عرفان 4
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلَْمُتَّقِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَ مُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَo
ابتدائے آفرنیش سے لے کر آج تک خدائے تعالیٰ کی نسبت اقوامِ عالم کے ایک عام اور عالم گیر عقیدے کی طرف جب ہم خیال کرتے ہیں تو ہمیں خواہ مخواہ ماننا پڑتا ہے کہ انسان اپنے خالقِ حقیقی کی اس پوشیدہ اورمخفی ذات کے ساتھ ایک غیب الغیب باطنی رشتے کے ذریعے وابستہ اور مربوط ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ روشن خیال سائنسدان اور فلسفی سے لے کر ایک سادہ لوح بادیہ نشین و حشی تک تمام اعلیٰ اور ادنےٰ طبقے کے انسان اس ذاتِ مقدس کی ایک اعلیٰ اوربر تر ہستی، کمال، جلال اور جمال والی ذات اورصاحبِ قدرت و حکمت پاک وجود کے متعلق متفق الرّائے ہیں۔ سب کے دل پر اس کے نام کا سکّہ بیٹھا ہوا ہے اور ہر دماغ میں اُس کی یاد طوعاً و کر ہاً موجود ہے۔ گویا انسان کی مٹی اُس کی یاد اور ذکر کے آ بِ حیات سے گوندھی گئی ہے اور اُس کی طینت اور جبلت اپنے خالق کے نام سے مخمرہے۔ واقعی آدم علیہ السّلام کی مٹی کو ازل کے روز اِسم اللہ ذات کی شرابِ ناب سے گوندھا گیا ہے جس کی مستی سے ہر دل مخمور ہے اور جس کے نشے سے ہر دماغ معمور ہے۔
۱۔دوش ۱ دیدم کہ ملائک درمیخانہ زدند
گل آدم بسر شتندہ و پیمانہ زدند
۲۔آسماں بارِ امانت نتوا نست کشید
قرعۂ فال بنامِ من دیوانہ زدند
(حافظؔ )
ترجمہ۔ ۱۔ کل میں نے فرشتوں کو میخانہ کھولتے ہوئے دیکھا جنھوں نے آدم کی مٹی کو گوندھ کر اس سے پیمانہ بنایا۔
۲۔ امانت کے بوجھ کو آسمان بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ لیکن قرعۂ فال مجھ دیوانے کے نام ڈال دیا گیا۔
جس فاضل فلسفی نے انسان کو ’’متلاش�ئ حق‘‘ کاخطاب دیا ہے واقعی اُس کا مبلغِ علم انسانی حقیقت کو پوری طرح پاچکا ہے۔ اور کسی شاعر۱کا یہ مقُولہ ’’عدم سے جانبِ ہستی تلاشِ یار میں آئے‘‘ بالکل صحیح ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ واجب الوجود کی ہستی کا عقیدہ اس قدر عام، فطرتی اور عالمگیر ہے کہ اس عقیدے کے منکر کو اگر ایک قسم کا خبطی اور جنونی کہا جاوے تو بے جا نہ ہوگا۔ زمین و آسمان کی یہ لا محدود عجیب و غریب صنعت اپنے صانعِ حقیقی کا پورا پورا پتہ دے رہی ہے۔ کائناتِ عالم کا یہ منظم کارخانہ اپنے ازلی کاریگر کو پکار پکار کر بتارہا ہے۔ جب ہم اس کارخانۂ کائنات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کے تمام اصولوں کو کمال علم اور حکمت پر مبنی پاتے ہیں۔ دنیا کی اس عظیم الشان مشینری کا پرزہ پرزہ ایک غالب قوت اور ایک زبردست حکمت کے مطابق چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ ٹھوس اور بے حِس جامد احجار کا ہر ذرّہ قدرت کے ایک نہایت کارآمد اورمنظم قانون کے موافق قائم ہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل رہا ہے اور بے جان اشجار کا ہر پتہ فطرت کے ایک محکم امر کے مطابق ہِل رہا ہے۔ قدرت کے اس بے قصُور نظم و نسق اور فطرت کے اس بے فتور فیضان کو دیکھ کر ہر دانا دل اس حکیم اور علیم ذاتِ والا صفات کے ماننے پر مجبور ہے اور ہر بِینا آنکھ اُس صانعِ حقیقی کے جمالِ لازوال سے مسحور ہے ۔
برگِ درختانِ۲ سبز در نظرِ ہوشیار
ہرورقے دفتر یست معرفتِ کردگار
(سعدیؔ )
اللہ تعالیٰ کی اس عجیب و غریب صنعت میں اس قدر حیرت انگیز نظم و نسق اور بے عیب تسلسل کو دیکھ کر انسانی عقل کمال حیرت و اِستعجاب میں کھو جاتی ہے اور فہم و قیاس عاجز اور دنگ رہ جاتے ہیں۔ کہیں ذرّہ برابر غلطی معلوم نہیں ہوتی۔ کہیں بدنظمی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ ایک لمحہ کے لیے بھی تربیت اور نگہبانی سے غفلت اور تساہل واقع نہیں ہوتا۔ کس قدر مکمل اور محکم انتظام ہے، کتنا قوی اور زبردست اہتمام ہے۔ دیکھنے والی آنکھ نہیں ورنہ اس چلمن میں سے وہ صانعِ حقیقی جھانک رہا ہے۔ دانا اور شنوا دل نہیں ورنہ وہ ذات بے ہمتانقابِ کثرت اُٹھا اُٹھا کر توحید کے نغمے سُنارہا ہے۔
۱۔ یاریست۱ مرا ورائے پردہ
حُسنِ رُخِ او سزائے پردہ
۲۔ عالم ہمہ پردۂ مصور
اشیا ہمہ نقش ہائے پردہ
۳۔ اِیں پردہ مرا زِ تو جُدا کرد
اِینست خود اِقتضائے پردہ
۴۔ گویئ کہ میانِ ما جُدائی
ہرگز نکند غِطائے پردہ
ایک دفعہ ایک اُونٹوں کے چرانے والے جنگل کے بادیہ نشین سے کسی شخص نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کی بابت سوال کیا کہ تواللہ تعالیٰ کو کس طرح پہچانتا ہے تو اس نے کیا عُمدہ جواب دیا کہ اَلْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِوَلْاَقْدَامُ عَلَی الْمَسِیْرِ فَالسَّمَآءُ ذَاتُ اَبْرَاجٍ وَّالْاَرْضُ ذَاتُ فِجَاجٍٍ کَیْفَ لَایَدُلَّ�آنِ عَلَی الصَّانِعِ اللَّطِیْفِ الْخَبِیْرِ۔ یعنی جنگل میں اونٹ کا گوبر اُونٹ کے وجود پر دلالت کرتا ہے اور زمین پر قدموں کے نشانات سے کسی چلنے واے کا پتہ لگتا ہے۔ تو کیا یہ زمین و آسمان اپنے خالق اور صانع حق سبحان کا پتہ نہیں دیتے۔
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی
(مومنؔ )
اس سلسلۂ آب و گِل کا ذرّہ ذرّہ اس آفتابِ عالم تاب کے انوار سے زندہ اور تابندہ ہے اور اس کائنات کا آئینۂ حق نماء اُس کے عکسِ انوارِ جلال و جمال سے درخشندہ ہے۔ تمام اہلِ بصارت بینایانِ زمان اور جملہ اہلِ بصیرت و دانایانِ جہان اور کُل راست باز منصف مزاج، سلیم العقل صادق انسان اُس ذاتِ مقدّس یعنی اُس قادرِ حق سبحان کے واحد پاک وجود کے ثنا خوان اور اس کی کمال حکمت اور قدرت کے مدّاح ہیں۔ شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَلاوَالْمَآٰءِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآءِمًام بِاالْقِسْطِط لَآ اِلٰہَ اِلَّاھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُoط اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ قف (اٰلِ عمرٰن۳:۱۸۔۱۹) ترجمہ:’’ گواہی دیتا ہے اللہ تعالیٰ کہ تحقیق اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اورتمام فرشتے اور جُملہ اہلِ علم اس شہادت کی صداقت پر قائم ہیں کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے اور وہ زبردست حکمت والا ہے۔ تحقیق سچا دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک دینِ اسلام ہے۔‘‘ ایک کور چشم، تاریکی پسند، اُلّو منش مُلحِد کا انکار کس حساب میں ہے۔ اور ایک ظلمت گزین چمگادڑ مثال بے دین کی ہٹ دھرمی اورکفر کی کیا حقیقت
گر نہ بِیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گُناہ
(سعدیؔ )
ترجمہ: اگر دن کے وقت چمگادڑ کچھ نہ دیکھ سکے تو اس میں چشمۂ آفتاب کا کیا قصورہے۔
حالیؔ مرحوم نے کیا اچھا کہا ہے
کانٹا ہے ہر اِک جگر میں اٹکا تیرا
حلقہ ہے ہر اِک گوش میں اٹکا تیرا
مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا ہے ضرور
بھٹکے ہوئے دل میں بھی ہے کھٹکا تیرا
ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا
آتش پہ مغاں نے راگ گایا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے
انکار کسی سے بن نہ آیا تیرا
طوفاں میں ہے جبکہ جہاز چکّر کھاتا
یاقافلہ وادی میں ہے سر ٹکراتا
اسباب کا آسرا جب کہ ہے اُٹھ جاتا
واں تیرے سوا کوئی نہیں یاد آتا
جب لیتے ہیں گھیر تیری قدرت کے ظہور
منکر بھی پکار اُٹھتے ہیں تجھ کو مجبور
خفاش کو ظلمت کی نہ سوجھی کوئی راہ
خورشید کاشش جہت میں پایا جب نور
جب مایوسی دلوں پہ چھا جاتی ہے
دُشمن سے بھی نام تِرا جپواتی ہے
ممکن ہے کہ سُکھ میں بھول جائیں اطفال
لیکن اُنہیں دُکھ میں ماں ہی یاد آتی ہے
ملاحدۂ دہر یعنی نیچریوں کو کارخانۂ کائنات چلانے کے لیے ایک عِلت العلل اور فعالِ کُل طاقت کے ماننے کے سوا چارہ نہیں۔ لیکن یہ کسی طرح بھی قرین قیاس نہیں کہ مکوّنِ کائنات اور خالقِ موجودات ایک بے جان مادہ، بے حِس نیچر اور بے ادراک و بے شعور ہیولےٰ ہو۔ ایسے منظم ، باقاعدہ اور علمِ و حکمت پر مبنی کارخانۂ قدرت کو چلانے والی ذات کو حیات، قدرت، ارادہ، علم، سمع، بصر اور کلام وغیرہ صفاتِ ذاتی سے متصِف ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ بے جان ہیولیٰ، بے حِس ایتھر اور بے شعور مادے کا یہ کام ہرگز نہیں ہوسکتا۔ نیچریوں اور دہریوں کو بے وقوفوں کی ایک الگ آبادی اور بستی بسانی چاہیے اور کسی بے حس، بے جاں، بیوقوف و بے شعور دہریہ آدمی کو اُس آبادی کا مختار، کارکن اور منتظم مقرر کرکے دیکھ لینا چاہیے کہ وہ بستی تھوڑے دنوں میں کس طرح پھولتی پھلتی اور ترقی کرتی ہے۔ یا کسی پاگل خانے میں جاکر بے شعوری کا تھوڑا سا نظارہ کرلینا چاہیے کہ وہاں بے شعوری کیا گُل کھلا رہی ہے۔ اگر ایک لحظہ کے لیے بھی اس پر سے ذی شعور اور صاحبِ عقل انسانوں کی نگرانی اور حفاظت اٹھادی جائے تو دیکھیے کیا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام کارخانوں، فرموں اور مشینوں کو دیکھو، اور حکومت اور سلطنت کے جملہ محکموں اور شعبوں پر غور کرو۔ غرض اس آباد دنیا کی کسی شے ، کسی کام اور شعبے پر دھیان کرو۔ سب کے سب علم، شعور ، قدرت اور حکمت وغیرہ صفات کے زیرِاثرمرتب اور تیار ہوئے ہوں گے اور انہی صفات کی حفاظت اور نگرانی میں چل رہے ہوں گے۔ جُز سے کُل کا قیاس کیا جاتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کائناتِ عالم کا یہ عظیم الشان کارخانہ جس کے ایک گوشے میں آفتاب چراغ کی طرح جل رہا ہے اور جس کا ہر پرزہ علم اور حکمت سے چل رہا ہے اس کے ہر معمولی جُز پر تو ذی عقل و ہوش اور صاحبِ علم و حکمت ملازم، مؤکل مسلط ہوں لیکن یہ کل کارخانۂ کائنات بدیں عظمت و وسعت بغیر کاریگر اور نگران کے خودبخود قائم اور چل رہا ہو۔
حضرت امام اعظمؒ نے ایک دہری کو دورانِ مناظرہ میں اس ایک ہی دلیل سے ساکت اور لاجواب کردیا تھا۔ چنانچہ آپؒ نے فرمایا کہ ’’ اگر فرض کرو ایک بڑی جھیل ہو اور اس میں ایک کشتی چھوڑ دی جائے تو کیا وہ خود بخود بغیر کسی چلانے والے کے ایک مقررہ وقت پر ایک مخصوص مقام پر آیا کرے گی۔‘‘ تو اُس دہری نے کہا کہ یہ ہرگز ممکن نہیں اس پر آپ ؒ نے فرمایاکہ فضائے آسمانی کی اس بڑی وسیع نیلگوں جھیل میں سُورج اور چاند کیوں کر بغیر چلانے والے کے ابتداء سے آج تک روز مرہ وقتِ مقررہ پر ایک متعین مقام سے نکل کر ایک خاص مُستقَر اور مخصوص مقام پر جاکر غروب ہوتے ہیں۔ کَمَاقَالَ عَزَّذِکْرُہٗ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُالْعَزِیْزِالْعَلِیْمِo ط وَالْقَمَرَقَدَّرْنٰہُ مَناَزِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِo لَاالشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَوَلَاالَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِط وَکُلّ’‘ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَo (یٰسٓ۳۶:۳۸۔۴۰)۔ ترجمہ:’’اور دیکھو کہ سورج ایک خاص مستقَراور معین راستے پر چل رہا ہے۔ یہ تو خدائے غالب اور دانا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے اور اسی طرح چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ وہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ تو سورج سے ہوسکتا ہے کہ اپنی دوڑ میں چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب مقررہ دائرے اور اندازے میں پھررہے ہیں۔‘‘ سو حضرت امام اعظم صاحبؒ کی اس مسکت دلیل سے دہری نادم اور تائب ہوگیا۔
دہریوں کا یہ کہنا کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ مذہب نے خدا کو ایک ذاتِ واحد قرار دے کر اُس کی عظمت اور وسعت کو محدود کردیا ہے۔ اس کے بجائے مادے اور نیچر کا مفہوم زیادہ وسیع معنی کا حامل ہے ۔ ان نادانوں نے اللہ تعالیٰ کی بے مثل و بے مثال اور لم یزل و لایزال مقدس غیرمخلوق ذات کو اپنی ہیچ مداں اور ہیچ میرزناتواں خاکی جان پر قیاس کرلیا ہے کہ جسے نہ اپنی جان کی سمجھ ہے اور نہ اپنے گھر اور مکان کی خبر ہے اور نہ اپنے کنبے اور خاندان کی آگاہی رہتی ہے۔ اسلامی خدا کی عظیم الشان ہستی تو ان کی کوتاہ مادی عقل اور فہم سے بہت بالا تر ایک ایسی لا محدود محیطِ کل منزہ اور مقدّس ہستی ہے کہ وہاں اسم اور رسم ، وصف و لغت، ظہور و بطون، کلیت و جزئیت اور عمومیت و خصوصیت وغیرہ اِعتبارات اوراشارات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ وہ جملہ اِعتبارات و تعینات و اضافات سے بالکل پاک ہے بلکہ قیدو اطلاق اور تعین سے بھی مبرّا اور منزّہ ہے۔ وہاں مردہ مادے اور ناچیز نیچر کی کیا حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک ہی صفتِ علم نے تمام مکان اور زمان کو احاطہ کیا ہوا ہے اور تمام عالمِ غیب و الشہادت کو گھیرا ہوا ہے۔ ھُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُوَالظَّاھِرُوَالْبَاطِنُج وَھُوَبِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم’‘O (الحدید۵۷:۳)۔ قولہٗ تعالیٰ: وَاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًاo (الطلاق ۶۵:۱۲) ۔ترجمہ:’’ ایسا اوّل ہے کہ اس سے پہلے کوئی نہیں، اور وہ ایسا آخرہے کہ اس کے بعد کوئی نہیں۔ وہ ظاہر ہے کہ اس کے اوپر کچھ نہیں، اور وہ باطن ہے کہ اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں اور ہر چیز پر وہ ازرُوئے علم محیط ہے۔‘‘ بلکہ ہم اپنے علم اور تجربے کی بنا پر یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خاص مقبول بندوں پر جب اللہ تعالیٰ کی اس صفتِ علم کی تجلی ہوتی ہے تو وہ کُل مادہ اور نیچر یعنی کُل مخلوقات اور ہژدہ ہزار عالم کا نظارہ ہاتھ کی ہتھیلی اور انگوٹھے کے ناخن پر کرتے رہتے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کی پاک منزہ اور مقدس ذات تو وراء الورا ثم وراء الورا ہے۔ مَالِلتُّرَابِ وَرَبِّ الْاَرْبَابِ (مقولہ)۔
اے برتراز قیاس ۱ و خیال و گمان و وہم
وزہرچہ گفتہ اندوشنیدیم و خواندہ ایم
دفترتمام گشت و بپایاں رسید عُمر
ماہمچناں در اوّلِ و صفِ توماندہ ایم
(سعدیؔ )
سخت سے سخت مُلحِد، بے دین بھی اگر اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اور کسی وقت انصاف کی عینک چڑھاکر اپنے ضمیر کی طرف جھانکے اور غور و فکر کرے کہ جب میں ایک بولتا چالتا، دیکھتا بھالتا اور سوچتا سمجھتا مخلوق موجود ہوں تو ایک واجب الوجود خالقِ کُل ہستی کیوں موجود نہیں۔ تعجب ہے کہ ذرّۂ بے مقدار کو اپنی ہستی کا تو اقرار ہے لیکن اُس آفتابِ عالمتاب کی نفی اور انکار ہے۔ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ سیاست کے جنون، حرص اور طمع، دنیا کے مالیخولیا اور طلبِ عزّوجاہ کے جوء البقرنے انسان کو اندھا حیوان بنارکھا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر انسان کی اپنی ہستی سے بڑھ کر زبردست حجت اور قوی دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ کسی نے خوب کہا ہے
مری ہستی ہے خود شاہد وجودِ ذاتِ باری کی
دلیل ایسی ہے یہ جو عمر بھرردّ ہونہیں سکتی
چند روز بھی اگر کوئی سلیم العقل اور منصف مزاج شخص یکسوہوکر اپنے وجود میں غور اور تامل کرے گا تو وہ اپنے اندر اپنے خالق مالک کی معرفت کے آثار، اس کے قرب کے اسرار اور اس کے مشاہدے کے انوار صاف طور پر معلوم کرے گا۔ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفلَاَ تُبْصِرُوْنَo (الذّٰریٰت۵۱:۲۱) ترجمہ :’’وہ تمہارے نفسوں کے اندر ہے لیکن تم اسے نہیں دیکھتے۔‘‘ مَنْ عَرَفَ نَفْسُہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔ ترجمہ:’’ جس شخص نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔‘‘ نیز مُلحد بے دین لوگ اپنے اِلحاد کی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا نہ تو ہمیں کوئی وجود نظر آتا ہے، نہ اس کی ذات کی کُنہ اور حقیقت سمجھ میں آتی ہے، اور نہ اس کی کوئی صریح صفت اور نہ علانیہ فعل اور نہ ٹھوس عمل دنیا میں نظر آتا ہے تو ہم کیونکر جانیں اور یقین کریں کہ وہ موجود ہے۔ سو یاد رہے کہ کسی چیز کا سمجھ میں نہ آنا یا معلوم اور محسوس نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ عقلِ سلیم نے موجودات کا سلسلہ محسوسات اور معلومات تک محدود نہیں رکھا بلکہ جو کچھ بنی نوع انسان کو اپنی عملی اور ذہنی کدو کاوش کی بدولت آج تک معلوم اور محسوس ہوا ہے وہ نامعلوم غیبی کائنات کے ایک ناچیز ذرے سے بھی کم ہے
ذہن میں جو گھِر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
لاکھوں قسم کے جراثیم، ہزاروں طرح کی گیسیں اور بے شمار برقی لہریں اسی فضا میں موجود ہیں۔ لیکن ظاہری حوا س سے محسوس اور معلوم نہیں ہوتیں۔
یورپ میں ایک نیا مذہب سپرچولزم یعنی مذہبِ روحانی تقریباً ایک سو سال سے رائج ہے اور کروڑوں لوگ اس کے ماننے والے ہیں اور بے شمار لوگ ہر شہرکے اندر اس جدید علم کی سوسائٹیوں کے ممبرہیں۔ یہ لوگ اپنے حلقوں اور نشستوں میں ارواح کو حاضر کرتے ہیں، اُن سے بات چیت کرتے ہیں اور ان کے علانیہ فوٹو لیتے ہیں۔ اِن ارواح کے براہِ راست کلام کے ریکارڈ بھرے جاتے ہیں، بے شمار رسالے اور اخبار اس علم کی اشاعت میں لگے ہوئے ہیں جو لوگوں کو اس علم کی صحیح خبریں پہنچاتے ہیں۔ دن بدن اس علم میں ترقی ہورہی ہے۔ ملک کے بڑے بڑے سائنسدان اور روشن خیال فلسفی اور سربرآوردہ اشخاص حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے ممبر تک اس علم کی سوسائٹیوں میں حصہ لینے والے ہیں۔ حالانکہ آج سے سو سال پہلے تمام یورپ میں ایک شخص بھی موت کے بعد زیستِ ارواح اور ان کے وجود کا قائل نہ تھا لیکن آج وہاں ہر شخص عالمِ ارواح کے وجود اور ان کی حیات بعد ممات کا قائل اور ماننے والا ہے۔ کیونکہ وہ ہزاروں دفعہ اپنی آنکھوں سے ارواح کے مشاہدے اور تجربے کرچکے ہیں۔ یورپ کی مذکورہ بالا تحقیق اور تعلیم اُن ملحدوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو یہ رٹ لگایا کرتے ہیں کہ ’’ وہ مرنے والے اب کہاں گئے جو بقائے ارواح کے قائل اور تخاطبِ ارواح کے حامی تھے۔ وہ ہم زندہ منکرین کو آکر کیوں نہیں بتادیتے کہ ہم زندہ ہیں اور اس حقیقت کو بے نقاب کیوں نہیں کردیتے اور کیوں لا مذہبیت اور بے دینی کو جاری رہنے دیا ہے۔‘‘ سو مغرب میں تو مُردے جی کر اٹھ بیٹھے ہیں اور علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ہم زندہ ہیں اور وہاں مردوں اور زندوں کے درمیان پردہ چاک ہوگیا ہے لیکن مشرق والے ابھی تک الحاد اور دہریت کی ظلمت اور اندھیرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم آگے جاکر اس علم کی حقیقت اور اس کا مفصّل حال بیان کریں گے۔ غرض یہ ضروری نہیں کہ ہر وہ چیز جو ہمیں حواسِ خمسہ کے ذریعے محسوس اور معلوم نہیں ہوتی وہ موجود بھی نہیں ہے۔ بیشمار جنّ، ملائکہ اور ارواح ہمارے اردگرد دن رات پھرتے ہیں اور لاتعداد لطیف چیزیں ہماری اس فضا میں موجود ہیں۔ ایسی باطنی چیزوں کا انکار خود منکرین اور ظاہربین لوگوں کے باطنی حواس کے فقدان کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی وسیع عظیم الشان منزہ ذات، جملہ پاک صفات، کل اسماء اور تمام افعال کے ساتھ کائنات کے ذرّے ذرّے میں جلوہ گر ہے اور انسان کی شاہ رگ بلکہ اس کی جان سے بھی نزدیک تر ہے لیکن غافل اندھے عوام کالانعام کیا دیکھیں۔ سورج تمام جہان کو روشن کررہا ہوتاہے اور اندھوں کے ماتھوں کو جلاتا ہے لیکن اندھے سورج کے وجود سے اندھیرے میں رہتے ہیں
آنکھ والا ترے جوبن کا تماشہ دیکھے
دِیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
(داغ ؔ دہلوی)
اب صرف یہ اعتراض باقی رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بعض پر تو ظاہر کردی ہیں اور بعض سے مخفی کیوں رکھی ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمائش اور امتحان کے لیے پیدا کیا ہے اور ازل کے دن ارواح کو اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط (الاعراف۷:۱۷۲) (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں)کے مجمل سوال یعنی اپنے اظہارِ ربوبیت کے اورل (ORAL) زبانی امتحان میں آزمایا اور ان سے اقرارِ عبودیت لیا۔ چنانچہ ازل کے روز سب ارواح نے متفقہ طور پر ’’بَلٰی‘‘ (الاعراف۷:۱۷۲) یعنی اثبات میں جواب دیا کہ بے شک تو ہمارا رب ہے۔ بعدہٗ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے کمرۂ امتحان میں داخل کرکے ان سے اپنی ربوبیت اور توحید کے مشکل اور لاینحل تحریری جوابات مادے کے کثیف پرچوں پر طلب کیے۔ جنہیں کراماً کاتبین فرشتے روزانہ صبح اور شام لپیٹ لپیٹ کر اپنی فائل اور ریکارڈ میں شامل کرتے جاتے ہیں اور قیامت کے عظیم الشان روزِ امتحان میں ان کے نتائج ظاہر ہوں گے۔قَوْلُہٗ تَعَالٰی: اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاًط (الملک:۶۷:۲)ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا اور ان ہر دو کی کشمکش میں انسان کو مبتلا کیا تاکہ ان کو آزما کر دیکھے کہ کون ان میں سے اچھے عمل کرتا ہے۔‘‘ آپ خود اندازہ لگالیں گے کہ سکولوں اور کالجوں کے دنیوی امتحانوں میں جوابات کے اخفا اور کتمان کا کس قدر زبردست اہتمام ہوا کرتا ہے۔ سوالات کے پرچے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں لیکن ان کے جوابات کے چھپانے میں کمال درجے کی احتیاط برتی جاتی ہے حالانکہ اس دنیوی امتحان کی کامیابی پر چند روزہ دنیوی عیش اور راحت موقوف اور منحصر ہے۔ پس جس امتحان پر ابدالآ باد کی خوشی اور راحت یا ابدی حرمان اور ناکامی کا انحصار ہو اس کے جوابات کے اخفاء اور کتمان کا جس قدر بھی زبردست اہتمام ہوکم ہے۔ مُلحدوں اور دہریوں کا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کے ملائکہ اور اس کی قدرت کے افعال اگر دنیا میں موجود ہیں تو انہیں ضرور کسی نہ کسی صورت میں ہمیں نظر آجانا چاہیے، ایسا ہے جیسا کہ کمرۂ امتحان میں کوئی نہایت احمق اور پاگل طالب علم یہ سوال کر بیٹھے کہ ہمارے پاس ان امتحانات کے پرچوں پر تو سوالات ہی سوالات درج ہیں ان کے مقابلے میں جوابات کیوں نہیں دیئے گئے۔ اس بے وقوف نے کمرۂ امتحان کو خالہ جی کا گھر سمجھ رکھا ہے۔
برسرِ۱ طور ہوا طنبورِ شہوت می زنی
عشقِ مردِ لَنْ تَرَانِیْ رابدیں خواری مجو
(حافظؔ )
ترجمہ:تو ہوا وہوس کے طور پر خواہشات کا رباب بجارہا ہے(اے نادان) اس مرد کا عشق جسے ’’لَنْ تَرَانِیْ‘‘ کہا گیا تھا اسے اپنی بیہودہ محنت سے مت مانگ۔
اللہ تعالیٰ کے انوارِ ذات و صفات اور اس کی قدرت کی آیاتِ بینات اور لطیف غیبی مخلوقات یعنی جِنّ، ملائکہ اور ارواح وغیرہ تمام لطیف دنیا کی غیبی لطیف چیزیں ہیں۔ انکا دیکھنا اور معلوم کرنا ظاہری حواس اور مادی عقل کا کام نہیں ہے۔ ان کے معلوم اور محسوس کرنے کے لیے باطنی حواس درکار ہیں۔ جس طرح ظاہری حواس ایک دوسرے کا کام نہیں کرسکتے یعنی آنکھیں کانوں کا کام اور کان آنکھوں کا کام نہیں کرسکتے، اسی طرح ظاہری حواس باطنی حواس کا کام انجام نہیں دے سکتے۔ باطنی حواس کے حصول کے لیے مجاہدہ اور ریاضت شرط ہے اور اس کے لیے استاد مُرَبّی کی ضرورت ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط (العنکبوت۲۹:۶۹)۔ یعنی جو لوگ ہمارے راستے میں کوشش اور محنت کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستے دکھادیتے ہیں۔
درمکتب حقائق پیش ادیب عشق
ہاں اے پسر بکوش کہ روزے پدرشوی
(حافظؔ )
ترجمہ:حقائق کی درس گاہ میں عشق کے ادیب۲کے سامنے اور ہاں اے بیٹا محنت سے کام لے تاکہ کسی دن تو بھی باپ کہلائے۔
روحانی سکولوں اور کالجوں میں باطنی تعلیم کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتے کرتے سالک لوگ عقلِ کُل اور باطنی حواس پیدا کرلیتے ہیں اور درجہ عین الیقین کو پہنچ جاتے ہیں۔ چنانچہ اسی دنیا میں آخرت کے بھاری امتحان کے خوف اور فیل ہونے کے حُزن اور غم سے نجات پالیتے ہیں۔ قَوْلُہٗ تَعَالیٰ: اَلَ�آاِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَo (یونس۱۰:۶۲)۔ غرض باطن میں نفوس کے مدرسے الگ ہیں، قلوب کے مکتب اور ہیں اور ارواح اور اسرار کے کالج علیحدہ ہیں۔ جن لوگوں کو کبھی بھولے سے بھی ان باطنی سکولوں اور روحانی کالجوں کی طرف گذر نصیب نہیں ہوا وہ کورچشم نفسانی ان باطنی علوم اور اس غیبی سررشتۂ تعلیم اور ان کے روحانی استادوں اور پروفیسروں کو کیا جانیں اور اس باطنی روحانی دنیا کا انکار نہ کریں تو اور کیا کریں
حَیف کیں بے بصراں تابہ ابد بے خبر اند
زانچہ دردیدۂ صاحب نظراں مے آید
(حافظؔ )
ترجمہ: افسوس کہ یہ (دنیاوی) اندھے ابد تک بے خبر ہیں اس حقیقت سے جسے صاحبِ نظر لوگ مشاہدہ کرتے ہیں۔
غرض یہ دنیا دارُالامتحان ہے۔ خواہ کوئی یہاں ٹھیک عمل کرے یا خطا، نہ کسی کو فوری سزا ملتی ہے اور نہ پوری جزا۔ کیونکہ نتیجے کا وقت مقررہ ابھی دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخلاقی غلطیوں اور شرعی جرموں پر ا س دارِفانی میں جلد اور فوری سزائیں مترتب نہیں ہوتیں اور نہ پوری سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص زنا کرتا ہے تو شریعت اسے سو دُرّے مارنے یا سنگسار کر کے ہلاک کرنے کا حکم دیتی ہے لیکن دوسرا شخص ہزاروں دفعہ زنا کر کے ہرقسم کی دُنیوی سزا سے بچ رہتا ہے۔ یا ایک شخص عمدًا اور اراد تاً قتل کرتا ہے تو قانون اور شریعت اس کے لیے سزائے موت مقرر کرتے ہیں لیکن دوسرا شخص ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قتل کا مُوجب بنتا ہے تو کیا ہزاروں دفعہ زنا کا مرتکب یا لاکھوں بے گناہوں کے قاتل کو اس مادی دنیا میں پوری پوری سزا دی جاتی ہے۔ ہرگز نہیں، تو اس قسم کے اکابر مجرمین کو پوری اورواجبی سزائیں تب ہی مل سکتی ہیں جب کہ ان کے لیے ایسی دنیا قائم کی جائے جس میں وقت کا کوئی تعین نہ ہو اور عمریں بہت دراز ہوں اور ہر مجرم کو بے شمار جسم عطا کیے جائیں اورانہیں باربار مار کر اور زندہ کر کے عذاب دیا جائے۔سو یہ کام دنیا کے محدود دارا لاسباب میں مترتب نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے آخرت کا غیر مختتم دارا لقدرت اور دارا لمکافات قائم کیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اس قسم کے سنگین جرموں کے لیے سخت دردناک قسم کے طویل عذابوں کا ذکر جا بجا موجود ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: وَاِذَآاُلْقُوْامِنْھَامَکَاناً ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْاھُنَالِکَ ثُبُوْرًاoط لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًاکَثِیْرًاo (الفرقان ۲۵:۱۳۔۱۴)۔ ترجمہ:’’اور جب مجرم جہنم اور دوزخ کی تاریک وادیوں کے اندر زنجیروں میں جکڑے ہوئے ڈال دئیے جائیں گے تو اس وقت و ہ لوگ سخت دردناک عذاب سے بچنے کے لیے موت اور ہلاکت کی دعا اور درخواست کریں گے لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تم ایک موت اور ہلاکت کی اُمید نہ رکھو بلکہ بے شمار موتوں کا عذاب تم نے چکھنا ہے۔‘‘ اور دوسری جگہ آیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًاط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُ ھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوْا الْعَذَابَط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًاo(النسآء۴:۵۶)۔ ترجمہ:’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے عنقریب اُنہیں دوزخ کی سخت آگ جلائے گی۔ جس وقت ان کے چمڑے (جثے)جل جائیں گے تو انکے علاوہ انہیں اور چمڑے (جسم)دیئے جائیں گے تاکہ پورا پورا عذاب چکھ لیں۔تحقیق اللہ تعالیٰ غالب حکمت والاہے۔‘‘ غرض قیامت کا دارالقدرت اور دارالمکافات ضروری اورلازمی ہے اور یہ دنیا دارُ الامتحان ہے۔ کمرۂ امتحان میں کسی کویہ نہیں بتایا جاتاکہ تو صحیح عمل کر رہا ہے یا غلط ۔ نتیجے پر ہرشخص کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ افسوس کو رچشمی اورہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ہے اور ازلی بدبختوں کو اللہ کی مار ہے۔ ورنہ عقل، نورِایمان اور باطنی بصیرت والوں کے لیے کائنات کے ہر ذرّے کے اندر بے شمار آیات بّینات اور ہزار ہا نشانیاں موجود ہیں۔جو پکار پکار کر اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کررہی ہیں۔
ترازدوست بگویم حکائتے بے پوست
ہمہ ازو ست و گرنیک بنگری ہمہ اوست
جمالش ازہمہ ذرّاتِ کون مکشوف است
حجابِ تو ہمہ پندار ہائے تو برتوست
ترجمہ: میں تجھ سے محبوب کی ایک اصلی حکایت بیان کرتا ہوں۔ ہر چیز اسی سے ہے اور اگر تو غور سے دیکھے تو سب کچھ وہی ہے۔
کائنات کے ہر ذرّہ سے اس کا جمال ظاہر ہے۔ تیرا غرور اور نخوت جو تجھ پرطاری ہے وہی تیرا حجاب ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں