بہروپیہ ظفر جی

بہروپئے --- ظفرجی

کئ  بزرگانِ سفید رِیش کو سمجھایا کہ ابھی آپ بوڑھے نہیں ہوئے ، اگر بال جلد سفید ہو گئے ہیں تو خضاب لگائیے  ، اگر خضاب میسر نہیں تو تیزاب ہی لگا دیجئے مگر بڑھاپے کا ڈھونگ تو نہ رچائیے-

جواب میں کہتے ہیں اجی وہ تو گناہ ہے- پہلا خضاب فرعون نے لگایا تھا-

ھم عرض کرتے ہیں صاحب ، مختلف علمائے کرام بھی تو لگاتے ہیں- پھر کئ ایک  کی مثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ فلاں مولانا  نے بھی تو اس عمر میں ریش سیاہ اوڑھ رکھی ہے- تب کھسیانے ہو کر یہ دقیانوس کہتے ہیں اجی دو صورتوں میں جائز ہے ، یا تو بیوی جوان ہو یا بندہ مجاھد ہو-

اب کوئ ان عقل کے کوروں سے پوچھے کہ اس زمانے میں  جس کی زوجہ جوان ہے وہ  مجاھد کیسے ہو سکتا ہے ؟

ان جعلی کھوسٹ بڈھوں کی نیت ھم خوب جانتے ہیں- یہ بڑھاپےکا  ڈھونگ رچا کر قوم  سے ھمدردی سمیٹنا چاھتے ہیں- کوئ چاھتا ہے اولاد بڈھے باپ کی عزت کرے- کوئ دفتری عملہ کے سامنے سفید بالوں کا رعب جمانا چاھتا ہے- کوئ گاہک کو پھانسنے کےلئے سفید داڑھی کو  گارنٹی کارڈ بنائے پھرتا ہے-

ان میں سے کئ ایک نے تو ہمارے سامنے اقرار بھی کیا کہ  صاحب اگر کوئ ہماری سفید داڑھی دیکھ کر رحم کھا ہی لیتا ہے تو آپکو کیا اعتراض ہے-

اجی اعتراض ہمیں نہیں اولیویا والوں کو ہے- بالوں کو دے ایسی قدرتی چمک کہ سب کہ اٹھیں-
اولیویا شکریہ
یہ تحریر ظفرجی کی ہے اور لکھنے کا انداز سرسیّد احمد خان بہادر سے مستعار لیا گیا ہے- کیسی لگی ؟ ;)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری