عرفان 5
خُدا کی نسبت یورپ کے مشہور علماءِ سائنس کے خیالات
لارڈ کیلون(سرولیم تھامسن)جو سکاٹ لینڈ کی گلاسگو یونیورسٹی میں پچاس برس تک نیچرل فلاسفی پڑھاتے رہے اور جنہوں نے طبیعات اور ریاضیات میں نئی دریافتیں کیں اور کئی جدید ایجادات و اختراعات آپ کے نام سے منسوب ہیں۔ آپ نے اپریل۱۹۰۳ ء میں لنڈن کی یونیورسٹی کالج کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’سائنس پختہ یقین اور کامل اعتبار کے ساتھ ایک خالقِ ارض و سما کی قائل ہے اور ہمیں اس قادرِ مطلق کے وجود پر ایمان لانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ ہماری ہستی کا موجد اور اسے سنبھالنے اور قائم رکھنے والا بے جان مادہ نہیں ہے بلکہ و ہ قوت ہے جس سے موجودات خلق ہوتی اور ہدایت پاتی ہیں۔ سائنس کی تحقیقات اور انکشافات ہمیں اس وجودِ لایزال پر ایمانِ کُلّی رکھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے گردوپیش کے طبعی تبدُّلات اور انقلابات اور موجودات کی حرکات و سکنات کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو ہم مذکورہ بالا نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خداوند خالق اپنی اس حکمت اور صنعت سے ظاہر ہوتا ہے جو نظامِ عالم اورموجودات کی ترتیب و ترکیب میں نظر آتی ہے۔ سائنس ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ایسی قوت پر ایمان لائیں جو عالم کے تمام طبعی عملوں کو تحریک دیتی اور راہِ راست پر ڈالتی ہے اور وہ خالق قوتِ فطری، برقی یا مکینیکل قوت سے بالکل مختلف ہے۔ اسے ذرّات کے خود بخود آپس میں مل جانے کے نظریے سے کوئی سروکار نہیں جس کو زمانہ حال کے تمام سائنس دان اتفاقِ رائے سے نہایت لغو اورنامعقول ٹھہراتے ہیںیعنی تمام علما اور محققین اس امر پر متفق ہیں کہ عالم اور مافی العالم ذرّات کے اتفاقی ارتباط اور اتحاد سے وجود پذیر نہیں بلکہ ایک ذی عقل اور صاحبِ ارادہ وجود کی حکمت و قدرت سے موجودات نے ہستی قبول کی ہے۔ زندہ اجسام کے اندرجومسلسل تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں وہ بھی اتفاقی نہیں ہوتیں بلکہ خالق کی ہدایت اور مقرر کردہ قانون سے عمل میںآتی ہیں۔ان تمام عملوں میں سائنس ایک خالق کا وجود مانتی ہے۔
’’چالیس سال ہوئے کہ جرمنی کے مشہور عالم کیمیات ڈاکٹرلی بک کے ساتھ شہر سے باہر کھیتوں کی سیر کر رہا تھا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ’فرمائیے کیایہ پودے کیمیائی عمل سے پیدا ہوتے اور نمو حاصل کرتے ہیں؟‘ وہ کہنے لگے ’ہرگز نہیں، میری رائے یہ ہے کہ جس طرح علم نباتات کی کتاب آپ سے آپ مرتب نہیں ہو جاتی اسی طرح یہ پودے اور پھول بھی از خود پیدا نہیں ہوتے۔ اِرادت کا ہر فعل طبیعات، کیمیات اور اراضیات کے نزدیک خرقِ عادت ہے۔آزادی اور بے باکی کے ساتھ سوچنے اور غور کرنے سے نہ گھبراؤ۔ اگر تم خوب فکر کرو گے تو خدا کی ہستی پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکو گے جو مذہب کی بنیاد اور اصل اصول ہے۔ سائنس ہرگز مذہب کی دشمن نہیں ہے بلکہ معاون ہے۔‘‘
لارڈ سالس بری صرف مدبّرہی نہ تھے بلکہ ایک مشہور عالم بھی تھے۔ آپ ۱۸۷۴ء اور ۱۸۸۶ ء میں کنسر ویٹو وزارتوں میں وزیر ہند مقرر ہوئے اور دومرتبہ برطانیہ کے وزیراعظم بھی مقرر ہوئے۔ آپ کی علمیت کا اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا کہ آپ۱۸۴۰ء کی برٹش ایسوسی ایشن کے اجلاس کے صدر اعظم مقرر ہوئے۔ ’’کنٹمپورری ریویو‘‘ ’’اور نائینتھ سنچری‘‘ میں ہربرٹ سپنسر کے ساتھ مسئلہ ارتقا پر ان کی خوب زور دار بحثیں ہوئیں اور کئی نمبروں میں دونوں طرف سے مسلسل عالمانہ مضامین شائع ہوتے رہے۔ آپ نے آکسفورڈ میں ایک ایڈریس کے دوران فرمایا تھا: ’’مدت سے میرا یہ خیال ہے کہ اگرنباتات اورحیوانات میں عملِ ارتقا رونما ہوا ہے تو وہ انتخابِ طبعی کے مسئلہ میں نہیں پایا جاتا اور ارتقا کا صحیح مسئلہ اس سے بہت بیگانہ ہے۔ میں نے بہت غورو فکر کے بعد یہ رائے قائم کی ہے کہ حیوانات کی ابتدا و تبلیغ کی بابت جو تحقیقات گذشتہ چند سال کے دوران ہوتی رہی ہیں اس میں مقاصدو اغراض کے استدلال سے بالکل چشم پوشی کی گئی ہے۔ کائنات کو بنظر غور دیکھنے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ایک ذی عقل و ذی ارادہ ہستی نے موجودات کو ایک خاص مصرف کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کے ثبوت میں بے شمار دلائل ہمارے اردگرد موجود ہیں۔اگرعلمِ طبیعات یا سائنس کی پریشانیاں ہماری بصارت پر پردہ ڈال دیں کہ کچھ دیر کے لیے ہم ان کی طرف سے بے پرواہ ہو جائیں تاہم وہ پھر ہمارے سامنے آجاتی ہیں اور ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ ان نشانات کی بنیاد پر ہم یہ ماننے کے لیے مجبور ہیں کہ ایک فعل مختار اور صاحبِ ارادہ ہستی نے کائنات اور موجودات کو اپنی قدرتِ کاملہ سے بنایا ہے۔ نیز ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ تمام جاندار ہستیاں اس صاحب ذاتِ لایزال اورخالق بے زوال اورحاکم بے مثال کی حکمت و قدرت کی محتاج اور دست نگر ہیں۔‘‘
ڈاکٹر الفریڈ اسل والس اقلیمِ سائنس کے پیرِفرتوت کہلاتے ہیں۔ آپ ۱۸۲۲ ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۳ء میں آپ نے اپنی نہایت مشہور علمی کتاب ’’ورلڈ آف لائف‘‘ شائع کرکے اپنے نصف صدی کے خیالات اورعلمی تحقیقات کے نتائج دنیا کے سامنے رکھے۔ اس کتاب نے بڑا نام پایا ہے۔ڈاکٹر صاحب موصوف مسئلہ ارتقا بذریعہ انتخاب طبعی کے اِکتشاف میں ڈارون کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں۔ آپ خداپرست اور دیندار آدمی تھے۔سائنسدانوں کی نظر میں آپ کا قول سند سمجھا جاتا ہے۔ آپ اپنی ایک تصنیف ’’نیچرل سلیکشن‘‘یعنی انتخابِ طبعی میں ایک جگہ فرماتے ہیں ’’انسان صرف عملِ ارتقا سے قادرِ مطلق کی قدرت و حکمت کے بغیر پیدا نہیں ہو اہے۔ قوت نفسِ ناطقہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جتنی قسم کی قوت پائی جاتی ہے و ہ قوتِ ارادہ ہے۔ اگر اِرادت کوئی چیز ہے تو وہ ایک طاقت ہے جو ان قوتوں کے عمل کی ہدایت کرتی ہے جو جسم کے اندر مجتمع ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ جسم کا کوئی حصہ قوت کا اثر قبول کیے بغیر ہدایت کے تابع ہو۔ اگر ہم یہ معلوم کرلیں کہ ادنےٰ سے ادنےٰ قوت بھی اِرادت سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے سوا ہمیں قوت کا کوئی اور ابتدائی وسیلہ اور سبب معلوم نہ ہو توہم یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہر قسم کی قوت قوتِ ارادی ہوتی ہے۔ اور اسی بنیاد پر یہ دعوےٰ قائم ہو سکتا ہے کہ تمام عالم نہ صرف اعلیٰ ذِی عقل ہستیوں پر منحصر ہے بلکہ انہی کے وجود پرمشتمل ہے یا یوں کہوکہ وہ سب سے اعلیٰ عقل و حکمت ہے۔‘‘
کائنات کی تمام مخلوق کیا جاندار اور کیابے جان، کیا حجرو کیاشجر، کیا چھوٹی کیا بڑی اورکیا علوی کیا سِفلی سب زبانِ حال سے اپنے خالق مالک اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور توحید کے گیت یک رنگی اوریک آہنگی سے گارہی ہے۔ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ(الجمعۃ۶۲:۱)۔ اشیائے کائنات میںیک رنگی اور انکی ترتیب میں یک آہنگی اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ ان کا خالق اورمالک ایک واحد لاشریک ہستی اور بے مثل و بے ہمتا ذات ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ فرض کرو ایک شخص بہت نیچے اتر کر تحت الثریٰ کی تاریکیوں میں سے ایک نرالی دھات کا ٹکڑا اٹھالاتا ہے اور پھر بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں کئی میل نیچے غوطہ لگا کر وہاں سے کوئی آبی خول نکال لاتا ہے اور تیسری دفعہ فضائے آسمان کی بلندیوں میں لاکھوں کروڑوں میل اوپر چڑھ کر کسی بہت دور کے ستارے سے کوئی کنکر اٹھا لاتاہے۔ اب ان تینوں اشیاء کو خورد بین کے نیچے رکھ کر ان کے اجزائے ترکیبی کا موجودہ سائنس کی روشنی میں بغور مطالعہ کیاجائے تو موجودہ سائنس کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ان تینوں کے اجزائے ترکیبی میں وہی ذرّاتِ برقیہ ہیں جو اشیائے کائنات کی تمام اشیاء کے تمام چھوٹے بڑے اجسام اورا جرام میں یکساں طورپر پائے جاتے ہیں۔ ماہ سے ماہی اور ثریّا سے ثریٰ تک کائناتِ عالم کی تمام اشیاء کے اجزائے ترکیبی کی یہ وحدت صاف طور پر وحدتِ خالق کا ناقابلِ تردید مظاہرہ ہے یا دوسرے لفظوں میں اشیائے کائنات کے زبانِ حال کا متفقہ اعلان ہے کہ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ یعنی یہ کہ ہمارا خالق، رب العالمین اور معبودِ برحق ایک واحد مطلق ذات ہے۔ چنانچہ مصر کے میناروں سے نکلی ہوئی ہزاروں سال کی چیزیں، مختلف زمانوں میں سنگبار ستاروں سے گرے ہوے دھات اورپتھر کے ٹکڑے، بلندترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے لائے ہوئے مختلف کنکر اور سمندر کی گہرائیوں سے نکالے ہوئے خول اور گھونگے آج کل دنیا کے مختلف عجائب خانوں میں موجود ہیں اور موجودہ سائنس اور کیمسٹری کی روشنی میں ان کے عناصرِ ترکیبی کا تجزیہ کر کے بغور مطالعہ کیا گیاتو متفقہ طور پر وہی مذکورہ بالا نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ان سب کی ساخت ایک ہی قسم کہ ہے اور یہ سب ایک ہی کاریگر کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں۔ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُیَسْجُدٰنِo (الرحمٰن۵۵:۶)۔ ترجمہ:’’آسمان پر ستارے اور زمین پر درخت اپنے خالق مالک کے آگے سجدہ ریز ہیں۔‘‘ اور تمام علوی اور سفلی مخلوق اس کی ربوبیت اور اپنی عبودیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی روشنی آسمان کے ٹمٹماتے ہوئے ستارے سے جھلک رہی ہے۔ اس کی صنعت اور حکمت کے نیم عریاں جلوے درختوں کے ناچتے ہوئے پتوں اورمسکراتے ہوئے پھولوں سے جھلک رہے ہیں۔ اُس کی عظمت بلند پہاڑوں سے ترانے گاتی ہوئی اترتی ہے اور فضامیں سیاہ خوفناک بادل اور مہیب اور ذخّار سمندروں اوردریاؤں کی طوفانی لہریں اس کی ہیبت اورجلال سے گونج رہی ہیں۔ لیکن انسان ہے کہ پیر سے چوٹی تک غفلت میں ڈوبا ہوا ہے۔ اپنی کوتاہ عقل اور پندار کا نکما اورخالی گھمنڈ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیاتِ بینات سے بے وجہ اعراض اور بیہودہ چشم پوشی ہے۔ وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَo(یوسف۱۲:۱۰۵) ۔ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمینوں کے اندر خدائے تعالیٰ کی قدرت کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں اور ان غافل انسانوں کا اس پردن رات گزر ہے لیکن وہ ان سے جاہلانہ اور متکبرانہ اعراض اورکنارہ کرتے ہیں۔‘‘ اندھے جاہل اور نادان انسان کو اپنے آپ کی اور ایک ذرّۂ بے مقدار تک کی تو خبر نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے بے مثل اور بے مثال اور لم یزل ولا یزال ذات کی کُنہہ اور حقیقت میں عقلی گھوڑے دوڑارہا ہے۔ وَضَرَبَ لَنَامَثَلاًوَّنَسِیَ خَلْقَہٗ (یٰسٓ۳۶:۷۸)۔ ترجمہ:’’انسان ہماری نسبت تو مثالیں قائم کرتا ہے لیکن اسے اپنی خِلقت اورپیدائش تک کا پتہ نہیں۔‘‘
در۱ ذاتِ خدا فکرِ فراواں چہ کنی
جاں رازِ قصورِ خویش حیراں چہ کُنی
چوں تو نہ رسی بکنہِ یک ذرّہ تمام
درکنہ خدا دعویٰ عرفاں چہ کُنی
(ابو الخیر ابوسعیدؔ )
مغرب کے وارثانِ علم و حکمت علم الاجسام کی موشگافیوں اور دقیق آرائیوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ یہ لوگ اشیائے دنیا کے خواص اوراجسامِ کائنات کے ظاہری اثرات کی تحقیقات میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں اور مادی دنیا کی ہر شے کو دریافت کرنے اوران کے ظواہر کے پیچھے لگ کر ان سے طلبِ عمل کرنے میں عمریں صرف کر رہے ہیں۔ مگر خود اپنے بارے میں کبھی بھولے سے بھی خیال نہیں آیا کہ ہم کیا ہیں، کہاں سے آئے ہیں اورکہاں جارہے ہیں۔ موت کے بعد انسان کا کیا حال ہوتا ہے۔ موت کا معمہ ان کے لیے ناقابلِ حل ہے اور فنا کا حجابِ اکبر ان کے لیے ناقابلِ عبور ہے۔منتہائے حیات کا سرِّ عظیم کس قدر ناتلاش کردہ پڑا ہوا ہے۔ آفاق کے بحرِ ظلمات میں ان کے عقلی گھوڑے سکندرِ اعظم سے بھی آگے نکل گئے ہیں مگر انفس کی آبِ حیات کی تلاش میں یہ لوگ لُولے، لنگڑے، اندھے اوربہرے ہیں۔دنیا کے علم الاشیاء میں سے مذہب بہت بڑا راز ہے مگر افسوس کہ مغرب کادجّال دینی آنکھ سے کانا ہے۔ گو اس کی دُنیوی آنکھ روشن ہے۔ وہ ہر چیز کو دُنیوی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سے دُنیوی مفاد حاصل کرتا ہے۔ وہ قرآن جیسی عدیم المثال اور بے بدل روشن آسمانی کتاب کو محض تاریخی لحاظ سے پڑھتا ہے۔ وہ اندھے کی طرح آفتاب سے صرف تاپنے اور گرم ہونے کے سوا اور کچھ فائدہ حاصل نہیں کرتا۔ اس لیے ان لوگوں نے مذہب کے ضروری علم کو دائرہ عمل سے خارج کر دیا ہے اور اس کی تحقیق کو غیر ضروری خیال کر لیا ہے۔ ظاہر بین مادہ پرست مغرب نے مادے کے صدف کو تو اپنی گود میں لے لیا ہے لیکن مذہب کے عزیز القدر پوشیدہ دُرِّگرانمایہ کی تحصیل اور تلاش کی طرف مطلق کوئی توجہ اور التفات نہیں۔ یہ لوگ اپنی مادی عقل اورعلم کے غرور اور دُنیوی ہنر اور فن کے گھمنڈ میں مذہب اور رُوحانیت حتیٰ کہ خدا کے وجود کا بھی انکار کر رہے ہیں۔ جدید علم رُوحانی یعنی سپر چولزم جس کے ذریعے یہ ارواح کی حاضرات کر کے ان سے بات چیت کرتے ہیں۔ گو یہ تمام مذاہبِ عالم کا ایک متفقہ اور مسلّمہ عقیدہ اور نظریہ ہے کہ موت کے بعد ارواح زندہ رہتی ہیں اور سُکھ اور دُکھ پاتی ہیں اور یہ علم مذہب اور دین کی عین تائید کر رہا ہے۔ لیکن ان لوگوں کو مذہب کے نام سے اتنی چڑ ہے کہ اسے ایک نیا علم اور اختراع بتاتے ہیں اور مذہب کا نام نہیں دیتے اورکہتے ہیں کہ اسے مذہب سے کوئی تعلق نہیں اورہمارا یہ علم ابھی تک خدا کے وجود کے متعلق خاموش اور ساکت ہے۔ باوجود علم اور دیکھنے بھالنے کے اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہ کر رکھا ہے۔ قَوْلُہٗ تَعَالیٰ: اَفَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہٗ وَاََضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃًط فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْم بَعْدِاللّٰہِط اَفلَاَ تَذَکَّرُوْنَo(الجا ثیہ۴۵:۲۳)۔ ترجمہ: ’’آیا تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے پکڑا اپنی ہوائے نفس کو اپنا معبود اوراللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے اسے گمراہ کر دیا اور اس کے کانوں اور دِل پر مُہر لگا دی اورا س کی آنکھوں پر کفر کا پردہ ڈال دیا۔ سو اللہ کے بعد ایسے شخص کو کون ہدایت کر سکتا ہے۔ آیا تم نہیں سمجھتے۔‘‘ ابھی تک یہ لوگ آسمانی کتابوں خاص کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست اتری ہوئی سچی بے مثل کتاب یعنی قرآنِ کریم کے زبردست اخلاقی اصولوں اور رُوحانیت و تصوف کے سچے ٹھوس حقائق اور معارف کے تمسخر اور اِستہزاء کے درپے ہیں۔ ابھی تک تو مادے کے سطحی علوم سے بھی ایک نہایت ہی قلیل حصہ حاصل کیا گیا ہے اورنہایت ہی معمولی اشیاء کی حقیقت میں دانایانِ فرنگ کی عقلیں دنگ ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ایک ناچیز مکھی یعنی جگنو کی روشنی کی حقیقت میں دنیا کے سائنسدان حیران اور ششدر ہیں کیونکہ سائنس کے اصول کے مطابق روشنی اور حرارت لازم و ملزوم ہیں لیکن جگنوکے وجود میں روشنی بغیر حرارت موجود اور قائم ہے۔ غرض آج تک سائنس اور علم جدید کی تحقیقات نے جس قدر اصول اور نظریے قائم کیے ہیں ان میں بے شمار واماندگیاں اور بے اندازہ خامیاں موجود ہیں۔ اکثر میں اختلاف رائے ہے اور جس طرح آج کل کے سائنسدانوں اور فلاسفروں نے اگلے زمانے کے حکماء اور فیلسوفوں کے قائم کردہ اصولوں اور نظریوں کو غلط ثابت کر کے جھٹلا دیا ہے اسی طرح آج سے سو سال پیچھے آنے والا زمانہ آج کل کے سائنسدانوں کے قائم کردہ مسائل اور اصولوں کو غلط ثابت کر کے ٹھکرا دے گا اور مادی علم کا سلسلہ اوّل سے آخر تک ظنّی اور قیاسی ثابت ہو گا۔ ہاں بعض قریب کی معمولی اشیاء کا علم جو حواسِ خمسہ کے دائرے کے اندر واقع ہیں ضرور انسان کو سائنس کے تجارب اور مشاہدوں سے حاصل ہوا ہے لیکن اس پر غرّہ ہونا اوراسی کو سب کچھ سمجھنا بڑی کوتاہ اندیشی، سخت تنگ ظرفی اور پرلے درجے کی نادانی ہے۔ ابھی تک تو عالمِ شہادت اور آفاق کا ایک وسیع جہان اُن کے سامنے ناتلاش کردہ پڑا ہے جو عالمِ غیب اور ا نفس کے لطیف جہان کے مقابلے میں ا س قدر تنگ و تاریک ہے جتنا کہ اس مادی دُنیا کے مقابلے میں ماں کا رِحم ہے۔ بھلا جس جہاں میںیہ لوگ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوئے بلکہ خام ناتمام جنین کی طرح رِحم مادرِ گیتی میں پڑے ہوئے ہیں وہ عالمِ دارِ آخرت کے وسیع اور عریض لامحدود اور غیر مختتم جہان کی حقیقت کیا جانیں۔
فلسفی گشتی و آگہ نیستی۱
خود کجا و از کجا و کیستی
از خود آ گہ چوں نہٖٓ اے بے شعور
پس نباید برچنیں علمت غرور
(رومیؔ )
دُنیا میں تمام مادی اشیا کی تین حالتیں ہیں: اوّل ٹھوس جامد جیسے اینٹ، پتھر اورلکڑی وغیرہ، دوم مائع بہنے والی مثلاً پانی، دودھ اور تیل، سوم گیس، اڑنے والی مثلاً بھاپ، دھواں اور ہوا وغیرہ۔ پانی کے اندر یہ تینوں حالتیں موجود اور محسوس ہوتی ہیں یعنی برف کی حالت میںیہ ٹھوس جامد صورت اختیار کر لیتا ہے، جب پگھل کر مائع بن جائے تو مائع ہے اور جب آگ پر اسے کافی حرارت دی جائے تو بھاپ اور گیس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں گیس کی صورت بہت لطیف، غیر مرئی اور غیر محسوس ہے۔ اب اسی ہوا کو لیا جائے اور اس کے اجزائے ترکیبی کو دیکھا جائے تو وہ زیادہ لطیف گیسوں آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن وغیرہ سے مرکب ہے۔ اسی طرح یہ گیسیں بھی ایتھر کے ذرّاتِ برقیہ سے مرکب ہیں۔ لیکن انسانی حواس کی پہنچ اور علمِ سائنس اور کیمسٹری کے تجارب اور مشاہدات یہاں آ کر ختم ہو جاتے ہیں اور اس سے آگے تجاوز نہیں کر سکتے۔ اس لیے انسان اس سے زیادہ لطیف اشیاء کی دُنیا کو خلا یا عدم کا نام دے کر اس کی ترکیب اور بناوٹ کی تشریح کو ختم کردیتا ہے حالانکہ اشیاء کا یہ سلسلۂ لطافت عالمِ غیب اور عالمِ ارواح کی سرحد پر جا کر ختم ہوتا ہے اور اس سے آگے غیب کا لطیف جہان شروع ہوتا ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ لطیف روحانی دنیا اس ہمارے کرّۂ زمین کے ہوائی طبقے کے اوپر کہیں دوسرا کرّہ ہے۔ بلکہ وہ لطیف رُوحانی عالم ہمارے اس عالمِ آب و گل سے آمیختہ اور مختلط بلکہ اس کا مخ اور مغز ہے۔ اور اس کے ذرّے ذرّے میں اس طرح جاری اور ساری ہے جس طرح انسان کے جسم میں خون اور خون میں جان ہے یا دودھ میں مکھن اورمکھن میں گھی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بے چوں اور بے کیف اتصال ہے۔ خواب میں انسان اپنے ارد گرد ایک لطیف رُوحانی دنیا بنالیتا ہے۔ جسے ہم رُوحانی دنیا کا ایک خام نا تمام ماڈل اور بطور مُشتے نمونہ ازخروارے کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح جسم کے ساتھ رُوح کا اور مادی دنیا کے ساتھ باطنی روحانی دنیا کا ایک بے کیف غیبی اتصال اور تعلق ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ خالقِ مخلوقات کا اپنی تمام مخلوق کے ساتھ ہر طرح پر یعنی جزی و کلی، خارجی و داخلی، خلقی و امری اور ظاہری و باطنی طور پر ایک لطیف، بے کیف غیب الغیب تعلق اور تصرف ہے اور وہ اس کے ذاتی، صفاتی، اسمائی اور افعالی تجلّیات کے آثار اور انوار ہیں جو کائنات کے ظہور و بواطن میں جلوہ گر ہیں جن پر تمام کائنات اور مخلوقات کے وجود کا سارا دارومدار اورکلی نظام و قیام ہے۔
اوّل و آخر توئی چیست۱ حدوث و قِدم
ظاہر و باطن توئی چیست وجود و عدم
اوّل بے اِنتقال آخر بے اِرتحال
ظاہر بے چند و چوں باطن بے کیف و کم
افسوس کہ نفسانی لوگوں کو عالمِ غیب کی لطیف رُوحانی دنیا کا ادراک کرانا اوراللہ تعالیٰ کی غیر مخلوق کی بے مثل و بے مثال اور بے چون و بے چگوں ذات کا ادراک کرانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے کہ کسی مادر زاد اندھے آدمی کو دنیا کی اشیا کے رنگوں اورشکل و شباہت یا آفتابِ عالم تاب کے وجود کا علم اور احساس کرایا جائے۔ ساتھ ہی فنِ تحریر انسانی دل و دماغ کے حقیقی خیالات اور خصوصاً باطنی دنیا کے بے کیف اور بے این اصلی حالات اور صحیح کیفیات کے ادا کرنے کا از بس ناقِص آلہ اور نامکمل مظہر ہے۔ اور نیز حروف و الفاظ کا دائرہ اس قدر محدود اور تنگ ہے کہ ہمارے پاس اس کے سمجھانے کے لیے سوائے مثالوں اور استعاروں کے کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ تاہم جن لوگوں میں اللہ تعالیٰ نے تخمِ نورِ ایمان روزِ اوّل سے بطور ودیعت رکھ دیا ہے اور جن میں روحانی قابلیت اور روحانی استعداد موجود ہے اور انہوں نے اپنی بد عملیوں، نافرمانیوں اور بے اعتدالیوں سے اُسے ابھی تک ضائع نہیں کیا ان کے لیے ہمارے اشارے اور استعارے ضرور مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔ لیکن ازلی شقیوں اور ابدی کور چشموں کا کوئی علاج ہی نہیں۔ ان کے لیے اگر تمام پردے اور حجاب ہٹا دیے جائیں اور حشر نشر قائم کر کے دکھایا جائے تو بھی وہ ماننے والے نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَحَشَرْنَا عَلَیْھِمْ کُلَّ شَیْءٍ قَبَلاً مَّا کَانُوْ الِیُؤْمِنُوْآ اِلَّا اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ (الانعام۶:۱۱۱)۔ اور ہم انہیں حشر نشر قائم کر کے پہلے دکھا دیں تب بھی کافر ماننے والے ہرگز نہیں مگر یہ کہ جسے اللہ ہدایت کرتا ہے۔ ہم مادی دنیا کے ساتھ روحانی دنیا کا اتصال اور تعلق توکسی قدر بیان کر آئے ہیں اب ہم انسانی جسم کے ساتھ رُوح کے براہ راست تعلق اور اتصال کا حال بیان کرتے ہیں جس سے روح کی حقیقت پر انشاء اللہ کافی روشنی پڑے گی۔
واضح ہو کہ خارجی دُنیا کے مطابق انسانی وجود کے اندر بھی اشیا کی تینوں صورتیں ٹھوس مائع اور گیس موجود ہیں۔ یعنی ہڈی ، گوشت اورچمڑا وغیرہ ٹھوس ہیں۔ خون اورپانی مائع اورسانس کی ہوا جو اندر پھیلی ہوئی ہے وہ گیس ہے۔ اور یہ مسلمہ امر ہے کہ دل اور پھیپھڑے میں سانس کی ہوا کا خون کے دوران میں بڑا دخل ہے اور اسی ہوا یعنی ریح کے جھونکے پرزندگی کا تمام انحصار اور انسانی زیست کا دارو مدار ہے۔ یہی وہ تارِ تنفس ہے جس سے انسانی رُوح کی برقی رو اپنے پاور ہاؤس سے نکل کر انسانی دل و دماغ کے بلبوں تک منتہی ہو کر تمام انسانی وجود کی مشین کو گرم، روشن اور چالو کیے ہوئے ہے۔ سائنس دان، کیمسٹ، ا طبّا اور ڈاکٹر اس پوشیدہ روحانی برقی رو کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ یہ لوگ خون یا اس کے لطیف بخار کو رُوح کہتے ہیں۔ حالانکہ روح اگر خون یا ہوا یا حرارت ہوتی تو موت واقع ہوتے ہی انسان کے وجود میں پھر ہوا یا مصنوعی حرارت داخل کرنے سے انسان دوبارہ زندہ ہو جاتا یا اگر روح محض عنصری وجود کا بخار ہوتا تو بعض انسانی اعضاء کے کٹ جانے سے روح ضرور کسی قدر ناقص اورکم ہو جاتی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ روح عالمِ امر کی ایک الگ لطیف اور غیبی چیز ہے۔ وہ عالمِ امر کے نور کی ایک برقی رَو ہے جو اس معدنِ انوار کے پاورہاؤس سے اس تارِ تنفس کے ذریعے انسانی وجود میںآتی جاتی ہے اور اسے زندہ اور تابندہ رکھتی ہے ۔ قولہٗ تعالیٰ: قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًاo (بنیٓ اسرآئیل۱۷:۸۵) ترجمہ:’’کہہ دے اے میرے نبیؐ! کہ روح میرے رب کے عالمِ امر کی چیز ہے اور اسے سمجھنے کے لیے تمہارا علم بہت تھوڑا ہے۔‘‘ عالمِ خلق، عالمِ شہادت یا آفاق اس مادی ٹھوس جہان کو کہتے ہیں۔ اور عالمِ امر یا عالمِ غیب، یا عالمِ انفس لطیف باطنی اور روحانی دنیا کا نام ہے۔ قولہٗ تعالیٰ: اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط (الاعراف۷:۵۴)ترجمہ:’’خبردار عالمِ خلق اور عالمِ امر ہر دو اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔‘‘ اور وہ ان ہر دو کثیف اور لطیف جہانوں اور عالموں کا رب اور مالک ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اسی روح کی نسبت فرماتے ہیں: وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ(الحجر۱۵:۲۹)۔ یعنی ہم نے آدم علیہ السلام کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ غرض روح کے بدنِ عنصری میں پھونکنے میں جو رمز اور اشارہ ہے وہ اس بات پر صاف صاف دلالت کرتا ہے کہ روح جس نفخ اور پھونک کے ذریعے جسمِ انسانی میں ڈالی گئی ہے وہ یہی تارِ نفس اور سانس کی ہوا ہے جو انسان کے اندر دم دم میں آتی اور جاتی ہے۔ عربی میں ہوا کو ریح کہتے ہیں اور یہ لفظ روح اسی عربی لفظ رِیح سے ماخوذ اور نکلا ہوا ہے۔ اورنَفَسْ بفتحہ فاء پھونک اور ہوا کو کہتے ہیں اور لفظ نَفْس بسکونِ فاء جان اور روح کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ سو معلوم ہوا کہ روح اور رِیح اور نَفْس اورنَفَسْ ہر دو مترادف اور ہم معنٰی الفاظ ہیں اور ہر دو ایک چیز ہیں۔یہ اس لیے کہ روح کو ہوا کے ساتھ ایک قریب کا رشتہ اور باطنی تعلق ہے اور روح ہوا کی طرح ایک لطیف اور غیر مرئی چیز ہے۔ لہٰذا روح کے لطیف جوہر کو صانعِ حقیقی نے ہوا کے لطیف تاگے سے جسمِ انسانی میں باندھ رکھا ہے۔ یا یوں کہو کہ اس حکیم اور علیم خالق نے روح کے لطیف اور لامکانی پرندے کو ہوا کے لطیف تاگے کے ذریعے انسانی جسم کے کثیف پنجر اور عنصری پنجرے میں قید کر رکھا ہے۔ روح چونکہ عالمِ امر کی ایک نہایت لطیف چیز ہے۔ مادے کے کثیف جہاں میں اس کا استقرار اور استحکام بجز تعلقِ لطیف چونکہ ناممکن تھا اس واسطے اس قادرِمطلق نے اس مادی عالمِ عناصر میں سب سے لطیف ترین چیز گیس یعنی ہوا کا رابطہ اور رشتہ تجویز فرمایا اور یہی لطیف ڈوری اس شہبازِ لامکانی کے پاؤں میں ڈال کر اسے بدنِ انسانی کے پنجرے میں قید کردیا۔ سو ریح اور ہوا کے ذریعے بدنِ انسانی میں روح مقید ہے اور اسی سانس کی ہوا اور تارِتنفس کے ذریعے ہی عالمِ امر کے پاور ہاؤس سے اسے نور کی برقی رو یعنی روحانی غذا اور قُوت و قُوّت پہنچتی رہتی ہے۔
دنیا کی ہر شے کیا جماد کیا نبات اور کیا حیوان سب میں ایک قسم کی روح موجود ہے اور ہر شے سانس لیتی ہے۔ لیکن روحِ جمادی، روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی اور روحِ ملکوتی وغیرہ میں بسبب اختلافِ مدارج و مراتب فرق ہے۔ اور ہر روح اسی ہوائی تعلق کے ذریعے دنیا میں آتی ہے اور ماہرینِ حاضرات سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ ریح یعنی ہوا کے تعلق کے بغیر ارواح کی لطیف غیبی مخلوق یعنی جن ، ملائکہ، اور ارواح کی اس دنیا میں آمد اور حاضرات ناممکن ہے۔ اور جب کبھی اس مادی دنیا میں عالمِ غیب کی لطیف مخلوق بلائی جاتی ہے اور ان کی حاضرات شروع ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بند مکانوں میں ہوا کے جھونکے آتے ہیں اور ہوا چلنے لگتی ہے۔ غرض اس لطیف روحانی مخلوق کو دنیا کے کثیف جہان میں ہوا کی لطیف رفاقت اور معیت میں بھیجا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم اس پر شاہد ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے علمِ حاضرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَافِیْھَاط وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَo وَمِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَہٗ وَیَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِکَج وَکُنَّالَھُمْ حٰفِظِیْنَo ( الانبیآء۲۱:۸۱۔۸۲)ترجمہ:’’اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہم نے تُند ہوا کو مسخر کردیا تھا اور ہوا اس کے امر سے اس سر زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت ڈال رکھی تھی جاری ہوتی اور اس کے ساتھ جِنّات اور شیاطین حاضر ہوکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے غوطے لگایا کرتے تھے اور اس کے علاوہ طرح طرح کے کام اور خدمات انجام دیتے تھے۔ اور اس عمل کے وقت ہم ہر طرح سے ان کے نگہبان اور محافظ رہتے تھے ۔‘‘ دوسری جگہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: فَسَخَّرْنَالَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَoلا وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍoلا وَّاٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِo (آ۳۸:۳۶۔۳۸) ۔ ’’اور ہم نے سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا۔ اور جہاں کہیں بھی وہ چاہتا تھا اس کے امر سے وہ چل پڑتی تھی۔ اور جن شیاطین اس کے ساتھ حاضر ہوجایا کرتے تھے۔ اور ان میں ہر ایک مکان بنانے والے اور غوطے لگانے والے شامل تھے اور باقی تسخیر کی زنجیر میں جکڑے رہتے تھے۔‘‘
جنگِ احزاب میں حضرت رسالت مآب صلعم اور آپﷺ کے اصحابِ کبار کی امداد کے لیے آسمان سے ملائکہ کے نزول کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَآءَ تْکُمْ جُنُوْد’‘ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًاوَّجُنُوْدًالَّمْ تَرَوْھَاط (الاحزاب۳۳:۹)۔ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ تم پر جنگِ احزاب میں کفار کے لشکر چڑھ آئے تھے۔ پھر ہم نے ان پر ہوا بھیج دی اور ساتھ ہی ایسا لشکر بھیجا جسے تم نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے مروی ہے کہ جنگِ بدر میں ایسی سخت ہوا چلی کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی ایسی تُنداور تیزہوا نہیں دیکھی تھی۔ اس طرح تین دفعہ تُند اور تیز ہوا چلی۔ سو پہلی ہوا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کو ہمراہ لے کر ہماری امداد کے لیے آئے اور دوسری بار حضرت میکائیل علیہ السلام اسی قدر ملائکہ کے ہمراہ اور تیسری دفعہ حضرت اِسرافیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ ہماری امداد کو آئے ۔ غرض دنیا میں پیغمبروں، اولیا اور اللہ تعالیٰ کے دیگر مقبول بندوں کی امداد اورکفار نابکار کے استیصال اور ہلاکت کے لیے جب کبھی اس قسم کی غیبی لطیف امداد اور لشکر کی ضرورت پڑی ہے وہ تند ہوا یا مہیب بادل کی لطیف رفاقت میں دنیا کے اندر بھیجی گئی ہے۔ سو ثابت ہوا کہ روحانی مخلوق کو اس مادی دنیا میں اُتارنے اور بھیجنے کے لیے ہوا کی لطیف سواری لابد اور اشد ضروری ہے۔ خود اپنا دنیا کے اندر نزول اللہ تعالیٰ لطیف بادل کی معیّت میں فرماتے ہیں۔ قولہٗ تعالیٰ: ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّا تِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآءِکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْرُط وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُo (البقرۃ۲:۲۱۰)۔ترجمہ: ’’کیا وہ اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آئے ان کے پاس بادل کے سائے میں اور فرشتے اور امرپورا ہو جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف تمام امور رجوع کرنے والے ہیں۔‘‘
عورت جب بالغ ہوجاتی ہے اور اس کی زمینِ جسم تیار ہوجاتی ہے تو وہ مرد سے انسانی تخم حاصل کرنے کا تقاضا کرتی ہے اور فِطرتاً بے تاب رہتی ہے۔ آخر جب اس کی زمینِ رحم میں انسانی نطفے کا تخم پڑجاتا ہے تو وہ اندر ہی اندر نشوو نما پانے لگتا ہے اور بطنِ مادر کے اندر رفتہ رفتہ درجہ بدرجہ تیار ہوتا رہتا ہے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اسے مادی غذا ماں کے ذریعے اس کی غذا سے بذریعہ خون خام پہنچتی رہتی ہے اورا سی مادی غذا سے اس کے عنصری جسم کی پرورش اندر ہی اندر ہوتی رہتی ہے۔ اس وقت سے اس میں جمادی روح پڑچکی ہوتی ہے جو اس گوشت کے لوتھڑے اور مضغہ کو منجمد رکھتی ہے۔ بعدہٗ اس میں نباتی روح پڑ کر اسے نشوونما دیتی ہے اور بڑھاتی ہے۔ مگر جوں ہی اس میں حیوانی روح تقریباً چھ ماہ کے بعد پڑجاتی ہے وہ پیٹ میں ہلتا جلتا اور حرکت کرتا ہے اور اسے غذا ناف کی ڈنڈی کے ذریعے پہنچتی رہتی ہے۔ لیکن جوں ہی بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور عالمِ امر کی انسانی روح اس میں ڈالی جاتی ہے تو وہ ہوا کے ذریعے سانس لینے لگ جاتا ہے اورتارِ تنفس عالمِ امر سے ایک غیبی ڈنڈی کی شکل میں اس کے ساتھ لاحق ہوجاتا ہے۔ اور اسی طرح ناک کے دونوں نتھنے اس کے لیے عالمِ امر کے ہر دو مثبت اور منفی یا جمال اور جلال کی برقی رو کے تارِ تنفس کے واسطے گذرگاہ بن جاتے ہیں اور نیز یہ تارِ تنفس روحانی غذا اور نیز خیالات اور قلبی واردات کا بھی رابطہ اور واسطہ بن جاتا ہے۔ جس کا سلسلہ عالمِ امر کے روحانی اور باطنی پاور ہاؤس سے ملا ہوا ہوتا ہے اور اس سے انسانی قلب اور قالب کی ساری مشینری روشن اور چالو ہے۔ انسانی بدن کی ساخت پر غور کرو اس میں دو نتھنے ، دوکان، دو آنکھیں، دو ہونٹ، دو جبڑے اور دو ہاتھ حواسِ خمسہ کے دو قسم کی بجلی کے تاروں کو انسانی دل اور دماغ تک پہنچنے کی گذرگاہ اور واسطہ بنے ہوئے ہیں۔ اور انسانی جسم ایک برقی مشین ہے جس میں مختلف برقی تاروں کے ذریعے مختلف قسم کی بجلیاں آتی جاتی ہیں اور یہ مشین کسی خاص غرض کے لیے چالو ہے۔ غرض اس بدنی مشینری یعنی نفس کی زندگی کا مقصد اور نصب العین اپنے اور اپنے متعلقین کے عنصری وجود کے لیے غذا مہیا کرنا، ان کی حفاظت کرنا اور ان کی ظاہری و دنیوی ترقی کے اسباب سوچ کر ان پر عمل کرنا اور مادی رزق کے حصول کے علوم اور فنون حاصل کرنا ہے۔ ایسے نفس کے انسان دنیا میں عام طور پر بکثرت ہیں۔ لیکن بعض خاص سعادت مند مردانِ خدا ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے اندر روزِ ازل سے ملکوتی استعداد اور قابلیت و دیعت کردی گئی ہوتی ہے۔ ان کی زمینِ قلب میں ملکوتی تخم پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہ سر سبز ہونے اور پھلنے پھولنے اور آبِ تربیت اور نشوونما حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوجاتاہے۔ وہ ملکوتی نطفہ حاصل کرنے کے لیے بے تاب اور بے قرار ہوکر آخر کسی مردِ کامل سے جاملتا ہے اور اس سے رحمِ قلب میں نوری ملکوتی نطفہ حاصل کرلیتا ہے اور جب اس میں وہ نوری نطفہ پڑجاتا ہے تو باطن میں شیخ الامرو شیخ العلم اس کے دو روحانی ماں باپ بن جاتے ہیں جو اس کی باطنی تربیت اور روحانی پرورش پر مامور اور متعین ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ ملکوتی جنین اپنی ملکوتی ماں کے ساتھ ایک باطنی نوری ناف کے رشتے سے وابستہ ہوتا ہے جسے رابطۂ شیخ کہتے ہیں۔ اسی نوری ناف سے اسے نوری ملکوتی غذاپہنچتی رہتی ہے اور اس کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔ یہ نوری معنوی طِفل جب بطنِ باطن سے باہر آتا ہے تو روحانی ملکوتی دنیا کے لازوال عالم میں قدم رکھتا ہے۔ یہ نوری معنوی طفل مثل شہبازِ لامکانی عالمِ کون ومکان میں نہیں سماتا۔ وہ اپنے لطیف باطنی پروں کی ایک ادنیٰ جنبش سے اقطار السمٰوات والارض سے پار ہوجاتا ہے۔ تمام مادی دنیا اس کے لیے بمنزلۂ رحمِ مادر ہوتی ہے اور عالمِ آب و گل اُس کے لیے آشیانہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقبول برگزیدہ بندوں کی یہ ملکوتی شخصیتیں ملائکہ اور فرشتوں کے اخلاقِ کریمانہ سے متخلق ہوتی ہیں۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے جب عفّت اور پاک دامنی کے امتحان میں شہوانی اور بشری نفسانی جذبات پرغالب آکر اور زنا کے فعلِ شِنیع سے کنارہ کرکے ملکوتی صفات کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے زنانِ مصر کی زبانی قرآنِ کریم میں آپ کی یوں توصیف اور تعریف فرمائی: وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَاھٰذَا بَشَرًاط اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَک’‘ کَرِیْم’‘o (یوسف۱۲:۳۱)۔ یعنی ’’خدا کی پناہ یہ انسان اور بشرنہیں ہے بلکہ یہ تو نرا پاکیزہ فرشتہ ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اطاعت اور ذکر فکر ایسے پاک ملکی صفات انسانوں کی قُوْت اَور قُوّت بن جاتی ہیں۔ بعض خاص الخاص اخص اِنسان اس سے بھی آگے ترقی کرتے ہیں اور فرشتوں سے بھی باطنی مراتب میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے کامل عارفوں کو اپنے انوار سے منور کردیتا ہے اور ان میں اپنی خاص روح پھونک دیتا ہے۔ ایسے برگزیدہ وجودِ مسعود والے سالک روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ برحق بن جاتے ہیں اور نائبِ رسول صلعم اور اصلی حقیقی معنی میں آدم کی اولاد آدمی کہلاتے ہیں۔ فرشتے ان کی تعظیم کوجھکتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ قولہٗ تعالیٰ: وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَo (الحجر۱۵:۲۹)ترجمہ:’’اور جب ہم اس میں اپنی روح پھونک دیں تو اے ملائکہ تم اس کے لیے سجدے میں پڑ جاؤ۔‘‘ مقامِ غور ہے کہ انسان کس طرح بتدریج باطنی حالات اور معنوی انتقالات سے گذرتا ہوا کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ یعنی جماد سے نبات، نبات سے حیوان، حیوان سے انسان اور فرشت�ۂ رحمان کے مقام اور منزل میں پہنچ کر اس سے بھی آگے عروج کر جاتا ہے۔ اسی روحانی ترقی اور باطنی انتقال کو مولانا روم صاحبؒ اپنی مثنوی میں یوں بیان فرماتے ہیں:
جمادی مُردم و نامی۱ شُدم
وزنما مُردم بحیواں سرزدم
مُردم از حیوانی و مردم شُدم
پس چہ ترسم کہ زمُردن کم شُدم
جملۂ دیگر بمیرم از بشر
تابر آرم از ملائک بال و پر
بارِ دیگر از ملک قُرباں شوم
آنچہ اندر وہم ناید آں شوم
(رومیؔ )
مذکورہ بالا ترقی نیک سعید، پاک اور مقدس روحوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس بدبخت ازلی شقی ناپاک روحوں کو ترق�ئ معکوس حاصل ہوتی ہے اور وہ انسان سے حیوان اور حیوان سے شیطان بلکہ اس سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں۔ پس انسان میں ہر دو نیک اور بری استعداد موجود ہے اور بہت بھاری ابتلاء اور امتحان ڈال دیا گیا ہے۔ بہت خوش قسمت ہے وہ شخص جو اس بھاری امتحان میں کامیاب ہوگیا۔
گہ نازکند فرشتہ ۱ برپاک�ئ ما
گہ دیو کُندعار ز ناپاک�ئ ما
اِیماں چو سلامت بہ لبِ گور بریم
اَحسنت بریں چستی و چالاکئ ما
(ابو سعیدؔ ابوالخیر)
ہم یہاں اپنے مذکورہ بالا بیان اور انسانی خلقت کے مختلف درجات کی تائید میں یورپ کے ماہرینِ روحانیات یعنی سپر چولسٹس(SPIRITUALISTS) کے کچھ مشاہدات اور تجربات بیان کرتے ہیں جس سے زمانۂ حال کے مغرب زدہ سائنس پروردہ دماغوں کو ایک گونہ تسلی اور تشفی ہوجائے کہ جوکچھ یہاں ہم بیان کررہے ہیں وہ ہر دو عقل و نقل، درایت و روایت، علمِ سلف اور علمِ خلف کے مطابق صحیح اور درست ہے۔ حال ہی میں یورپ کے سپر چولسٹوں نے برقِ حیات کی ایک نئی لہر دریافت کی ہے جسے ان کی اصطلاح میں اورا (AURA) کہتے ہیں اور وہ ایک باطنی برقِ حیات کا گول دائرہ ہوتا ہے جو ہر چیز کے ارد گرد لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ یورپ کے بڑے بڑے سائنسدان اسے تسلیم کرچکے ہیں۔ چنانچہ سپرچولزم کے شعبۂ کلیروائینس(CLAIRﷺOYANCE) یعنی علمِ جدید اور روحانیت کے شعبۂ روشن ضمیری میں اورا(AURA) یعنی حلقۂ برقِ حیات کو صاف اور ظاہر طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ہر چیز جماد، نبات، حیوان اور انسان کااورا مختلف قسم کا اور علیحدہ رنگ کا بتاتے ہیں۔ اس کی تفصیل بہت لمبی ہے۔تجربات اور مشاہدات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ نیند اور خواب کے وقت انسان کے وجود سے انسانی اور حیوانی اورا تو خارج ہوجاتا ہے لیکن جمادی اور نباتی اوراؔ اس میں موجود رہتا ہے۔ اور موت کے وقت انسان سے انسانی، حیوانی اور نباتی اوراؔ پے درپے خارج ہوجاتاہے۔ صرف معدنی یا جمادی اورا اس میں باقی رہ جاتا ہے۔ اور وہ مٹی کا اوراؔ ہے جو اپنے ہم جنس مٹی میں مل جاتا ہے۔ سو معلوم ہوا کہ انسان میں جمادی ، نباتی، حیوانی اور انسانی برقِ حیات موجود ہے اور انسان سب کا جامع ہے۔ جماد ایک قسم کا، نبات دو قسم کا، حیوان تین قسم کا اور انسان چاروں قسم کے اوراؔ نکالتا ہے اور اسی کے مطابق سانس لیتا ہے۔
انسان کے جسم میں دوسلسلے ہر وقت جاری رہتے ہیں۔ ایک تو ظاہری خارجی سانس اور تنفس کا سلسلہ ہے جو ہر دم میں جاری ہے۔ دوم باطنی داخلی خیالات کا سلسلہ ہے۔ یہ سلسلہ بھی کسی وقت انسان سے منقطع نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ ہر دو سانس اور خیالات کے سلسلے ہر وقت انسان کے جسم اور جان کے ساتھ لاحق اور وابستہ ہیں اور ان ہر دو کا آپس میں بھی ایک مخفی اور پوشیدہ تعلق ہے۔ خیالات کا سانس میں بڑا دخل ہے۔ بلکہ سانس اور تنفس خیالات کا روزن اور دروازہ ہے۔ اس لیے بزرگانِ دین اور سلف صالحین نے ذکر کے لیے پاس انفاس اور حبسِ دم کے طریقے رائج کیے ہیں۔ اس کی فلاسِفی اور حکمت یہ ہے کہ دل کی یہ ایک مخصوص صفت ہے کہ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بات سوچتا یا معنوی طور پر بولتا یا دوسرے لفظوں میں کسی نہ کسی چیز کا ذکر کرتا ہے۔ یہ ذکر کی صفت، اس کی خلقت اور فطرت میں اس واسطے دائمی طور پر موجود اور جاری ہے کہ انسان کی خلقت اور فطرت کی بنیاد ہی اس معدنِ اذکار یعنی اسم اللہ ذات پروردگارسے پڑی ہے اور انسان کا ہر وقت کوئی نہ کوئی بات سوچتے رہنا یا کسی نہ کسی چیز کا ذکر کرتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی باطنی حقیقت، اصلی فطرت اور حقیقی جبلّت و سرشت ہی ذکر اِسم اللہ ذات سے پڑی ہے جو کہ تمام اذکار کا اصل معدن ہے اور تمام اشیاء کے اسماء مع ان کے اذکار کے اسمِ اللہ ذات کے فروعات اور ظلال ہیں اور اسمِ اللہ ذات سب اشیائے کائنات کی اصل ہے۔ قولہٗ تعالیٰ: وَسَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُط (الجاثیہ۴۵:۱۳)۔ ترجمہ: ’’اور ہم نے مسخر کیا تمہارے واسطے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی (کے نام)سے۔‘‘ کیونکہ سب کا ظہور اسی کے نام سے ہے۔ اس کی تسخیر بھی اسی کے نام سے ہے۔ اسی آیت کی تفسیر کی بابت حضرت ابنِ عباسؓ سے جب پوچھا گیا تو آپؓنے فرمایا: فِیْ کُلِّ شَیْءٍ اِسْم’‘ مِن اَسْمَآءِہٖ تَعَالٰی وَ اِسْمُ کُلِّ شَیْءٍ مِّنْ اِسْمِہٖ ۔یعنی ہر چیز کے اندر اللہ تعالیٰ کے اسما میں سے ایک اسم ہے اور ہرچیز کے اسم کاظہور اللہ تعالیٰ کے اسمِ ذات سے ہے۔ اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ روح جب آدم علیہ السلام کے وجود میں داخل ہوئی اور اُس نے مقامِ دماغ استخوان الابیض میں قرار پکڑا تو اس نے کہا یااَللہ۔ جب نورِ نیرّ اسم اللہ ذات سے دماغِ آدم روشن اور منور ہوا اور اُس نے اُس آفتابِ عالم تاب کی طرف دیکھا تو اسے چھینک آئی۔ تب اس نے کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اوروَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ (الحجر۱۵:۲۹) سے ثابت ہے کہ روح آدم علیہ السلام کے وجود میں ہوا کہ ساتھ پھونک دی گئی ہے۔ سو مذکورہ بالا بیانات سے روح کا ذکر اسمِ اللہ ذات اور نیز ذکر کا تمام اشیائے کائنات یعنی خیالات، سانس اور تنفس کے ساتھ کس قدر گہرا تعلق، تام جنسیت اورمحکم رابطہ ورِشتہ ہے۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ سو سانس اور تنفس کا ذکر اللہ تعالیٰ اور خیالات و تفکرات کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ اسی تعلق کے انضباط اور استحکام کے لیے ذکر اللہ کے ساتھ پاس انفاس اور حبسِ دم کے طریقے رائج کیے گئے ہیں۔ سو انسانی روح کی بنیاد اور سرشت اسمِ اللہ اور توحید سے پڑی ہے۔ ذکر اللہ سب کی اصل ہے اور باقی تمام اشیائے کائنات اور عالمِ کثرت کا ذکر اس کی فروعات اور ظلال ہیں۔ جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے یعنی ذکر اسم اللہ کرتا ہے تو گویا وہ اپنی اصلی صفت اور ازلی فطرت پر ہوتا ہے اور اپنی اصل کی طرف متوجہ اور راجع ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ غیر اللہ کو یاد کرتاہے تو یہ ذکر چونکہ عارضی ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے ماسوائے جُملہ اشیائے کائنات کا ذکر اور ان کے خیالات انسانی قلب اور دل کی اصلی صفت کے مخالف اور متعارض ہوتے ہیں۔ اور دل کی اصلی صفت اور حقیقی جبلت کو بگاڑ دیتے ہیں۔ اور نیرّ اسم اللہ ذات کے لیے غیر ماسویٰ کا ذکر بادل اور ابر کی طرح حجاب بن جاتا ہے۔نفسِ بہیمی اپنی مادی عنصری اشیاء خور و نوش اور دیگر مادی لوازمات اور ضروریاتِ زندگی کی طلب میں رہ کر ہر وقت ان مادی اور غیر ماسویٰ اللہ اشیا کو یاد کرتا رہتا ہے۔ اور حواسِ خمسہ کے ذریعے اپنی ضروریات کی تمام اشیا کی یاد اور اسی قسم کی نفسانی خواہشات اور دنیوی خطرات کو دل تک پہنچاتا رہتا ہے۔ سو ان غیر اشیا کے ذکر اور خیالات کی دل کی اصلی صفت اور حقیقی حیات ذکر اسم اللہ ذات کے ساتھ اندر ہی اندر مڈھ بھیڑ ہوجاتی ہے تو دل کی حقیقی فطرتی صفت ذکر اللہ کو آلودہ اور مکدّر کردیتے ہیں اور دل میں ذکر اللہ کا اثر نہیں ہونے دیتے۔ سو طریقۂ حبسِ دم اور پاسِ انفاس کی فلاسفی یہی ہے کہ ذاکر اور سالک دل کے دروازے یعنی سانس اور تنفس پر پاسبان اور چوکیدار کی طرح بیٹھ جائے اور اس کے اندرکسی غیر ماسویٰ اللہ نامحرم یعنی غیر خیالات کو اندر گذرنے نہ دے اور اسے صرف گھر کے اصلی مالک اللہ تعالیٰ اور اس کے ذکر کی گذرگاہ بنائے رکھے۔ جیسا کہ کسی سالک نے کہا ہے۔
مرا در دِل ۱ بغیر از دوست چیزے درنمی گنجد
بخلوت خانۂ سلطاں کسے دیگر نمے گنجد
درونِ قصردل دارم یکے شاہے کہ گرگاہے
زدِل بیروں زندخیمہ بہ بحر و بر نمے گنجد
تنت گرہمچو موئے شد حجاب جاں بود وے را
میانِ عاشق و معشوق موئے درنمے گنجد
حسابِ صد ہزار عاقل بمحشر بگذردیک دم!
حسابِ یک دمِ عاشق بصد محشر نمے گنجد
(خواجہ غریب نوازؒ )
ذکر اسم اللہ ذات اور ماسویٰ خیالات کی مثال دِل کے لیے اس طرح پر ہے جیسے کسی شہر کے اندر کوئی تالاب یا حوض ہے جس کے اندر میٹھا اور پاک پانی خود بخود زمین میں سے پھوٹ پھوٹ کرنکلتا ہے۔ مگر اس میں بیرونی راستوں سے شہر کی غلیظ اور گندہ نالیوں کا پانی بہہ کر آپڑتا ہے تو یہ لازمی امر ہے کہ بیرونی گندے مردار پانی کے آپڑنے سے اس تالاب اور حوض کا اپنا اصلی میٹھا پانی پلید، مکدر، غلیظ، مردار اور بدبودار ہوجائے گا۔ اگر ان غلیظ گندہ نالیوں کے مردار پانی کو کچھ عرصے کے لیے اسی طرح تالاب میں پڑنے دیا جائے اور اسے بند نہ کیا جائے تو ضرور اس کی غلیظ تلچھٹ اور مٹی تالاب کی تہہ میں جم کر اس کے اصلی پھوٹنے والے چشموں اور راستوں کو بند اور مسدود کردے گی اور بجائے پاک میٹھے تالاب کے وہ حوض ایک گندہ اور مردار چھپڑ بن جائے گا۔ اس کے پینے والے بیمار اور ہلاک ہوجائیں گے۔ انسانی دل کا بعینہٖ یہی حال ہے۔ اسمِ اللہ اور ذکر اللہ کا نور دل کے اندر سے اصلی پھوٹنے والے پاک میٹھے آبِ حیات کی طرح ہے اور غیر ماسویٰ کی یاد اور نفسانی خیالات ظلمت اور تاریکی کا سیاہ مادہ ہے جو حواسِ خمسہ کی نالیوں سے دل کے پاک چشمۂ آبِ حیات میں گندہ اور مردار پانی کی طرح آپڑتا ہے اور دل کے آبِ حیات ذکر اللہ کو گندہ، مکدّر اور بعدہٗ بند اور مسدود کردیتا ہے۔ سو پاس انفاس اور حبسِ دم کے ذریعے دل کے روزن اور منفذ کو ان کے ماسویٰ خیالات کی گندہ نالیوں سے جب محفوظ رکھا جائے اور اسے اپنی صفت اور جبلت ذکر اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو ضرور ایسے دل میں نور ذکر اللہ کے باطنی اور غیبی چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور ایسے ذاکر پر اسرارِ حق کھل جاتے ہیں
چشم بند و گوش بند و لب بہ بند
گر نہ بینی سرِ حق برما بخند
(رومیؔ )
ترجمہ: اپنی آنکھوں، کانوں اور لبوں کو ماسویٰ سے روک لے۔ پھر اگر تجھے حق کا بھید معلوم نہ ہو تو ہمارا مذاق اڑا۔
باطنی ہمت، روحانی تو فیق اور دل کی قوت اور طاقت بڑھانے کے لیے یک سوئی و یک جہتی یعنی اپنے تصور اور تفکر کو یکجا، متحد اور مجتمع کرنا نہایت ضروری اور لازمی امر ہے جس کو انگریزی میں کنسنٹریشن(CONCENTRATION)کہتے ہیں۔ اسی پر تمام روحانی ترقی کا دارومدار ہے اور اسی پر کل سلوکِ باطنی کا انحصار ہے۔ نیز ایک کُلیہ قاعدے اور مسلمہ اصول کے مطابق خیالات اور تفکرات کا اتحاد اور اجتماع دل کی طاقت اور باطنی قوت کوبڑھانے کا موجب ہے اور خیالات کا انتشار اور اکتثار دل کی کمزوری کا باعث ہے۔ جیسا کہ لینزیعنی آتشی شیشہ میں سے جب کبھی آفتاب کی شعاعیں ایک نقطہ پر مجتمع ہوکر گذرنے لگتی ہیں تو اس میں اس قدر حِدّت اور حرارت پیدا ہوجاتی ہے جس سے کپڑا وغیرہ جلنے لگتا ہے اور جب وہی شعاعیں منتشر کرکے اور پھیلاکر گذاری جائیں تو ان میں وہ حدت اور حرارت نہیں رہتی۔ پس توحید اور وحدت کی طرف دل لگانا اس کی طاقت اور قوت کو گویا بڑھانا ہے اور عالمِ کثرت میں ڈالنا اس کی طاقت اور قوت کو ضائع کرنا اور کھونا ہے۔ قَوْلُہٗ تَعَالٰی: اَرْبَاب’‘ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْر’‘ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُoط(یوسف۱۲:۳۹)۔ ’’آیا مختلف اور متفرق معبود قائم کرنا زیادہ بہتر ہے یا ایک اللہ تعالیٰ کی ذاتِ واحد قہار کو پوجنا۔‘‘ اسلام اور اسلامی تصوف تمام مذہبی اعمال اور دینی ارکان میں دل کی نیت اور اس کی یکسوئی اور یک جہتی پر زور دیتی ہے اور اسی کی تائید اور تاکید کرتی ہے۔ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالِنِّیَّاتِ یعنی عمل کا ردّ، قبول اور نقص و صحت نیت پر منحصر ہے۔ یعنی عمل کے وقت اگر دل کی نیت محض اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تو وہ عمل قابلِ قبول ہے اور اگر کسی عمل کی نیت دنیوی اور نفسانی اغراض کی طرف راجع اور مائل ہے تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں رد اور مردود ہے۔ اسی لیے آیا ہے لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُورِ الْقَلْب۔ یعنی نماز درست اور صحیح نہیں ہوتی جب تک نماز میں دل اللہ کے ساتھ حاضر نہ ہو۔ اسی طرح جملہ اسلامی ارکان میں دل کا اللہ تعالیٰ کی طرف مائل اور راجع ہونا لازمی اور ضروری گردانا گیا ہے تاکہ ہر فعل اور ہر عمل میں دل اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف مائل اور راغب اور اس کے تصور اور تفکر میں محو اور منہمک ہو۔ اور یہی بات دل کی یکسوئی ، یک جہتی اور اس کے باطنی حواس تصور،تفکر،توجہ، توہم اور تصرف کو ذکر اللہ اور اسمِ اللہ کے ایک ہی نکتہ اور مرکزِ توحید پر متّحد اور مجتمع کرنے کا ذریعہ ہے۔ دل اور قلب کی باطنی قوت اور روحانی طاقت بڑھانے کا باعث بھی یہی چیز ہے اور یہی اسلامی توحید کی غرض وغایت ہے اور یہی مذہبی اور روحانی تصور کا مرکز ہے جسے ریلیجیس کنسنٹریشن (RELIGIOUS CONCENTRATION) کہہ سکتے ہیں۔بر خلاف اس کے ہندو یوگ والے اور مسمریزم، ہپنا ٹزم اور سپرچولزم والے اپنا تصور اور توجہ ایک نکتہ مفروضہ اورموہومہ پر جمانے اور باطنی طاقت بڑھانے کی مشق کیا کرتے ہیں۔ اسلامی مذہب اور روحانیت کا مرکز تصور اسم اللہ ذات ہے جو کہ مبداء و معادِ تمام کائنات اور مخلوقات ہے اور جس کا تعلق اور کنکشن مسمٰی کی اس ذات لم یزل و لایزال خالق وقادربے مثل و بے مثال کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن یوگ اورمسمر یزم کے طریقے میں ایک روشن چیز یا ایک تاریک مفروضہ نکتے کے تصور سے صاحبِ تصور اس چیز یا اپنے وجود سے باہر تجاوز نہیں کر سکتا۔ اس ہندو یوگی اور یورپین مسمرسٹ اور سپرچولسٹ کا معاملہ عالمِ ناسوت کے ادنیٰ اور سفلی مقام تک محدود رہ جاتا ہے اور صاحب تصور اسم اللہ ذات کی ترقی کا میدان بہت وسیع،لازوال اور لامحدود ہے۔ مذہبِ اسلام اور اسلامی تصوف کا سب سے اہم اور ضروری رکن کلمۂ طیّب ہے جس کے پڑھے بغیر نہ انسان مسلمان ہو سکتا ہے اور نہ اس کے ذکر کی کثرت کے بغیر راہِ سلوک طے ہو سکتی ہے۔ اس کلمۂ طیّب کے ذکر نفی اثبات لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ میں بھی یہی راز مضمر ہے کہ عالمِ کثرت کے سب باطل معبودوں اورجملہ عارضی مقصودوں اور تمام فانی موجودوں کو دل سے نکال کر ان کی نفی کر دی جائے اور ایک اصلی حقیقی حیّ قیوّم معبودِ برحق کے ذکر اور خیال کو دل میں ثابت اور قائم رکھا جائے۔ یہی اصلِ کار ہے اور اسی پر تمام مذہب وروحانیت کا دارومدار ہے۔
ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ دل کے خیالات کا دم اور سانس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ عارف سالک کا دل ایک باغ کی طرح ہے۔ سانس اوردم بادِ صبا کی طرح جب اس پر گذرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی خوشبو سے لدا ہو اباہر نکلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اسے بہشتی حلّوں میں لپیٹ کر اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس ذاکر عارف آدمی کی طرف سے بطور ایک نہایت قیمتی تحفے کے پیش کرتے ہیں اور وہ دم اس ذاکر عارف کے لیے بطور ایک گوہرِ بے بہا اس کے خزانۂ آخرت میں داخل ہو جاتا ہے۔ جو دم اور سانس عارف ذاکر کا واپس آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فیض و فضل اوررحم و لطف سے معمور ہوتا ہے اور یہ دم اللہ تعالیٰ کی طرف سے گویا ایک تحفہ، ذکر کا جواب اور انعام ہوتا ہے جس سے عارف سالک کے دل پر اللہ تعالیٰ کے انوارِ فیض و فضل کی بارش ہوتی ہے اور سالک کا باغِ دل سرسبزاور تازہ ہوتا ہے۔ ایسے کامل مردانِ خداکا دم اور سانس جب فضائے قلوب میں کسی زندہ اور حساس دل سے ٹکراتا ہے تو اس دل کوبھی اپنی خوشبو دار مہک سے معطر اور معنبر کر دیتا ہے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے
ستم است اگر ہوست۱ کشد کہ بسیرسروسمن درآ
توزغنچۂ کم نہ دمیدۂٖ درِ دِل کشا بچمن درآ
پے نافہ ہائے رمیدہ بو مپسند زحمتِ جستجو
بخیال از سرِ زلف اُوگر ہے کُشا بختن درآ
(بیدل ؔ کانپوری)
برخلاف اس کے مردہ دل نفسانی، فاسق، فاجر، مشرک اور کافر آدمی کا دل ٹٹی اور پاخانے کی طرح دنیاوی اور نفسانی غلاظتوں اور گندگیوں سے بھرپور ہوتا ہے۔ جب ایسے آدمی کے دم اور سانس کی بادِ سموم اس کے دل کا تعفّن لے کر نکلتی ہے تو وہ شیطانی اور نفسانی زہریلی گیس کا گویا ایک بم گولہ ہوتا ہے جو ابلیس اور شیطان کی میگزین میں جمع ہوتاہے اور وہاں سے حرص،طمع، حسد، کبر، شہوت وغیرہ کہ جملہ شیطانی اور نفسانی بد اثرات لے کر آتا ہے۔ ایسا دم اور سانس جس دل سے جا ٹکراتا ہے اسے بھی مسموم اور متعفّن کر دیتا ہے اور بیمار کر کے ہلاک کر دیتا ہے۔ غرض انسان جس وقت سانس لیتا ہے تو وہ سانس انسان کے دل اور ارواح کی بُو اور صفت لے کر نکلتا ہے اور انسانی دم اور سانس سے اس کے دل کے خیالات اور دل کی صفت معلوم اورمحسوس کی جاتی ہے۔ لہٰذا انسان جب زبان سے ذکر کرے یا ظاہر اعضا سے اطاعت اور عبادت کرے لیکن اس کا دل غیر اللہ خیالات اور تفکرات میں مصروف ہو تو وہ ذکر اور عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ قدروقیمت نہیں رکھتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اصل نظرنگاہ انسانی دل ہے نہ کہ اس کی زبان اور نہ ظاہری جسم اور اس کے اعمال۔ حدیث: اِنَّ اللّٰہَ لَایَنْظُرُ اِلٰی اَجْسَامِکُمْ وَلَا اِلٰی صُوَرِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُاِلٰی قُلُوْ بِکُمْ وَنِیَّاتِکُمْ (مسلم)۔یعنی اللہ تعالیٰ نہ تمہاری ظاہر ی صورتوں اور نہ عملوں کو دیکھتا ہے بلکہ تمارے دلوں اورنیتوں کو دیکھتا ہے۔
برزباں اللہ در دل گاؤ خر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر
ترجمہ: ظاہراً زبان پر اللہ کا نام ہو مگر دل میں گاؤ خر کا خیال ہو تو ایسی تسبیح کب اثر رکھتی ہے۔ انسان کا جسم جب نماز میں ہو اور دل اپنے دنیاوی کاروبار میں لگا ہوا ہو تو ایسی نماز قبولیت نہیں رکھتی۔
دل۱ پریشان و مصلّی در نماز
ایں نمازے کے پذیرد بے نیاز
(رومیؔ )
غرض عارف روشن ضمیرلوگ کسی آدمی کے خیالات اور اس کے دل کی صفت ہوا میں اس کے دل کی باطنی رَو سے معلوم کر لیتے ہیں۔ کیونکہ انسان جب دل میں کچھ سوچتا ہے یا کسی کا ذکر کرتا ہے تو وہ گویا باطنی طور پر بولتا ہے اور اس کے دل کی یہ باطنی آواز قلوب کی باطنی فضا میں لہراور تموّج پیدا کر کے اس کا حلقہ بجلی سے زیادہ سرعت کے ساتھ دور دورتک پھیل جاتا ہے اور اس کے دائرے میں جس قدر قلوب آتے ہیں سب سے وہ آواز جا ٹکراتی ہے۔ ہر زندہ، بیدار اور حساس دل اس آواز کو سن لیتا ہے اور اس ذاکر اور یاد کرنے والے کو دیکھ بھی لیتا ہے۔ لیکن جو دل پتھر کی طرح جامد اور مردہ ہوتے ہیں وہ اس باطنی آوازِ دل اور نظاروں سے بے بہرہ اور محروم ہوتے ہیں۔ اس باطنی احساس کو کشفِ قلوب کہتے ہیں۔ انبیا علیہم السلام اور اولیا کرام کو یہ کمال بدرجۂ اتم حاصل ہوتا ہے۔ نہیں دیکھتے کہ جس وقت مصر سے یوسف علیہ السلام کے بھائی پیراہنِ یوسفی ؑ لے کر کنعان کی طرف چلے تو یعقوب علیہ السلام نے اسی وقوفِ قلبی کے طفیل اپنے گھر والوں سے فوراً فرما دیا تھاکہ اِنِّیْ لَاَجِدُرِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(یوسف۱۲:۹۴) یعنی یعقوب علیہ السلام اپنے گھر والوں سے فرمانے لگے کہ ’’مجھے تو یوسف ؑ کی بو آرہی ہے اگر تم مجھے بے وقوف نہ بناؤ۔‘‘ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم یمن کی طرف منہ کر کے حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ کے دل کی باطنی ریح اور بو محسوس کر کے فرمایا کرتے: اِنِّیْ لَاَجِدُرِیْحَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ۔یعنی ’’مجھے یمن کی طرف سے صفتِ رحمن کی بو اور ریح آتی ہے۔‘‘ ان ہر دو کلمات میں ریح یعنی ہوا کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسانی خیالات اور دل اورروح کی بو اور صفت کا ریح یعنی ہوا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح کر دینی لازمی ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کا باطنی کشف انبیا اور اولیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی معین اور خاص ضروری موقع کے لیے عطا کیا جاتا ہے۔ یعنی انہیںیہ باطنی بصیرت اور کشفی کمال ہر وقت اختیاری طور پر حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔ جس طرح ہمیں دنیا میں مادی حواس دائمی طور پر حاصل ہیں کہ جس وقت اورجہاں چاہیں ہم ان سے مادی اشیا کو معلوم اور محسوس کر سکتے ہیں اسی طرح باطنی حواس بھی خدا کے خاص بندوں کو اللہ تعالیٰ وہبی طور پر ہمیشہ کے لیے عطا کر تا ہے کہ جس وقت اور جہاں چاہیں انہیں استعمال کر سکتے میں اور ان سے استفادہ کر تے ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض باتیں اپنے خاص مقبول بندوں سے مصلحتاً چھپا رکھتا ہے۔ جیسا کہ گھر کا مالک اپنے گھر کے بندوں سے بعض چیزیں چھپا کے رکھتا ہے یا بعض امور مصلحتاً ان سے پوشیدہ رکھتا ہے یا بعض دفعہ انسان ایک طرف دیکھ رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف کی چیزیں اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔
انسان خواہ باطن میں خواص انبیاء عظام ہوں یا اولیاء کرام اور خواہ ظاہر بین عوام ہوں ان کے علوم اوراحساس کا دائرہ محدود ہوا کرتا ہے اور خواہ کوئی انسان کتنا ہی عظیم المرتبہ اور منزہ صفات کیوں نہ ہو جائے اور کتنا ہی اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس سے واصل ہو جائے اور اسکی ذات میں فنا اور بقا حاصل کر کے اس کے ساتھ زندۂ جاوید ہو جائے وہ پھر بھی حدوث اور امکان کے داغ سے داغدار رہتا ہے اور یہ داغ ہمیشہ کے لیے اس سے کبھی نہیں مٹ سکتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر گاہ گاہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی، صفاتی، اسمائی اور افعالی تجلیات کا نزول ہوتا ہے اور وہ حسبِ حیثیت اپنے باطنی ظرف کے مطابق اللہ تعالیٰ کے انوار کا انعکاس قبول کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کے ان مقبول بندوں پر اس خاص حالت میں اللہ تعالیٰ کا اطلاق ہو سکتا ہے اور ان کے قول، فعل اورعمل کو اللہ تعالیٰ کا قول، فعل اور عمل کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ پرکسی حالت میں بندے کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
اس لیے قرآن کریم میںآیا ہے: لَقَدْکَفَرَالَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَط (المائدہ۵:۱۷)۔ یعنی ’’وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم بن گیا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم کے انسانی روپ میں آگیا۔ برخلاف اس کے اگر یوں کہا جاتا کہ جیسے ابن مریم نے خدائی نور اور روح القدس سے بھر کر خدائی کام کیے تو یہ کفر کی بات نہیں۔ اول الذکر لوگ حلول کے قائل ہیں اور یہ مذہب اہلِ اوتار کا ہے جو کہتے ہیں کہ خدا کبھی کبھی انسانی بھیس میں دنیا میںآتا ہے۔ اور مؤخر الذکر لوگ اس اعتقاد کے قائل ہیں جو صحیح بخاری کی اس حدیث سے واضح ہے: یَتَقَرَّبُ اْلعَبْدُ اِلَیَّ بِا لنَّوَافِلِ حَتیّٰ اَکُوْنَ عَیْنَیْہِ یَنْظُرُبِیْ وَ اُذْنَیْہَ یَسْمَعُ بِیْ وَاَیْدِ یْہِ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِیْ وَ لِسَانَہُ الَّذِیْ یَنْطِقُ بِیْ الخ (بخاری) ترجمہ:’’ بندہ زائد عبادت اور اطاعت سے میرے نزدیک ہو جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں وہ مجھ سے دیکھتاہے اور اس کے کان بن جاتا ہوں وہ مجھ سے سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں وہ مجھ سے پکڑتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتاہوں وہ مجھ سے بولتا ہے۔‘‘ قرآن کریم میں بھی اس حدیث کے مطابق آیتیں موجود ہیں۔ قَوْلُہ‘ تَعَالیٰ: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیo اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْی’‘ یُّوْحیٰo(النجم۵۳:۳۔۴)۔ یعنی ’’میرا نبی ہوا سے نہیں بولتا بلکہ اس کا بولنا عین اللہ تعالیٰ کی وحی اور القاء ہے۔‘‘ قَوْلُہ‘ تَعَالیٰ: وَمَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰیج (الانفال۸:۱۷)۔ ترجمہ:’’ اے میرے نبی! تو نے کافروں کی طرف کنکریاں نہیں پھینکی تھیں بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھیں۔‘‘ قَوْلُہ‘ تَعَالیٰ: اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْج(الفتح۴۸:۱۰)۔ ترجمہ:’’ اے میرے نبی ! جولوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ عین اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تیرے ہاتھ کے اوپر ہے۔‘‘ سو اس قسم کا اعتقاد آیات اور احادیث سے صحیح اور درست ثابت ہے۔
گفتۂ اُو گفتۂ ۱ اللہ بود
گرچہ از حلقُومِ عبداللہ بود
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خُدا
اُونشِیند در حضورِ اولیاء
اَولیاء اللہ و اللہ اَولیاء
ہیچ فرقے درمیاں نہ بود روا
(رومیؔ )
ترجمہ: اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کا کہنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ اللہ کے بندے کی زبان سے ادا ہو جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بیٹھنے کا آرزو مند ہے وہ اس کے اولیا کی مجلس میں بیٹھتا ہے۔
اور کسی بزرگ کا یہ قول اس کے مطابق ہے
مردانِ خُدا خُدا نہ باشند
لیکن ز خُدا جُدا نہ باشند
ترجمہ: خدا کے مقبول بندے خدا تو نہیں ہوتے لیکن وہ خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے۔
جس کا اردو ترجمہ یوں ہے (داغ ؔ )
آدم کو خدامت کہو آدم خدا نہیں
لیکن خدا کے نور سے آدم جدا نہیں
حضرت یعقوب علیہ السلام کے مصر سے پیرا ہنِ یوسفی کی بُو معلوم اور محسوس کرنے کے ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یعقوب علیہ اسلام کو یوسف علیہ السلام کا مطلق کوئی علم نہ تھا۔ اگر علم ہوتا توکنعان کے کنوئیں میں سے انہیں جا کر کیوں نہ نکال لائے۔ سو یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کی نسبت اس قدر علم تو ضرور تھا کہ انہیں بھیڑیوں نے نہیں کھایا بلکہ وہ زندہ ہے۔ اس لیے آپ نے بیٹوں کے اس بہانے کو جھٹلاتے ہوئے فرما دیا تھا کہ: بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًاط(یوسف۱۲:۱۸)۔ یعنی: ’’یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نہیں کھاگئے۔ بلکہ تم اپنی طرف سے جھوٹا منصوبہ بنالائے ہو۔‘‘ اور دوسری بار جب آپؑ اپنے بیٹوں کو غلہ لانے کے لیے مصر بھیج رہے تھے تو انہیں یہ تلقین فرمائی کہ: یٰبَنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ وَلَا تَایْءَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِط (یوسف۱۲:۸۷)۔ یعنی ’’ اے فرزند جاؤ اور یوسف ؑ اور اس کے بھائی بنیامین کو ڈھونڈ لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘ اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا تھاکہ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِھِمْ جَمِیْعًاط(یوسف۱۲:۸۳)۔ یعنی ’’عنقریب اللہ تعالیٰ ہر دو یوسف اور اس کے بھائی کو لاکر مجھے ملا دے گا۔‘‘یعقوب علیہ السلام باوجود علمِ غیبی اور کشفِ باطنی کچھ تو بسببِ ضعفِ بشری اندیشناک اور تذبذب میں رہے اور کچھ اللہ تعالیٰ کے امتحان صبر سے خائف تھے اور فرماتے رہے فَصَبْر’‘جَمِیْل’‘ط(یوسف۱۲:۸۳)۔ ’’صبر ایک عمدہ فعل ہے۔‘‘ ورنہ آپ اپنے گھرمیں ہر وقت یوسفؑ کی باتیں کرتے رہتے کہ اب وہ فلاں جگہ ہے اور فلاں کام کر رہا ہے اور بھائی آپ کی ان باتوں کو آپ کے جنون اور مالیخولیا سے تعبیر کرتے حالانکہ وہ صحیح کشف ہوتا۔ یعقوب علیہ السلام کا یہ امتحان کا معاملہ بعینہٖ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرح تھا کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو وحی فرمائی کہ اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دے تو ساتھ ہی یہ بھی وعدہ فرمادیا تھاکہ اِنَّارَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَo (القصص۲۸:۷)۔ یعنی ’’ہم اس بچے کو پھر تمہارے پاس زندہ سلامت پہنچا دیں گے اور اسے پیغمبر بنائیں گے‘‘۔ لیکن باوجود اس صحیح بشارت اور باطنی بصارت کے اس کا دل بے قرار اور بے صبر رہا۔ قولہٗ تعالیٰ: وَاَصْبَحَ فَُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًاط اِنْ کَا دَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِھَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (القصص۲۸:۱۰)۔ ’’موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا دل اتنا بے قرار ہو اکہ سارا معاملہ ظاہر کر دیتی اگر ہم اس کا دل مضبوط نہ کرتے تاکہ ہمارے وعدے پر اسے ایمان اور اطمینان ہو۔‘‘ سو پیغمبروں اور اولیاء کو باوجود کشفِ صحیح اور بصارتِ باطنی پھر بھی بسبب ضعفِ بشری خدشہ اور اندیشہ لاحق رہتاہے اور داغِ بشریت کسی وقت انسان سے دور اور زائل نہیں ہوتا۔ اور یہی وہ چیز ہے جو عبد کو معبود اور بندے کو خدا سے جدا اور ممیز کرتی ہے۔ اگر خدا کے خاص بندوں کو علمِ غیب حاصل نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی کیوں فرماتے: وَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا تَاْ کُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَلا فِیْ بُیُوْتِکُمْط (اٰل عمرٰن۳:۴۹)۔ ترجمہ :’’عیسیٰ علیہ السلام نے کہا میں (اپنے خدا داد علم سے)تمیں بتا سکتا ہوں کہ جو کچھ تم اپنے گھروں میں روزانہ کھایا کرتے ہو اور جو کچھ تم آئندہ کے لیے ذخیرہ جمع رکھتے ہو۔‘‘ غرض اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کو اپنے اوپر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا مولانا روم صاحبؒ فرماتے ہیں
کارِ پاکاں ۱ راقیاس از خود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر و شِیر
آں یکے شیراست کہ مردم درد
ویں دگر شِیرا ست کش مردم خورد
گر بصورت آدمی انساں بدے
احمدؐ و بوجہل ہم یکساں بدے
سو ذکر میں اصل معاملہ دِل کا ہے۔ ظاہری صورت اور خالی زبانی ذکر کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ بہت لوگ ساری رات زبانی ذکر کیا کرتے ہیں لیکن ان کا دل ذکر سے غافل ہوتا ہے۔ اور بعض ایسے عارف کامل ذاکر ہیں جو مطلق زبان نہیں ہلاتے لیکن ان کا لطیفۂ دل ذکر اللہ سے گویا ہوتا ہے
بدل ۲ مذکر حق باش ورنہ طوطی ہم
بصوت و حرف خدا را کریم مے گوید
محبّانِ حق اور عارفانِ الٰہی کا ہر ایک سانس گویا محبت اور شوقِ الٰہی سے بھرا ایک باطنی پیغام اور روحانی پروانہ ہوتا ہے جو تارِ برقی اور لاسلکی رَو کی طرح اللہ تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں جاپہنچتا ہے اور ذاکر کی طرف سے اپنے شوق اور محبت کا عرض حال گذارتا ہے تواللہ تعالیٰ کے قرب، وصال اور مشاہدے کے انوار لے کر آتا ہے۔ اسی طرح ذاکر مذکور، عبد معبود اور محب اور محبوب کے درمیان فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرۃ۲:۱۵۲) (تم مجھے یادکرو میں تمیں یاد کروں گا) کی تارِ برقی اور یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ لا(المآئدہ۵:۵۴) (محبت کرتا ہے اللہ ان سے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں) کی لاسلکی رَو جاری رہتی ہے۔ انسان کوچاہیے کہ دل سے ہزار دفعہ اللہ تعالیٰ کا نام اور زبان سے ایک دفعہ اللہ کہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ لوگ ہزاروں لاکھوں دفعہ اللہ اللہ کرتے ہیں۔ انگلیاں تسبیح کے دانے اور منکے پھیرتے پھیرتے تھک جاتی ہیں اور تسبیح کے تاگے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن دل کو آگاہی اور خبر بھی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ میر صاحبؒ فرماتے ہیں
ہر چند کہ طاعت میں ہوا ہے تو پیر
یہ بات مری سن کہ نہیں بے تاثیر
تسبیح بکف پھرنے سے کیا کام چلے
منکے کی طرح من نہ پھرے جب تک میرؔ
یہ فقیر ایک دفعہ رمضان کے آخری عشرے میں ایک مسجد کے اندر معتکف تھا۔ وہاں ایک اور شخص بھی اعتکاف کی نیت سے مقیم تھا جو بڑا شب بیدار اورمحنتی معلوم ہوتا تھا۔ عشاء سے لیکر صبح تک ساری رات اللہ اللہ کیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ بندۂ خدا ! تم بہت محنت کرتے ہو۔ اس نے مجھے بتایا کہ مجھے اپنے مرشد نے بارہ ہزار دفعہ اللہ اللہ پڑھنے کا روزانہ امر فرمایا ہے۔ سو میں بمشکل ساری رات میں اس کو ختم کرتا ہوں۔ میں نے پھر اس سے دریافت کیا کہ تم نے کتنے عرصے سے یہ محنت شروع کر رکھی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ تقریباً دس سال سے روزانہ بلاناغہ یہ محنت اور مجاہدہ کر رہا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ اس محنت کا کوئی پھل اور اس مجاہدے کا کوئی مشاہدہ بھی تمہیں باطن میں حاصل ہے یا نہیں۔ اس نے کہا کچھ نہیں۔ صرف اس قدر ہے کہ مرشد کا امر پورا کر رہا ہوں اور جس روز یہ امر پورا ہو جاتا ہے اس روز نفسیاتی اثر کے تحت دل خوش اورمطمئن رہتا ہے کہ فرض ادا کیا ہے۔ اوراگر کچھ کوتاہی ہو جائے تو دل پریشان رہتا ہے۔ میں نے کہا میاں! تمہاری محنت تو بڑی ہے لیکن مزدوری خاک اور صفر ہے۔ اس نے کہاکہ مرشد کا فرمان پورا کرنا فرض ہوا کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ ایسے بے اثر اوربے نتیجہ فرمان سے کیا حاصل۔ خیر وہ بے چارہ اپنے کام میں لگا رہا اور میں نے اسے زیادہ چھیڑنامناسب نہ سمجھا۔ ایسے ہزاروں لوگ بے جا اور بے طریقہ رائیگاں سخت محنت اور ریاضت کرتے ہیں اور انہیں بمقتضائے عَامِلَۃ’‘ نَّاصِبَۃ’‘o (الغاشیۃ۸۸:۳) سوائے محنت اور تھکاوٹ کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ حی قیوم زندہ اور پائندہ ذات ہے اور وہ سمیع بصیر یعنی شنوا اور بینا ہے۔ اور نیز قریب مجیب یعنی قریب اور جواب دینے والا اور قبول کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات (معاذ اللہ) کوئی ٹھوس جامد بت نہیں کہ بندہ اسے پکارے یااللّٰہ اور وہ جواب نہ دے لَبَّیْکَ یَاعَبْدِیْ یعنی اے بندے میں حاضر ناظر ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ انسان اس کی خالص عبادت کرے یا اس کے نام پر پاک اور طیب مال بے ریا دیوے اور اللہ تعالیٰ غنی اور کریم ہونے کے باوجود اسے معاوضے اور انعام سے سرفراز نہ فرماوے۔ جس ذکر، فکر، دعا، عبادت اورخیرات و صدقات پر فوری اثر اور نتیجہ مترتب نہ ہو اوربندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بابت خواب، مراقبے یا بیداری میں کوئی اعلام یا الہام نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ دعا، صدقہ اور عبادت وغیرہ قبولیت کے درجہ کو نہیں پہنچیں اور ان کی شرائط اور لوازمات وغیرہ میں کوتاہی رہ گئی ہے۔ اور بسبب باطنی نقص اور عیب وہ چیز اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت حاصل نہیں کر سکی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو ہر عمل اور ہر عبادت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے طرح طرح کی بشارتیں اور غیبی اشارتیں پہنچتی رہتی ہیں۔ قُولُہ تَعالٰی: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزََّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلآءِکَۃُ اَلَّاتَخَافُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِالدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج (حٰآ السجدۃ۴۱:۳۰۔۳۱)۔ ترجمہ: ’’تحقیق وہ لوگ جنہوں نے اقرار کیاکہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس اقرار پر عملی طور پر قائم بھی رہے تو ہم ان پر فرشتے نازل کرتے ہیں جو انہیں بشارتیں دیتے ہیں کہ کسی قسم کا غم اور خوف نہ کرو اور جنت کی بشارت سے خوش رہو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ ہم یہاں دنیا میں اور نیز آخرت میں تمہارے یار اور مدد گارہیں۔‘‘
انسان کو چاہیے کہ عبادت، طاعت، دعوت اور ذکر فکر میں حضورِ دل کو ضروری اور لازمی جانے۔ اپنے سانس اور دم پر نگاہ رکھے کہ کوئی دم اور سانس ذکر اللہ کے بغیر نہ نکلے۔ کیونکہ جو سانس اللہ تعالیٰ کے خیال اور تصور سے نکلتا ہے وہ ایک گوہرِ بے بہا بن کر ذاکر کے لیے خزانۂ آخرت میں جمع ہوتا ہے۔
ہر دم کہ میرددنفس از عمر گو ہر یست
کا نرا خراج عمر دو عالم بود بہا
(حافظؔ )
ترجمہ: زندگی کے ہر دم کا جو سانس جاتا ہے وہ ایک ایسا گوہر ہے جس کی قدر و قیمت دونوں جہان کی عمر کے برابر ہے۔
کیونکہ جو دم گذر جاتا ہے وہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے اس کا واپس آنا محال ہے ۔ اور جو آئندہ آنے والا ہے خدا جانے وہ آئے یا نہ آئے۔ غرض دمِ ماضی اور دمِ مستقبل ہر دو اختیار اور اعتبار سے باہر ہیں۔ انسان صرف اسی ایک ہی دم کا مالک ہے جو زمانۂ حال میں جاری ہے۔ اگر یہ دم اللہ تعالیٰ کے خیالِ خاص اور ذکرِ بااخلاص سے نکل گیا تو یہ سمجھو کہ گوہر بے بہا بن گیا جس سے دارین کی دولت اور کونین کی سعادت خریدی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہ دم غفلت میں گذر گیا یعنی نفس و شیطان اور دنیا کے خیال میں گذر گیا تو یہ جانو کہ یہ دم نہیں تھا جو ہوا میں اڑ گیا بلکہ دارِ آخرت اور عالمِ عقبیٰ میں ابدی عذاب اور لازوال آلام کا پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑے گا۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ دم کی قدر جانے
نگہدار دم راکہ عالم دمے است
دمے پیش دانا بہ از عالمے است
سکندر کہ بر عالمے حکم داشت
درآں دم کہ بگذشت عالمِ گذاشت
میسر نہ بودش کہ زو عالمے
ستانند و مہلت د ہندش دمے
(سعدیؔ )
ترجمہ: اپنے دم(سانس) کی حفاظت کرکیونکہ دنیا بھی ایک دم ہی ہے اور دانا کی نظر میں ایک دم بھی عالم سے بہتر ہے۔ سکندر جو دنیا کا حکمران تھا جس وقت وہ فوت ہوا اس نے دنیا کو چھوڑ دیا۔ اسے یہ بات حاصل نہ ہوسکی کہ اس سے دنیا کا ایک قطعہ لے کر(اس کے بدلے) مزید پل بھر کی مہلت مل جائے۔
کہتے ہیں کہ ایک بزرگ کا اپنے طالبوں، مریدوں کے ہمراہ چند قبروں پر گذر ہوا۔ آپ وہاں فاتحہ پڑھنے کے لیے چندہ منٹ ٹھہرے اور بعدہٗ ان کے احوال کی طرف متوجہ اور مراقب ہوئے۔ جب آپ مراقبے سے فارغ ہوئے تو آپ نے ایک درد بھری آہ نکالی اور آبدیدہ ہوئے۔ مریدوں نے دریافت کیا کہ جناب یہ کیا حالت ہے۔ فرمایا کہ یہ چند قبریں جن لوگوں کی ہیں یہ دنیا میں بڑے زاہد، عابد اور پرہیز گار گذرے ہیں۔ لیکن دنیا میں معدودے چند دم اورسانس ان کے اللہ کی یاد سے غفلت میں گذر گئے تھے۔ ان چند دموں اور سانسوں کی نسبت ان کے دلوں میں اس قدر حسرت اور ارمان ہے کہ اگر ان میں سے ایک اہلِ قبر کے دل کی حسرت اور ندامت نکال کر تم سب کے دلوں میں تقسیم کر کے ڈال دی جائے تو خدا کی قسم تم سب پاگل اور دیوانے ہو جاؤ گے۔ غرض موت کے بعد انسان کو اس بات کا غم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے پیچھے عزیزبچے، پیاری بیوی، بھائی بہن ،دوست، آشنا، مال و دولت، پیارا وطن اور گھر بار وغیرہ چھوڑ کر آیا ہے۔ اسے جب معلوم ہوتا ہے کہ بازارِ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے ذکر، یادِ الٰہی اور طاعت و عبادت کے بغیر اور کوئی دام نہیں چلتا اور نہ اس سچے سکّے کے بغیر کوئی کام نکلتا ہے تو اسے اگر کوئی غم اور درد ہوتا ہے تو صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ ہائے عمر گراں مایہ کی وہ زرّیں قیمتی گھڑیاں اور تارِ تنفس کی سنہری کڑیاں ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔جن کے ایک ایک تار تنفس میں زندگی کا اصلی گوہرِ مقصود پرویا ہوا تھا۔ صد افسوس، دن رات میں چوبیس ہزار دم حاصل تھے اور ہر دم میں اللہ تعالیٰ کے قرب ، مشاہدے اور وصل وصال کے موقعے شامل تھے۔ اب ان میں سے ایک بھی واپس ہاتھ آنے کا نہیں۔ ہائے غفلت اور نادانی اب وہ چابی گم ہو گئی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے قرب کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔
دلا۱ تو غافلی از کار خویش و مے ترسم
کہ کس درت نہ کشاید چوگم کنی مفتاح
غرض اس عُمرِ عزیز اور اس کے قیمتی اور زرّیں دموں کی قدر و قیمت موت کے بعد معلوم ہو گی جب کہ یہ ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اور نادان انسان بے چارا غفلت کا مارا زار زار پکارے گا یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَافَرَّطْتُّ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ وَاِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِیْنَo (الزمر۳۹:۵۶)۔ یعنی’’ ہائے افسوس اس بات پر کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے قرب میں کس قدر کوتاہی کی اور میں نے تو ٹھٹھے اور مسخری میں عمر گذاردی۔‘‘
سو اے عزیزو! اِن چند دموں کو جو تمہیں اس زندگی میں حاصل ہیں غنیمت جانو اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اللہ تعالیٰ کی یاد میں گذر گیا تو تمام دنیا کی بادشاہی سے بہترہے۔ خاقانی مردِ حقانی نے کیا اچھا کہا ہے
پس از سی سال ایں معنیٰ محقق شد بخاقانی
کہ یک دم با خدا بودن بہ از ملک سلیمانی
ترجمہ:خاقانی کو تیس سال بعد اس حقیقت کا علم ہوا کہ ایک دم باخدا رہنا سیلمان ؑ کے ملک سے بھی بہتر ہے۔
اے مردِ خدا عقل سے کام لے۔ دم کے اس درِّگراں مایہ کو فضول اور لایعنی اشغال اور لہوولعب میں ضائع نہ کر ورنہ سخت پچھتائے گا۔ انسانی زندگی کا اصل مقصد عبادت اورمعرفت ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّلِیَعْبُدُوْنِo (الزّٰریٰت۵۱:۵۶) یعنی ’’ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔‘‘ اور عبادت کا مقصد معرفت ہے۔ جیسا کہ اس حدیث قدسی سے ظاہر ہیکُنْتُ کَنْزاً مَّخْفِیًا فَاَرَدْتُّ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلَقَ ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایک مخفی خزانہ تھا۔ پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے (اپنی معرفت اور پہچان کے لیے) مخلوق کو پیدا کیا۔‘‘ اور نیز ازل کے روز جب اللہ تعالیٰ نے ارواحِ مخلوق کو مخاطب کر کے فرمایا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط (الاعراف۷:۱۷۲)۔’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔‘‘ تو اس زبانی (ORAL) سوال سے بھی اللہ تعالیٰ کی غرض و غایت اپنی معرفت اور پہچان معلوم ہوتی ہے کہ آیا تم مجھے اپنا رب جانتے ہو یانہیں۔ تو ارواح نے جواب دیا بَلٰی(الاعراف۷:۱۷۲)یعنی ہم پہچانتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے۔ غرض مخلوق کی پیدائش کا اصلی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان ہے۔ بعض نادان، حریص، کور چشم طلبِ دنیا اور حصولِ معاش کو ہی زندگی کا اصلی مقصد اور عبادت خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدمتِ خلق ہی اصلی عبادت ہے اور نماز، روزہ، تلاوت، ذکر ، فکر اور عبادت وطاعت کو تضیعِ اوقات اور رہبانیت کی مشق خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیت کے دوسرے حصے میں ان کے اس دعوےٰ کو صاف طور پر رد کردیا ہے۔ اور وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّلِیَعْبُدُوْنِo (الزّٰریٰت۵۱:۵۶)کے بعد صریح طور پر فرمایا ہے کہ مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِoاِنَّ اللّٰہَ ھُوَالرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo (الذّٰریٰت۵۱:۵۷۔۵۸) ترجمہ:’’ہمارا منشا اُن سے رزق پیدا کرنے کا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ ہماری مخلوق کو طعام پہنچائیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ خود رازِق مطلق اور زبردست قوت اور طاقت والا ہے۔‘‘ یعنی: وہ تمام مخلوق کیا چرند اور کیا پرند، کیا جِنّ اور کیا اِنس، سب کو رزق پہنچانے سے عاجز اور کمزور نہیں ہے۔
ابر و۱ باد و مہ و خورشید و فلک در کا راند
تاتُو نا نے بکف آری و بہ غفلت نہ خوری
ہمہ از بہرَ تو سرگشتہ و فرماں بردار
شرطِ انصاف نہ باشد کہ تو فرماں نہ بری
(سعدیؔ )
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو انسان اور جنات کے رزق اور پرورش کی خِدمت پر لگا دیا ہے اور انسان اور جنات کو محض اپنی عبادت اور معرفت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا(البقرہ۲:۲۹)۔ یعنی اے میرے بندو! آسمان اور زمین کے اندر جس قدر چیزیں موجود ہیں وہ سب میں نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔ لیکن تمہیں اپنے لیے پیدا کیا ہے۔
کار سازِ۲ ما بفکرِ کارِ ماست
فکرِ ما در کارِ ما آزارِ ماست
(رومیؔ )
وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود۱۱:۶)۔ ترجمہ:’’ اور کوئی نہیں پاؤں چلنے والا زمین پر مگر اللہ پر ہے اس کی روزی۔‘‘ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ انسان کے وجود میں روح ہوا کے ذریعے پھونکی گئی اور روح جب آدم کے وجود میں داخل ہوئی تو اس نے اسم اللہ کہا۔ سو انسان کی فطرت اور خلقت کی بنیاد اسم اللہ کے نور سے پڑی ہے اور اپنی اسی اصل کی طرف رجوع کرنا اور اسی حقیقی سرِشت کے ساتھ موافقت پیدا کرنا اور اپنے آپ کو اپنے اصل اور معدن تک پہنچانا یعنی ذکر اللہ سے مذکور اللہ تعالیٰ تک اور اسم سے مسمّٰی تک پہنچنا اس کا حقیقی فطری فعل اور زندگی کا اصلی مقصد ہے۔ انسان کے اندر ہر وقت کسی نہ کسی شے کی یاد اور ہر وقت خیالات اور ذِکرات کا تسلسل اسی اسم اللہ ذات کے تاثرات اور مقتضیات سے ہے۔ سو انسان کی سرشت اور فطرت میں اسم اللہ کا نور اور اس کا ذکر بطور تخم ودیعت رکھ دیا گیا ہے۔ انسان فطرتاً اپنے خالق مالک کے ساتھ اسی مخفی باطنی رابطے اور غیبی رشتے کے ذریعے وابستہ ہے۔ اسی لیے ہر مذہب خصوصاً مذہب اسلام کے تمام دینی ارکان اور شرعی اعمال مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور کلمہ وغیرہ کا دارومدار اور انحصار اسم اللہ اور ذکر اللہ پر ہے۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اسلامی فطرت لے کر دنیا میں آتا ہے اور نیز اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی اسی کی تائید میں ہے: فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَاط لَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِط ذٰلِکَ الدِّیْنُ لْقَیِّمُق لا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَo (الروم۳۰:۳۰)۔ ترجمہ:’’پس تو اپنا رخ دینِ حنیفی یعنی توحید کی طرف پھیر جو کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ازلی اور اصلی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔ سوچاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اس ازلی فطرت اور اصلی خلقت میں تبدیلی واقع نہ ہو۔ یہی ہے دینِ محکم اور مضبوط۔ لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔‘‘ غرض اسلام وہ خاص حقیقی اور اصلی توحیدی دین ہے جس کا تخم اللہ تعالیٰ نے روزِ ازل سے انسان کی سرشت اور پیدائش میں بطور امانت رکھ دیا ہے۔ پس اسی اصلی ودیعت کے سلامت رکھنے کا نام اسلام ہے اور اسی ازلی امانت کا مامون اور محفوظ رکھنا عین ایمان ہے اور اسی فطرت کی طرف اس حدیث شریف میں اشارہ ہے: کُلُّ مَوْ لُوْدٍ یُّوْ لَدُ عَلٰی فِطْرَۃِ الْاِسْلَامِ وَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ۔ یعنی ’’ہر بچہ جس وقت پیدا ہوتا ہے تو اس کی فطرت اسلام پر ہوتی ہے۔ لیکن بعدہٗ والدین اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنالیتے ہیں۔‘‘یعنی والدین اپنے آبائی اور تقلیدی دین کا جوأ اُ س کے گلے میں ڈال کر اسے مشرک بنالیتے ہیں۔ اور یہی شیطان کا بڑا زبردست حیلہ اور فریب ہے کہ وہ انسان کی اصلی دینی فطرتی اور ازلی مذہبی خلقت کو بگاڑ دیتا ہے۔ قولہُ تعالیٰ: وَقَالَ لاََ تَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاoوَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُ مَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰ مُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِط (النسآء۴:۱۱۸۔۱۱۹)۔ ترجمہ:’’اور شیطان نے اللہ تعالیٰ کو جواب دیا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک بڑے حصے کو پکڑلوں گا اور انہیں گمراہ کردوں گا اور انہیں طرح طرح کی جھوٹی تسلیاں دوں گا اور سبز باغ دکھاؤں گا اور وہ ان جاہل حیوانوں کے کان کتر ڈالیں گے (یعنی انہیں اپنے تقلیدی دین کا حلقہ بگوش اور تابعدار بناڈالیں گے)۔ اس کے بعد اُنہیں امر کروں گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی اصلی خلقت کو بگاڑ کر رکھ دیں گے۔ ‘‘ آیت فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَاط (الروم۳۰:۳۰) اور حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ عَلٰی فِطْرَتِ الْاِسْلَامِ میں جس فطرتِ دینی اور سرشتِ ازلی کی طرف اشار ہ ہے وہ نور پیدائشی طور پر بچپن میں بچے کے حواس سے ٹپکتا ہے اسی لیے بچہ کائنات کی جملہ اشیاء کو اپنے حقیقی رنگ میں دیکھتا ہے۔ اسی فطرتی نظارے کی آرزو میں بعض اہل اللہ نے یہ دعا مانگی ہے اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْاَشْیَآءَ کَمَا ھِیَ یعنی اے اللہ ہمیں چیزیں اپنے اصلی رنگ میں دکھا۔ اسی بچپن کے پُر لطف، سرورانگیز اور حسین و رنگین زمانے کو یاد کرکے ہر شخص افسوس اور ارمان کرتا ہے۔ انسان جب معصوم بچہ ہوتا ہے توگویا ابھی تک اس کی روح اپنے آدم علیہ السلام کے ازلی ورثے یعنی بہشت کی حق دار اور مستحق ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ماں کی چھاتیوں سے دودھ اور شہد کی نہریں جاری کردی جاتی ہیں۔ لیکن جونہی وہ شجرِممنوعہ کے قریب جاتاہے اور دانۂ گندم کھانے لگ جاتا ہے تو اس پر اپنے فطرتی اور ازلی بہشت کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں۔ سو بچے کی اصلی اور ازلی فطرت اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر اسم اللہ ذات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان پڑھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام و ذکر اللہ یاد دلا کر اسے اپنی اصلی ازلی فطرت کی طرف راغب اور مائل کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کے تخم اسم اللہ ذات پر ذکر اللہ کے آبِ حیات کی ترشح کی جاتی ہے تاکہ مقامِ دنیا میں اپنے اصل کی طرف رجوع کرے اور جب مُرغِ روح قفسِ عنصری سے موت کے وقت پرواز کرنے لگتا ہے اس وقت بھی اسے اپنے اصلی ازلی وطن کی یاد دلانے کے لیے اسم اللہ اور ذکر اللہ اور کلمۂ طیّب کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے اصلی اور حقیقی منزلِ مقصود کی طرف رجوع کرے اور شیطان اسے صحیح راستے اور صراطِ مستقیم سے گمراہ نہ کردے۔ اور ایک حدیث میں انسان کی پیدائش کے وقت اور نیز موت کے وقت رونے اور گریہ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شیطان اس وقت اس کی اصلی فطرتِ دینی کوبگاڑنے اور اسے گمراہ کرنے کے لیے اس پر ہاتھ ڈالتا ہے اور وہ اصلی راہزن انسان سے حقیقی گوہرِمقصودِ زندگی چھیننے کا ابتدائی اور آخری حملہ بڑی سختی اور شدت سے کرتا ہے۔ اس لیے طفلِ روح پیدائش اور موت کے وقت روتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں