مطالعہ اور فیس بک
*پسندیدہ کتاب*
میں نے جب بهی کوئی کتاب شروع کی پوری کرنے سے قبل ہی لائبریری سے کوئی دوسری کتاب پسند آجاتی تهی، جس کی وجہ سے بسا اوقات پہلے والی کتاب ادھوری چهوڑنی پڑتی تو بسا اوقات اس کتاب کو موخر کر کے دوسری کتاب کا سرسری مطالعہ شروع کر دیتا تها.
لیکن ایک کتاب ایسی ہاتھ لگی کہ اب کسی کتاب کو ہاتھ لگانے کو جی ہی نہیں چاہتا.
میں جب بهی اپنے مطالعے کے میزپر بیٹهتا تو سامنے والی الماری کے اوپر والے خانے سے انشاء جی کی انشا پردازیاں دعوت مطالعہ دیتی ہیں تو کہیں پطرس کے مظامین سے پهوٹتے قہقہے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں.
ادهر نیچلے خانے میں آزاد رحمہ اللہ کی غبار خاطر اپنے اوپر پڑی غبار سے کبیدہ خاطر زبان حال سے یہ کہہ رہی ہوتی هے کہ "اندر کیا کم غبار تهی کہ اب اوپر بهی غبار کی تہہ جم گئی"
ان سے کنی کتراتے ہوئے جب میں اپنی رولنگ چیئر دائیں جانب گهماتا تو تاریخ طبری ، ابن خلدون و طبقات ابن سعد مجهے ماضی کے جهروکوں میں لے جانے کے لیے منتظر ہوتیں.
ان سے بهی بے رخی برتتے ہوئے جب میں بائیں جانب کرسی گهماتا تو سینکڑوں رنگا رنگ کتابیں. کہیں تاریخ و حدیث، کہیں عقائد و نظریات، کہیں صرف و نحو، کہیں نظم و نثر کی صورت میں اردو و عربی ادب تو کہیں آپ بیتیاں و سفرنامے کہیں منطق و فلسفہ کی ڈهیروں کتابیں دعوت مطالعہ دے رہی ہوتیں.
لیکن ان سب کتابوں پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالتا ہوں اور اسی کتاب (فیس بک )کو کهول کے بیٹھ جاتا ہوں اور کتابیں جو اپنے علم سے سیراب کرنے کے لیے بے تاب تهیں ایک بار پهر اپنا سا منہ لیے رہ جاتی ہیں اور دیمک کی غذا بننے کے لیے چهوڑ دی جاتی هیں.
معدی کرب ہزاروی( Botal Shah)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں