یوتھ ظفر جی
نئ معاشی پالیسیاں اور نسل نو پر اس کے مثبت اثرات-
اسکالری کالم بائ ڈاکٹر ظفرجی پی ایچ ڈی- ڈی-وی-ایم - یوتھ اینالائزر
انتباہ: یہ سنجیدہ کالم میرے پی ایچ ڈی مقالے کا حصہ ہے- ہنسنے والا اپنے نقصان کاخود ذمہ دار ہو گا-
نسلِ نو (یوتھ) مجموعی طور پر اب بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے البتہ اظہارِ یک جہتی میں کسی قدر ہچکچاہٹ ہے- یوتھ کے سیاسی رویے کو سمجھنے کےلئے ہمیں اس کی جملہ اقسام کو فرداً فرداً پرکھنا ہو گا-
1- برامدان یوتھ:
یہ نسل بیرون ملک مقیم ہے- دھرنا 13 سے یہ کپتان کے ساتھ چٹان بن کےکھڑی ہے- ٹویٹر اور فیس بک پر یہ لوگ مخالف جماعتوں سے مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں- دوسری طرف روپے کی آئے روز تنزلی کی صورت کپتان ان کی تنخواہیں بھی مسلسل بڑھا رہا ہے- شنید ہے کہ جب تک ڈالر بڑھتا رہیگا یہ کپتان کی کمر ٹھوکتے رہیں گے-
2- طفلان یوتھ :
یہ وہ نوخیز ہیں جن کے امرد ہونے کی تصدیق وطن عزیز کے تمام حجام کر چکے ہیں- ان کی معیشت ابا جی کی فراھم کردہ پاکٹ منی یا بجلی گیس کے بلوں میں مار دھاڑ سے چلتی ہے-گیس بھلے ڈبل ریٹ ہو جائے ، روٹیاں انہوں نے دو ہی کھانی ہیں- ان کا مشہور بیانیہ " ڈالر مہنگا ہو رہا ہے تو کیا ہوا ، روپیہ تو سستا ہو رہا ہے" کافی مشہور ہے اور ماہرین اقتصادیات "چِکنوں" کے اس نعرے کو قومی نعرہ بنانے پر غور کر رہے ہیں- ماہرءن کے مطابق چکنا ہونے کےلئے یوتھی ہونا ضروری نہیں- آپ 98 روپے والے ڈالر کا 165 پر دفاع کر کے بھی چکنے بن سکتے ہیں-
3- جوان یوتھ:
یہ وہی نسل ہے جو دھرنے کے دوران تنگ جینز کولھے سے ذرا نیچے لٹکا کر " لک دے ہُلارے" لیا کرتی تھی- یوں اخلاقی لحاظ سے یہ نسل امرد پرست پٹواریوں کو بہت پہلے شکست فاش دے چکی ہے- ان میں سے اب اکثر بالغ ہو کر دانشور بن چکے ہیں- یہ کپتان پہ ڈائریکٹ تنقید تو نہیں کرتے البتہ تعریف سے بھی ہچکچاتے ہیں- ان میں سے کچھ بلاول کو مستقبل کا عظیم لیڈر بنتے دیکھ رہے ہیں-
4- پٹھان یوتھ:
یہ سب سے جزباتی یوتھ تھی- پہلے نیازی کو خان سمجھ کر چمٹ گئی پھر پشتین کو پٹھان سمجھ کر- اب دونوں طرف سے بیزار ہے- نسوار پر لگنے والے ٹیکس نے ان کی آخری امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے- آج کل ان کی وال پہ احادیث اور صوفیاء کے اقوال ہی نظر آتے ہیں-
5- زنان یوُتھ:
یہ سن تیرہ چودہ کی وہ گرانقدر نسل تھی جس کی چکاچوند نے بے شمار پٹواریوں کو مُرتد کیا- اس زمانے میں یہ زنانہ ڈبے میں سفر کرتی تھی ، اور تبدیلی تبدیلی کا نعرہ لگاتی تھی- تبدیلیء جنس کے بعد اب یہ بس کے پیچھے لٹکی ہے- معیشت کیا چیز ہے جانے ان کی بلاء-
اس طویل مباحثہ کا کٹا چٹھّہ یہ ہے کہ نسل نو اب بھی کسی نہ کسی طور کپتان کے آگے پیچھے ہے اور تاحال اسے امید کا آخری چراغ سمجھتی ہے- کپتان کا مہنگائ پہ حالیہ نوٹس اس چراغ کی لو بھڑکانے کےلئے کافی ہے-
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں