عارف خٹک

میں عارف خٹک ہوں

اجکل کافی یار دوست اور پشتون احباب ہر طرف شکوہ کناں ہیں کہ عارف خٹک دراصل اینٹی پشتون بندہ ہے۔ پشتونوں کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ ان کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
جناب والا عرض کرتا ہوں کہ پشتون میں بھی ہوں۔ مگر میں احساس برتری کا شکار نہیں ہوں۔ میرے ہاں پنجابی، مہاجر، سرائیکی، بلوچ، تاجک، ازبک اور سب اتنے ہی معزز ہیں جتنے پشتون ہیں۔ میں حق تلفی کیلئے آواز ضرور اٹھاتا ہوں۔مگر اس آواز کے اپنے قواعد ضوابط ہوتے ہیں۔ مجھے میرے حدود کا علم ہے۔ میں عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے اپنی یا کسی اور کی تضحیک بالکل بھی پسند نہیں ہے۔
میں مولانا فضل الرحمن کی اتنی عزت کرتا ہوں جتنی عمران خان، بلاول، نواز شریف، سراج لالہ اور اسفندیار کی کرتا ہوں۔ سیاست کبھی اپنے سمجھ میں نہیں ائی۔لہذا کوشش کرتا ہوں کہ کسی کے سیاسی جذبات مجروح نہ ہو۔

مذہب کے حوالے سے میرا نقطہ نظر بالکل واضح ہے۔ آپ کو میرے محبوب ہستیوں پر تبرہ کرنے کا حق نہیں۔لہذا اپ کے مذہبی جذبات میرے لئے اتنے محترم ہیں جتنے میرے مذہبی جزبات میرے لئے اہم ہیں۔میں اگر سامنے والے پر غصہ ہوجاوں تو وہ میرے لئے ہمشہ کیلئے مر جاتا ہے لہذا کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مرنے نہ پائیں۔
پینڈو یا کلیوال بندہ ہوں لہذا خواتین کا سامنا بہت مشکل سے کرتا ہوں۔ کیونکہ بچپن سے سکھایا گیا ہے کہ اگر کسی کا دروازہ لات مار کر کھولوگے تو اپ کا دروازہ بھی لات مارکر کھلا جائیگا۔ اسی ڈر سے نہ کسی کی بیوی کو تاک سکا۔ نہ کسی کی بہن کی عزت پر بری نظر ڈالی اور نہ کسی کے بیٹی کو ورغلا سکا۔ عورت کا روپ صرف میرے لئے ماں اور بہن  کا ہی ہے۔ زندگی میں ایک عورت کو گندی نظر سے دیکھ سکا اور اسی کو بیوی بنا لیا۔ شاید محبت کی شادی اسے کہتے ہوں گے۔ چار بچے ہیں۔ اپنا جیسا بنانے پر تلا ہوں۔ دیکھتا ہوں مجھ پر جاتے ہیں یا ماں پر۔
میں اپنے وال پر سنجیدہ مضامین بہت کم لکھتا ہوں کیونکہ جب میں سنجیدہ لکھ دوں تو ان الفاظ کے زیر اثر میں ہفتوں پڑا کراہ رہا ہوتا ہوں۔
مزاحیہ جو بھی لکھتا ہوں وہ فکشن نہیں ہوتا، میرے کردار مصنوعی نہیں ہوتے۔ وہ جیتے جاگتے لوگ ہیں جن کے ساتھ میری زندگی گزر چکی ہے یا گزر رہی ہے۔ میں جب لکھنے بیٹھ جاتا ہوں تو میں اس وقت فرانسیسی یا انگریزی ادب کی تراجم شدہ کتابوں کے زیر اثر نہیں ہوتا۔بلکہ میں خود اپنی زندگی کا قصہ سنا رہا ہوتا ہوں۔ آپ ہنستے ہیں مگر مجھے ان ہنسی میں بھی آپ کا دکھ صاف دیکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ جو اپ پر بیت چکی ہوتی ہے۔
میں نے دس سال کی عمر میں چائے اور ناشتہ چھوڑ دیا تھا۔ آج تک نہ چائے کا احساس ہوتا ہے نہ ناشتے کا۔ اگر میں بیالیس گھنٹوں تک بھوکا رہوں تو مجھے بھوک کا احساس نہیں ہوتا۔ میں کلاس چہارم کا طالبعلم تھا۔ میرے دوستوں کے پاس سائیکل ہوا کرتے تھے۔اور میں سائیکل کا ایسا دیوانہ تھا کہ دوستوں کو اپنا سارا جیب خرچ دے کر ان کی سائیکل چلاتا تھا۔ میری خواہش جنوں کی حدوں کو چھونے لگی تو اماں کے سامنے رو رو کر ضد کرتا تھا کہ مجھے سائیکل دلوا دیں۔ مگر اماں کی کھبی ہمت نہیں ہوئی کہ ابا کے سامنے میری خواہش کا اظہار کرتی۔کیونکہ اس کو ابا کی تنگدستی کا علم تھا۔مجھے نہیں تھا۔ سکول جانے سے پہلے اماں باورچی خانے میں توے پر گرم گرم پراٹھے کھلاتی۔ روز کا یہی معمول ہوتا۔ یونٹ کے کینٹین سے ادھار پر راشن اتا کیونکہ فوج میں افسر اپنے راشن کے خود زمہ دار ہوتے ہیں۔ لہذا ابا کی محدود تنخواہ میں یہی ایک عیاشی تھی جو ہم کرسکتے تھے۔ میں تیز تیز پراٹھا کھائے جارہا تھا تاکہ بھائی سے زیادہ سے زیادہ کھاوں۔ اس وقت ابا میرے سامنے کھڑے ہوگئے کہ عارف بیٹا آپ کو سائیکل چاہیئے؟۔ میرے ہاتھ سے فرط خوشی سے نوالہ گر گیا۔ گھگھیاتے ہوئے کہا جی ابو۔ ابا مسکرایا چلو آپ کو سائیکل دلا دیتے ہیں۔مگر ان شاہ خرچوں میں یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ پراٹھا بھی کھاو اور سائیکل کے خواب بھی دیکھو۔ میں نے پراٹھے کے گرے ہوئے نوالے کو ہاتھ نہیں لگایا اور چائے کا بھرا کپ یوں ہی چھوڑ دیا۔
تیس سال گزر گئے کبھی دوبارہ پراٹھے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا اور نہ ناشتہ کیا۔ مگر سائیکل پھر بھی نصیب نہیں ہوئی۔البتہ سائیکل والی ضرور مل گئی۔
میں اس چچا کا بھی بھتیجا ہوں جو رات کو کھوتی کے پیچھے کھڑا "راز و نیاز" کررہا تھا۔ اندھیرے میں اس کے بیٹے کا بھی دل کیا کہ وہ بھی کھوتی کے پیچھے دل کا بوجھ ہلکا کرسکے۔ سو گھپ اندھیرے میں باپ سے ہاتھ ٹکرا گیا۔ ابا نے اسے ڈانٹا کہ آدھا گھنٹہ بعد اجانا۔ ابھی میں موجود ہوں۔

میرے ساتھ یا میرے سامنے جو کچھ ہوتا ہے میں اس کو پاکیزگی کا لبادہ نہیں اوڑھا سکتا۔ جو جیسا ہے۔میں اس کے منہ پر بول دیتا ہوں۔ لگی لپٹی مجھے نہیں اتی۔
اگر آپ کو سنجیدہ پڑھنا ہے تو بہت سے دانشور آپ کے اردگرد موجود ہیں ان کو پڑھیئے۔ ان سے سیکھیئے۔وہ بہت اچھا لکھتے ہیں۔وہ آپ کی اخلاقی تربیت کرسکتے ہیں۔ مین دانشور نہیں ہوں۔ میرے وال پر اوگے تو مجھے برداشت کروگے۔ کیونکہ اگر آپ کے ماں باپ اور اساتذہ نے آپ کو بیس سال میں انسان نہیں بنایا تو  اس عمر میں، میں آپ کو انسان ہرگز نہیں بنا سکتا۔
یاد رہیں کہ میں لائیک اور کمنٹس کا متمنی بالکل بھی نہیں ہوں۔ میں اپنا اسٹریس ریلیز کرنے کیلئے لکھتا ہوں۔ کیونکہ میں آپ کیلئے نہیں لکھتا۔میں اپنے لئے لکھتا ہوں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

کنڈالینی شکتی 3 خ