب بھی موجود ہے ،اس خود حکیمی نے بس اس درد کے احساس کا گلا گھونٹ دیا۔
یہ صرف ہماری زندگی کے ایک پہلو کی مثال نہیں ، ہر پہلو سے انسان اسی سے ملتی جلتی غلطیاں کرتا ہے ، پھر ذہنی و روحانی قبض و بدہضمی کا شکار ہونے پر شودا بھی بنا پھرتا ہے۔پھر اسے کسی ایسی ڈسپرین کی تلاش رہتی ہے جو بس پھانکتے ہیں گھل جائے اور چند سیکنڈ میں درد ، قبض و بدہضمی دور کردے۔
یہیں فیس بک پر دیکھ لیں ، جس سے پوچھ لیں ، کہنے کی حد تک وہ گیان سیکھنے اور علم سیکھنے کو سوشل میڈیا پہ پھرتا ہے۔ لیکن عملی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ ایک روپے کی بیس ملنے والی جگتوں پر دس دس کمنٹ اور اور دس دس گھنٹے صرف کرنے والے ، گیان و دانش والی تحاریر سے اکثر وادیِ ثمود کا سلوک کرتے ہیں۔ بعض دوڑ کر گزر جاتے ہیں، بعض ایک کلک مار کے فرض کفایہ ادا کرتے ہی ، کسی سستی سی اور آسانی سے سمجھ آجانے والی جگت کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔
اس بدترجیحی سے قطع نظر ، ہر الم غلم کو ٹھونس لینے کا نتیجہ ان کے خواص کے ٹکراؤ اور پھر اس سے اٹھنے والے بخارات جو سر کو چڑھ جاتے ہیں، اور پھر "پھرتے ہیں میرؔ خوار" کی طرح کوئی ذہنی قبض میں مبتلا ہے ، کوئی روحانی تشنج کا شکار ہے ، اور کسی کو دماغی بدہضمی ہے ۔
یہ بھی اتنی بڑی بات نہیں ، بہرحال قابلِ علاج ہے۔ لیکن جو رویہ ناقابلِ علاج ہے ، وہ "ڈسپرین کی تلاش" کا رویہ ہے۔ اکثریت کو علاج نہیں ، بس درد کا احساس ختم کرنے والی کوئی ٹرنکولائزر چاہیے۔ پرہیز سے موت پڑتی ہے ، بس کسی طرح باتوں سے گھبرا کر یہ درد بھاگ جائے تو سہاگہ ہے۔ ہر کسی کو دماغی قبض و ذہنی بدہضمی اور روحانی تشنج سے نجات تو چاہیے۔ لیکن صرف باتوں سے چاہیے ہے۔
سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کریں کہ آپ کی ضرورت کیا ہے؟ اور آپ کا شوق کیا ہے۔ پھر ضرورت اور شوق میں توازن پیدا کریں ، ضرورت بھی پوری کریں ، شوق کو بھی نہ مرجھانے دیں۔ کیکر کے بیج بو کر کبھی کسی نے آم اُگتے نہیں دیکھا۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ وہ 90 فیصد وقت سیاست اور جگت بازی میں لگا کر ، 9 فیصد وقت کمنٹس میں اللہ لکھنے میں گزار کر ایک فیصد وقت میں گیان سیکھنے سے اپنی دماغی قبض ، ذہنی بدہضمی اور روحانی تشنج سے نجات پاسکتا ہے ، تو اسے اس کا یہ خیال مبارک ہو۔ ایسا بے وقوف اسی لائق ہے کہ اسے ہمیشہ دماغی قبض رہے، وہ ہمیشہ ذہنی بدہضمی میں مبتلا رہے ، اور اس کی روح تشنج کا شکار رہے۔
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
ہمارے ایک دوست ہیں۔نہیں نہیں ،دوست تو سب ہوتے ہیں قدردان کوئی کوئی ہوتا ہے ، وہ قدردان دوست ہیں، انہوں نے ایک سوال کیا تھا۔ اسی کے جواب میں یہ سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ جوگی کا خیال ہے کہ صرف ایک بار یہ واضح کردینا کافی ہوگا کہ اس سلسلے کی کسی تحریر میں بھی "کسی نازک مزاج" کی بے عزتی نہیں کی جائے گی۔ یہ بس ایک عمومی پیرایے میں لکھے جانے والے جوابات ہیں۔ جن کو بےعزتی یا ہتک محسوس ہو ، وہ یا تو مجھے انفرینڈ کردیں ، یا پھر اپنے اعمال پر ایک نظر ڈال کر سدھرنے کی کوشش کرلیں۔ (دونوں باتوں میں کوئی ہتک نہیں ہے۔)
چونکہ یہ تحریر ورچوئلی بھانڈے دھونے جیسا عمل ہوگی ، اس لیے اسے مانجھنے کی نسبت مانجھیاتِ جوگی کا نام دیا جا رہا ہے۔ ٹیگ و کمنٹ کی مجھے عادت نہیں ، اب جس کو قدر ہو وہ خود ہی ہر تحریر پڑھ لے ، جس کو قدر نہ ہو لَھُم دینَھم وَلِی دین۔
مانجھیاتِ جوگی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں