جوگی
کل ہم بات کررہے تھے کہ اس جہان میں کوئی بھی شئے مفت میں دستیاب نہیں ہے۔ اگر کوئی بھی چیز مفت نہیں ہے تو پھر خریدتا کون ہے اور بیچتا کون ہے؟
یہ بات سمجھنے کیلئے ہمیں ان گھسی پٹی فرض شدہ "خبروں" سے جان چھڑانی ہوگی جو موجودات کو جاندار اور بے جان میں تقسیم کرتی ہیں۔ جاندار اور بے جان کی تقسیم تو تب ہوگی جب ہم زندگی کی معیاری تعریف طے کر لیں گے۔ لیکن چونکہ زندگی کی کوئی معیاری تعریف ابھی تک طے نہیں ہو سکی ، کہ زندگی اصل میں ہے کیا اور زندہ کہلانے کیلئے کیا شرائط ضروری ہیں۔ فی الحال ہمیں دستیاب ، زندگی کی تمام شرائط کے مطابق آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تمام موجودات جاندار ہیں۔ ان سب میں ایک روح ہے۔
اور یہ تمام موجودات آپس میں کسی نیٹ ورک اور میٹرکس آف نیٹ ورکس کی طرح مربوط ہیں۔ اور ہر نیٹ ورک میں موجود ہر "شئے" فی نفسہٖ ایک Server ہے۔ ہر ایک "شئے" دوسری "اشیاء" کیلئے پروڈکشن پلانٹ ہے۔ اپنی اپنی ضروریات کے دھاگے سے یہ سب کڑی در کڑی ایک جال کی صورت مربوط ہیں۔ یہی جال میٹرکس ہے ۔
ادھیڑ بُن کا ایک مسلسل عمل ہے ، جو جاری ہے۔
یہ سب موجودات آپس میں ٹریڈ کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جس ہم انسان آپس میں تجارت و لین دین کرتے ہیں۔ ازمنہ عتیق میں جب انسانوں نے آپس میں لین دین کیلئے کوئی کرنسی طے نہیں کی تھی ، تو وہ خدمات کا لین دین کرتے تھے۔ ایک کے پاس گندم ہے ، اور دوسرے کے پاس انگور ہیں ، ظاہر ہے دونوں کیلئے قیمتی وہ چیز ہے جو پاس نہیں ہے۔ اس لیے گندم والا گندم دیتا اور بدلے میں انگور لے لیتا۔ یہ بارٹر ٹریڈ سسٹم تھا۔ کچھ لو اور کچھ دو کے حساب پر قائم تھا۔ پھر انسان نے دھاتوں میں سے کچھ دھاتوں کو قیمتی فرض کر لیا۔
ہاں جی فرض کر لیا۔
سونا اس لیے قیمتی نہیں ہے کہ وہ فی نفسہٖ قیمتی ہے۔ بلکہ وہ اس لیے قیمتی ہے انسانوں نے اسے قیمتی سمجھ لیا ہے۔ ورنہ وہ بھی لوہے ، جست اور تانبے جیسی ایک دھات ہی تو ہے۔
کچھ چیزوں کو قیمتی فرض کر لینے کے بعد انسانوں نے ان کو معیار مقرر کر لیا۔ اب چیزوں کے بدلے چیزیں نہیں دینی پڑتی تھیں۔ مثلاً اگر کوئی جولاہے کی خدمات (کپڑا) لینا چاہے تو اسے بدلے میں اپنی خدمات دینے کی بجائے ، مقرر شدہ قیمتی شئے (کرنسی) دینا بھی قابلِ قبول مان لیاگیا۔ سکوں کا زمانہ چلتا رہا یہاں تک کہ کاغذی نوٹ کا زمانہ آیا۔ کاغذی نوٹ بھی ایک فرضی چیز ہے۔ یہ ایک قسم کا سفارشی رقعہ ہے ، جو حکومت ِ وقت لکھ دیتی ہے کہ اس رقعے والے کی ہم ضمانت دیتے ہیں۔ کیونکہ اس مالیت کا سونا ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اگر آپ کے پاس ایک ہزار روپے کا نوٹ ہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس آپ نے اس مالیت کا سونا امانت رکھوایا ہوا ہے۔ یہ بینک اس بات کا پابند ہے ، کہ جب بھی آپ چاہیں یہ نوٹ (امانت کی رسید) بنک کو واپس دے کر ایک ہزار روپے کے بدلے میں جتنا سونا آسکتا ہے ، وہ لے سکتے ہیں۔ یعنی اپنی امانت اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔
اور اگر آج حکومت مُکر جائے کہ ہم نے ضمانت (نوٹ) کینسل کی، تو یہ کاغذ کا پرزہ صرف بتی بنانے اور چولہے میں جلانے کے کام آئے گا ، یا پھر بچے اس سے جہاز بنا کر اڑاتے پھریں گے۔ سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ اس کی مالیت اور اہمیت اس لیے ہے کہ ہم نے فرض کی ہوئی ہے۔ ہم آج فرض کرنا چھوڑ دیں ، یہ کچھ بھی نہیں رہے گا۔
دنیا بھر میں اس کاغذ پہ درج فرضی ضمانت کے دم پر لین دین ہو رہا ہے۔ اور ہم اس کو اپنی کرنسی کہتے ہیں۔ اسی طرح موجودات بھی آپس میں دو طرح کی تجارت کر رہی ہیں ، ایک تو وہی ازلی بارٹر ٹریڈ اور دوسری ، کرنسی کے ذریعے تجارت ہے۔ جیسے انسانوں نے آپس میں اپنی کرنسی طے کر لی ہے، اسی طرح انسانوں سمیت اس کائنات کی تمام موجودات نے ایک یونیورسل کرنسی بھی طے کر رکھی ہے۔
جیسے ایک ملک کا مالیاتی نظام اس کے مرکزی بینک(سٹیٹ بینک) کی نگرانی میں چلتا ہے ، پھر بین الاقوامی سطح پر پوری دنیا کے آپسی مالیاتی نظام کی نگرانی کیلئے IMF (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کا ادارہ قائم ہے۔ عین اسی طرح کائناتی سطح پر بھی اس آپسی تجارت کی مانیٹرنگ کا ایک نظام قائم ہے۔
جس طرح بینک اپنے کریڈٹ کارڈ جاری کرتے ہیں ، کرنسی نوٹ نہ بھی ہوں تو اس کارڈ کی مدد سے خریدنا ممکن ہوتا ہے۔ یہ بینک کی ذاتی ضمانت ہوتی ہے ، جو کارڈ ہولڈر پہ قرض ہوتی ہے، کارڈ ہولڈر یہ قرض راضی خوشی ادا کردے تو خیری صلا ، اور اگر ادا نہ کرے تو بینک کے ریکوری یونٹ ، اس کی اُگاڑی (وصولی) کر لیتے ہیں۔
اسی طرح یہ کائناتی مانیٹرنگ فنڈ بھی اپنے کریڈٹ کارڈ جاری کرتا ہے۔ اس ضمانت پہ کائنات میں موجود اشیاء کارڈ ہولڈر کو دستیاب رہتی ہیں ، اور اسے ہر چیز کے حصول کیلئے موقع ہی پر ادائیگی نہیں کرنی پڑتی ۔ بلکہ وہ طے شدہ کرنسی میں ،یکمشت یا قسطوں میں ، اس کائناتی مانیٹرنگ فنڈ کو ادائیگی کردیتا ہے۔اور جو نہ کرے ، اس سے پھر سو طریقوں سے وصولی بھی کر لی جاتی ہے۔
ہم انسانوں نے اخلاقیات کے باب میں طے کر رکھا ہے ، کہ جب کوئی ہم پہ مہربانی کرے تو ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہ زبان سے بولا گیا لفظ (یعنی ارتعاش ) اس تک پہنچتا ہے ، سنائی اس کو لفظ "شکریہ " دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ فریکوئنسی (ارتعاش) اس کا بیلنس بڑھاتی ہے۔ جو شخص جتنے زیادہ شکریے اکٹھے کررہا ہے ، کائنات کی کرنسی میں دیکھا جائے تو وہ شخص اتنا ہی زیادہ امیر(نیک/بھلامانس) ہے۔
یعنی یہ چھوٹا سا لفظ "شکریہ" بھی ایک کائناتی کرنسی (سکہ)ہے۔
پس سمجھنا مشکل نہیں کہ جو شخص بھلائی کے بدلے شکریہ ادا نہ کرے ، اسے صرف ہم انسان ہی بداخلاق نہیں سمجھتے ، بلکہ کائناتی مانیٹرنگ فنڈ کے کاغذوں میں بھی اس کے بیلنس سے کٹوتی ہوجاتی ہے۔ اگر اس کے پاس بیلنس نہ ہوتو اس کے کھاتے (کریڈٹ) میں لکھ لیا جاتا ہے کہ اس پہ اتنا ادھار ہے۔ پھر یہ ادھار وہ شکریے ادا کر کے چکائے ، یا پھر اپنے اثاثے قرق کروائے۔(جی ہاں! اس کے پاس جو بھی سہولیات (نعمتیں) ہونگی ، ان میں سے کچھ قرق کر لی جائیں گی ، اور ان کی مالیت کا بیلنس حقدار کو دے کر حساب چکتا کردیا جائے گا)
شکریہ کی طرح ایک بڑی مالیت کا سکہ عزت بھی ہے۔ جب کوئی کسی کی عزت کر رہا ہوتا ہے، تو اس پہ احسان نہیں کررہا ہوتا، بلکہ خود پہ واجب ادائیگی ، چکا رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی کسی کی بلاوجہ ہی عزت کر رہا ہوتا ہے، تو دراصل وہ اسے قرض دے رہا ہوتا ہے ۔ اب مقروض کی مرضی کہ عزت کی ادائیکی عزت کرکے چکائے ، یا پھر کھاتے میں لکھوا کے ایک دن ریکوری والوں سے اپنے اثاثے قرق کروا لے۔
اب ذرا اپنے نظام پر نظر ڈالیں کہ
علم بھی ایک قیمتی چیز ہے۔ہزاروں بار سب نے پڑھا ہوگا کہ "علم ایک لازوال دولت ہے" جو علم دے رہا ہے وہ آپ کو قدرت کے جاری کردہ کریڈٹ کارڈ کی ضمانت پہ یہ دولت دے رہا ہے۔ اور اگر کوئی سیانا ہے تو اسے عزت کی کرنسی میں ادائیگی کردے گا۔ آسان بھاشا میں ہم اس عمل کی تاکید میں کہتے ہیں "استاد کی عزت کرو۔ جو نہیں کرتا، وہ اس کا نتیجہ بھگت لیتا ہے" (یہی وہ ریکوری ہے، جو قدرت کامخصوص یونٹ کرلیتا ہے)
ماں باپ ہمیں اپنی خدمات کے بدلے ادائیگیوں کے بدلے نعمتیں خرید کر دیتے ہیں ، اسی لیے اخلاق بھی ہے اور فرض بھی ہے کہ اس سب کی ادائیگی ، عزت ، احترام اور ادب کی کرنسی میں کی جائے۔
مرشد کا ادب کرنا ، اس سے ملنے والے گیان اور راہنمائی کی ادائیگی کرنا ہوتا ہے۔ جو کرے گا وہ اپنا کھاتہ صاف کرے گا، لیکن جو ڈیڑھ سیانا بنا رہے گا کہ میں ادب نہیں کرتا تو مرشد میرا کیا بگاڑ لے گا،تو پھر ریکوری کے ٹائم پر اس کا بہت کچھ بگاڑ دیا جاتا ہے ،اور پھر ایسے لوگ بیٹھ کے کُوس کُوس کر رہے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں مجھے کس بات کی سزا ملی ہے ، میں نے تو کبھی کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔
اسی طرح ایک نبی (ایک کی مثال سے تمام انبیاء کا ذکر ہے) اپنی کوشش اور تبلیغی خدمات سے ، اپنی قوم کو ایمان جیسی قیمتی ترین نعمت سے مالامال کرتا ہے ، اسی لیے اس کے احترام اور ادب کی مالیت (قدر)دوسروں سے بہت زیادہ مقرر کی گئی ہے۔ جو ادا کرے گا وہ سیانا ہونے کا ثبوت دے گا، جو نہیں کرے ، اس سے ریکوری تو کر ہی لی جائے گی۔
اسی طرح وہ ذات جو سب کو ،یہ سب مہیا کر نے میں مصروف ہے۔ اس کو بھی ادائیگی کرنی لازم ہے۔ اس کو شُکر کی کرنسی میں ادائیگی ہوتی ہے ، بندگی کی کرنسی میں ادائیگی ہوتی ہے۔ عبادت کی صورت ادائیگی ہوتی ہے۔ خود کر دیں تو بہت خوب ، نہیں کریں گے تو یہ مت سوچیں کہ کبھی وصولی نہیں کی جائے گی۔ یہ وصولی کا وقت، لینے والے کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ جب مرضی لے لے۔ پھر ایسے سیانے بیٹھ کر باقاعدہ کفریہ کلمات میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میرا بچہ چھین لیا ، میں نے خدا کا کیا بگاڑا تھا۔ حالانکہ سمجھنے کی نیت ہوتو صاف بات ہے جو کچھ لیا ہے اس کی ادائیگی کرو ، ورنہ وہ بیماری کی صورت ، نعمتوں میں کٹوتی کی صورت ، مصیبتوں کی صورت ، عذاب کی صورت وصولی تو کروا ہی سکتا ہے۔ ہمارے اثاثے ہمارے اعضاء بھی ہیں ، ہمارے لیے قیمتی ہمارے بچے بھی ہیں ، اور بہت کچھ ہے۔ سوچتے جائیں ، سوچتے جائیں ، سوچتے جائیں۔ سمجھ آتی جائے گی۔
لہذا اب اس خیال سے نکل آئیں کہ کوئی کسی کی عزت کرکے اس پر احسان کر رہا ہے یا کوئی خدا کی عبادت اور شکر کرکے اس پہ کوئی احسان کر رہا ہے۔ یہ سب کرکے ہر کوئی اپنا ہی قرض چکا رہا ہے، جو اس نے نعمتوں اور رزق کی صورت لیا تھا۔( رزق صرف کھاناپینا نہیں ہوتا ، خوشیاں بھی رزق ہیں ، علم بھی رزق ہے، ہدایت بھی رزق ہے ، اس کی بہت سی صورتیں ہیں)
یہ صرف ایک مثال ہے ، اسی کی مدد سے پورے نظام کو سوچیں ، تو اپنا فائدہ کریں گے ، اور اگر لائک مار کے بھاگ جائیں گے تو آپ کا ہی نفع نقصان ہے۔ اور جو پڑھ کر حوصلہ افزائی بھی نہیں کر سکتے ، وصولی ان سے بھی کر لی جائے گی ، طریقہ اوپری سطور میں درج ہے۔😉
مانجھیاتِ جوگی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں