کھوتی عارف خٹک
"محرومیاں"
آپ کا تو نہیں معلوم،مگر ہم خٹک، آفریدی، مروت اور میانوالیوں کو جب تک ان کے والدین کسی کھوتی کےساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ نہ لیں۔تب تک ان کی شادی تو درکنار،شادی کے بارے میں سوچنا بھی گناہ تصّور کیا جاتا ہے۔ جس دن بندہ رنگے ہاتھوں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اسی دن ماں اور بہنیں اپنے پوت کےلئے لڑکی ڈھونڈنے کی مُہم پر نکل جاتی ہیں۔
لڑکی میں کیا خصوصیات ہونی چاہیئے؟
پہلے تو ایک مہینہ گھر کی خواتین صلاح ومشورے میں لگا دیتی ہیں۔دوسرا مہینہ گھر کے سربراہوں کی منت سماجت میں گزر جاتا ہے۔ اگلے دو مہینے تایا کے انتظار میں کٹ جاتے ہیں۔کہ دبئی سے آجائیں۔تو انشاءاللہ لڑکی ڈھونڈنے کی مُہم پر نکل جانا ہے۔اسی سارے معاملے بیچ مستقبل کا دُلہا پھر گاؤں کی کھوتیوں میں قطرینہ کیف کو ڈھونڈنے لگ جاتا ہے۔
ماں جس دن دلہن کے انتخاب کے لئے نکلتی ہے۔تو بہنیں کہتی ہیں،کہ اماں فلاں گاؤں کی فلانی سرخ و سفید لڑکی کا رشتہ ضرور مانگنا۔مگر ماں یہ کہہ کر اُس ان دیکھی حُور کا رشتہ ٹھکرا دیتی ہے۔کہ اس کا لال کسی بدرمنیر سے کم تھوڑا ہے؟جو اُس کا دل اپنے چاند کے لئے مسرت شاہین سے کم کی لڑکی لانے پر مان جائے۔اگر اماں کو یہ معلوم پڑ جائے۔کہ اس کا بدر منیر اس وقت گھر کے جانوروں والے کچے کمرے میں بُھوری والی کھوتی کی گود بھرائی میں مصروف ہے۔تو اپنے لال کا رشتہ وہ بلاججھک چچا مرر سے بھی کروادے۔
اماں کو بہُو نہیں چاہیئے ہوتی۔بلکہ داماد چاہیئے ہوتا ہے۔ لمبا قد، سو کلو وزن،تاکہ سر پر بیک وقت تین پانی کے مٹکے رکھ کر بغیر سانس چڑھے واپس زمین پر رکھ سکے۔ گندم کے پانچ کھیتوں کی کٹائی ایک دن میں اکیلی کرسکے۔ اور ہر چھ ماہ بعد ایک بچہ پیدا کرکے دے۔مگر نر(لڑکا)ہو۔
ہمارے ہاں لڑکی جتنی موٹی اور گوری ہوتی ہے ۔اتنی ہی مہنگی ہوتی ہے۔ لڑکی کے گھر والے مبلغ بیس لاکھ سے سودا شروع کرکے بالآخر دس پر آکر رک جاتے ہیں۔ تو بدرمنیر کا باپ اُنگلیوں پر حساب لگا کر رشتے سے یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔کہ اتنے پیسوں میں تو بدرمنیر کے پانچ بھائیوں کی شادی نا کروا دوں؟
ماں جی دس کلومیٹر کے علاقے میں موجود ہر گھر میں یہ کہہ کر گُھس جاتی ہے۔کہ ان کی بکری کھو گئی ہے ۔سو وہ ان کے گھر اپنی بکری کی تلاش میں آئی ہے۔ لہٰذا بکریوں کے بہانےگھر میں موجود ہر لڑکی کا پروفائل بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اب اماں گھر کے مردوں کے حکم کےمطابق اس لڑکی کی تاڑ میں رہتی ہے۔جو سب سے زیادہ کمزور ہو اور قیمتاً سستی بھی ہو۔
آخر کار کہیں نا کہیں لاکھ دو لاکھ میں لڑکی مل ہی جاتی ہے۔اور گھر والوں کی خوشی اس خوش فہم شہری جیسی ہوتی ہے۔جو بقرعید پر اپنے بچوں کو فقط بکری کا بچہ دلا کر یہ کہہ کر مُطمئن کر دیتا ہے۔کہ انشاءاللہ اگلے عید پر اس سے بیل جتنا بکرا بنے گا۔ اور عید کی اگلی صبح مرغی کی قربانی کرلیتا ہے۔
جس دن شادی ہوتی ہے۔اس دن صُبح سویرے گاؤں کے لوگ شادی والے گھر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ مرد حجرے میں بیٹھک جمالیتے ہیں۔ چاروں طرف چارپائیوں پر بزرگ، جوان اور بچے بیٹھ جاتے ہیں۔اور فحش لطیفوں اور ہنسی مذاق سے دن کی شروعات ہونے لگتی ہیں۔چارپائیوں کے بیچ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی بڑی بڑی چٹائیاں بچھا دی جاتیں ہیں۔جس پر دُلہا اپنے ہم عُمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر پیاز اور لہسن چھیلنے پر لگ جاتا ہے۔تاکہ دوپہر کا کھانا تیار کیا جاسکے۔
بزرگ ان نوجوانوں کو یہ کہہ کر مرعوب کرتے رہتے ہیں۔کہ جب وہ جوان تھے،تو ان کی کھانسی کی آواز سے درختوں سے پرندے گرنے لگتے تھے۔ اور تو اور ایک ہی رات میں چار چار کھوتیوں کو بُھگتایا کرتے تھے۔اور اس کے فوراً بعد اپنی چار بیویوں کو مُطمئن کرکے سُلا دیتے تھے۔ اور ان سب فرائض کی ادائیگی کے بعد باقی کی رات یہ سوچ سوچ کر کاٹ دیتے تھے۔کہ اب خود کو کیسے مطمئن کیا جائے۔
اس شادی میں سب سے زیادہ وہ مرد خوش نظر آتے ہیں۔جن کی کھوتیوں کی عزت سامنے بیٹھے دُلہے کے ہاتھوں لُٹ چُکی ہوتی ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا ،کہ دُلہے کو گولی سے اُڑا دیں۔مگر پھر یہ سوچ کر خاموش رہتے ہیں۔کہ ان کے جوانوں نے بھی دُلہے کی کھوتیوں پر ہاتھ صاف کئے ہیں۔سو خاموش رضامندی سے ایک معاہدہ ہوتا ہے۔کہ تم اُدھر چُپ بھلے،اور ہم اِدھر چپ سادھے فائدے میں ہیں۔
نکاح کے بعد جب دُلہا پہلی بار دلہن کو دیکھ لیتا ہے۔تو وہ یہ سوچ کر شکر ادا کرتا ہے۔کہ کیا ہوا کہ دلہن سُوکھے منہ والی ہے۔ کیا ہوا اگر وہ فلیٹ ہے۔ کیا ہوا اگر اس کے منہ سے نسوار کی بُو آرہی ہے۔ کم از کم "بُھوری کھوتی" سے تو بہتر ہے۔ رسپانس تو دیتی ہے۔
ہفتے بھر بعد جب یہی فلیٹ بیوی بدرمنیر کو ماں بہن کی گالیاں دینے لگ جاتی ہے۔تو بدرمنیر یہ سوچ کر پچھتانےلگتا ہے۔کہ اس بیوی سے تو وہ "بُھوری کھوتی" ہزار درجے اچھی تھی۔ کم از کم رسپانس تو نہیں دیتی تھی۔
کہانی آگے بڑھتی ہے تب تک کے لئے۔جب بیس سال بعد وہ اپنے سمندر خان کو کسی کھوتی کےساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کرواکے اس کی شادی نہیں کرا دیتا۔یا اگر بدرمنیر تھوڑا سا بھی پڑھا لکھا ہے۔تو دانشور بن جاتا ہے۔
حالانکہ اس دانشوری کے پیچھے وہی محرومیاں ہوتی ہیں۔ جو آپ کےساتھ ہیں اور میرے ساتھ ہیں۔اور ان محرومیوں کیلئے پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے۔
عارف خٹک
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں