عرفان 6

کس قدر نادان اور غافل ہیں وہ لوگ جو اسم اللہ اور ذکر اللہ کی قدر و قیمت اور اہمیت نہیں جانتے۔ بلکہ الٹا کہتے ہیں کہ مذہب انسان کو محض لفظ ’’اللہ ‘‘ کی طرف بلاتا ہے جو ایک بے ہمہ زندگی ہے۔ یعنی مذہب انسان کو رہبانیت ، جمود اور بیکاری کی تعلیم دیتا ہے جو کہ قدرت کے عطا کردہ اعضا اور قویٰ کا انعطال ہے۔ مگر اس کے برعکس سائنس انسان کو عمل اور اللہ تعالیٰ کے مشاہدے کی طرف بلاتی ہے۔ یعنی مادی دنیا اللہ تعالیٰ کا فعل اور عمل ہے اور سائنس اس عمل اور فعل کے مشاہدے کا نام ہے اور یہی اصل غایت اور غرضِ زندگی ہے۔ ملاحدۂ دہر کا یہ دعوےٰ کہ سائنس بنی نوع انسان کے لیے آرائش و آسائش کے سامان مہیا کرتی ہے اور اقوامِ عالم کی ترقی و بہبودی کا باعث ہے۔ مگر مذہب وضو کرنے، نماز پڑھنے، روزہ ، تلاوت ، حج، زکوٰۃ ، ذکر، عبادت وغیرہ بے اثر اور بے نتیجہ کاموں کا نام ہے جس سے سوائے تضیع اوقات کے اور کوئی ٹھوس اور مادی فائدہ نہیں ہے۔ غرض اس قسم کے بے شمار واہیات خرافات، مذہب اور روحانیت کے خلاف کہہ کر خلقِ خدا کواپنے خالق اور مالکِ حقیقی کی عبادت، معرفت، قرب، وصال اور مشاہدے سے روکنے اور بازرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شیطان کے ہاتھ یہی متاعِ دنیا ایک بڑا پُر فریب کھلونا ہے جس سے وہ طفل مزاج انسانوں کو مادی دنیاکی چند روزہ فانی زندگی کی لذت و ہوا وہوس اور لہوو لعب میں مبتلا اور فریفتہ کرکے انہیں دارِ آخرت کی ابدی سرمدی زندگی اور اصلی حقیقی روحانی مسرتوں اور لذتوں سے محروم اور غافل کرتاہے۔
سچ پوچھو تو اسم اللہ، ذکر اللہ،طاعت اور عبادت ہی محض سعادتِ دارین اور گنجینہ ہائے کونین کی واحد کلید اور ابدی سرمدی زندگی، عشرتِ جاودانی اور دولتِ اُخروی کا ذریعہ اور وسیلۂ وحید ہے۔ کیونکہ اسم اللہ ذات ہی تمام کائنات کا باعثِ ایجاد اور یہی اسم پاک تمام آفرنیش کا مبداء و معاد ہے۔ افسوس کہ مادہ پرست نفسانی مردہ دل لوگ محض خیالی، وہمی عارضی اور چند روزہ فانی زندگی کی تنگ و تاریک شبِ یلدا میں مادی جسم کے کثیف لحاف اوڑھے ہوئے اور غفلت کی گہری نیند سوئے ہوئے ہیں اور خواب و خیال کے طلسمی جہان کے نظارے میں محو اور مگن ہیں۔ اور اس حقیقی روشن بیدار روحانی جہان کی پائیدار ابدی لذتوں اور مسرتوں سے غافل اور بے خبر ہیں جو انسانی پیدائش اور زندگی کی اعلیٰ غرض اور اصل مقصود ہے۔ تمام مادی دنیا اور اس کا علمِ سائنس اور دنیوی نفسانی فانی لذتوں اور مسرتوں کے حصول کے لیے جدو جہد، تمام دوڑ دھوپ اور ساری کوشش محض خاکرانی، تحصیلِ حاصل اور بے سود ہے۔قولہٗ تعالیٰ: فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی۵لا عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْاِلَّاالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاo ذٰلِکَ مَبْلَغُھُمْ مِّنَ الْعِلْمِط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖلا وَھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اھْتَدٰیo (النجم۵۳:۲۹۔۳۰)۔ ترجمہ:’’پس تو روگردانی کر اس شخص سے جس نے ہمارے ذکر سے روگردانی کی اور اس نے محض دنیا کی زندگی کو ہی اپنا مقصود بنایا۔ یہی اس نادان کے علم کی پہنچ ہے۔لیکن تیرا رب خوب جانتا ہے راستے سے بھٹکنے والوں اور سیدھے راستے پر چلنے والوں کو ‘‘ ؂
لذّاتِ ۱؂ جہاں چشیدہ باشی ہمہ عمر
بایارِ خود آرمیدہ باشی ہمہ عمر
چوں آخرِ عُمرزیں جہاں باید رفت
خوابے باشد کہ دیدہ باشی ہمہ عُمر
(خیامؔ ) 
مانا کہ آج کل سائنس کے طلسمِ ظاہری اور مادے کے سحرِ سامری نے لوگوں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس کی بدولت انسان بادلوں میں اڑرہے ہیں، زمین پر لکڑی اور لوہے کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں، دریاؤں اور سمندروں میں مچھلیوں کی طرح تیرتے پھرتے ہیں، مشرق اور مغرب کی باتیں ایک آن میں سنائی دیتی ہیں۔ سائنس اگرچہ چند روز کے لیے دنیا میں ظاہری آرام اور آسائش کے سامان مہیا کرنے والی مفید چیز معلوم ہوتی ہے مگر ساتھ ہی اس نے خلقِ خدا کی تباہی اور ہلاکت کے وہ زمیں پاش اور کوہ شکن اور لرزہ افگن آلاتِ حرب پیدا کیے ہیں کہ تعجب نہیں کہ سائنس جس کو سارا زمانہ ابرِرحمت برسانے والا میکائیل فرشتہ سمجھ رہا ہے وہ قیامت آفریں اسرافیل ثابت ہو جو اپنے محشر انگیز دم سے کسی دن ساری دنیا کو ایک دم میں عدم کی نیند سلادے گا۔ دوسری طرف اعمالِ خدا کے مشاہدے کا یہ جھوٹا مدّعی دن بدن لوگوں کو الٹا بیکاری، سستی اور جمود کی طرف لے جارہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب کہ قدرتِ الٰہی اور حکمتِ خداوندی میں یہ خواہ مخواہ کا بے جا دخیل بنی نوعِ انسان کو تعطل اور بیکاری کے گھاٹ اتار دے گا۔ آج اس کے ہاتھوں دنیا کا کثیر حصہ پریشان اور نالاں نظر آرہا ہے۔ کیونکہ ہر قسم کی صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ پیشے اور دیگر تمام دستکاری کے کام جنہیں غریب اور نادار انسان سائنس کے ظہور سے پہلے اپنے ہاتھوں سے کرکے روٹی کماتے تھے آج سائنس کی بدولت مشینوں کی شکل میں سرمایہ داروں نے اپنے قبضے میں کرلیے ہیں اور غریب بیچارے بیکاری اور بے روزگاری کاشکار ہوکر بھوک سے بلک رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ سائنس کا کیا یہ تھوڑا ظلم اور ستم ہے کہ مذہب نے جو معیارِ مساوات تمام بنی نوع انسان کے درمیان بلا امتیازِ رنگ و نسل قائم کیا تھا سائنس نے اس سارے صحیح اور درست نظام کو بگاڑ کر مسخ کردیا ہے اور تمام دنیا کا اقتصادی ، معاشی، اخلاقی اور مذہبی شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ ماناکہ سائنس ایک علم اور حکمت ہے لیکن حریص نفسانی قوموں کی جوع الارض نے سائنس جیسی عزیز اور شاندار حکمت کو ایک عالم گیر لعنت بنادیا ہے اور لعنت پر لعنت بڑھارہی ہے۔ خلقِ خداکی خدمت کی بجائے اسے عالم گیر ہلاکت اور تباہی کا سامان بنادیا ہے اور دن بدن ایسی خطرناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے کہ اس زمانے کے ان ستم شعار لوگوں کی اپنی حکمت ہی ان پر قیامت لانے کا باعث بنے گی اور انہیں تباہ اور برباد کردے گی۔
فرض کیا کہ سرمایہ دار اقوام آج کل سائنس کے ایجاد کردہ سامانِ حرب اور آلاتِ جنگ کے ذریعے ساری دنیا کے مالک ہوگئے اور ان قارونوں اور شدّادوں نے دنیا کے تمام زرّوجواہر جمع کرلیے اور آسائش اور آرائش اور دنیوی عیش و عشرت کے عدیم المثال سامان مہیا کرلیے ہیں اور چند روز کے لیے اپنے ہم جنس بنی نوعِ انسان کو اپنا غلام اور محکوم بنالیا۔ پھر کیا ہے۔ ایسی زرخرید، عارضی چند روزہ فانی قوت اور طاقت کو خاک پائیداری ہے جس کی بناء مکڑی کے جالے اور تارِ عنکبوت کی طرح کمزور ہے۔ جسے قدرت کا مہلک و منتقم اور جابر ہاتھ ایک معمولی سی جنبش سے مٹا کر رکھ دے گا اور نیست و نابود کردے گا ؂
خون کے دریا بہے عالم تہ و بالا ہوئے
اے ستم گر کس لیے دو دن حکومت کے لیے
(نظیر اکبرؔ آبادی ) 
مادے کی مردار عارضی حکومت، سائنس کی جھوٹی سلطنت اور سرمایہ داری کا باطل راج دنیا میں اس وقت رواج پاتے ہیں جب دنیا سے مذہب اور روحانیت کی سچی طاقتیں مفقود ہوجاتی ہیں اور لوگ اخلاقی ہتھیاروں سے تہی دست ہوجاتے ہیں۔ مبارک تھا وہ زمانہ جب کہ روحانیت کا سچا سلیمان وہ باطنی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا جس پر اللہ کا اسمِ اعظم منقوش تھا جس کی بدولت تمام دنیا مذہب اور روحانیت کے زیرِ نگین تھی اور دنیا ایمان کے دارُالامان اور اسلام کے دارالسلام میں ایک عام اخوت اور عالمگیر مساوات کے تحت امن اور آسائش کی زندگی بسر کررہی تھی۔ لیکن جس روز سے وہ سلیمان اپنی باطنی انگوٹھی کھو بیٹھا تب سے مادے کے دیوِ لعین اور سرمایہ داری کے عفریتِ آتشیں نے عنانِ حکومت سنبھالی ہے اور اسی دن سے نفسانی اور شیطانی حکومتیں قائم ہوئی ہیں جس نے خلقِ خدا پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا ہے۔ سحرِ سیاست کے نت نئے کھیل کھیلے جارہے ہیں اور آئے دن پالیٹکس کے نئے دام اور پراپیگنڈے کے نئے داؤ استعمال کیے جارہے ہیں اور بنی نوع انسان کی غلامی اور محکومی کی زنجیریں مضبوط کی جارہی ہیں۔ سائنس ظاہری اور مادی زیب و زینت کے سامان مہیا کرکے خلقِ خدا پر کوئی احسان نہیں کررہی بلکہ الٹانہیں چند روزہ فانی، نفسانی اور شہوانی و شیطانی لذات میں منہمک کررہی ہے اور اپنے خالق مالک کی عبادت اور معرفت سے دور اور ابدی سرمدی زندگی سے غافل کررہی ہے۔ سائنس انسان کا تعلق مادے کے خالی ڈھانچے اور مردہ مردار عارضی عنصری بدن اور چھلکے سے توجوڑ رہی ہے مگر اس کو تروتازہ اور زندہ و تابندہ رکھنے والے اصل مغز یعنی روح اور روحانی دنیا سے اس کا رشتہ توڑ رہی ہے۔ مذہب اور روحانیت انسان کی ہر دو جسمانی و روحانی، ظاہری و باطنی اور دینی و دنیوی غرض زندگی کے تمام پہلوؤں میں ترقی کے ضامن ہیں۔ مذہب تمام مخلوق کو یکساں طور پر بموجب فرمان اِنَّمَاالْمُُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃ’‘(الحجرٰت۴۹:۱۰)۔ ہر مومن کو بلا امتیازِ رنگ و نسل اپنا فطری اور پیدائشی حقِ آزادی اور مساوات عطا فرماتا ہے اوربمقتضائے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْط (الحجرٰت۴۹:۱۳) سب سے لائق فائق یعنی اہلِ قابلیت اور شرافت کو حقِ سرداری بخشتا ہے اور حکومت پر مامور کرتا ہے۔ جیسا کہ امر نبویؐ ہے سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْکہ قوم کاسردار قوم کا خادم ہوا کرتاہے۔ مذہب اور روحانیت سے انسان اپنے خالق مالک کی عبادت، معرفت،قرب، و صال اور مشاہدہ حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاک نوری اخلاق سے متخلق اور اس کی پاک منزہ صفات سے متصف ہوکر اس کے بے چون و بے چگوں، بے مثل وبے مثال اور لم یزل و لایزال ذات کے انوار میں فنا اور بقا حاصل کرکے اس کی ابدی اور سرمدی بادشاہی میں جاداخل ہوتا ہے۔ اور اس کی حی قیوم ذات کے ساتھ زندۂ جاوید ہوکر اس کے وصل مشاہدے اور دیدار سے لطف اندوز رہتا ہے۔
سائنس بذاتِ خود بری چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو ایک نفیس علم اور حکمت ہے اور ایک خیرِکثیر ہے۔ قصور ان ظالم، سفّاک، خودغرض نفسانی سرمایہ داراقوام کا ہے جنہوں نے اس علم کو غلط اور برے راستے میں استعمال کیا ہے اور بجائے خدمت اور آسائشِ خلق کے اسے کمزور، مظلوم اور بے گناہ مخلوق کی غلامی، افلاس، تباہی اور ہلاکت کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ ہم صرف ان تخریب کار عناصر کی مذمت کرتے ہیں جنہوں نے سائنس کو مذہب اور روحانیت کا حریف بناکر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اسے مذہبی اور روحانی حقائق کی تائید کی بجائے تردید اور مخالفت کا ذریعہ بنایا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ دنیا ایک دن سیاست کی ان سفاکیوں، حکومت کی تباہ کاریوں اور سرمایہ داری کی ستم رانیوں سے تنگ آکر خودبخود مذہب کے دارلامن اور روحانیت کے دارالسلام میں پناہ ڈھونڈے گی۔ اور اس زمانے کے جابر، قاہر سرمایہ دار اور ستم گر سیاست دانوں اور ڈاکو ڈکٹیٹروں کی حکومت کا جوأ گلے سے اتار کر دور پھینک دے گی۔ اور بموجب اصُول اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃ ’’ہر چیز کی نہایت اس کی ابتدا کی طرف راجع ہوجاتی ہے‘‘ دنیا پھرابتدائی زمانے کی طرح خادمِ خلق، مشفق، مہربان، رحم دل، سراپارحمت و شفقت مذہبی پیشواؤں اور روحانی رہنماؤں کے دامن میں چھپ کر پناہ ڈھونڈے گی اور اصلی امن اور حقیقی چین پائے گی۔ وہ دن دور نہیں جب کہ خود سائنس اور فلسفہ عنقریب جب اپنے انتہائی عروج اورآخری کمال پر جاپہنچے گا، مادی علوم کے یا جوج ماجوج جب قافِ قلب کو سوہانِ زبان سے چاٹ چاٹ کر اور سائنس کے تیشوں سے کاٹ کاٹ کر اس میں راستہ اور روزن نکالنے سے عاجزآ جائیں گے اس وقت ان پر اسم اللہ کے اصلی کارگر اوزار کا راز کھل جائے گا اور وہ اس سدِّسکندری پر انشاء اللہ کی ضرب کاری لگائیں گے تو دنیا اس وقت مذہب اورروحانیت کے زیر نگیں ہوجائے گی اور مادی عقل کادجّال مسیحِ روحانیت کے ہاتھوں مغلوب اور محکوم ہوکر ہلاک اور فنا ہوجائے گا۔ تب سارا جہان مذہب اور روحانیت کی صداقت کا دم بھرنے لگے گا اور دنیا عدل و انصاف سے بہشت بریں بن جائے گی۔
انسان دوجثّوں سے مرکب ہے: ایک سفلی نطفی جثہ جس کی پیدائش انسانی مادی جوہر نطفے یعنی مردار منی کے قطر سے ہے، دوم علوی لطفی جسم جوکہ نوری لطیف جثۂ روح ہے جس کی اصل اللہ تعالیٰ نے اپنے امر سے ڈالی ہے۔ پہلا مادی کثیف گوشت اور ہڈیوں کا ڈھانچہ جثہ عالمِ خلق سے ہے۔ دوم علوی لطیف روح عالم امر سے ہے۔ قولہٗ تعالیٰ: اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط(الاعراف۷:۵۴)۔ یعنی عالمِ خلق اور عالمِ امر ہر دو اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ جیسا کہ آیا ہے: قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِرَبِّیْ (بنیٓ اسرآئیل۱۷:۸۵)۔ اور ہر جُثے کا میلان اور رجوع اپنی اصل کی طرف ہوتا ہے کُلُّ شَیْءٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ۔ سفلی مادی جسم کی ترکیب اور بناوٹ چونکہ مادی دنیا کی اشیا اور مادی عناصر سے ہے اس لیے اس کا میلان بھی دنیا اور مادی غذاؤں کے استعمال کی طرف رہتاہے جو کہ عام حیوانات کا خاصہ ہے۔ ان سب سفلی مادی غذا والوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دَآبَّۃٍ یعنی حیوان کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود۱۱:۶)۔ یعنی نہیں ہے زمین میں کوئی حیوان مگر اس کا رزق اللہ تعالیٰ پر ہے۔ اور دوسرے علوی لطفی لطیف جثۂ روح کی اصل عالمِ بالا یعنی آسمان اور عالمِ غیب و عالمِ امر سے ہے۔ اور اس جثۂ لطیف روح کی خواہش اور طلب اپنی اصلی روحانی اورآسمانی غذا کی طرف رہتی ہے۔ اس واسطے اس رزق کا ذکر ایک علیحدہ آیت میں یوں کر دیا ہے۔ وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَo (الذّٰریٰت۵۱:۲۲)۔ یعنی تمہارا وہ نوری لطیف رزق آسمان میں ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ صحیح طور پر موت کے بعد ملے گا۔ جس طرح اس مادی جسم اور نفس کی خواہش اور طلب مادی اشیا مثلاً کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی طرف لگی رہتی ہے اسی طرح دوسرے باطنی علوی جُثّے کی رغبت اور خواہش اپنی آسمانی اور ملکوتی غذاؤں یعنی ذکر، فکر، عبادت، طاعت، خیرات، صدقات اور اعمالِ صالحہ کی جانب لگی رہتی ہے۔ کیونکہ جملہ عالمِ غیب، ملائکہ اور ارواح کی غذا اللہ تعالیٰ کے ذکرفکر، تسبیح و تہلیل اور اپنے خالق مالک کی تقدیس، تحمید،تکبیر، تلاوت کلام اللہ دعوات اس کی معرفت، قرب، وصال اور مشاہدے اور دیگر اعمالِ صالحہ اور اعمالِ حسنہ کے انوار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے۔ اِذَامَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوْا۔ یعنی ’’جب تم بہشت کے باغوں پر گذرو تو ان میں چرنے لگ جایا کرو۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیاکہ بہشت کے باغ کیا ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ذکر کی مجلسیں اور حلقے۔ غرض اس علوی آسمانی لطیف جُثے کی فطرت اسلام پر واقع ہوئی ہے اور یہی جثہ اپنے اندر دینی اور اسلامی استعداد ازل سے رکھتا ہے اور اسی فطرت اور استعداد کو صحیح اور سلامت رکھنے اور تبدیل نہ کرنے اور اسے پرورش اورتربیت دینے اور اسے پایۂ تکمیل اور درجۂ اتمام تک پہنچانے کانام اسلام، ایمان، ایقان، عرفان، وصال، مشاہدہ، عشق، فنا اور بقا ہے۔ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر’‘o (التحریم۶۶:۸)۔ ترجمہ:’’اے رب ہمارے! تکمیل اورا تمام تک پہنچا ہمارے لیے ہمارے نور کو، اور ہمارے گناہ معاف کر دے، تحقیق توہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔‘‘
انسان کا یہ سفلی عنصری جسم علوی لطیف جُثۂ روح کے لیے بمنزلۂ پوست یا چھلکے کے ہے اوراس مادی دنیا میں اس کے رہنے سہنے ، چلنے پھرنے اور کام کرنے کا مَرکب اور سواری ہے۔ سفلی نطفی ناسوتی جسم کا محلِ پیدائش اورجائے استقرار انسانی وجود کے مقامِ اسفل اور عضوِارزل میں واقع ہے اور اس کا تولد و تناسل بھی انسان کے خبیث اور رذیل ترین مقام میں ہوتا ہے۔ اس مقام میں ابلیس مع اپنے جنودِ خبیثہ اور سلاح و ہتھیارِ شیطانی مثلاًاوصافِ رذیلہ اور اخلاقِ ذمیمہ ڈیرے ڈالے رہتا ہے۔ انسان کا یہ جُثّۂ نفسِ امارہ شیطان کے موافق احکامِ الٰہی اور ارکانِ مذہب کے خلاف نری برائی پر ہمیشہ آمادہ اور مستعد رہتا ہے۔ اس کے خلاف انسان کا لطیف علوی جُثّۂ روح جس وقت وجود میں زندہ اور بیدار ہو جاتا ہے تو ہر وقت نیک اعمال، ذکرفکر ،طاعت عبادت کی طرف مائل اور راغب رہتا ہے اور ہر وقت نفس کو نیکی کا اعلام اور الہام کرتا ہے اور اسے برائی پر ملامت کرتا ہے۔ اس لیے ایسے نفس کو ملہمہ اور لوّامہ کہتے ہیں۔نہیں دیکھتے کہ اس لطیف نوری وجود کامقامِ ورود و استقرار انسان کا مقامِ اعلیٰ و اشرف یعنی دل و دماغ ہے۔ اور اس کا نزول مقامِ بالا آسمان سے ہے۔ اور جب وہ مکمل اورتیار ہو جاتا ہے تو ملاء الاعلےٰ او رملائکہ اس کی تعظیم کے لیے جھکتے ہیں اور اس وجودِ مسعود کا ادب اور احترام کرتے ہیں۔ قولہٗ تعالیٰ: فَاِذَا سَوَّیْتُہ‘ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ‘ سٰجِدِیْنَo(الحجر۱۵:۲۹)۔ ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب میں آدم کے وجود کو تیار کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کی تعظیم و تکریم کے لیے جھک جاؤ۔‘‘ خود قلبِ صنوبری کی ساخت اور بناوٹ ہی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ یہ ایک آسمانی اورعالمِ بالا سے اتری ہوئی چیز ہے کیونکہ مضغۂ قلب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کا تیر کی طرح باریک سرانیچے کی طرف لٹکا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے موٹے تنے اور شکم کے ساتھ دوموٹی رگیں دو جڑوں یا ٹانگوں کی طرح پیچھے سے لگی ہوئی ہیں۔ پس ان دو علوی و سفلی، ملکوتی و ناسوتی اور لطیف و کثیف جُثوں کے درمیان انسانی وجود میں آزمائش کے طور پر لڑائی اور جھگڑا واقع ہوا ہے۔ اور جو جُثَّہ غالب آجاتا ہے اس کی حکومت اور مملکت وجودِ انسانی میں قائم ہو جاتی ہے ۔ اَلْمُلْکُ لِمَنْ غَلَبَط قَولہٗ تعالیٰ: اِنَّاخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق صلے نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًاo (الدھر۷۶:۲)۔ یعنی’’ ہم نے انسان کو ملے جلے اورمخلوط نطفے سے پیدا کیاتا کہ اس کی آزمائش کریں اور اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنایا ہے‘‘۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہے : اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاًط (الملک۶۷:۲)۔ترجمہ: ’’وہ ہے اللہ تعالیٰ جس نے موت اور زندگی کو مقرر اور مقدر کیا تاکہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے‘‘۔ غرض انسانی وجود میں دو متضاد اور مخالف، نیک اور بُرے اور لطیف و کثیف جثوں کے درمیان امتحاناً جنگ اور جھگڑا واقع ہوا ہے۔ اس سفلی نطفی جثے کی باطنی مثالی صورت حیوان اور دابہ کی ہے جس کو نفسِ بہیمی کہتے ہیں۔ اور بسبب اپنی سفلیت اور دنائیت شیطان کا قرین اور جلیس ہے۔ شیطان اسی کی رفاقت سے انسان کومعصیت اور گمراہی کے گڑھے میں ڈالتا ہے اور علوی لطیف جسم کی باطن میں ایک لطیف نوری شکل فرشتے کی سی ہے جسے روحِ مقدس اورنفسِ مطؤنہّ بھی کہتے ہیں۔ یہ جثہ بسبب اپنی لطافتِ باطنی اور نورانیت فرشتے کے ہم جنس ہے۔ عالمِ غیبی اورملکوت سے اس وجودِ مسعود کونیکی کی ہدایت اور تائید پہنچتی ہے۔ انسان ہر دوجثوں کا معجون مرکب ہے ؂
آدمی۱؂ زادہ طرفہ معجونیست 
از فرشتہ سر شتہ و زحیواں
(سعدیؔ ) 
ترجمہ:آدمی زادہ ایک عجیب معجون مرکب ہے جو مبارک فرشتہ اور حیوان سے بنا ہے۔ 
نفسِ بہیمی کی قوّت مادی غذاؤں اور قوّت اخلاقِ ذمیمہ سے ہوتی ہے اور اس کا داعی اور مدعی شیطان لعین ہے۔ اور نفسِ مطؤنہّ اور روح کے لطیف جثے کی قوت اور غذا ذکر فکر، طاعت، عبادت اورقوت و طاقت اخلاقِ حمیدہ اور اعمالِ حسنہ ہیں۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ‘ط (فاطر۳۵:۱۰)اور ارواح کے ہادی اور راہبر حضرت محمدمصطفےٰﷺ اور دیگر انبیاء اور مرسلین اور اولیائے مقربین اور علمائے عاملین ہیں۔ اور یہ ہر دو خیر و شر کے داعی مع سازو سامان اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ وَالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ کے یہی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خیر اور شر کے باعث بھی روزِ اوّل سے انسانی وجود میں روح اورنفس کی صورت میں پیدا کر دیئے ہیں۔ اور خیرو شر کے سامان اور اسباب بھی خارج میں بشکل لذّات و شہواتِ نفسانی اور زیب و زینت دنیائے فانی اور باطن میں درجات و مراتب اور حظوظِ روحانی اور لذاتِ ونعم اخروی و جاودانی بھی مہیا کر دی ہیں اور ہر دو طرف کے داعی یعنی خیر اور شر کی طرف بلانے والے بھی مامور اورمقرر کر دیئے ہیں۔ اور اپنی کتابیں نازل فرما کر خیر اور شر کے راستے بتا دئے ہیں اور شر سے بچنے اور خیر کی طرف جانے کا حکم فرما دیا ہے اور ان کے طور طریقے واضح طور پر بیان فرما کر اپنی حجت تمام کر دی ہے۔
اب انسان امتحاناً مخیر اور فعل مختار ہے خواہ شر اور بدی کے راستے پر چل کر جہنم میں جائے خواہ خیر اور نیکی کے صراطِ مستقیم پر گامزن ہو کر بہشتِ بریں میں داخل ہو۔ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْط(الکہف۱۸:۲۹) اللہ تعالیٰ کی ذات پر انسان کے برے یا اچھے فعل کرانے کا کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔
مادی غذا اور ظاہر ی خوراک کو تو ہر شخص سمجھتا ہے لیکن ذکر، فکر، طاعت، عبادتِ الٰہی اور اعمالِ صالحہ وغیرہ کی باطنی، قلبی اور روحانی غذاؤں کو محض مثالوں اور استعاروں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سو واضح ہو کہ مادی دنیا میں جب انسان کام کاج اور ظاہری کسب اور معاش کے حصول سے عاجز رہ جاتاہے تو اس کی روزی تنگ ہو جاتی ہے اور مناسب غذا کے نہ ملنے سے پریشان حال، کمزور، بیمار اور ہلاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح روحانی دنیا میں جب دل کا لطیف جثہ اپنی باطنی غذا کے کسب اور کمائی سے روک دیا جاتا ہے اور ذکر فکر، طاعت، عبادت وغیرہ سے محروم رکھا جاتا ہے تو اس کی روزی تنگ ہوجاتی ہے اور آخر ضعِیف و ناتواں اور بیمار ہوکر ہلاک ہوجاتا ہے۔ قَوْلُہٗ تَعَالٰی: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo(طہٰ۲۰:۱۲۴)۔ ترجمہ: ’’جو شخص میرے ذکر سے اعراض اور کنارا کرتا ہے تو اس کی روزی تنگ ہو جاتی ہے اور ہم قیامت کے روز یعنی دوسری زندگی میں اسے اندھا کر کے کھڑا کریں گے۔‘‘ اس آیت میں اعراضِ ذکر یعنی ذکر اللہ سے کنارہ کشی کا نتیجہ ظاہری دنیوی تنگی اور افلاس ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اللہ کے ذکر اور عبادت سے اعراض اور کنارہ کرنے والے اکثر دنیا میں عیش و عشرت اور نازو نعمت کی زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلامِ حق نظام میں سخت اشکال پیدا ہوتا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ رزق اور روزی دوطرح کی ہے: ایک جسمانی دوم روحانی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی مختلف آیتوں میں دونوں قسم کے رزقوں کا ذکر الگ الگ بیان فرمایا ہے۔یعنی جسمانی غذا والے حیوانوں کا ذکر اس آیت میں بیان فرمایا ہے: وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود۱۱:۶)۔ اور اس روحانی اور آسمانی غذا کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے : وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَo (الذّٰریٰت۵۱:۲۲)۔ سو جس طرح انسان کو مادی دنیا کے اندر فقرو فاقہ اور بھوک و افلاس سے پریشانی لاحق ہوتی ہے اور جب انسان کی روزی فراخ ہو جاتی ہے اور اس کا دل سیر ہو جاتا ہے تو وہ باجمعیت اور مطمئن ہوجاتا ہے اسی طرح باطنی دولت اور روحانی غذا کی فراوانی سے انسان کا باطن یعنی دل سیر اور مطمئن ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اَ لَابِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُoط (الرعد۱۳:۲۸)۔ یعنی ’’خبردار اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔‘‘ اور یہ اطمینانِ قلبی کسی قدر معمولی اہلِ ذکر فکر اور اطاعت و عبادت گذار لوگوں کو صاف طور پر معلوم اور محسوس ہوتا ہے۔ جس دن انسان رات کو وظیفۂ ذکر فکر عبادت وغیرہ ادا کرتاہے تو طبیعت ہشاش بشاش اور خوش و خرم اوردل لطف و سرور سے لبریز رہتا ہے۔ گھر میں خواہ کچھ بھی نہ ہو اور خالی ہاتھ ہو لیکن دل اس قدر قانع اورمستغنی ہوتا ہے کہ گویا سب کچھ حاصل ہے ۔لیکن اس کے برعکس جو لوگ ذکر اللہ اور اطاعتِ الٰہی سے بے بہرہ اور محروم ہیں باوجود دولت و ثروت کے سخت پریشان خاطر اور بے جمعیت رہتے ہیں۔ اور برخلاف اس کے اللہ تعالیٰ کے راستے کے سالک عارف محض باطنی دولت کی بدولت دائم خرسند، ہمیشہ مسرور اور ابد الآ باد تک مطمئن رہتے ہیں۔ خواہ ان کے پاس دولتِ دنیا کا ایک دام اور متاعِ دنیا کا ایک حبہّ تک بھی نہ ہو ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری