صوفیاہ
صوفی روایات اور انسانی عظمت
::::::::::::::::::////:::::::::::::::::::
کچھ ادیب، تخلیق کار، سائنس دان اور سکالرز علاقائی اور لسانی حدود کو عبور کرکے آفاقی بن جاتے ہیں. آفاقیت کی تحصیل سے یہ انسان، کسی قوم کے نہیں بلکہ انسانیت اور ملل عالم کی ملکیت اور سرمایہ کی مقام حاصل کرتے ہیں. ھومر، سقراط، افلاطون، ارسطو، گلیلیو، دانتے، گوئٹے، شیکسپیئر، حافظ شیرازی، سعدی، خیام، نجیب محفوظ، ایبسن وغیرہ کوئی خاص نیشنیلٹی نہیں رکھتے. ان کے شناختی کارڈ آفاقی ہیں. یہ خود بھی آفاق ساز universe makers ہیں.
فن لینڈ کے افسانہ نگار ھانز کرسچین انڈرسن Hans Christian Andersen ان چند گنے چنے تخلیق کاروں میں ہے جن کو ان کی زندگی میں دنیا نے تسلیم کیا اور جن کو پھر آفاقی شخصیات کے اجتماع میں امتیاز حاصل ہوئی. ظاہراً ھانز کرسچین انڈرسن کی عالمی ادب میں حصہ پریوں کے کہانیوں اور بچوں کی ادب کے شکل میں ہے. تاہم اس کی پریوں کے عنوان Ugly Duckling, The Emperor's New Clothes, Cindrella وغیرہ نے عالمی لسانی و ادبی ذخائر میں ضرب الامثال کی جگہ پالی. اذیت ناک غربت میں تربیت پانے والے انڈرسن نے انہی Faery Tales سے ایسی شہرت پائی تھی کہ انگلینڈ آمد پر اس دور کے فکشن کے دنیا کے ڈکٹیٹر چارلس ڈکنز اس کے استقبال کیلئے میلوں دور نکل آیا. انڈرسن کی مختصر خود نوشت سوانح جو ہر پڑھنے والے کو نمناک آنکھوں کے بغیر نہیں چھوڑتا خود اسکی انسانی محنت پر یقین اور بشری عظمت پر ایمان کی شاہد ہے. اور یہی ایمان و ایقان اس کے پریوں کی کہانیوں کی مقبولیت کا سبب. کسی نے چارلس ڈکنز سے کرسچین انڈرسن کے فنی تخلیق بارے استفسار کیا تو ڈکنز نے جواب دیا، اس کو پڑھنے کے بعد آدمی انسان کی پوشیدہ عظمت آپ پر ایمان لے آتا ہے. بچوں، جانوروں اور پریوں کے معمولی کہانیوں کی شکل میں کرسچین ھانز انڈرسن انسان کو تعلیم دیتا ہے کہ رکاوٹوں کے کوہ ہائے گراں، مشکلات کے انبار، مایوسیوں کے دلدل کبھی بھی انسان کو شکست نہیں دے سکتے کیونکہ وہ انسان ہے اور یہی جسمانی ساخت اور فکری استعداد ہی اسکو برتر اور فتح مند ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں.
کچھ یہی حال تصوف کے اساطیر اور کہانیوں کی بھی ہے. میں دھریت مائل متشکک ہونے کیساتھ مغربی منطق و فلسفے کا طالب-علم ہوں اور میرے نظریات بائیں جانب کے ہیں. تاہم مجھے علی عباس جلال پوری کے اس مؤقف سے اتفاق ہے کہ اسلامی تصوف، وحدت الوجود اور اشتراکی فلسفہ میں بنیادی قدر مشترک ہے. دونوں بشریت کے برگزیدہ مرتبے کی حصول اور انسانیت کی تکمیل کے راہ عمل ہیں. اسلامی تصوف کے بنیادیں انسان کو مسجود و معبود ملائک و خلائق ہونے پرقائم ہیں. صوفیاء کی نزدیک انسان بطور انسان ہی ارفع و افضل ہے اور بس. جسمانی ساخت رکھنے والا بنی آدم ہی قابل تعظیم روح کائنات ہے. اسلئے صوفیاء کبھی کسی کی تکفیر، قتل یا تذلیل کے محرک نہیں بنے. بڑے بڑے علماء و فقہاء کے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگین ہیں. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے شخصیت نے صوفی حارث المحاسبی پر ان کے صوفیانہ آرا کی وجہ سے عرصہ حیات تنگ کی. ان کے خلاف لوگوں کو اکسایا. بغداد سے ان کو در بدر کیا. جب وفات ہوئے تو جنازے میں احمد ابن حنبل کی مخالفت کے خوف سے صرف چار افراد نے شرکت کی. صوفیا نے فرعون و نمرود کو بھی وحدانیت پرست مانا. ابن عربی کے بقول فرعون نے خدائی کا دعوی اسل لیے کیا کہ وہ دوئی کو ماننے کیلئے تیار نہ تھا. وہ فنا فی اللہ کے درجے پر فائز تھا. صوفیا ھندو، آتش پرست، گبر و ترسا مسلم و غیر مسلم سب کو ایک جسم کے اعضاء مانتے ہیں.
بنی آدم اعضائے یکدیگر اند کہ در آفرینش ز یک جوہر اند
انسان کی عظمت اور تقدس صوفیاء کے عقائد اور تعلیمات کی روح ہیں.
قابل قدر ماہر مذہبی فلسفہ پروفیسر غلام جیلانی کامران نے اپنے فکری سفر میں تصوف کے بصری اور بغدادی مدرسوں میں رائج افسانوی روایات اور تمثیلوں کی پوشیدہ معنی کی تشریح کرکے لکھا ہے کہ ان اساطیر کے بنیادی اھداف صرف اور صرف انسانی عظمت کی تعلیم ہے.
اسلامی تصوف کے بصری مکتب کی بنیاد حضرت حسن بصری سے منسوب ہے. ان کے علاوہ رابعہ بصری اور سری سقطی اس مکتب کے دو عظیم شخصیات ہیں. رابعہ بصری نیم افسانوی کردار کی واحد زنانہ شخصیت ہے جسے اسلامی روایات میں اتنا مقدس مقام حاصل ہے. روایت ہے کہ ایک بار حضرت حسن بصری نے بہتے دریا پر جائے نماز ڈال کر نماز شروع کی. حضرت رابعہ بصری نے نماز ہوا میں معلق کرکے نماز شروع کہ پانی تو پھر بھی کثیف ہے اور ہوا لطیف. سلام پھیرنے پر خاتون روشن ضمیر نے حضرت بصری کو مخاطب کرکے فرمایا کہ حقیقت نماز یہ ہے کہ ھمارے دلوں کی کثافت معدوم ھوجائے. یہاں تو نماز صرف ایک منفی عمل بن گیا. کیا ایسی نماز باعث شرم نہیں؟
خلوص کی ایک زبردست تعلیم حضرت رابعہ بصری سے منسوب ایک واقعے سے واضح ہوتی ہے. ایک رات کو ایک ایک برتن میں پانی اور دوسرے میں آگ لے کر جارہی تھی. کسی نے اب و آتش کا مقصد دریافت کیا. فرمانے لگی، اس آگ سے جنت کو آگ لاتی ہوں اور یہ پانی جہنم پر ڈالتی ہوں تاکہ انسان دونوں کی خوف اور لالچ سے نجات پاکر عبادت شروع کرے.
غلام جیلانی کامران نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک رات حسن بصری، حضرت رابعہ کیساتھ تشریف فرما تھے. حضرت حسن بصری نے تاریکی کی شکایت کی. حضرت رابعہ نے ایک انگلی اٹھائی. اس انگلی سے ضو فشانی شروع ہوئی جو صبح تک روشنی دیتی رہی. پروفیسر جیلانی کامران نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ انسانی روح، فکر اور ضمیر کی مبداء نور ہونے کی حقیقت نمائی کرتی ہے.
شہرت یافتہ ایرانی فلم ساز اور "سفر قندہار" کے بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلم بنانے والے پروڈیوسر محسن مخملباف پاؤلو کولہو کے The Alchemist کے طرز پر ایک چھوٹی سی ناول فارسی میں لکھی ہے "سلام بر خورشید". اس ناولٹ کی آخری پیراگراف انسانی عظمت کی ایک تمثیل ہے جسے میں اپنے الفاظ میں ترجمہ کرکے لکھتا ہوں:
ابراہیم ادھم سفر حج پر روانہ ہوئے. ھر قدم پر دو رکعت نماز پڑھتے تھے. طویل ریاضت کے بعد مکہ پہنچ گئے. جیسے ہی حرم میں داخلہ ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ کعبہ اپنی جگہ سے غائب ہے. دنگ رہ گئے. ھاتف نے صدا دی: کعبہ بصرہ میں رابعہ بصری کی طواف کیلئے گئی ہے!........... انسانی مقام، اسی لئے تو مسجود ملائک و معبود خلائق ٹھہرا.
حرف آخر: اسلامی فکری تاریخ سے بے خبر کچھ لوگ تصوف کو اسلامی فکر وفلسفہ کے انحاط کا باعث سمجھتے ہیں. ان کے اس غلطی کے ازالہ کے طور پر عرض ہے کہ صوفیا کبھی بھی حکمران نہیں رہیں. انسانی فکر پر پابندیاں حکمرانوں نے عائد کئے، یا ان متعین کردہ فقہاء نے جو قاضی و مفتی و محتسب بن کے صاحبان طاقت و اختیار تھے.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں