جوگی
یہ سوئے ظن ہے اسد اللہ کے باب میں
جنگل میں شیر سے بھی زیادہ جسیم اور زیادہ طاقتور جانور موجود ہونے کے باوجود جنگل کا بادشاہ شیر ہی ہوتا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ جنگل میں شیر جیسا طاقت ور کوئی اور جانور نہ تھا اس لیے شیر ہی جنگل کا بادشاہ ہوا۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بہت قد آور اور تن و توش کا مالک ہوتا ہے ، اسی لیے وہ جنگل کا بادشاہ ہوا۔
شیر اپنے بلند پایہ رویے اور اخلاق کے باعث شیر ہے۔
شیر ایک درندہ ہونے کے باوجود درندہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو ، تو پھر اس کے سامنے ہزاروں ہرن چرتے رہیں ، وہ اپنے اصول کا پکا ہے ، کہ بے ضرورت کچھ نہیں لینا۔ کہا جا سکتا ہے کہ شیر جنگل کا جوگی بادشاہ ہے۔ شیر اپنا پیٹ بھرنے کیلئے الم غلم نہیں کھاتا۔ وہ بھوکا مر جائے گا لیکن مردار نہیں کھاتا۔ وہ اکیلا ہو تو اپنا شکار خود کرتا ہے ، اور اگر گروہ میں ہو تو پھر شکار پارٹی ہوتی ہے، گروہ میں شامل شیرنیاں ہانکا کرتی ہیں ، اور مچان پہ بیٹھے نواب کی طرح شیر صرف شکار کی گردن توڑنے کا کام کرتا ہے۔
شیر کا ایک اور رویہ جو کم ہی کسی اور میں دیکھنے کو ملتا ہے ، وہ ہے اپنے کیے ہوئے شکار میں سے دوسروں کو حصہ دینا۔ شیر کبھی بھی اپنا شکار سارا ہڑپ نہیں کر جاتا ، وہ اس میں سے کچھ کھا کر باقی دوسروں کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ (اسی لیے اکثر گیدڑ ، اور دیگر چھوٹے گوشت خور شیر کے آس پاس پھرتے ہیں ، تاکہ جب وہ شکار کرے تو شاہی دعوت اڑا سکیں) ایک شکار سے پیٹ نہ بھرے تو وہ دوسرا حتیٰ کہ تیسرا شکار کر لے گا لیکن ، سارا ہڑپ نہیں کرے گا۔
جنگل کے شیر میں ایسے محاسنِ حمیدہ ہو سکتے ہیں تو اللہ کے شیر کے بارے میں سوچتے ہوئے سب لوگ قرابت داری اور "سلیکشنِ الٰہیہ" تک کیوں رہ گئے؟ میرا سوال تھا کہ آخر وہ کیا کرائٹیریا تھا کہ اسد اللہ ہی باب العلم چنے گئے۔
غالب نے فرمایا تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ گناہگار کو جامِ کوثر عطا نہ فرمائیں گے ، ایسا سوچنے والے دراصل ان کی رحمت کی وسعت کے باب میں سوئے ظن (برا گمان) رکھتے ہیں۔
یہ سوئے ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں
یہ شاگردِ غالب بھی عرض گزار ہے کہ اسد اللہ (حضرت علی المرتضیٰ) سے سوئے ظن ہے اگر کہا جائے کہ ان کو بس قرابت داری کی وجہ سے یہ درجات مل گئے ، یا بس ان کی خوش قسمتی تھی کہ خدائی ونڈ میں باب العلمی ، اسداللہی ، اور قرابت داری ان کے حصے میں آ گئی۔
یہ سوئے ظن ہے اسد اللہ کے باب میں
اگر حضرت خواجہ نظام الدین اولیا اس قدر محبت کے باوجود بھی حضرت امیر خسرو کو خرقہ کیلئے نہیں چنتے تو کیا حضور نبی کریم یا اللہ تعالیٰ ایسے ہی بس عطا فرما دیتے ہیں؟ کوئی شک نہیں کہ عطائے الہی کی کوئی حد نہیں ، سخاوت ِ محمدیہ بھی بے پایاں ہے۔ لیکن یہ اسد اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اپنے زور بازو سے باب العلمی نہ جیت سکیں۔
میرے الفاظ میں اٹکے رہنے کی بجائے اس نکتے پر آئیے کہ اسد اللہ نے باب العلمی یقیناً اپنے زورِ بازو پر جیتی ہے۔ لیکن اس کا کرائٹیریا کیا تھا؟
صبح بخیر بالمانجھیاتِ جوگی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں