سوتے ھوئے پڑھنا
کسی آڈیو بُک کا ساؤنڈ ٹریک چلا کر سُنتے ہُوئے سونا کئی سال سے چلی آ رہی میری پُختہ عادت ہے۔ میری روزمرّہ بات چیت میں سوتے میں سُنا ریفلیکٹ بھی ہوتا ہے۔ ایک بار میں نے ایک مضمون میں ایک لائن لکھی تو پروفیسر نے کہا تُمہیں ریفرینس دینا چاہیے یہ ڈیسٹینی آف ریپبلک نامی کتاب کی لائن ہے۔ مزے کی بات یہ کہ میں نے وہ آڈیو بُک سوتے میں سُنی تھی۔ پروفیسر کو بتایا تو وہ سمجھا میں جھُوٹ بول رہا ہوں۔ کُچھ عرصہ قبل میرے ڈاکٹر نے بتایا کہ سائنس کے مطابق سوتے میں کُچھ بھی نیا سیکھنا ممکن نہیں تُم یہ وہم کہ سوتے میں سیکھ سکتے ہو ذہن سے نکال دو۔ لیکن مجھے یہ نشہ بہت عزیز تھا میری عادت جاری رہی۔
آج یُونیورسٹی آف زیورچ کے ایک بایو سائیکالوجسٹ سے ملاقات ہُوئی تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ دو سال سے سُوئس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی ایک سٹڈی میں مصروف تھے اور کچھ ٹیسٹس رپیٹ کرنے کے بعد یہ انکشاف کریں گے کہ سوتے میں سُن کر کُچھ نیا سیکھنا مُمکن ہے۔
اس کا مطلب ہے صُوفی بھی ایک طرح کے سائنسدان ہیں کیونکہ مجھے سوتے میں ریکارڈڈ کتابیں سُننے کا مشورہ کئی سال پہلے سائپرس کے ایک نوّے سالہ صُوفی شیخ ناظم نے دیا تھا۔ اُنکا کہنا تھا کہ سوتے میں ہم نفس اور رُوح کے جنکشن پر حالتِ وفات میں ہوتے ہیں اور اُس حالت میں سُنا گیا عام سُننے سے کہیں گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
میں نے اپنے جرمن دوست سائنسدان کو صوفی شیخ ناظم کی یہ نصیحت بتائی تو وہ داڑھی کھجاتے ہُوئے بولا اُس نے ٹھیک کہا تھا, سوتے میں سُننے سے برین میں جو ایکٹیویٹی ریکارڈ کی گئی وہ بالکل منفرد تھی لیکن ہم اُس ایمپیکٹ کے بارے میں جاننے سے قاصر ہیں جو اس ایکٹیویٹی سے پڑتا ہے۔ اُس نے ایک تجربے کے بارے میں بتایا جو اُنہوں نے لیب میں کیا۔ جرمن زبان بولنے والے ایسے افراد چُنے گئے جو ڈچ سیکھ رہے تھے، اُنکا ڈچ ووکیبلری کا ٹیسٹ لیا گیا پھر اُنہیں سُلا کر وہی الفاظ دوبارہ سُنوائے گئے جو اُنہوں نے پہلے سیکھ کر ٹیسٹ دیا تھا، جاگنے پر دوبارہ ٹیسٹ لیا گیا تو اکثر کی کارکردگی پچھلے ٹیسٹ سے دس پرسنٹ بہتر تھی۔
اُنہوں نے بتایا کہ مزید ٹیسٹس جاری ہیں لیکن یہ عین ممکن ہے کہ بعض افراد بعض وجوہات یا کسی مخصوص پریکٹس کی عادت کی وجہ سے اُس حالت میں زیادہ سُنتے ہوں جسے تُم حالتِ وفات کہتے ہو۔۔۔ محمد رضوان خالد چوھدری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں