صوت سرمدی
صوت سرمدی
JUN
12
صوت سرمدی / شغل انہد سلطان الاذکار (Voice of Silence)
صوت سرمدی ذات بحت (حق تعالیٰ) کی آواز کو کہتے ہیں۔جس طرح ذات باری تعالیٰ قدیم ہے اسی طرح یہ”صوت سرمدی “ بھی قدیم ہے۔ اسے”بانگ جرس” بھی کہتے ہیں۔ یہ گھنٹہ کی سی آواز ہے جو سالک کو گوش ظاہری (دونوں کانوں کے سوراخ) بند کرنے کے بعد باطنی سماعت کے ذریعے سننے میں آتی ہے ۔جس طرح حق تعالیٰ سبحانہ وجود مطلق جملہ کائنات میں جلوہ گر ہے اور کل کائنات پر محیط ہے اسی طرح یہ صوت سرمدی بھی جملہ اشیاء میں معمور ہے اور سب آوازوں کی اصل ہے۔ تمام عالم اس صدا سے پُر ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ جاری وساری رہتی ہے ۔
خواجہ شمش الدین عظیمی ؒ سے سوال کیا گیا کہ”صوت سرمدی “ کیا ہے ؟ اس ضمن میں آپ نے فرمایا کہ الله کو دیکھنے والوں کی کمی نہیں ۔ لیکن الله کو سننے والے چیدہ چیدہ ہی ہوتے ہیں- الله کی آواز کو ہی صوت سرمدی کہتے ہیں ۔ جس کسی نے ایک بار وہ آواز سن لی پھر وہ زندگی بھر اسی فکر میں رہتا ہے کہ کسی طور اس کو دوبارہ سنے۔
حدیث قدسی ہے، اللہ عزوجل ارشادفرماتے ہیں کُنْتُ کَنزا مَخفّیا فَاَحبَبْتَ اَن اُعْرَف فَخَلَقْتُ الخلَقَ ۔ کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ (غیب الغیب ) تھا، جب میں نے چاہا (خواہش ہوئی ) کہ پہچانا جاؤں تو میں نے (اپنی) پہچانے کرانےکے لیے مخلوق پیدا کی۔ اس کی شانِ یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہوجا، پس وہ ہوجاتی ہے ۔ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔ قرآن پاک کے مصداق سب سے پہلے ’’کن‘‘ کی صدا بلند ہوئی اور کائنات پوری تفصیلات کے ساتھ ظہور میں آ گئی۔ الله کے کن کہنے سے جو صوت ابھری اسے بھی صوت سرمدی کہتے ہیں وہ آواز آج بھی کائنات میں گردش کر رہی ہے اور ہر لمحہ کن فیکون کا عمل جاری وساری ہے۔ لیکن مخلوق کو اس وقت تک حواس حاصل نہیں ہوئے تھے جب تک خالق (حق تعالیٰ ) نے مخلوق (حضرت انسان) کو مخاطب کیا اور کہا، کیا نہیں ہوں میں رب تمہارا ؟ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ ( اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان کی جانوں پر اقرار کرایا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے کہا ہاں ہے ہم اقرار کرتے ہیں کبھی قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہمیں تو اس کی خبر نہیں تھی)، اس آواز نے مخلوق کو نگاہ عطا کی اور بصارت کی قوت عمل میں آ گئی۔ بصارت کے ساتھ ہی دوسرے حواس متحرک ہو گئے اور مخلوق نے دیکھ اور سمجھ کر اقرار کیا کہ بے شک آپ ہی ہمارے پیدا کرنے والے ہیں۔
آپ ﷺ سے نزولِ وحی کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو کبھی دیگ کے جوش کی مانند ہوتی ہیں ،کبھی شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ کی طرح اور کسی وقت فرشتہ آدمی کی شکل میں متصور ہوکر مجھ سے بات کرتا ہے اور بعض اوقات گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے،
تمام مذاہب اس غیبی آواز کو اولیت دیتے ہیں۔ انجیل میں درج ہے کہ: ’’خدا نے کہا، روشنی ہو جائے اور روشنی ہو گئی ‘‘
ہندو مذہب میں ’’اوم‘‘ کی آواز کو سب سے مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ ہندو فقراء کہتے ہیں کہ آکاش اور دھرتی اور اس کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب اوم کی بازگشت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کائنات میں ایک آواز مسلسل ورد کر رہی ہے۔ اس آواز کا نام وہ ’’آکاش وانی‘‘ یعنی آسمانی صدا رکھتے ہیں۔
اسی طرح صوفیاء بھی ایک غیبی آواز کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جو ’’صوت سرمدی‘‘ یعنی خدائی آواز کہلاتی ہے۔ اسی آواز سے اولیاء اللہ پر الہام ہوتا ہے۔ صوفیاء کے ہاں اس صوت سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے کچھ مخصوص اشغال ہیں۔ ان اشغال کو صوفیاء صوت سرمدی /شغل انہد سلطان الاذکار سے موسوم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ آواز روح کی ہے اور روح امر ربی ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور اس آواز سے سارا عالم معمور ہے۔ یہ آواز ہر ایک کے اندر (نفخت فيه من روحي) کی وجہ سے موجود ہے اور فقراء اس آواز کو دریافت کرکے اُس پر شاغل ہوجاتے ہیں، یہی آواز روز الست بھی آئی تھی (أَلَسْتُ بِرَبِّكُم ) ، یہی آواز حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی سنائی دی اور اسی آواز میں وحی بھی نازل ہوتی رہی ہے ۔ یہ آواز شہد کی مکھیوں کے بھنبھناے، زنجر کے ہلنے، پانی کے گرنے کی طرح ہوتی ہے۔ اس شغل کو صوفیاء سلطان الاذکار اس لیے کہتے ہیں کہ یہی شغل سرکار دوعالم ﷺ غار حرا میں کرتے تھے اور شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے بھی یہ شغل غا رحرا میں کیا ۔ اصطلاحات صوفیاء میں شغل بمعنی مشغول شدن وتوجہ کردن بکارے ، بگفتارے، بآوازے، بآخیالے ۔ شغل تصورِ ذکر کو کہتے ہیں اور مراقبہ تصور ِ مذکور کو۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اپنی تصنیف شریعت وطریقت میں رقمطراز ہیں کہ اشغال کا مقصودِ ا صلی یہ ہے کہ قلب کا انتشار جو بوجہ تشویش افکار کے ہے وہ دفع ہوکر جمعیتِ خاطر خیال اور خیال کی یکسوئی حاصل ہو تاکہ اس کے خوگر ہونے سے توجہ ِتام الی اللہ سہل ہوجائے۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک انفع اور اسہل ( مفید اور آسان) شغل انہد ہے ۔ اس کا اچھا وقت آخر شب ہے۔ آنکھوں کو ویسے ہی بند کرلے اور کانوں کو انگشت شہادت سے ذرا زور سے بند کرئے اس سے کان میں ایک صوت لا تقفُ عندُ حد پیدا ہوگی ۔ اس آواز کی طرف قلب کو متوجہ رکھے اور زبان سے یا قلب سے اسم ذات (اللہ) کا ورد رکھے تاکہ اتنا وقت غفلت میں نہ گزرے کیونکہ اس صوت میں مشغل ہونا ذکر نہیں۔اس کی طرف مشغول کرنا صرف اس لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ صوت محسوس ہے اور لذیذ ہے بلکہ بعض اوقات اس کے اندر نہایت دلربا و دلفریب آوزیں پیدا ہوتی ہیں کہ شاغل کو محو کردیتی ہیں اور محسوس و لذیذ چیزوں کی طرف متوجہ ہونے سے طبعاً خطرات کم ہوجاتے ہیں تو اس سے ذہن کو ایک طرف توجہ تام کرنے کی عادت ہوتی ہے پھر شغل چھڑا کر اس توجہ کو مقصود حقیقی کی طرف منصرف کر دیتے ہیں۔
سید غوث علی شاہ قلندری پانی پتی قدس سرہ کی تعلیمات کے مطابق اس شغل کی ترکیب یہ ہے کہ جنگل یا کسی تنہا مکان میں جہاں کچھ شور و غل نہ ہو خاموش بیٹھ جائے اور کان لگائے۔ ایک جھینگے کی سی آواز آئے گی، اس آواز پر خیال کو جمائے، بعض آدمی کان کے سوراخ کو انگلی سے بند کردیتے ہیں یا کالی مرچ روئی میں لپیٹ کر کان کے سوراخ کو بند کرکے بیٹھتے ہیں تاکہ آواز واضح طور پر سننے میں آئے۔ پھر چند روز میں یہ آواز ہر جگہ چلتے پھرتے خود بخود آنے لگتی ہے۔ پھر اس کا زور و شور اس قدر ہوجاتا ہے کہ اس آواز کے سوا اور کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پھر یہ دس (۱۰) آواز ہو جاتی ہے اور ہر ایک جدا جدا معلوم ہوتی ہے۔ پھر چند مدت کے بعد نو (۹) آوازیں فنا ہو کر ایک آواز ایسی خوش الحانی کے ساتھ سنائی دیتی ہے کہ آدمی مست و مدہوش ہوجاتا ہے۔ اس پر طرح طرح کے اسرار ایسے منکشف ہونے لگتے ہیں کہ عقل حیران ہے جو کرئے گا سو وہی سنے گا اور دیکھے گا۔ اہل طریقت یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس صوت کے حامل سالک کو غیبی واقعات کا کشف ہوجاتا ہے اور اس کا عالم بالا سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ جب صاحب مراقبہ مشق میں مہارت حاصل کر لیتا ہے تو غیبی آواز سے گفتگو کی نوبت آ جاتی ہے اور وہ آواز سے سوال جواب بھی کرتا ہے۔
والسلام
(محمد سعید الرحمن)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں