کمبل ظفر جی
کمبلیات --- ظفرجی
ایک روز بازار سے گزر رہا تھا کہ نظر ایک غریب الدیار تاجر پر پڑی جو صدا لگاتا تھا کمبل لے لو ، نرم گرم کمبل لے لو-
ھم وقت پاٹنے کو رُکے اور معائنہ اس یک پارچہ کا کیا جسے وہ ساہوکار کمبل بتلاتا تھا - مشہور ہے کہ اُمراء کی نگاہِ التفات سے نہ صرف مال کی قدر بڑھتی ہے بلکہ دل غریب تاجر کا بھی بہل جاتا ہے-
یونہی پوچھ لیا کہ کیا مانگتے ہو ؟
وہ جھٹ بولا چھ صد روپے-
حیرت سے اس روپیلی دھوپ سے کمبل کو دیکھا جو سرسوں کے پھولے کھیت کی طرح فٹ پاتھ پہ بے تحاشا پھیلا ہوا تھا-
پھر شیخانہ جاہ و جلال سے دریافت کیا
" جدید ہے یا قدیم ؟ ؟
وہ ہاتھ جوڑ کر بولا صاحب جدید ہوتا تو فٹ پاتھ پہ بکتا ؟ ہرچند کہ دوبئ کی سوغات ہے اور مہر اس پر جاپان کی ہے مگر ہے قدیم- مدتوں کسی عربی شیخ کا اوڑھنا بچھونا رہا- پھر کسی میمن سیٹھ کے بستر کی زینت بنا- اب آپ جیسا گلفام قدر بڑھانے آیا ہے-
غرض کہ اس چرب زبان تاجر نے کمبل کو بٹیر پکڑنے والے جال کی طرح ہم پہ یوں تانا کہ پھنستے ہی بنی-
سوچا قدیم ہے مگر بے کار نہیں- کیا ہوا جو شیخ المتوکل اور میمن المتمول نے کچھ روز اوڑھ لیا- امراء کا اوڑھنا امراء ہی اوڑھتے چلے آئے ہیں- اس غافل تاجر پر ہزار ہا تُف کیا جس نے اس مایہء گراں قدر کو یوں سر بازار رسواء کر رکھا تھا-
گویا کہ :
اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ اسیر ہم ہوئے-
اس سے پہلے کہ وہ گُرگِ باراں دیدہ امتداد زمانہ کی یہ لٹی پٹی نشانی شاپر میں ڈال کر ہمیں سونپتا ، ہم نے کہا او عجلت پسند ذرا ٹھہر- کیوں فرشتہء موت بنتا ہے- پہلے مول تول تو کر لے- چھ صد میں تو ہم کبھو نہ خریدیں گے-
وہ بولا کتنا دیتے ہو؟
ہم نے ایک شانِ بے نیازی سے شلوار کی جیب ٹٹولی ، پھر کہا ہم تو 3 صد سے اوپر ایک دِھیلا نہ دیں گے-
امیدِ واثق تھی کہ وہ بخیہ گر اتنا کم موُل سن کر کانوں کو ہاتھ لگائے گا اور چوکڑی مار کے کمبل پہ بیٹھ جائے گا- مگر آہ شامتِ اعمال کہ اس ہوس پرست نے جھٹ شاپر نکالا اور کمبل اس میں لپیٹ کر بولا اور کوئ چِیز تکیہ چادر دری وغیرہ ؟؟
اب پچھتاوہ ہوا- وائے رے قسمت- خود کو دو ہتھڑ پیٹیں یا گریہ کریں کہ نصف صد کیوں نہ بول دیا- اس سارق کو پچاس بولتے اور سو ڈیڑھ سو میں سردیاں گزر جاتیں-
گویا کہ
بازار ھم گئے تھے ، اک چوٹ مول لائے
خیر خدا خدا کر کے رات کا انتظار کیا جیسے شب وصل کو عاشق تڑپتا ہے- کوئ دس بج گئے مگر سردی ندارد- بہت کوسنے دئے کہ پہلے تو موئ شام سے ہی لگنے لگتی تھی آج کون دل جلا مر گیا ہے کہ سردی بھی سوگ منانے چلی گئ-
گیارہ بجے تک ٹھنڈ کا انتظار کیا پھر تنگ آ کر چھت والا پنکھا چلا دیا- پنکھے نے رفتار پکڑی تو جھاڑ و فانوس لہلہانے لگے- میز پر پڑا اخبار پھڑپھڑاتا ہوا دور جا گرا- غرض کہ جب مکھی ، مچھر ، لال بیگ اور جھینگر تک سب سردی سے کانپ اٹھے ، تو ہمیں بھی کچھ محسوس ہوئ-
ہم نے بڑی عقیدت سے عہد رفتہ کی اس نشانی کو کھولا ، مولٹی فوم کے اشتہار والی عفیفہ کی طرح ہاتھ پھیر کر لطافت محسوس کی- پھر ریشم و کمخواب سمجھ کر جو اوڑھا تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھی- ہائے نی جوانی ایں- جب جوبن تھا تو کمبل نہ تھا- آج کمبل میسر ہے مگر جوبن ندارد- یا حکیم شیراں والا المدد-
ابھی آنکھ ہی لگی تھی کہ کندھے پہ کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئ- پھر بائیں گھٹنے پر مزیدار قسم کی کھجلی ہوئ- ابھی ادھر کو لپکے ہی تھے کہ مقامِ کھجلی بدل گیا- نئے علاقوں میں غضب کی شورش برپا ہوئ- تھوڑی ہی دیر میں ھم اچھے خاصے مصروف ہو گئے-
یا الہی یہ کیا ماجراء ہے- نصب شبی کو اتنی شدید مصروفیت ؟ عجب افتاد ہے کہ کبھی بایاں پاؤں دائیں پہ رگڑ رہے ہیں ، کبھی بائیں ہاتھ سے داہنا کان کھجا رہے ہیں ، کبھی دونوں ہاتھوں سے رانوں کو رگید رہے ہیں- غرض کہ
رات کاٹی خدا خدا کر کے
عین تہجد کے وقت بڑی ندامت سے دوزانوں ہو کے یوں بیٹھ گئے گویا پرانے عبادت گزار ہوں- پھر روشنی کو چراغ جلایا- کیا دیکھتے ہیں کہ پیلے کمبل پہ جگہ جگہ سرخ خون کے نشان ہیں- یہ موذی کیڑا دستانے بھی نہیں پہنتا کہ بندہ کسی اور کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرتا پھرے-
اس رذیل فطرت مخلوق پہ سخت غصّہ آیا- اگرچہ وہ میری زبان نہ سمجھتے تھے پھر بھی ہذیان میں خوب چلا کر کہا:
".اور رزیل -- او شیخ الشیطان -- ھل انت من قطر او کراتشی ؟" تم قطر سے ہو یا کراچی سے ؟
بہرحال میری یاوہ گوئ کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ وہ کام چھوڑ کر بھاگے اور کمبل میں ہی کہیں روپوش ہو گئے-
میں نے کمبل کو کسی غلیظ پوٹلی کی طرح اندھا دھند لپیٹا- اس کے سوا کوئ چارہ بھی نہ تھا- الماری سے سرف کا دس روپے والا پیکٹ نکالا- پھر بڑی بالٹی میں بہت سا پانی ڈال کر اس فتنے کو غرق کر دیا- انج تے فیر انج سہی-
تُف اس منحوس کمبل پر جس نے ہر شخص کو شیخ اور میمن سمجھ رکھا ہے- ذرا ہمارے مزاج سے آگاہ ہو تو دیکھتے ہیں کیسے سربازار بکتا ہے- ان شاءاللہ دھو دھو کے استعمال کریں گے-
ایڈیٹڈ
ری پوسٹ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں