ڈارک میٹر

9+

Jarrar Jafri

یہ نُمائش سراب کی سی ہے ۔ ڈارک میٹر کا تعارف

5 مئی · پبلک

یہ تصویر جن صاحب کی ہے وہ اپنے مُخالفین کو کروی حرامی کہا کرتے تھے، یاد رہے کرہ جیومیٹری کی وہ واحد شکل ہے جس کو کسی بھی طرف سے دیکھا جائے تو وہ ہمیشہ کُرہ ہی نظر آتا ہے مربعے یا مثلث کی طرح اپنی شکل نہیں بدلتا، یہ صاحب کسی کے ساتھ مل کے کام کرنے کو سخت ناپسند کرتے تھے، مزاجاً سخت سڑیل، بدتمیز، بدزبان اور دُشنام طراز انسان تھے ان تمام صفاتِ بد کے باوجود یہ قبلہ صفِ اول کے سائینسدان اور دانشور تھے ان کی سائینس کے لئے بے شمار خدمات ہیں لیکن چیدہ چیدہ کچھ یوں ہیں :

سُپرنوا کی اصطلاح ان صاحب کی ہی بنائی ہوئی ہےیہ تصور کہ بعض ستارے تباہ ہوکر نیوٹران ستارہ بن جاتے ہیں بھی آپ ہی نے دیا تھایہ تصور کہ کہکشائیں گریوٹیشنل عدسے بنا سکتی ہیں بھی انہیں صاحب کا دیا ہوا ہےروشنی کا تھک کے سُرخی مائیل ہوجانا بھی انہی کی دین ہےاور سب سے اہم ترین کام جو اس باغی اور ذہنی طور پر آوارہ گرد سائینسدان نے کیا وہ موضوعِ مضمون ہے یعنی ڈارک میٹر کا تصور، جس کو ہمارے لوگ کبھی کبھار تاریک مادہ بھی کہتے ہیں۔ نہ اس کا انگریزی میں ڈارک ہونے سے تعلق ہے اور نہ ہی اردو میں اس کا کوئی تعلق تاریک ہونے سے ہے۔ یہ بات آخر میں واضح ہوگی۔

ان صاحب کا نام تھا ”فرٹز زوکی“ (Fritz Zwicky) جو 1898 میں سوئیٹزرلینڈ کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ساری زندگی امریکہ میں کیلفورنیا انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کیا اور 1972 میں یہیں فوت ہوئے ان کی وصیت کے مُطابق ان کو ان کے آبائی وطن سوئیٹزرلینڈ میں دفنایا گیا۔ زوکی کی عظمت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اسٹیفین میورر نے ایک کتاب میں زوکی کے متعلق لکھا ہے کہ:

جب بھی محقیقین نیوٹران سٹار، ڈارک میٹر یا گریوٹیشنل عدسوں پر بات کرتے ہیں تو تقریباً سبھی اس بات کا آغاز یوں کرتے ہیں کہ:

”دیکھیں جی زوکی نے 1930 میں یہی کہا تھا لیکن تب کسی نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا“۔

میرا خیال ہے کہ جب آپ اپنے ساتھیوں کو مسلسل کروی حرامی کہیں تو آپ کی بات پر کون توجہ دے گا؟

کوما کلسٹر

کوما کلسٹر ایک کہکشاؤں کا جھرمٹ ہے جس میں کوئی ایک ہزار کہکشائیں صُبحِ ازل سے شامِ ابد تک کے لئے ایک حسین ثقلی رقص میں مصروف ہیں۔ زوکی صاحب کے زمانے میں اس میں ہمیں صرف آٹھ سو کہکشاؤں کا ہی علم تھا یہ کہکشاؤں کا جھرمٹ ہم سے کوئی ساڑھے تین سو ملین نوری برس کی دوری پر ہے۔

میں اس مضمون میں گاہے بگاہے زوکی صاحب کے اوریجنل پیپر کا حوالہ اور اس میں سے کچھ اقتباسات پیش کروں گا جو میرے لئے اس لئے بھی بہت دلچسپ ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1930 کی دہائی میں لوگ ابھی بھی کہکشاؤں کو کیسے سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ 1930 کے لگ بھگ کے ہی دور میں یہ نئی دریافت ہوئی کہ دور دراز کے گیسوں کے یہ بادل (نیبولا) دراصل بذات خود جزیرہ نُما کائیناتیں(Island universe) ہیں جن کو آج ہم کہکشاں یا گیلیکسی کہتے ہیں۔ اور کہکشاں کی اصطلاح صرف اور صرف ملکی وے کے لئے ہی مُختص تھی۔ اپنے اس میں زوکی صاحب کہکشاؤں کو ہنوز ماورائے کہکشاں نیبولا (extragalactic nebulae) ہی لکھتے ہیں۔اور ان کے اس پیپر جس میں آپ نے ڈارک میٹر کا تصور دیا کا ٹائیٹل تھا:

The redshift of extragalactic nebulae

یہ ابھی اسی دور میں ہی فیصلہ ہوا تھا کہ یہ ہماری ملکی وے کی طرح کی ہی کہکشائیں ہیں لیکن تب تک بھی کہکشاں کا لفظ صرف ملکی وے کے ہی لئے استعمال ہوتا تھا۔

زوکی کی مُشاہدہ کردہ رفتاریں

زوکی نے کئی راتوں کو آنکھوں میں جگ راتے آباد کئے رکھے اور اس کوما کلسٹر کی کہکشاؤں کی ریڈ شفٹ سے ان کی رفتاریں معلوم کیں، اپنے اسی پیپر میں اس ڈیٹا کو رپورٹ کرتے ہیں:

زوکی کے اوریجنل پیپر کا عکس ۔۔۔ ہائی لائیٹنگ کے لئے میری پیشگی معذرت

یعنی ہر ایک کہکشاں کی رفتار کوئی چھ ہزار کلومیٹر فی سیکینڈ سے بھی زیادہ تھی۔ ایک لمحے کے لئے وقفہ لیں اور کہکشاؤں کی حرکت کی اس رفتار کا ذرا تصور کریں میں تو جب سوچتا ہوں تو ششدر رہ جاتا ہوں۔

وئیریل تھیورم (Virial theorem)

ایڈون ہبل سمیت اُس زمانے کے اور ماہرین فلکیات نے بھی یہ نوٹ کیا تھا کہ دور دراز کی کہکشاؤں کے جھرمٹوں کی کہکشائیں متوقعہ رفتار سے کہیں زیادہ رفتار پر حرکت کررہی ہیں لیکن زوکی صاحب کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی دفعہ اس کو باقاعدہ ریاضیاتی بُنیادوں پر نہ صرف سمجھا بلکہ نئے ملنے والے ڈیٹا کی وضاحت کے لئے ایک نیا مفروضہ بھی پیش کیا۔

تھرمو ڈائینامیکس کا ایک تھیورم ہے جس کو یار لوگ وئیریل تھیورم کہتے ہیں یہ ایک ایسے سسٹم کے لئے ہے جو ایک توازن کی حالت اختیار کرچُکا ہوں اور اس میں بہت سارے (یعنی N) اجسام ہوں اور یہ باہم ایک دوسرے سے کسی فاصلے (rk) پر ہوں اور ان کے مابین ایک فورس (Fk) ہو تو اس کے مطابق اس پورے سسٹم کی ایک لمبے وقفے تک لی گئی کُل اوسط اینرجی یوں ہوگی:

وائیرل تھیورم کا ریاضیاتی فارمولا

یہ فارمولا فلکیات میں بہت ہی اہم فارمولا ہے، اس سے ایک اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم کسی بھی جسم کی اوسط رفتار اس فارمولے سے نکال سکتے ہیں جو کچھ یوں بنتی ہے:

v² = 6/5 (GM/R)

اب زوکی صاحب نے سب سے پہلے کوما کلسٹر کی کہکشاؤں کا مُشاہدہ کردہ رفتار کو نظری طور پر سمجھنے کے لئے فرض کیا کہ یہ کہکشاؤں کا جھرمٹ ایک متوازن سسٹم ہے جس میں ہر کہکشاں ایک جسم ہے اس طرح سے کہ اس پر وئیریل تھیورم کا اطلاق ہوسکے اور ساتھ ہی فرض کر لیا کہ ہر کہکشاں کا ماس لگ بھگ ایک بلین شمسی ماس (یعنی 10⁹ سورجوں کے برابر)ہے اور فاصلہ ایک ملین نوری برس (یعنی 10²⁴ سینٹی میٹر) ہو تو جو کیلکولیشن انہوں نے اپنے اس شہرہ آفاق پیپر میں رپورٹ کی وہ کچھ یوں تھی:

زوکی صاحب کی کیلکولیشنز

یعنی معلوم شُدہ ماس سے وئرئیل تھیورم کے استعمال سے نظریاتی نتائیج ہمیں ان کہکشاؤں کی رفتار 80 کلومیٹر فی سیکینڈ کا بتا رہے ہیں جو مُشاہدہ کردہ نتائیج سے بہت ہی کم تھی۔ اور یہی بہت بڑا مسئلہ ہے یہاں۔

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

اب یہاں پر زوکی صاحب کا نابغہء روزگار (جینئیس) ہونا سامنے آتا ہے۔ زوکی صاحب تاڑ گئے کہ ماس کا اندازہ تھوڑا بہت تو غلط ہوسکتا ہے اتنا نہیں کہ کہکشاؤں کی رفتاروں میں ہزار ہا کلومیٹر کا فرق پڑجائے اس پر آپ نے ایک مفروضہ قائیم کیا انہیں کے الفاظ:

زوکی ڈارک میٹر کا بتاتے ہیں

یعنی کہ ریڈ شفٹ سے حاصل ہونے والی ہزاروں کلومیٹر فی سیکینڈ کی رفتار کی وضاحت تبھی ممکن ہے کہ روشن و تاباں مادے کی نسبت ڈارک میٹر چار سو گُنا زیادہ ہو۔

اُس دور میں اپنے اس خیال کی وجہ سے زوکی صاحب لوگوں کے تمسخر کا نشانہ بنا کرتے تھے، لوگ اس کو ڈارک میٹر کہنے کے بجائے ”گُم شُدہ مادہ“ (The missing matter) کہتے اور ساتھ ہی اشارے سے زوکی صاحب کے سر کی طرف اشارہ بھی کرتے جس سے مُراد ہوتی کہ اصل میں جو چیز گم یا غائیب ہے وہ کوئی مادے کی انوکھی قسم نہیں بلکہ ان حضرت کے سر میں دماغ ہی غائیب ہے جس پر زوکی اپنے ناقدین ”کروی حرامی“ جیسے مُطاہرات سے پُکارا کرتے تھے۔

وہی چشمہء بقا تھا جسے سب سراب سمجھے

زوکی صاحب نے ہی کہکشاؤں کا ماس معلوم کرنے کے ایک طریقہ یہ بھی بتایا کہ آئین شٹائین کے عمومی اضافیت سے کہکشاں ایک عدسے کی صورت روشنی کو خم کردے گی اس خم کا جو زوایہ بنتا ہے اس کو نیوٹن کے نظریات سے بھی اخذ کیا جاسکتا جو عمومی نظریہ سے معلوم کردہ زاویہ سے آدھا آتا ہے۔ بہرحال عمومی اضافیت کے مطابق یہ زاویہ یوں بنتا ہے:

روشنی کے خم کے زاوئے کا عمومی اضافیت کے مطابق فارمولا

اب بعد میں کئے گئے مُشاہدات سے یہ زوایہ ماپا گیا اوراس سے جو ماس معلوم کیا گیا وہ ماس وئیریل تھیورم سے معلوم کردہ ماس سے کئی سو گُنا زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ اب تو کئی اور مُشاہداتی ثبوت بھی موجود ہیں کہ کوئی مادے کی ایسی قسم ہے جو گریوٹی تو رکھتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ آج کی سائینس اس ڈارک میٹر کی تلاش میں دن رات سرگرداں ہے اور یہ آج کل تحقیق کا ایک اہم ترین موضوع بھی ہے۔

میری رائے میں ہماری زندگی میں ہی ڈارک میٹرکے تجرباتی شواہد مل جائیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میں سن دو ہزار سے یہ سُنتا آرہا ہوں کہ اگلے دو سال میں ڈارک میٹر کا تجرباتی ثبوت مل جائیگا۔ لیکن جیسے اُردو کے مشہور شاعر غالب آخری عمر میں ہر سال اپنی سن وفات ایک نئے شعر سے نکالا کرتے تھے اور جب اُس سال فوت نہ ہوتے تو پھر ایک نئی تاریخ وفات کی پیشین گوئی کر دیا کرتے تھے ویسے ہی یہ صاحبان بھی متوقعہ تجرباتی ثبوت کے سال کو ہر سال آگے بڑھاتے جاتے ہیں۔ مذاق برطرف لیکن یہ ایک بیحد مُشکل کام ہے کہ آپ تجربہ گاہوں میں ڈارک میٹر کو ثابت کریں۔

زوکی صاحب نے جو مدتوں لوگوں کے بے جاتمسخر اور طنز کا سامنا کیا اب اپنی قبر میں بیٹھے ہنس رہے ہوں گے کہ ”کروی حرامئیوں اب بتاؤ“ اس پر فیض صاحب کا ایک شعر یاد آگیا

وہی چشمہء بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے

ڈارک میٹر کی اصطلاح

میری رائے میں یہ بہت ہی غلط اصلاح ہے اور اس کو اُردو میں ”تاریک مادہ“ کہنا تو اور بھی غلط لگتا ہے۔ اس میں مُشکل یہ ہے کہ یہ میٹر ڈارک یا تاریک سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ غیر مرئی (invisble) ہے۔ کوئی چیز تاریک تب ہوتی ہے جب وہ ساری روشنی جذب کرلے اور کچھ خارج نہ کرے جبکہ ڈارک میٹر دراصل الیکٹرومیگنٹیک شعاعوں کے ساتھ تعامل ہی نہیں کرتا۔

یہ ایک اہم بات ہے اس لئے اس کو سمجھتے ہیں۔ روشنی الیکٹرومیگنٹیک شعاعوں سے بنتی ہے اس لئے جب ڈارک میٹر الیکٹرومیگنٹیک سےکوئی تعامل ہی نہیں کرتا تو اس کو جذب نہیں کرسکتا اس لئے آپ بے شک اُنیس کروڑ سورجوں کی روشنی ڈارک میٹر پر ڈالیں تو وہ اس میں سے ایسے گذر جائے گی کہ گویا اس کے سامنے خلاء ہو۔ اس لئے ڈارک میٹر کو ڈارک یا تاریک کہنا درست نہیں زیادہ درست غیر مرئی مادہ ہے۔ لیکن اگر کہنا ہی ہے تو یہ ذہن میں رکھئے کہ یہ نظر نہ آنے والا مادہ ہے جو محض گریوٹی رکھتا ہے اور اس کے علاوہ کسی قسم کا کوئی تعامل نہیں رکھتا۔

اب بات اس سے بھی آگے کی ہے یہ دُنیا قائیم ہی الیکٹرومیگنٹیک فورس کی وجہ سے ہے۔ امر واقعہ ہے کہ الیکٹرومیگنٹیک فورس گریوٹی سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے ۔ آپ کے ہمسائیے کے درخت پر لگا شہتوت کا پھل شاخ سے اس لئے لٹکا ہوا ہے کہ اس کی شاخوں میں موجود ایٹموں کے الیکٹران باہم ایسا بانڈ بناتے ہیں جو گریوٹی کی نحیف فورس توڑ نہیں سکتی۔ ایسے ہی جب فاسٹ باؤلر ہوا میں اُچھل کر طوفانی رفتار سے بال زمین پر پٹختا ہے تو یہ الیکٹرومیگنٹیک فورس ہی کی وجہ سے زمین میں دھنسنے کی بجائے باؤنسر کی صورت میں اچھل کر بیٹسمین کے رنگ اُڑا دیتی ہے۔ اگر ڈارک میٹر کی بنی کرکٹ کی بال پیچ پر ماری جائے تو وہ پیچ میں سے ہوتی زمین کے مرکز سے گزرتی دوسری طرف آسٹریلیا سے نکلتی خلاء میں جائیگی اور گریوٹی کی وجہ سے زمین کے گرد گردش کرنے لگی گی اور ہر روز سیٹلائیٹوں کے ساتھ ٹکرائے گی اور کسی بھی قسم کا کوئی نقصان کئے بغیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محو گردش رہے گی۔

ڈارک میٹر کہاں پر ہوتا ہے

میری مصورانہ صلاحیتوں پر پیشیگی معذرت قبول کیجئے لیکن یہ سمجھنے کے لئے کہ ڈارک میٹر کہکشاؤں میں ہوتا کہاں ہے یہ تصویر دیکھئے اس میں سفید حصہ جو کہکشاں کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے یہ ڈارک میٹر ہے جو کہکشاں کے ارد گرد ایک حالے (Halo) کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔

ڈارک میٹر کا حالہ

حرف آخر - چند غلط فہمیوں کا ازالہ

موجودہ اندازے کے مطابق کُل کائینات کے تمام مادے کا 95 فیصد ڈارک میٹر ہے اور باقی کا 5 فیصد عام مادہ ہے جس کو یار لوگ بیری آنک میٹر کہتے ہیں۔ اب اس شماریاتی ڈیٹا نے سوشل میڈیا پر موجود فلسفی ٹائیپ لوگوں کو پاگل کیا ہوا ہے میں نے ایسے مضامین بھی پڑہیں ہیں کہ ”ہم کائینات کا صرف 5 فی صد ہی جانتے ہیں“ صاحبو مادے کی مقدار کا ڈارک میٹر سے بہت کم ہونے کامطلب ہمارے علم کی سرحدوں کا تعین تو نہیں کرتا ناں ؟ یہ بھی تو ہم نے ہی معلوم کیا ہے کہ ڈارک میٹر وجود رکھتا ہے اور ہمیں اس کے متعلق بہت کم معلوم ہے۔

ہمارے اکثر لوگ غلط سمجھتے ہیں کہ سورج اور ستارے ہماری کہکشاں کے گرد اس کے مرکزی بلیک ہول کی وجہ سے گردش کرتے ہیں۔ یہ مرکز کے بہت قریب ترین ستاروں کے لئے شاید درست ہے لیکن سورج کی رفتار اسقدر زیادہ ہے کہ پچیس ہزار نوری برس کے فاصلے سے یہ بلیک ہول اس رفتار میں سورج کو کہکشاں میں رکھ ہی نہیں سکتا۔ ستارے کہکشاں میں بہت زیادہ رفتار سے حرکت کرتے ہیں ان کو کہکشاؤں میں قائیم رکھنے کے لئے بہت زیادہ اور مادہ درکار ہے جو صرف اس ڈارک میٹر کی ہی صورت میں ممکن ہے جس کے بارے میں ابھی سائینس نے بہت کچھ جاننا ہے۔

اس مضمون میں میں نے WIMPS اور MACHO وغیرہ کا ذکر طوالت سے بچنے کے لئے قصداً نہیں کیا۔ یہ دو ناکام کوششیں تھی ڈارک میٹر کی ہیئت کو سمجھنے کے لئے۔

حوالہ جات:

اس مضمون کی تیاری میں ان دو ذرائیع سے بہت زیادہ مدد لی گئی۔

۱۔ فرٹز زوکی کا اوریجنل پیپر
۲۔ وائیریل تھیورم

جرار جعفری

چار مئی سن ۲۰۱۹

لائک کریں

مزید ردعمل دکھائیں

کمنٹ کریں

شیئر کریں

‏گوتم نیلمبر‏ اور ‏‏31‏ دیگر‏

‏28‏ شیئر

Usman Sakraan Khan

F

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

Tanveer Ahmed

Bot khobsorat tehreer

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

Arisha But

سر بہت بہترین تحریر۔ آپ نے بہت اچھے سے سمجھایا۔

1

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

شفقت عابد کلاچی

بہت اعلی سر۔۔۔۔
مجرم زیر زمین چلے گئے۔۔۔۔آج اس بات کی بھی سمجھ آگئی۔

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

Salman Raza Asghar

لگتا ہے کافی بار پٍڑھنا پڑے گا مجھے اسے👴

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

‏‎Salman Raza As...‎‏ نے جواب دیا · ‏2‏ جوابات

Muhammad Talha

"خالی خلا" کی اصطلاح کی وضاحت کرئیے گا ۔

خلا کا مطلب ہی یہی نہیں ہوتا کہ اس میں کچھ اور موجود نہیں ہوتا .....!!

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

‏‎Jarrar Jafri‎‏ نے جواب دیا · ‏2‏ جوابات

Nadeem Khohara

بہت خوب لکھا ہے جرار بھائی۔۔گو کہ غیر مرئی مادے کی اصطلاح بالکل درست ہے۔ لیکن انگریزی میں Dark Matter اور اردو میں تاریک مادے کی اصطلاحیں چونکہ اب مستعمل ہو چکی ہیں۔ اس لیے اب انہیں تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔
آپ کی اس پرمغز تحریر کو مکمل طور پر غور سے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اول تو ہر دور میں نئے اور اچھوتے خیالات پیش کرنے والوں کو خبطی کہ کر ہی پکارا جاتا ہے خواہ بعد میں یہ خیالات درست ہی ثابت کیوں نا ہو جائیں۔ دوئم یہ خبطی خیال ذہن میں آتا ہے کہ اس سارے مدعے کی بنیاد کہکشاؤں کی تیز رفتاری پر ہے۔ اور اس میں بھی "ریڈ شفٹ" پر زیادہ انحصار ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جگہ ہم کوئی غلطی کر رہے ہوں؟ 
واضح رہے یہ بات لکھتے دوران میں روشنی کی اس "سرخ منتقلی" کے حوالے سے جانتا ہوں اور اس کے زمینی حقائق کو بھی تسلیم کرتا ہوں۔ لیکن بات ذرا کائناتی پیمانے کی ہے۔ روشنی کی خصوصیات کی ہے۔ وائریل تھیورم میں بھی بہت سے مفروضات ہیں۔ بہرحال چونکہ اپنی اس خیال آرائی پر خود ہی کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ۔۔۔ دل بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے۔

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

Muhammad Saleem

واہ کیا کہنے۔ وہ ہی عمدہ انداز بیاں اور سہل الفاظ میں مشکل ترین اصلاحات سمجھا دینے کی صلاحیت۔ بہت خوب سر، سلامت رہیں

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

Amna Alam

اگر یہ تاریک مادّہ ایساہی ہے کہ روشنی آر پار گزر جاتی ہے تو پھر تو یہ شفاف مادّہ ہوا
اسے تاریک کے بجائے شفاف مادّے کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا!!!

‏6‏ ماہلائک کریںجواب دیںمزید

‏‎Amna Alam‎‏ نے جواب دیا · ‏7‏ جوابات

Summer Abbas

تاریک مادہ کسی بھی قسم کی الیکٹرومیگنیٹک ویو سے تعامل
نہیں کرتا .. یہ محض عام مادے پر ثقلی اثرات کی بنا پر پہچانا جاتا ہے... 
اب چند سادہ سے سوالات پیدا ہوتے ہیں..
کیا ہم نے کائنات میں ڈارک میڑ کو عام مادے سے الگ یعنی کہکشاوں سے الگ بھی کہیں دیکھ پائے یعنی تاریک مادے کہ اثرات کو محسوس کر پائے ہیں ؟

اگر تاریک مادہ اپنی کشش ثقل رکھتا ہے جو کہ یقینا رکھتا ہے تو کیا اس سے پیدا ہونے والے ثقلی عدسے کا مشاہدہ بھی کہیں معیسر ہے.؟
Jarrar Jafri

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری