عرفان 7
عرفان حصہ اوۤل
دنیا کی مادی غذا سے ایک وقت کے لیے ہم مادی پیٹ تو بھر سکتے ہیں لیکن دل کا وسیع بطنِ باطنی اس متاعِ قلیل سے سیر نہیں ہو سکتا۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے متاعِ قلیل فرما کر اس کی قِلّت، عِلّت اور ذِلّت کو الم نشر ح اور آشکارا کر دیا ہے۔ قولہٗ تعالیٰ: قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْل’‘ج (النسآء۴:۷۷ )۔ دنیا کی حقیقت پر اگر غور کیاجائے تو یہ مع جملہ سامانِ عیش و عشرت ایک بہت ہی حقیر اور ذلیل چیز ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قدروقیمت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافرکو دنیا میں پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہوتا۔ لیکن دنیا آخرت کے نعیمِ جاودانی کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر سے بھی زیادہ ناچیز اور حقیر ہے۔ اب ہم دنیا کی حقیقت کو تھوڑا سا واضح کرتے ہیں۔ اوّل تو دنیا کی لذت کم مقدار اور ناپائدار ہے۔ دوم اس میں انسان کی عمر بہت کو تاہ اور تھوڑی ہے اور اس کے حصول کے لیے سردردی ، محنت اور دکھ بہت زیادہ اور راحت و آرام بہت تھوڑا ہے۔ دنیا کی تمام متاع یا خوردنی یا آشامیدنی یا بوئیدنی یا پوشیدنی یا شنیدنی ہیں۔ خوردنی یعنی کھانے کی چیزوں کی ماہیت پر اگر غور کیاجائے تو ان میں سے بہترین اشیا یا تو حیوانوں کا خون یااس کا نچوڑ اورفضلہ ہے مثلاً گوشت، گھی اور دودھ وغیرہ یا کھاد اور گندگی کی پیداوار ہیں مثلاً ترکاریاں، اجناس اورمیوہ جات وغیرہ۔ کھاد اور گندگی جو زرعی اشیا کی خوراک اور ضروری جزو ہے وہ حیوانات کامتعفن پاخانہ ہے۔ قولہٗ تعالیٰ : نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْم بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَo (النحل۱۶:۶۶)۔ یعنی ’’حیوان تم کو وہ چیز جو ان کے گوبر اور خون کے درمیان سے نکلا ہوا فضلہ یعنی دودھ پلاتے ہیں‘‘۔ آشامیدنی یعنی پینے کی چیزوں میں سب سے بہترین اور لذیذترین چیز شہد ہے جوایک ناچیز مکھی کے لعابِ دہن کی آمیزش سے بنا ہے۔ بوئیدنی یعنی سونگھنے کی چیزوں میں سب سے اعلیٰ اور افضل مشک کستوری ہے جو ایک حیوان یعنی ہرن کی ناف کا منجمد خون اور میل کچیل ہے۔ اور پوشیدنی یعنی پہنے کی چیزوں میں سب سے نفیس ترین چیز ریشم ہے اور وہ ایک کیڑے کا فضلہ ہے۔ اور شنیدنی یعنی سننے کی جملہ لذّات اور سامان سرود و سماع جانوروں کے چمڑوں اور ان کی رگوں اور رودوں کی رگڑ اورضربوں سے ماخوذ ہیں۔ دنیا میں ایک اور لذتِ مساس بھی ہے جس کا ذکر کرنا خلافِ تہذیب ہے۔ لیکن اتنا کافی ہے کہ وہ انسان کے اسفل اور ارذل ترین اور بدتر مردار ترین عضو کا استعمال ہے۔ غرض دنیا کی جملہ متاع اور لذات کے ماخذ یہی ہیں جو ہم نے گن گن کر بیان کر دئیے ہیں
حال۱ دنیارا بُپر سیدم من از فرزا نۂِ
گفت یا خوابیست یا وہمیست یا افسانۂ
باز پر سیدم زحالِ آنکہ دل دروے بہ بست
گفت یا دیویست یا غویست یا دیوانۂِ
اب ذرا اُن کی مدت اور مقدارِ لذت بھی ملاحظہ ہو۔
دنیا کے تمام لذیذ اور عمدہ کھانے جب تک نوکِ زبان پر ہیں تومحض چند سکینڈ کے لیے سرِ زبان کو ایک نہایت خفیف سی لذت بھوک کی حالت میں محسوس ہورہی ہوتی ہے۔ لیکن جب شکم پُر ہوا اور طبیعت سیر ہوئی تو وہ خفیف سی لذت بھی مفقود ہے۔ اور وہی نگلی ہوئی غذا دل کا بوجھ اور وبالِ جان بن جاتی ہے۔ اسی طرح تمام لذاتِ جسمانی کی مدّتِ لذّت بالکل قلیل اور اس کا محاذ بہت تنگ ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے تمام متاعِ دنیا کو قلیل کہا ہے۔ پھر اس ناپائدار، حقیر اور فانی متاع کے حصول کے لیے کس قدر خاک رانی، سردردی اور جانفشانی کرنی پڑتی ہے۔ اور کس قدر ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں اورکتنے مظلوموں کا خون بہایا جاتا ہے۔ لذاتِ دنیا کا ایک ہیچ اور پوچ پہلو اور بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدارِ لذت مفلس اوردنیا دار کے لیے برابر رکھ دی ہے۔ دنیا دار روز مرہ اچھے لذیذطعام کھانے، ہر وقت نفیس کپڑے پہننے ،سربفلک عالیشان عمارتوں میں دن رات رہنے، خوب صورت عورتوں سے ہمیشہ ہم صحبت رہنے، غرض دنیا کے تمام لذائذ اور حظوظ میں ہر لمحہ اورہر لحظہ محو اور منہمک رہنے سے ان چیزوں کے بہت عادی اورخوگر بن جاتے ہیں۔ اس لیے ان چیزوں میں ان کی اشتہا اور ذوق و ذائقہ بالکل کم بلکہ تقریباً زائل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اصل ذائقہ فاقہ میں ہے اور وہ ان کے ہاں مفقود ہوتا ہے۔ اور غریب و نادار لوگ بسبب شدتِ فاقہ اور حدتِ جوع روکھی سوکھی میں وہ لذت پاتے ہیں جو امیروں اور دنیا داروں کوطرح طرح کے لذیذ کھانوں اور غذاؤں میں میسر نہیں ہوتی۔ غرض کھانے کا لطف قوتِ ہضم اور مقدارِ اشتہا پر موقوف ہے اور وہ دنیا داروں میں مفقود ہوتا ہے۔ یہ نعمتِ غیر مترقبہ بدر جۂ کمال ناداروں کو مفت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیا دار اور سرمایہ دار رات کے وقت اپنے عالی شان، ہوا دار محلات اور نرم بستروں پر دنیا کے افکار اور حوادثِ روزگار میں سرشار ساری رات بے چین اور بے آرام ہو کر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں اور ماہئ بے آب کی طرح تڑپتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک غریب مزدور دن بھر کا تھکاماندہ محنت مشقت سے چور بے بستر اور بے بالین ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر ایسی گہری اور خوشگوار نیندسوتا ہے کہ اس کی ساری رات ایک ہی پہلو پر لیٹے گذر جاتی ہے۔ دنیادار ساری عمر ایک لمحہ کی خوشگوار نیند اورایک لحظہ کی حقیقی بھوک کو ترستے رہتے ہیں۔ اسی طرح قوتِ جماع میں بھی دنیا دار صفر پائے جاتے ہیں اورباوجود تین چار بیویوں کے اولاد سے محروم رہتے ہیں۔ غرض اس پر تمام حظوظ اور لذات کو قیاس کرلینا چاہیے۔ غریب اور نادار فائدے میں ہیں۔ دنیا داروں کو اطمینانِ قلب ہرگز میسر نہیں ہوتا بلکہ جس قدر کوئی شخص دنیا دار مالدار ہوتا جاتا ہے اس کی پریشانی اور بے اطمینانی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر بالفرض مادی دنیا کی تمام دولت اور عیش و عشرت کے تمام سامان ایک ہی شخص کو حاصل ہو جائیں تو بھی دل کاچین اور اطمینانِ قلب اسے ہرگز حاصل نہیں ہو گا۔ بڑے بڑے دولت مندوں، امیروں اور تاجروں حتیٰ کہ نوابوں اور راجاؤں اور بادشاہوں تک سے جاکر پوچھو کہ تمہارے پاس خدا کا دیا ہوا سب کچھ موجود ہے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ کھانے کو عمدہ لذیذ غذائیں اور میوے ہر وقت تیار موجود ہیں، پینے کومیٹھے اور ٹھنڈے شربت ہیں۔ پہننے کو نرم اور نفیس کپڑے ہیں۔ رہنے کو عمدہ ،خوب صورت اور عالی شان مکان ہیں۔ سیرو سیاحت اور سواری کے لیے عمدہ گھوڑے، ٹانگے، اورموٹر ہیں۔ باغ، چمن ، کھیل ، تماشے ریڈیو، سینما، ناچ و رنگ اور رقص و سرود کے سامان ہر وقت حاصل ہیں۔ خوب صورت عورتیں اور غلام خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ غرض تمہاری دنیا کی تمام مرادیں پوری اور عیش و عشرت کے سامان مہیا ہیں۔ اگران سے سوال کرو کہ کیا ان تمام عیش و عشرت، نازو نعمت اور آسائش و راحت کے باوجود تم حقیقی طور پر خوش ہو اور کیا تمہار ا دل مطمئن ہے تو تقریباً سب کے سب یہی جواب دیں گے کہ وہ ہر گز اس دنیا میں خوش نہیں ہیں۔ وہ یہی کہیں گے کہ گو ہمارے جسم عیش و عشرت اور نازو نعمت میں لوٹ رہے ہیں مگر ہمارے سینوں میں خدا جانے کیوں بلا وجہ دل افسردہ اور خاطر پثرمردہ ہے۔ ہم اپنے دل میں ہر دم ایک بے وجہ لازوال ملال اور ایک نامعلوم قلق محسوس کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تم ضرور قلب کی بے اطمینانی اوردل کی پریشانی سے شاکی و نالاں پاؤ گے۔ و جہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں دل کی غذا مفقود ہے۔ اس لیے گو ان کے پیٹ سیرہیں لیکن دل اپنی مخصوص غذا ذکر اللہ سے محروم ہے۔ اس لیے وہ بے اطمینان رہتاہے۔ جن اقوام میں دل کی غذا مفقود ہے اورجہاں الحاد، دہریت اور مادہ پرستی کا دور دورہ ہے اورجس سرزمین میں روحانی قحط برپا ہے وہاں کے غنی اور سرمایہ دار لوگ باوجود عیش و عشرت، اور جاہ و ثروت کے دل کی بے اطمینانی سے سخت طور پر نالاں ہیں۔ یورپ میں اس بے اطمینانی کا ایک عالم گیر ماتم برپا ہے۔ اہلِ فرنگ اور اہلِ امریکہ جنہوں نے دولت کی فراہمی میں قارون کو بھی مات کیا ہوا ہے اور تمام دنیا سے سرمایہ داری میں گوئے سبقت لے گئے ہیں اس دل کے بے اطمینانی سے چیخ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں باوجود کمال دولت اور سامانِ عیش و عشرت جس کثرت سے خودکشی کی وارداتیں ہو رہی ہیں افلاس زدہ اور نادار ممالک میں ان وارداتوں کا عشرِ عشیر بھی نہیں پایا جاتا۔ خصوصاً مسلمان قوم جو دنیوی حالت میں تمام قوموں سے پست ترا ور کم تر ہے خودکشی کی بہت کم مرتکب ہوتی ہے ۔ و جہ صاف معلوم ہے کہ اگرچہ مسلمانوں نے اپنے مذہبی احکام اور دینی ارکان بہت حد تک ترک کر دئیے ہیں اور ان کی قلبی اور روحانی غذاؤں یعنی ذکر فکر، نماز،روزہ، طاعت اور عبادت وغیرہ میں بہت کمی واقع ہو گئی ہے مگر پھر بھی اسلام ایک ایسا حاوی، محیط اور ہمہ گیر مذہب ہے کہ اس پاک مذہب کے اثرات ایک مسلم کے مہد سے لیکر لحد تک تمام زندگی کے حرکات و سکنات اور اعمال و افعال میں جاری اور ساری رہتے ہیں۔ اسلیے مسلم بندہ خواہ کتنا ہی گیا گذرا کیوں نہ ہو وہ خوا ہ مخواہ بے ارادہ اپنی قلبی اور روحانی غذا میں سے تھوڑا بہت حصہ لے ہی لیتا ہے۔ اور چاہے اسے مادی دولت اور دنیوی راحت سے محروم ہی کر دیا جائے پھر بھی وہ قلبی اور روحانی غذا کے سہارے اپنے آپ کو سنبھالے رہتا ہے اور سخت مضطرب و پریشان ہو کر آپے سے باہر نہیں ہوتا اورخودکشی نہیں کرتا۔ مگر اس کے برعکس کفّارنابکارکی دنیوی حالت میں جب کبھی قدرے انقلاب رونما ہو جاتا ہے اور دنیوی عیش و عشرت میں زوال آ جاتا ہے تو مکڑی کے جالے کی طرح ان کے نفس کے کچے تار بکھر جاتے ہیں اور ان کے حبابِ زندگی کا خام خیمہ جو محض پانی کے ایک قطرے اور صرف ہوائے نفس کے سہارے قائم ہوتا ہے حوادثِ دنیا کی بادِ مخالف کی تاب نہ لا کر فوراً ٹوٹ جاتا ہے اور درہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشی کے اکثر وہی لوگ زیادہ مرتکب ہوتے ہیں جن کی مذہبی اوردینی حالت نہایت ناقص اور پست ہوا کرتی ہے اورجن کے دل دینی استعداد اور باطنی غذا سے محروم ہوتے ہیں۔ یورپ جو کہ الحاد اور دہریت کا معدن ہے اور روحانی طور پر سخت قحط زدہ علاقہ ہے اور اکثر بے اطمینان�ئقلب کی وجہ سے زندگی سے تنگ آیا ہوا ہے اور سخت پریشان ہے ان میں سے بعض نے تو اپنی پریشانی اور بے اطمینانی کا یہاں تک مظاہرہ کیا ہے کہ آپے سے باہر ہوکر پاگلوں اور دیوانوں کی طرح کپڑے اتار لیے ہیں اور بالکل ننگ دھڑنگ ہو گئے ہیں۔ انہیں نفیس اور زرّین لباسوں میں اطمینانِ قلب نصیب نہیں ہو سکا۔ یہ سب قلبی بے اطمینانی اور باطنی بے چینی کی علامات اور اثرات ہیں جو مختلف صورتوں میں ان سرمایہ دار اقوام سے صادر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے اندر اس باطنی قلبی مرض کی بے چینی اور قلق محسوس کر رہے ہیں اور اس کے علاج میں دیوانوں کی طرح ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مگر ان کی مادی سعی ظاہری کوششیں ، بیرونی دوڑ دھوپ اور سطحی تگ و دو بالکل بے سود ہے۔
ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
(مومنؔ )
درا صل اس مرض کی دوا محض ذکر اللہ ہے۔ لیکن یہ دوا اس سر زمین میں عنقا کی مانند کم یاب اور مفقود ہے۔ اس لیے سوائے ذکرو عبادت کے ان کے تمام مادی علاج معالجے اور ظاہری تگ و دو میں سعی اور کوشش بالکل بے سود ہے۔
حضرت عیسےٰ علیہ السلام نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ اے اللہ! مجھے دنیا اپنی اصلی صورت اور حقیقی رنگ میں دکھادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے دنیا اپنی اصلی شکل میں عنقریب دکھادوں گا۔ چنانچہ ایک روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنگل میں جا رہے تھے کہ انہیں دور سے ایک برقعہ پوش عورت نظر آئی جس کا برقعہ ریشمی بیل بوٹوں اور زردوزی کام سے زرق برق آفتاب کی روشنی میں جگمگارہا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں قیاس کیاکہ ایسے حسین اور زرق برق زرّین برقعے کے اندر ضرور کوئی ماہِ طلعت حور ملبوس ہو گی۔ وہ برقعہ پوش عورت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے آئی اور جونہی اس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھایا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئے کہ اس زرق برق نقاب کے اندر سے ایک بہت بوڑھی اور سخت مکروہ، بدصورت اور نہایت ڈراؤنی بدشکل ،سیاہ فام ژولیدہ مو عورت کا چہرہ نمودار ہوا۔ جس کے دیکھنے سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ اے عجوزہ !تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا ’’میں دنیا ہوں۔‘‘ آپ نے اس سے پوچھا اے عجوزہ! اس مکروہ ، بدنما اور قبیح صورت پر یہ زرق برق خوب صورت زرّین لباس کیوں؟اس نے جواب دیا اس ظاہری لباس سے تو میں لوگوں کو اپنے اوپر فریفتہ اور شیدا کرتی ہوں ورنہ میری اصلی اور حقیقی صورت یہی ہے جو تو دیکھ رہا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام نے جب اس کے ہاتھوں کی طرف دھیان کیاتو اس کا ایک ہاتھ خون سے آلودہ تھا اور اس سے خون ٹپک رہا تھا اور دوسرا ہاتھ حنا یعنی مہندی سے رنگا ہوا تھا۔ آپ ؑ نے اس سے دریافت کیا کہ تیرا ایک ہاتھ خون سے کیوں آلودہ ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ جو میرا شوہر اور خاوندبنتا ہے میں اسے فوراً قتل کر ڈالتی ہوں۔ ابھی ایک شوہر کو تازہ قتل کر آئی ہوں۔ یہ ہاتھ اسی کے خون سے آلودہ ہے۔ آپؑ نے پوچھا کہ یہ دوسرا ہاتھ مہندی سے کیوں رنگین ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اب ایک دوسرے شوہر کی دلہن بن رہی ہوں۔ آپ نے متحیر ہو کر سوال کیاکہ تیرے نئے شوہر کو تیرے اس خون آلودہ ہاتھ سے عبرت حاصل نہیں ہوتی؟ اس نے جواب دیا اے عیسیٰ ؑ ! تو اس بات سے تعجب نہ کر کہ میں ایک گھر کے اندر ایک بھائی کو قتل اور ہلاک کردیتی ہوں اور اسی وقت دوسرا بھائی مجھے لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ غرض اس قسم کی بہت عبرت ناک اور نصیحت آموز سوال و جواب عجوزۂ دنیا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے درمیان ہوئے جس سے حضرت عیسیٰ ؑ پر دنیا کی اصلی حقیقت کھل گئی۔ اکثر باطن بین اور حقیقت شناس اہل اللہ لوگوں کو دنیا اپنے اصلی رنگ اور حقیقی روپ میں نظر آتی ہے اور ظاہر بین کو رچشم بو الہوس نفسانی لوگ اس کے ظاہری لباس پر مرتے ہیں اور اس کے ہاتھوں ہلاک اور قتل ہو جاتے ہیں۔
عارفے خواب رفت در فکرے
دید دنیا بصورت بکرے
کردازوے سوال کائے دلبر
بکر چونی بایں ھمہ شوہر
گفت یک حرف باتو گویم راست
کہ مرا ہر کہ بود مرد نخواست
دانکہ نامرد بود خواست مرا
زاں بکارت ہمیں بجاست مرا
ہم ذیل میں دنیا کے چند بڑے بڑے سرمایہ داروں اور دنیا داروں کے حسر تناک انجام اور عبرت ناک خاتمے کے چند واقعات بیان کرتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی سلیم العقل ، نیک بخت اور سعادت مند انسان اس سے سبق اور عبرت حاصل کرے اور اس خونخوار ، مکار عجوزہ کے دام سے بچے۔
ایک کروڑ پتی انسان کا عبرت ناک بیان
’’میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں اس کا حساب بھی نہیں کر سکتا۔ کہاجاتا ہے کہ میری جائیدا د پانچ کروڑ پاؤنڈ (۷۵ کروڑ روپے ) سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ ساری جائیداد دینے کو میں بخوشی تیار ہوں اگر ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھا سکوں۔‘‘ یہ الفاظ امریکہ کے مشہور کر وڑ پتی ’’شاہِ روغن ‘‘راک فیلر کی زبان سے نکلے ہیں جس کی دولت و ثروت کے افسانے نئی دنیا اور پرانی دنیا دونوں کے گوشہ گوشہ میں زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ ایک دنیا آج تک اس کی قسمت پر رشک کر رہی ہے اور خدا جانے کتنے ایسے ہیں جن کے منہ میں اس کا نام سن کر پانی بھر آتا ہوگا۔ لیکن خود اس بچارے کا یہ حال ہے کہ باوجود اس امیری کے مفلس اور لاچار ہے۔ اور باوجود اس افراطِ سیم و زر کے ایک وقت پیٹ بھر کھانے کی حسرت رکھتا ہے اور اس نعمت کے آگے اپنے کروڑوں پونڈوں کے ڈھیر پر لات مارنے کو تیار ہے۔ اس کی عمر پچاسی سال کی ہوچکی لیکن اسے شروع ہی سے سوءِ ہضم کی بیماری رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نے اپنے علاج پر کیا کچھ نہ خرچ کیا ہو گا۔ بایں ہمہ بجز تھوڑے سے دودھ اور بسکٹوں کی قلیل مقدار کے دن بھرکچھ نہیں کھا سکتا۔ حالانکہ اس کے ادنیٰ مزدور اور نوکر چاکر دِن بھر پیٹ بھر بھر کر کئی بار دنیا کی نعمتیں اور لذیذ غذائیں کھاتے ہیں۔ یہ لاکھوں انسانوں کی قسمت کا مالک ایک وقت پیٹ بھر حسب دلخواہ کھانے کو ترستا ہے اور بغیر تھوڑے سے دودھ اور چند بسکٹوں کے اور کسی چیز کو چھو تک نہیں سکتا۔
دنیا کی زندگی پررشک کرنے والے غریبو! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرو کہ دنیا کا متمول ترین انسان خود تمہاری حالت پر رشک کر رہا ہے۔
ہنری فورڈ کی حالت
ایک دوسرے امریکی ’’شاہ موٹر‘‘ ہنری فورڈ کا حال سنو جس نے اپنی دولت میں قارون کو بھی مات کیا ہوا ہے۔ وہ ایک معمولی سی قلیل مقدار میں پرہیزی غذا کے بغیر اور کچھ نہیں کھا سکتا۔ ڈاکٹر ں کی ایک جماعت ہر وقت اس کی نگرانی میں لگی رہتی ہے۔ وہ تمام لذتوں سے یکسر محروم ہے۔ حالانکہ اس کے ادنےٰ غلام اور نوکر چاکر اس کی آنکھوں کے سامنے عیش وعشرت کرتے ہیں اور وہ انہیں دیکھ کر ترستا ہے۔ جاننے والوں کا بیان ہے کہ دولت و ثروت سے جتنے لطف انسان اس مادی دنیامیں اٹھا سکتا ہے اور جولذتیں روپیہ سے خرید سکتا ہے ان سب سے یہ قارونِ وقت یکسر محروم ہے۔ دولت کو حاصلِ عمر اور روپیہ کو ثمر�ۂزندگی سمجھنے والو! زر و دولت کی اس لاحاصلی کو دیکھ رہے ہو؟
مسڑ ایڈورڈ کرپس
امریکہ میں ایک کروڑ پتی اور مالکِ اخبارات مسٹر ایڈورڈکرپس تھے۔ سالہا سال کی عیش و عشرت کے بعد اس کا دل دنیا کے ہنگاموں سے سرد ہو گیا اور اسے سکون و یکسوئی کی تلاش پیدا ہوئی۔ تہذیب و تمدن کے مرکزوں میںیہ بات کہاں نصیب؟ بالآ خر چالیس لاکھ ڈالر کے صرف سے ایک جہاز بنوایا اور آلات کی مدد سے اسے ہر قسم کی آوازوں سے محفوظ کر لیا۔ یعنی کوئی ہلکی سے ہلکی آواز بھی کانوں تک نہ پہنچ سکتی تھی اور ا سطرح اپنے گردو پیش ایک مصنوعی خاموشی اور عالمِ سکوت قائم کر کے یہ سمجھے کہ اب سکونِ خاطر کی تلاش میں دیر نہ لگے گی۔اخبارات کا کاروبار لڑکے کے سپرد کیا اور تلاشِ سکون کی مہم پر جہاز روانہ ہو گیا۔ ایک ملک دو ملک نہیں ساری دنیا کا چکر لگایا اور ایک مرتبہ نہیں دومرتبہ لگایا لیکن دل کا سکون اور اطمینان مادی آوازوں کا راستہ بند کردینے سے نہ حاصل ہونا تھا نہ ہوا۔ اسی حالتِ حسرت و یاس میں پیامِ اجل آپہنچا۔ اسکی لاش حسبِ وصیت سمندر کی گہری خاموشیوں کے حوالے کر دی گئی۔ دولت جمع کرنے والو! اور اس کی طلب میں جان و ایمان تک قربان کرنے والو! سرمایہ داروں کی اس ناداری پر نظر ڈالو۔
گوبسپ بوگیانی
اٹلی کے ایک امیر کبیر گوبسپ بوگیانی ہو گذرے ہیں جنہوں نے امریکہ آ کر بے شمار دولت پیدا کی اور پھر امریکہ ہی کو اپنا وطن بنا لیا۔ یہ آغاز تھا انجام یہ ہوا کہ کومو کی خوش منظر جھیل کے کنارے قیام گاہ بنا رکھی تھی۔ ایک درخت سے اپنی گردن میں پھندا لگا کرخود کشی کر لی اور حسب ذیل تحریر چھوڑ گیا:
’’مجھے اپنی طویل زندگی میں تجربہ ہو گیا کہ راحت کی اگر تلاش ہے تو وہ روپیہ کے ڈھیروں میں نہیں ملتی۔ اب اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہا ہوں اس لیے کہ میں تنہائی اور افسردگی کی زندگی سے تنگ آ گیا ہوں۔ جس وقت میں نیویارک میں ایک معمولی مزدور تھا اس وقت مجھے پوری مسرت حاصل تھی۔ لیکن آج جب کروڑوں کا مالک ہوں میری افسردگ�ئخاطر اور بے اطمینانی کی کوئی انتہا نہیں ہے اور ایسی تلخ زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘
روپیہ کو ہر درد کی دوا جاننے والو! دولت کی عاجزی اور بے اثری دیکھو۔
جے پٹرلوائیٹ مارگن
جے پٹرلوائیٹ امریکن کروڑ پتی کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے خزانۂ مصنوعاتِ لطیفہ کا مالک ہے جس کی دولت کااندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔ گھر میں بہتر سے بہتر سامانِ عیش موجود ہے لیکن انتڑیوں کی بیماریوں سے اس قدر مجبور ہے کہ معمولی غذائیں بھی نہیں چھو سکتا۔ ساری عمر ایک سخت قسم کی پرہیزی غذا کھاتے کھاتے گذر گئی۔ ایک وقت بھی حسبِ منشا غذا نصیب نہ ہوئی۔ دردِ شکم میں ہر وقت مبتلا اپنے ادنیٰ نوکروں کی غذا کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ دیکھ کر حسرت بھری آہیں بھرتا ہے۔ مگر کیا مجال کہ ایک لقمہ بھی زبان پر رکھ سکے۔
امیروں پر رشک کرنے والو! امیری کی تمنائیں اور آرزوئیں رکھنے والو! یہ عبرت ناک اور درد انگیز منظر دیکھ رہے ہو کہ ایک شخص دریا کے اندر کھڑا ہے اور پھر بھی اس سے اپنی پیاس بجھانے کو ترستا ہے۔
مسٹر بریوسٹر
نیویارک امریکہ کے ایک کروڑ پتی مسٹر بریوسٹر تھے۔ اس کی میم صاحبہ کا حسن و جمال زبان زدِ خاص و عام تھا۔ شوہر اس قدر دولت مند اور بیوی اس قدر حسین۔ بظاہر ان سے زیادہ پُرمسرت اور کامیاب زندگی کس کی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ایک اچھی خاصی تعداد ملک میں ایسے لوگوں کی تھی جو اس خوش نصیب جوڑے کی زندگی پر رشک کررہی تھی۔ جون ۱۹۲۶ ء میں میاں بیوی دیہات میں اپنے علاقہ پر گئے۔ ایک روز صبح کو خدمتگاروں نے دیکھا کہ مسٹر بریوسٹر کی خواب گاہ میں میاں بیوی دونوں مقتول پڑے ہیں اور دونوں کی لاشیں گولیوں سے زخمی ہیں۔ اس طرح ان کی خود کشی کا راز بھی دونوں جسموں کے ساتھ ہی مدفون ہوگیا۔
دولت اور حسن و صورت کے پرستارو! دولت اور حُسن دونوں کی بے بسی اور بیکسی دیکھ لی؟
مذکورہ بالا مفروضات نہیں بلکہ سچے واقعات ہیں۔ فرضی اور تمثیلی قصے کہانیاں نہیں بیتی ہوئی سرگذشتیں ہیں۔ ایک طرف بڑے بڑے عظیم الشان سرمائے ہیں، بڑے بھاری کارخانے ہیں اور بڑی بڑی تجارتی کوٹھیاں ہیں۔ کروڑوں اور اربوں کی جائیداد اور اس کے پہلو بہ پہلو بے قراریاں، بے اطمینانیاں، حسرتیں، مایوسیاں، حیرانیاں، ناکامیاں، اور افسردگیاں ہیں۔ اور آخر انجام خودکشی۔ دوسری طرف فقیری اور مفلسی ہے، ٹوٹی ہوئی کُٹیا اور چھوٹی سی جھونپڑی ہے۔ ساگ پات اور جَو کی سُوکھی روٹی ہے۔ پھٹی ہوئی کمبلی اور پیوند لگے ہوئے گودڑی ہے۔ لیکن اس کے دوش بدوش دل کی خوشی، قلب کا اطمینان ، روح کا سرور، قناعت کا خزانہ اور باطن کی بے تاج ابدی بادشاہی ہے۔ ملائکہ اور روحانیوں کی محفلیں اور مجلسیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے قرب، و صال اور دیدار کی لازوال سرمدی لذتیں ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہیں اور نہ کانوں نے سنی ہیں اور نہ کسی دل پر ان کا خیال گذرا ہے۔ زندگی کے دونوں رخ سامنے کھُلے ہوئے ہیں اور انتخاب کے لیے ہر شخص آزاد ہے۔
حقیقی راحت کی اگر تلاش ہے، اصلی سکونِ خاطر کی اگر تمنا ہے اور دائمی دل جمعی کی اگر آرزو ہے تو ہار کر، تھک کر ہر طرح کا تجربہ کرکے بالآخر اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کی عبادت، کُنجِ درویشی اور فقر کی طرف آنا پڑے گا۔ باقی واقعاتِ خودکشی کی اگر تعداد بڑھانی ہے اور دوزخ کے ایندھن میں اگر اضافہ کرنا ہے تو دنیا کے دروازے کھلے پڑے ہیں۔
عُمرِ برق و شرار ہے دنیا
کتنی بے اعتبار ہے دنیا
داغ سے کوئی دل نہیں خالی
کیا کوئی لالہ زار ہے دنیا
ہر جگہ جنگ ہر جگہ ہے نزاع
عرصۂ کارزار ہے دنیا
گرچہ ظاہر میں صورتِ گُل ہے
پر حقیقت میں خار ہے دنیا
زندگی نام رکھ دیا کس نے
موت کا انتظار ہے دنیا
(مومن خان مومنؔ )
یاد رہے کہ انسانی جُثۂ لطیف قلب اور روح کی اصلی غذا اللہ تعالیٰ کی عبادت، ذکرفکر، تلاوت، اعمالِ صالحہ وغیرہ ہیں اور اس غذا سے دل کو حقیقی اور دائمی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جب باطنی جثے قلب اور روح کو اپنی مخصوص غذا ذکروفکرِ الٰہی سے محروم کردیا جاتا ہے تو وہ بھوک کے اضطراب اور اضطرار سے تنگ آکر مجبوراً نفسِ بہیمی کی نجس غذا کھانے لگ جاتاہے۔ جیسا کہ عام جانوروں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اگر ان کو اپنی مخصوص غذا گھاس چارہ اور دانہ وغیرہ سے محروم رکھا جائے تو وہ مجبوراً گندگی اور پاخانہ کھانے لگ جاتے ہیں اوراسی کو اپنی مخصوص غذا بنا لیتے ہیں جس سے ان کی فطرت اور سرشت بھی مردار خور جانوروں کی سی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح قلب کا ملکوتی جثہ اپنی مخصوص غذا ذکر، فکر، طاعت اور عبادتِ الٰہی سے جس وقت محروم کر دیا جاتا ہے تو وہ مجبوراً نفسِ بہیمی کی سفلی مادی کثیف غذا یعنی جیفۂ دنیا کی گندگی کو اپنی قُوّت اور قُوت کا ذریعہ بنالیتا ہے اور اسی سے اپنا پیٹ بھرنے لگ جاتا ہے۔ اور انسانی قلب بھی نفس بہیمی کی خُوبُو اختیار کر لیتا ہے اور اسی کے اوصافِ ذمیمہ سے مُتّصف اور اس کے اخلاقِ رذیلہ سے متخلق ہو جاتا ہے۔ اور اپنی اعلیٰ ملکوتی احسنِ تقویم سے گر کر بہیمیت، سبعیت اور شیطنت کے درکِ اسفل میں جا گرتا ہے۔ اور جب ایسی حالت میں مرتا ہے تو بعد ازموت ہمیشہ کے لیے ظلمت اور سفلی مخلوق شیاطین الانس وا لجن اور ارواحِ خبیثہ کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے اوران کے درکِ اسفل یعنی مقام سجین میں داخل کیا جاتاہے اور ابدالآ باد تک قسم قسم کے باطنی آلام، روحا نی مصائب اور طرح طرح کے عذابوں میں معذب اور مبتلا رہتا ہے اور قیامت کے روز جہنم کی آگ میں جھونک دیا جاتاہے۔ لیکن سعادت مند شخص کا بختِ ازلی یاور ہوتاہے۔ اس کی فطرت اپنی اصلی ملکوتی نوری معدن کی طرف رجوع کرتی ہے اور اس کا باطنی جثہ اپنی مخصوص لطیف غذا ذکر فکر کی طرف مائل اور راغب ہوجاتاہے ۔اور باطنی کمائی یعنی نوری غذا کے حصول کے لیے کمر بستہ اور مستعد ہو جاتا ہے اور اسے حاصل کر کے اس سے پرورش اور تربیت پاتاہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق کہ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰماًوَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوبِکُمْج (النسآء۴:۱۰۳) ہر وقت ذکر فکر اور طاعتِ الٰہی میں مشغول ہوجاتاہے تو کثرتِ ذکرِ دوام اور ذکرِ سلطان اس کے جسم کے تمام اعضا، حواس وقویٰ اور آخر دل کو غرض تمام ظاہر و باطن کو گھیر لیتا ہے اور دل ذکرِ الٰہی کے انوار اور مشاہدات کی لذت اور ذوق شوق میں محو اور مست ہو جاتاہے۔ اس وقت نفسِ بہیمی بھی جو لطیفۂ قلب کا قریبی ہم نشیں اور پڑوسی ہے اپنے رفیق دل کی نوری غذا کی بو اور لذت معلوم کر کے اس ملکوتی غذا کا شائق اور شیدائی ہو جاتا ہے۔ اس وقت نفس کا دابہ مادی غذا اور چند روزہ دنیوی عیش کی ناپائدار اور فانی لذّات سے منہ موڑ کر ذکر فکر، طاعت اور عبادتِ الٰہی یعنی ملکوتی نوری غذاؤں سے پرورش اور تربیت پاتا ہے اور ملکوتی صفات سے متصف ہو جاتا ہے اور حیوانی اور بہیمی اوصافِ ذمیمہ کی قیود سے چھوٹ جاتا ہے۔قولہٗ تعالیٰ: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاo(الشمس۹۱:۹)۔ ترجمہ:’’تحقیق وہ شخص چھٹکارا پا گیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر کے اسے پاک کر لیا۔‘‘ قولہٗ تعالیٰ: وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الجمعۃ۶۲:۱۰)۔ ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرو تا کہ تم چھٹکارا پالو۔‘‘ اس وقت نفسِ بہیمی قلبِ ملکوتی کے رنگ سے رنگین اور اس سے متحد ہو کر صفتِ بہیمی سے فنا ہو جاتا ہے اور ملکوتی صفات اور روحانی اخلاق اختیار کر لیتا ہے اور عالمِ ملکوت اور ملاء اعلیٰ کی نوری مخلوق میں شامل ہوکر ابدالآباد تک اس پاک لطیف عالم کے نوری غیر مخلوق لذات اور نظاروں سے لطف اندوز رہتا ہے جو نہ ان مادی آنکھوں نے کبھی دیکھے ہیں نہ ان کانوں نے کبھی سنے ہیں اورنہ کسی مادی خیال میں ان کا کبھی گذر ہوا ہے۔ قولہٗ تعالیٰ: فَلَا تَعْلَمُ نَفْس’‘ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍج جَزَآءًمبِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (السجدہ۳۲:۱۷)ترجمہ:’’ کوئی شخص نہیں جانتا مومنوں کی ان نعمتوں کو جو ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے ان سے چھپا رکھی ہیں۔ ان کے نیک اعمال کے بدلے جو وہ دنیا میں کرتے رہے۔‘‘خدا کے نیک اور برگزیدہ لوگوں کے قلوب پر جب اس باطنی لطف کے دروازے کھل گئے تو پہاڑوں کے غاروں میں بیسیوں برس مست اور مگن رہے۔ بعض امراء اور بادشاہوں نے جب یہ باطنی چاشنی چکھی تو وہ شاہی تاج اورتخت پر لات مار کر اس کی طلب میں جنگلوں اور بیابانوں میں جا نکلے او رپھر بادشاہی اورتخت و تاج کا نام تک نہ لیا۔ گو تم بدھ ، حضرت ابراہیم بن ادھمؒ اور شاہ شجاع کرمانی وغیرہ نے بادشاہیاں اس دائمی اور سرمدی سلطنت کی خاطر ترک کردیں۔ کہتے ہیں حضرت ابراہیم بن ادھمؒ پر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے باطنی واردات اورنوری تجلیات کی بارش ہونے لگتی تو آپ فرماتے کہ کہاں ہیں دنیا کے بادشاہ۔ خدا کی قسم اگران نعمتوں میں سے وہ ایک ذرّہ اور ان نظاروں میں سے ایک شمہ دیکھ پائیں تو سب تخت و تاج چھوڑ کر جنگل کی طرف دوڑ آئیں۔
حضرت محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی ،غوثِ صمدانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس اللہ سرہ العزیز کو ایک دفعہ سلطانِ سنجر نے ایک عریضہ بدیں مضمون بھیجا کہ’’ اگر حضور ایک دفعہ قدم رنجہ فرما کر میرے علاقہ کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمائیں اور مجھے اپنی زیارتِ فیض بشارت کا موقع بخشیں تو میں نیمر وز کا سارا علاقہ حضور کے لنگر کے لیے وقف کر دوں گا۔ حضور نے اس عریضہ کی پشت پر یہ رباعی تحریر فرما کر قاصد کے حوالے کر دی۔
چوں۱ چتر چنبری رخ بختم سیاہ باد
بافقر اگر بود ہوس ملک سنجرم
تایافت خاطرم خبراز ملک نیم شب
صد ملک نیمروز بیک جونمے خرم
غرض اس باطنی دوام دولت اورروحانی لازوال لذت کا کیا کہنا۔اس کی قدرو قیمت وہی جانتے ہیں جنہوں نے یہ چاشنی چکھی ہے۔
یک۱ بار چراغِ آرزو ہا پف کُن
قطع نظر از جمال ہر یوسف کُن
زیں شہد یک انگشت رسانم بلبت
از لذت اگر محو نہ گردی تف کُن
(ناصر ناخدا)
جو لوگ اس عنصری جثے یعنی گوشت اور ہڈیوں کے ڈھانچے کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یا اربع عناصر اور ان کے لطیف بخار کو روح کہتے ہیںیا اطباء کی طرح خون کو روح بتاتے ہیں وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ نیز جو لوگ اس ترکیبِ مادی اور نظامِ عنصری کے درہم برہم ہونے کو انسانی زندگی کا خاتمہ خیال کرتے ہیں وہ نہایت نادان ہیں۔کیونکہ تمام اہل مذہب اور اہل فلسفۂ جدید و قدیم اور اہلِ علم روحانی یعنی اہلِ سپرچولزم اورا ہلِ سائنس سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روح اس عنصری جثے اور مادی جسم کے سوائے ایک الگ اور علیحدہ خارجی چیز ہے۔ اور اس عنصری بدن اور مادی جسم کی ہلاکت اور اس چھلکے کے اتر جانے کے بعد بھی روح زندہ اور پائندہ رہتی ہے۔ اور آج کل تو روحوں کو حاضر کرنے اور ان سے بات چیت کرنے کے تجربے پایۂ ثبوت کو پہنچ چکے ہیں۔ اس کے لیے مزید زبانی دلائل اور عقلی براہین پیش کرنے کی حاجت نہیں رہی۔ جو لوگ اس ہستئ موہوم اور دنیا کے آب نما سراب کو لامتناہی، غیرمختتم اور سب کچھ سمجھے ہوئے ہیں وہ پرلے درجے کے کوتاہ بین اور نادان کو رچشم ہیں
تو مے گوئی کہ من ہستم خدانیست
جہان آب و گل را انتہا نیست
من اندر حیر تم از دیدنِ تو
کہ چشمت آنچہ بیند ہست یا نیست
(ذکریا رازیؔ )
ترجمہ:۔ تو کہتا ہے کہ میں موجود ہوں مگر خدا نہیں ہے اور اس پانی اور مٹی کی دنیا کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ میں تیرے اس مشاہدہ پر حیران ہوں کہ تیری آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے درحقیقت موجود ہے بھی یا نہیں ۔
اب اگر کوئی یہ اعتراض کر بیٹھے کہ انہیں وہ علوی لطیف جثۂ روح دکھا دیا جاوے تب ہم اسے مانیں گے۔ ہم ایسی چیز کو جو نظر نہ آئے اورنہ سمجھ میں آئے کیونکر مانیں تو اس ہٹ دھرمی کا علاج ہی نہیں۔ اوریہ ایسا سوال ہے جیسا کہ موسٰی علیہ السلام کی قوم نے ان سے کیا تھا کہ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً (البقرۃ۲:۵۵) ۔ یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ کھلم کھلا دکھایا جائے، تب ہم مانیں گے۔ ایسے شقی مادر زاد اندھے اگر اپنی ضداور انکار پر اڑے رہیں تو وہ اپنی کورچشمی کی وجہ سے معذور ہیں۔کیونکہ انکے دل مادے کے غلیظ غلاف اور پردے میں محصور ہیں۔ وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْف’‘ط بَلْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْط (البقرۃ۲:۸۸)۔
ہزار معجزہ بنمود عشق وعقل جہول
ہنوز درپئے اندیشہائے خویشتین است
(حافظؔ )
ترجمہ:عشق نے ہزاروں معجزے دکھلا دئیے لیکن جاہل عقل ابھی تک اپنے اندیشوں کی پیروی کر رہی ہے۔
بعض یہ کہیں گے کہ اگر روح کوئی چیز ہے یا دنیا میں آنے سے پہلے مقامِ ازل میں موجود تھی تو ہم کو وہ مکان اور وہ زمان اور وہ ارواح کیوں یاد نہیں ہیں۔ سو یاد رہے کہ روح مقامِ ازل میں بیدار تھی۔ جس وقت اس نے اس دنیا میں جنم لیا اور مادی جہاں میں جسمِ کثیف کا لحاف اوڑھ کر خوابِ غفلت میں سو کر بے ہوش ہو گئی تو وہ ازل کا زندہ بیدار جہان اور وہاں کا مکان اور زمان اسی طرح فراموش کر گئی جس طرح ہم خواب کے اندر اس زندہ جہان اور یہاں کے مکان اور زمان کو بھول جایا کرتے ہیں۔ اور اگر بالفرض ہمیں خواب کی دنیا میں بند کر دیا جائے اور سالہا سال تک بیدار نہ کیا جائے تو چونکہ ہمارے سامنے خواب کی ایک خیالی اور مثالی دنیا اس زندہ دنیا کی مثل موجود ہوتی ہے ہم کبھی اس زندہ دنیا کو یاد بھی نہیں کریں گے اور نہ بیدار ہونے کی آرزو کریں گے۔ اسی طرح نفسانی لوگوں کے قلوب اور ارواح اس مادی دنیا میں غفلت کی نیند سوئے ہوئے ازل کے زندہ بیدار جہان سے غافل اور بے خبر ہیں۔ چنانچہ اس دنیا میں خواب کے اندر نفس جب اپنے حواس اور قویٰ سے معطل ہو جاتا ہے گویا ایک گونہ مر جاتا ہے تو دل بعض دفعہ اس مقام کو اپنے باطنی حواس سے معلوم اور محسوس کرتا ہے اورخواب کے اندر ایسے نادیدہ مقامات دیکھتا ہے جو اس نے دنیا میں پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوتے۔ لیکن وہ ان مقامات سے اس طرح مانوس اور مالوف ہوتا ہے جس طرح وہ اس کے اپنے گھر ہوں اور انہیں گویا اس نے بہت مدت استعمال کیاہے۔ یا بعض وقت خواب کے اندر ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جنہیں دنیا میں پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا لیکن وہ خواب میں دوست، آشنا اور رشتہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ یا کبھی کسی ولی یا بزرگ یا نبی کی خواب میں زیارت ہو جاتی ہے اور ہم خواب میں انہیں شکل اور نام سے اچھی طرح پہنچانتے ہیں اور ان سے واقف کاروں اور محرم رازوں کی طرح بات چیت کرتے ہیں حالانکہ دنیا میں وہ ہم سے بہت زمانہ پہلے گذر چکے ہیں لیکن ہمارا دل اور روح اُس توفیق سے انہیں اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ روح جسم سے علیحدہ اور الگ وجود رکھتی ہے اوراس جسمِ عنصری کے فنا ہو جانے کے بعد زندہ رہے گی۔ اورجسمِ عنصری اختیار کرنے سے پہلے بھی مقامِ ازل میں موجود تھی۔ اور خواب میں جو بعض دفعہ ہم نادیدہ مانوس مقامات یا اجنبی اشخاص کو دیکھ کر پہچانتے ہیں تو وہی ازلی مقامات اور وہی ازلی آشنا اور یار دوست ہیں جن سے روزِ ازل میں روح مانوس اور مالوف رہی ہے۔ انسان کا عنصری ڈھانچہ اور مادی جثہ فنا پذیر ہے اورموت کے بعد ہم اسے دیکھتے ہیں کہ گل سڑ کر مٹی میں مل جاتا ہے لیکن انسان کا باطنی جثۂ نفس قلب وروح وغیرہ اور ان کے باطنی حواس اور قویٰ یعنی تصور، تفکر، توجہ تصرف کو نہ مٹی کھاتی ہے اور نہ یہ چیزیں گلنے سڑنے والی ہیں۔ لیکن ان کا خودبخود بغیر کسی آوند اور ظرف یعنی وجود کے قائم رہنا محال ہے۔ اس لیے موت کے بعد ان باطنی حواس، قویٰ اورخیالات وغیرہ کو باطنی لطیف وجود عطا کیا جاتا ہے۔ سو تمام سلوکِ تصوف اور روحانیت کی غرض و غایت یہ ہے کہ انسان اسی زندگی میں ایک ایسا لطیف نوری مرکب تیار کر لے جو ان باطنی حواس اور قویٰ وغیرہ کا حامل ہو اور دوسری ابدی لطیف دنیا میں پہنچ کر وہاں زندگی بسر کرنے اور رہنے سہنے اور روحانی ترقی حاصل کرنے کے قابل ہو۔ جس کی خام نا تمام صورت گاہے گا ہے بطور مشتے نمونہ از خروار ے ہم خواب میں پاتے ہیں۔ خواب میں انسان کا ایک لطیف معنوی پیکر انسانی حواس، قویٰ اور خیالات کا حامل اور مرکب بن جاتاہے۔ وہ لطیف جثہ خواب کے اندر ایک لطیف دنیا کے اندر دیکھتا ،بھالتا، بولتا، چلتاپھرتا، سوچتا سمجھتا اور سب کام کرتا ہے اور بعض دفعہ تو خواب دیکھنے والا اتنا بھی سمجھتا ہے کہ یہ جو میں دیکھ رہا ہوں یہ خواب کی حالت ہے۔ لیکن چونکہ نفسانی آدمی کا یہ جثہ ابھی خام اور ناتمام حالت میں ہوتا ہے اس لیے اسے اس جثے کی نسبت نہ پوری آگاہی حاصل ہوتی ہے اور نہ پورا شعور حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ خواب کی دنیا کو خیالی دنیا سے تعبیر کرتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت خواب کی دنیا خالی خیالی دنیا ہی نہیں ہوا کرتی اور نہ ہر خواب روز مرہ کے عادی دنیوی پریشان خیالات کا مجموعہ ہوا کرتا ہے بلکہ خدا کے مقبول اور برگزیدہ بندوں کے خواب آئندہ واقعات کے سچے نمونے اور لوحِ محفوظ کی متحرک فلم اور ٹھوس حقائق ہوا کرتے ہیں اور وہ خواب صبحِ صادق کی طرح صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں۔ عارف سالک لوگ جب مراقبہ کرتے ہیں تو ہوش و حواس اور عقل و شعور کے ساتھ خواب کے لطیف غیبی جہاں میں داخل ہوتے ہیں اورجہاں چاہتے ہیں پہنچ جاتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ عوام نفسانی لوگوں کا یہ لطیف جثہ چونکہ ابھی رحم کے اندر جنین کی طرح مردہ اور بے حس ہوتا ہے اس لیے اسے خواب کے اندر شعور و ادراک اور ہوش و حواس حاصل نہیں ہوتے۔ لیکن عارف زندہ دل آدمی کا لطیفۂ قلب طفلِ معنوی کی طرح بطنِ باطن سے زندہ اور صحیح و سلامت انسان کی طرح عالمِ غیب میں پیدا اور ہویدا ہو جاتا ہے اور شعور و ادراک اور ہوش و حواس کے ساتھ وہاں آمدورفت رکھتا ہے اور عالمِ غیب اور عالمِ آخرت کے حالات اور واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اصطلاح تصوف میں اس لطیف وجود کو لطیفہ کہتے ہیں۔
یہ لطیفہ جسدِ عنصری کی طرح تمام باطنی لطیف اعضا اور حواس کا مکمل معنوی انسان ہوتا ہے۔ وجودِ عنصری کو کپڑے اور چھلکے کی طرح اتار کر عالمِ غیب میں اپنے اختیار سے آتا اور جاتا ہے۔ تصوف کی کتابوں میں ان لطائف کا ذکر پڑھنا اور ان کی نسبت قیل و قال اور گفت و شنید کرنا نہایت آسان کام ہے لیکن خود اللہ تعالیٰ کے لطف کا لطیف معنوی انسان اور نوری پیکر بننا نہایت دشوار کام ہے۔ بہت سے رسمی دکاندار مشائخِ تصوف اور سلوک کی کتابوں میں ان لطائف کا حال پڑھ کر طالبوں کو زبانی طور پر بتاتے ہیں کہ نفس اور قلب کے دولطیفے عالمِ خلق سے ہیں اور لطیفۂ روح ، سر، خفی، اخفیٰ اور لطیفۂ انایہ پانچ لطائف عالمِ امر کے ہیں۔ اور ان لطائف کے مقام بتاتے ہیں کہ سینے میں یہ مقامِ نفس ہے اور یہ مقامِ قلب ہے اور دماغ میں یہ مقام فلاں ہے اور یہ مقام فلاں، اور طالبوں کو حبسِ دم کراکر کہتے ہیں کہ دل کی طرف فکر کرو اس میں ذکر کی حرکت معلوم ہو گی اور ذکر کی آواز آئے گی۔ جس وقت سادہ لوح طالب بچارے حبسِ دم کر کے دل کی طرف خیال کرتے ہیں تو اس میں واقعی خون کے دوران یعنی خون کے دل میں داخل ہونے اور نکلنے کی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ اس کی حرکت تمام بدن اور رگ وریشے میں معلوم اورمحسوس ہوتی ہے اور ساتھ ہی خون کے دھکیلنے کی ٹُپ لُپ کی سی آواز بھی طالب کو سنائی دیتی ہے۔ یہ رسمی رواجی پیر نادان طالبوں کو دورانِ خون کی ان حرکات اور اصوات کوذکرِ قلبی، روحی اور سِرّی وغیرہ بتاتے ہیں۔ اور سادہ لوح بدھو طالب ان حرکات کو اصلی ذکر ، لطائف کا زندہ ہونا اور ذِکرسلطان سمجھ کر خوش ہوتے ہیں۔ حالانکہ دورانِ خون کی ان حرکات اور اصوات کو ذِکرِ الٰہی اور باطنی لطائف سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اگر دورانِ خون کی دل اور تمام اعضاء کے اندر یہ تحریک، جنبش اور مادی آواز ذِکرِ قلب ہے تو یہ ذکر تو کلب یعنی کتّے اور ہر جانورمیں موجود ہے۔ افسوس کہ آج کل کے رسمی، رواجی، ریاکار، دکاندار مشائخ نے تصوف اور سلوک کو بچوں کا کھیل سمجھ رکھا ہے۔جیسے چھوٹی بچیاں گڑیا بناکر ان سے کھیلتی ہیں، ان کی شادیاں اور بیاہ رچاتی ہیں حالانکہ دراصل نہ کوئی شادی ہوتی ہے اور نہ بیاہ۔ اصل کجا اور نقل کجا
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
(اسماعیل میرٹھیؔ )
قلب کا ذکر اللہ سے زندہ ہونا اور اس کی حرکت اورجنبش بہت بڑی بات ہے۔ جب قلب زندہ ہو کر جبنش اور حرکت میں آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عرشِ معلےٰ کو جنبش اور حرکت ہوتی ہے اور حاملانِ عرش حیرت میں آجاتے ہیں۔ سالک زندہ قلب پر چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں اور اسے ایک رائی کے برابر نظر آتے ہیں
دل کہ مے جنبد جنباند عرش را
عرش را دل فرش سازد زیر پائے
(رومیؔ )
ترجمہ:۔ دل جب جنبش میں آتا ہے تو عرش کو بھی ہلا دیتا ہے۔ اور دل عرشِ بریں کو اپنے پاؤں تلے کا فرش بنا لیتا ہے ۔
سالک عار ف کا یہ باطنی لطیف جثۂ قلب جب زندہ ہو جاتا ہے تو باطنی اور لطیف دنیا میں ایک لطیف نوری بچے کی طرح گویا ازسر نو تولد ہو جاتاہے۔ سو سلوک اور تصوف کی غرض و غایت ان باطنی لطائف کا ذکر اللہ سے زندہ کرناہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دنیا کے مادی شجر تن کے ساتھ ہماری قندیل دل میں نوری چراغ اسم اللہ ذات لٹک رہا تھا لیکن فنا اور موت کی تند آندھی سے درختِ تن گرنے لگا اور اس قندیل کے ٹوٹنے اور پھوٹنے کا خطرہ لاحق تھا۔ لہٰذا اس کے ہوشیار مالک نے اس سے ایک دوسرا چراغ روشن کر دیا اور اسے باطن کے لطیف، پرامن، دائم، استوار اور پائدار درخت یعنی شجرِطیبہ کے ساتھ نوری قندیل میں لگا دیا جہاں اسے نہ ٹوٹنے کا خطرہ ہے اور نہ بجھنے کا خوف ہے۔ مولانا روم صاحبؒ اس مضمون کو مثنوی میں یوں ادا فرماتے ہیں:۔
باد تنداست و چراغ ابترے
زو بگیرا نم چراغ دیگرے
تابود کزہر دویک دانی شود
گرببادے آں چراغ از جارود
ہمچو عارف کز تن ناقص چراغ
شمع دل افروخت از بہرِ فراغ
تاکہ روزے ایں بمیرد ناگہاں
پیش روئے خود نہد او شمع جاں
(رومیؔ )
ترجمہ: ہوا تیز ہے اورچراغِ زندگی بجھنے والا ہے۔ اس چراغ سے میں دوسرا چراغ جلالوں۔ ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے ایک باقی رہ جائے اگر ہوا کی وجہ سے وہ پہلا چراغ بجھ جائے۔ جیسے عارف اس ناقص جسمانی چراغ سے دل کی شمع روشن کر لیتا ہے تا کہ وہ اطمینان لے۔ تا کہ اگر کسی دن یہ جسمانی چراغ اچانک بجھ جائے تو وہ اس روحانی چراغ کو اپنے سامنے رکھے۔
یا اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اس دنیوی مادی برّی زندگی کے سفر میں ہمیں چلنے پھرنے اور سواری کے لیے مادی مرکب یعنی جسدِ عنصری ملا ہے۔ لیکن عارف کامل کے نوحِ روح کو اللہ تعالیٰ کی تائیدِ غیبی سے الہام اور اعلام ہو گیا کہ عنقریب مادی دنیا میں موت کا بلا خیز عالم گیر طوفان آنے والا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے روحانی کشتی تیار کر۔ تو نیک بخت دوربین روح اپنی حفاظت اور بچاؤ کے لیے نوح نبی اللہ کی طرح ایک لطیف روحانی کشتی تیار کر کے اس پر مع جملہ متعلقین یعنی ہوش و حواس اور قویٰ سوار ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عارف سالک اسم اللہ ذات کے طفیل اللہ تعالیٰ کے لطیفۂ لطف کی لطیف کشتی میں سوار بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖؔ ھَا وَمُرْسٰھَاط(ھود۱۱:۴۱) کہتا ہوا نوح نبی اللہ کی طرح فنا کے بلا خیز عالم گیر طوفان سے بچ جاتا ہے لیکن خام نا تمام عنصری آب و گل کے خاکی جثوں والے نفسانی لوگ اس طوفانِ فنا کے تھپیڑوں میں غرق اور فنا ہو جاتے ہیں
اے دل ار سیل فنا بنیاد ہستی برکند
چوں ترا نوح است کشتیباں زطوفانِ غم مخور
(حافظؔ )
ترجمہ:۔ اے دل اگر فنا کی موج ہستی کی بنیاد کو اکھیڑ دے تو جب تک تیرا نوح کشتی چلانے والا ہے طوفان کا غم نہ کر۔
نیز یہ باطنی لطیف جثہ ہمارے اس جسدِ عنصری کے ذرّے ذرّے میں سے اس طرح زندہ ہو کر نکلتا ہے جس طرح انڈے سے بچہ یا دودھ سے مکھن اورہر لطیفے سے دوسرا الطف زیادہ لطیف لطیفہ اس طرح نمودار ہوتا ہے جس طرح مکھن سے گھی۔ اور علیٰ ہٰذا القیاس دل کا یہ نوری لطیفہ شہبازِ لامکانی اور عنقائے قاف قدس ہوتا ہے۔ جب یہ مادے کے بیضہ ناسوتی کو توڑ پھوڑ کر نکلتا ہے تو مادی دنیا کے تنگ و تاریک گھونسلے میں نہیں سماتا اور اپنے روحانی ملکوتی پروں کی خفیف جبنش سے کون و مکان اور شش جہات سے پار ہو جاتاہے۔ شجرِ طوبیٰ اس کا ادنیٰ نشیمن بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کنگر�ۂ عرش میں اپنانوری آشیانہ بنا لیتا ہے۔ انسان اسی بلند مقصد کے لیے دنیا میں آیا ہے اور یہی اس کی زندگی کی غرض و غایت ہے۔ اے طالب! ہمت کر کہ موت سے پہلے تو اس اصلی نصب العین اورحقیقی منزل مقصود تک پہنچ جائے
اے بدل از گوہر پاک آمدہ
گوہر تو زیورِ خاک آمدہ
چنبر نہ چرخ بسے بیخت خاک
تا تو بروں آمدی اے دُرِّپاک
جانِ جہاں و ہمہ عالم توئی
وانکہ نہ گنجد بجہاں ہم توئی
گنجِ خدا را تو کلید آمدی
نزپئ بازیچہ پدید آمدی
چرخ کہ از گوہرا حسانت ساخت
آئینۂ صورت رحمانت ساخت
آئینۂ زیں گونہ کہ داری بچنگ
آہ ہزار آہ کہ ندہی بزنگ
آنکہ بملک و ملکی قابل است
آئینۂ صافی اہلِ دل است
(نظامؔ قمی)
آج کل اہلِ یورپ اور اہلِ فرنگ بھی روح اور روحانی دنیا کے قائل اور روحانی علم کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ ہمارے علما سلف صالحین اور اولیا کاملین کے مقابلے میں ابھی محض طفلِ مکتب اور ابجد خواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے نئی روشنی کے دلدادہ اور مغرب زدہ نوجوان طبقہ کے لیے ہمارا یہ بیان ایک زبردست حجت اور قوی برہان ثابت ہو گا جو یورپین محققین کے ہر قول کو وحی آسمانی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ ہمارے روشن خیال دوستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یورپ میں مذہب اور روحانیت کی نسبت سائنس اور فلسفہ جدید نے کچھ عرصہ پہلے جو غلط عقیدہ اور باطل نظریہ قائم کیا تھا اب وہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب وہ وحی آسمانی، روح کی باطنی شخصیت اور اس کے عجیب مافوق الفطرت ادراکات اور روحانی کمالات کے بالکل قائل ہو گئے ہیں۔ ہم یہاں آج کل کے علمائے مغرب کی تحقیق و تفتیش اور ان کے نتائج و استنباطات پیش کر کے اپنے نادان نوجوان دوستوں کو بتائے دیتے ہیں کہ جو لوگ وحیِ آسمانی اور الہاماتِ روحانی کو محض ہذیان اور وہم گمان سمجھتے تھے آخر کار ان کو بھی اس کی صداقت کا اقرار کرنا پڑا۔ ہم ان لوگوں کے مذہبی افکار اورروحانی ذہنیت میں اس قدر انقلاب اور تغیر و تبدل پیدا ہونے کے ثبوت میں علمائے مغرب کے موجودہ افکار و نظریات مختصراً قلم بند کرتے ہیں۔ ممکن ہے اس سے ہمارے منکرینِ مذہب و روحانیت کو کچھ تنبیہ ہو اور وہ اپنے الحاد کے اصرار اور مذہب کے انکار پر نظر ثانی کرنے کی زحمت گوارا کریں۔ اور ان سچے حقائق کی مخالفت سے باز آجائیں جو اَب یورپین محققین اور ان کے اربابِ علم و رائے کے نزدیک بھی مسلم ہو گئے ہیں۔
’’اہلِ مغرب تمام مذہبی قوموں کی طرح سولہویں صدی تک تو وحی آسمانی کے تقلیدی طور پر قائل رہے کیونکہ ان کی مذہبی کتابیں انبیا کے حالات اور واقعات سے پر تھیں لیکن بعد میں جب سائنس کا دور شروع ہوا اور روحانیت سے ہٹ کر لوگوں کی توجہ مادیات کی طرف زیادہ ہو گئی تو اس وقت سائنس اور فلسفۂ مغرب نے اعلان کیاکہ وحی کا سلسلہ بھی ان پرانے خرافات میں سے ہے جو جہالت، نادانی اور توہم پرستی کے باعث انسانوں کے قلب و دماغ پر اب تک مسلط رہا ہے۔ اس جدید فلسفے نے مابعد الطبیعی حقائق کے انکار میں اس درجہ غلو کیا کہ سرے سے خدا اور روح کا ہی انکار کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں وحی کی نسبت یہ کہا گیا کہ یہ یا تو نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کی اپنی اختراع ہے جو انہوں نے لوگوں کی توجہات کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اختیار کر لی ہے یا کسی قسم کا ہذیان ہے جو بعض عصبی امراض والوں کو لاحق ہو جاتا ہے۔ اور اس مرض کے دوروں میں ان کو بعض چیزوں کی صورتیں متمثل ہو کر نظر آتی ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں ان کی کوئی اصلیت نہیں ہوتی۔ فلسفۂ یورپ نے وحی اور دوسرے مابعد الطبیعی چیزوں کی نسبت اپنے اس نظریے کا اس زور و شور سے پراپیگنڈا کیا کہ یہ نظریہ فلسفے کا ایک مستقل عقیدہ بن گیا۔ اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عالم یا تعلیم یافتہ کہلانا چاہتا، اس کے لیے اس نظریے کا قائل ہونا ضروری ہوگیا۔ چنانچہ ایک کثیر نادان طبقہ اس سیلابِ جہالت کی رو میں بہہ کر غافل دنیا سے گذر گیا۔ لیکن ۱۸۴۶ ء میں امریکہ کے اندر وجودِ روح کے ایسے آثار نمودار ہوئے جنہوں نے امریکہ سے گذر کر تمام یورپ کے خیالات کے اندر ایک تموّج اور ہیجان پیدا کر دیا اور لوگوں کو ایسی باطنی دنیا اور عالمِ روحانی کے وجود کا اقرار کرنا پڑا جس میں بڑی بڑی عقلیں اور روشن افکار کار فرماہیں۔ تمام یورپ کے اندر اب مسائلِ روحانیہ میں بحث و فکر کا نقطہ نظر بالکل بدل گیا۔ اور وحی اور روح کا مسئلہ از سرنو زندہ ہو گیا۔ علمائے مغرب نے اس مسئلے پر از سرِ نو بحث شروع کر دی اوراس کی تحقیق و تفتیش میں لگ گئے۔ چند سال کے بعد جب انہوں نے اپنی تحقیق و تفتیش کے نتائج شائع کئے تو یورپ کی تمام فضا میں ایک آ گ سی لگ گئی۔ ۱۸۸۲ ء میں بمقام لنڈن ایک کمیٹی بنی جس کا مقصد روح اور اس کے متعلقات پر بحث کرنا اور ان کی تحقیق و تفتیش کرنا تھا۔ اس کمیٹی میں جو علما شریک تھے ان میں قابلِ ذکر اور نمایاں تر یہ حضرات تھے: (۱)پروفیسر جیک، کیمبرج یونیورسٹی، صدر کمیٹی اور انگلستان کا مشہور عالم طبیعیات (۲) پروفیسر اولیورلاج، علم طبیعیات کا ماہر خصوصی (۳)سرولیم کروکس، انگلستان کا مشہور عالم کمیسٹری (۴) پرفیسر فریڈرلک مایرس،کیمرج یونیورسٹی (۵)پروفیسر ہڈسن (۶)پروفیسرولیم جیمس ہر فورڈ یونیورسٹی امریکہ(۷)پروفیسر بلریوب، کولمبیایونیورسٹی (۸)کامل فلامریون، فرانس کا مشہور ماہر فلکیات و ریاضیات۔ ان کے علاوہ یورپ کے دیگر مشہور علماء بھی اس کمیٹی میں شامل رہے۔ یہ کمیٹی تیس سال تک قائم رہی۔ اس مدت میں اس نے ہزاروں روحانی واقعات و حوادث کی تحقیق کی اور روحِ انسانی اس کے قویٰ اورقوتِ ادراک کے متعلق بار بار تجربے کیے۔ جو چالیس ضخیم اور موٹی جلدوں میں مدون و محفوظ ہیں۔ اس کمیٹی نے اپنے نتائج فکروتجربہ کی متواتر اشاعت کی اور انہوں نے ثابت کیا کہ انسان کے لیے ایک اور باطنی شخصیت بھی ہے۔ یعنی ہم اپنی موجودہ زندگی میں اگرچہ زندہ ہیں اور ادراک کرتے ہیں لیکن ہمارا یہ ادراک ان تمام روحانی قوتوں کی توجہ سے نہیں ہوتا جو ہمارے جسم کے اندر موجود ہیں بلکہ ان روحانی قوتوں کے ایک جز سے ہوتا ہے جس کا اثر جسم کے حواسِ خمسہ کے افعال کے ذریعہ سے ہوتا رہتا ہے۔ لیکن یہ زندگی جو حواس خمسہ نے ہم کو بخشی ہے اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر ایک اور زندگی ہے جس کی عظمت وجلال کی کوئی نشانی اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتی جب تک کہ ہماری یہ ظاہری شخصیت نیند یا کسی اور ذریعے سے زائل نہ ہو جائے۔ چنانچہ ہم نے ان لوگوں پر جن کو ہپناٹزم یا مقناطیسی نیند کے ذریعے سلا دیا گیا تھا دیکھا کہ سونے والے کو روحانی زندگی کی فراواں دولت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اس عالم روحانی میں اپنے حواسِ ظاہری کے علاوہ کسی اور باطنی حاسہ کے ذریعے دیکھتا اور سنتا ہے۔ آنکھوں سے اوجھل اور بعید چیزوں کی خبریں دیتا ہے اوراس وقت اس کی قوتِ تعقل و طاقتِ ادراک پورے طور پر بیدار ہو کر اپنا کام کرتی ہے۔ کمیٹی کے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ انسان کی اس ظاہری شخصیت کے علاوہ ایک اور شخصیت ہے جو پہلی مادی اور جسمانی شخصیت سے کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے۔ اور وہ شخصیت موت کے بعد زندہ رہتی ہے اور فنا پذیر نہیں ہوتی ان علما نے یہ بھی معلوم کیا کہ یہی وہ اعلیٰ شخصیت ہے جس کے ذریعے ماں کے رحم کے اندر بچے کے جسم کا تکوّن ہوتا ہے اور اسی کے اثر اور پرتوسے جسمِ انسانی تیار ہوتا ہے اور معدہ وغیرہ اعضا جن پر انسان کے ارادہ کو کوئی دسترس حاصل نہیں ہے ان کے افعال اور حرکات بھی اسی اعلیٰ شخصیت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ انسان کا انسان ہونا اسی باطنی شخصیت پر موقوف اور منحصر ہے۔ اس مادی شخصیت پر ہرگز نہیں جس کا تعلق حواسِ خمسہ ظاہرہ کے ساتھ ہے۔ اوریہی وہ شخصیت ہے جو جسم کے کثیف حجابوں کے درمیان بھی عمدہ عمدہ خیالات اور اعلیٰ ادراکات پیدا کرتی ہے ۔ الہاماتِ غیبی کا تعلق بھی اسی شخصیت سے ہے اور یہی وہ قوت ہے جو انبیا کے قلوب میں ان چیزوں کی القا کرتی رہتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی کہتے ہیں۔ پھر گاہے گاہے یہی وحی مجسّم ہو کر نظر آتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا فرشتہ کہتے ہیں جو آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ ان علما محققین کی رائے ہے کہ انسان کی یہ دوسری شخصیت حواسِ باطن کے ذریعے مدرک ہوتی ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہپناٹزم کے ذریعے جو لوگ مقناطیسی نیند سوتے ہیں ان میں بھی پسندیدہ عقلِ روشن، نظر دور رس، نفوس کے پوشیدہ اسرار میں اثر و نفوذ، مخفی باتوں کے معلوم کرنے کی صلاحیت اور اپنی حالتِ حاضرہ کے اعتبار سے جاہل غبی ہونے کے باوجود دنیا کے وسیع اقطارو اکناف میں سیرو سفر، یہ تمام چیزیں اور ان کے علاوہ دوسری فوق العادت قابلیتیں اس بات کی قوی دلیل ہیں کہ انسان کے اندر ایسی باطنی شخصیت پائی جاتی ہے جو جسمانی حیات کے پردوں میں مستور ہے اور وہ اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب کہ اس کا جسمِ عنصری طبعی یا صناعی نیند میں مصروف ہوجاتا ہے۔
پھر رویائے صادقہ یعنی سچے خواب بھی جو صبحِ صادق کی طرح وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جن کے ذریعے انسان غیبی امور اور آئندہ واقعات کو دریافت کر لیتاہے یا جن میں بعض اوقات ایسے مشکل مسائل حل کر لیتا ہے جنہیں وہ بیداری میں ہرگز حل نہیں کر سکتا تھا یا جن میں وہ بعض اوقات ایسے اعمال کر گذرتا ہے جن کی وہ بحالتِ بیداری کبھی ہمت اورجرأت نہیں کر سکتا تھا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لیے اس کی ظاہری شخصیت کے علاوہ ایک اور باطنی شخصیت ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ قوی، بلند، اور ترقی یافتہ ہے۔ اس استدلال کے علاوہ اور بھی متعدد امور ہیں جن کا اس تحقیقاتی انجمن نے نہایت دقیقہ رسی کے ساتھ عمیق مطالعہ کیا۔ پھر ساتھ ہی ان تجربوں کا جائزہ لیا جو ان سے پہلے کیے جا چکے تھے اور آخر کار انہوں نے علمِ ارواح اور ان کے لطائف و کوائف کا کھلے دل سے اقرا رکیا اور یہ علم ایک روحانی سائنس کی طرح یورپ کے تمام ملکوں میں مروّج اور مدوّن ہو گیا ہے۔ یورپ کے ہر بڑے شہر میں اس کی روحانی سوسائٹیاں اور باقاعدہ کمیٹیاں مقرر ہو گئی ہیں اور اس روحانی علم یعنی سپرچولزم(SPIRITUALISM) کے باقاعدہ کالج اور اس کے بیشمار مدرسے کھل گئے ہیں اور بیشمار کتابیں اس فن میں لکھی جا چکی ہیں۔ اس سلسلے میں کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور ماہر علم النفس پروفیسر ڈاکٹر مائیرس نے جو اس انجمن کے بھی رکنِ خصوصی تھے انسانی شخصیت ہیومن پرسنیلٹی (HUMAN PERSONALITY) پر ایک نہایت قابلِ قدر کتاب لکھی ہے جس کے مختلف ابواب میں مقنا طیسی نیند، عبقریت، وحی اورشخصیتِ باطنہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ہم ذیل میں چند اقتباسات کتا ب مذکور کے صفحہ ۷۷ اور اس کے بعد کے صفحات سے نقل کر تے ہیں۔ پروفیسر مائیرس نے سب سے پہلے ان ریاضی دانوں کا ذکر کیا ہے جو مشکل سے مشکل مسائلِ ریاضی کا درست حل مقناطیسی نیند کے اندر فوراً بغیر کسی غورو فکر کے معلوم کر کے بتادیتے ہیں۔ پھر لطف یہ ہے کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ تمہیں یہ جواب کیونکر معلوم ہوا تو وہ بجزاس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے حل کر دیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ کس طرح حل کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر موصوف نے بیدلر نامی ایک شخص کا ذکر کیا ہے جو بڑے سے بڑے عدد کے متعلق یہ فوراً بتا دیتا تھا کہ وہ کن اعداد کی ضرب سے حاصل ہوتا ہے مثلاً ایک مرتبہ اس سے پوچھا گیا کہ وہ کیا کیا اعداد ہیں کہ جن کو ضرب دے دی جائے تو ۱۷۸۶۱کا عدد حاصل ہو تو اس نے غور و تامل کے بغیر فوراً کہہ دیا کہ ۳۳۷ کو ۵۳ میں ضرب دینے سے یہ عدد پیدا ہوتا ہے۔ پھر جب اس سے پوچھا گیا کہ کس قاعدے اور حساب سے تو اس نے کہا کہ میںیہ نہیں بتا سکتا۔ گویا اس کا یہ جواب ایک طرح کا طبعی تقاضا تھا جس میں انسان کے ارادے اور فہم کو قطعی دخل نہیں ہوتا۔ پروفیسر مذکور کہتے ہیں کہ میں یقین کرتا ہوں کہ اس قسم کے واقعات دنیا میں پہلی مرتبہ ظاہر نہیں ہوئے بلکہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے اعلیٰ حالات اورواقعات اگلے لوگوں کے علم میں آچکے ہیں۔ یہ سب ہمارے وجودِ باطنی اور جسمِ روحانی کے کرشمے اور کارنامے ہیں جو ہر دور اور ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔
پروفیسر مذکور لکھتے ہیں کہ’’ اب میں پورے وثوق اور جزم کے ساتھ کہتا ہوں کہ انسان میں ایک روح کا وجود یقینی ہے جو اپنے لیے قوت و جمال کا اکتساب عالمِ روحانی سے کرتی ہے اور ساتھ ہی میں اس بات کا بھی یقین کرتا ہوں کہ تمام عالم میں ایک روحِ اعظم اور نورِمحیط سرایت کیے ہوئے ہے جس کے ساتھ انسانی روح کو اتصال حاصل ہوسکتا ہے۔‘‘ اپنی اس تحقیق کے ساتھ پروفیسر مائیرس نے فرانس کے ایک مشہور پروفیسر ایبو سے بھی نقل کیا ہے کہ ’’ انسان کی باطنی شخصیت ہی وہ چیز ہے جس کو عام لوگ وحی کہتے ہیں۔ اس حالت کے لیے طبعی صفات و خصائص ہیں جو اس کے ساتھ ہی مختص ہیں۔‘‘
آخر میں ہم رسل ویلز کی شہادت پر اکتفا کرتے ہیں جو طبیعات میں ڈارون کا ہم پلہ اور اس کا شریک خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے عجائباتِ روح پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ ان الفاظ میں برملا اعتراف کرتا ہے ’’میں کھُلا ہوا مادہ پرست اور دہریہ تھا۔ میرے ذہن میں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ میں کسی وقت روحانی زندگی کا اظہار کروں گا جو دنیا میں کارفرماہے مگر میں کیا کروں میں نے پے بہ پے ایسے مشاہدات محسوس کیے جن کو ہرگز نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ انہوں نے مجھے مجبور کردیا ہے کہ میں ان چیزوں کو حقیقی اور واقعی تسلیم کروں۔ اگرچہ مدت تک میں انہیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ یہ آثار روح سے سرزد ہوتے ہیں لیکن ان مشاہدات نے رفتہ رفتہ میری عقل کو متاثر کردیا ہے نہ بطریقِ استدلال و حجت بلکہ یہ مشاہدات کے پیہم تواتر کا اثر تھا جس سے میں بجز روح کے وجود کے اعتراف کے اور طریقہ سے بچ ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘
یورپ کے اساتذۂ علمِ جدید نے روح کے متعلق جو تحقیقات کی ہیں اس سے وہ ان نتائج پر پہنچے ہیں جو کیمل فلا مریان کے نزدیک حسب ذیل ہیں:
(۱) روح جسم سے جداگانہ ایک مستقل وجود رکھتی ہے۔(۲) روح میں اس قسم کی خاصیتیں ہیں جو اب تک علمِ جدید کی رو سے غیر معلوم تھیں۔ (۳) روح حواسِ خمسہ کی وساطت کے بغیر متاثر ہوسکتی ہے یا دوسری چیز پر اپنا اثر ڈال سکتی ہے۔ (۴) روح آئندہ واقعات سے واقف ہوسکتی ہے۔
پھر اس روشنی میں وحی کی نسبت ان علما کا خیال ہے کہ وحی دراصل روحِ انسانی پر ایک خاص قسم کی تجلی کا نام ہے جو اس پر اس کی شخصیتِ باطنہ کے ذریعے ضوفگن ہوتی ہے اور اس کو وہ باتیں سکھاتی ہے جنہیں وہ پہلے سے نہیں جانتا تھا۔ وحی کے باب میں علمائے اسلام اور علمائے یورپ میں اتنی بات مشترک ہے کہ وحی کا تعلق جسم یا کسی جسمانی طاقت سے نہیں بلکہ روح سے ہے۔ البتہ یہ امر مختلف فیہ رہ گیا ہے کہ اسلام میں وحی فرشتے کے ذریعے نبی کے قلب پر اترتی ہے اور ان لوگوں کے نزدیک فرشتہ شخصیتِ باطنہ کا نام ہے۔ فرق صرف نام کا ہے کام کا نہیں۔
یورپ میں یہ روحانی مذہب گھر گھر رائج ہے اور دن رات روحوں کو حاضرکر کے اُن سے کھلم کھلا بات چیت کی جاتی ہے۔ گھر گھر حاضراتِ ارواح کے حلقے قائم ہیں جنہیں یہ لوگ خانگی حلقے(HOME CIRCLES) کہتے ہیں۔ ہر ایک حلقے میں ایک وسیط یعنی میڈیم(MEDIUM) کا وجود لازمی ہوتا ہے۔ میڈیم ایسا شخص ہوتا ہے جس پر فطرتی طور پر کوئی روح مسلط ہوتی ہے۔ گویا ایسا شخص عالمِ ارواح اور عالمِ اجسام کے درمیان بطور واسطہ اور وسیلہ کے ہوتا ہے۔ ارواح میڈیم کے وجود میں سے ہوکر حلقے میں آتی ہیں، بات چیت کرتی ہیں، کمروں کی چیزوں کو الٹ پلٹ کرتی ہیں، بغیر کسی کے ہاتھ لگائے باجے بجاتی ہیں، باہر کی چیزیں مقفل بند کمروں میں لاکر ڈال دیتی ہیں اور بند کمروں میں سے چیزیں باہر لے جاتی ہیں۔ روحیں اعلانیہ لیکچر دیتی ہیں، ان کے ریکارڈ بھرے جاتے ہیں اور ان کی تصویریں لی جاتی ہیں۔ غرض اس قسم کے بے شمار عجیب وغریب کرشمے دکھاتی ہیں کہ سائنس اور مادی عقل سے ان کی کوئی توجیہہ نہیں بن آتی۔ ان لوگوں میں علمِ روحانی کے بے شمار کالج ہیں اور ان علوم کے مختلف شعبے اور مضامین ہیں۔ دن رات یہ لوگ اس علم کی ترقی میں محو اور مصروف ہیں۔ ہم انشاء اللہ اسی کتاب کے اگلے صفحوں میں بابِ حاضرات کے اندر اس پر سیر حاصل بحث کریں گے اور اسے مفصل طور پر اور کھول کر بتائیں گے کہ ا ن ارواح کی نوعیت، اصلیت اور حقیقت اور ان کی حاضرات کی کیفیت کیا ہے۔ یورپ کے علماء مادیین اور مغرب کے اہلِ سائنس و اہلِ فلسفہ محققین نے سالہاسال کی تلاش و تحقیق اور عرصۂ دراز کے غور و فکر کے بعد جس ادنےٰ قریب کی ناسوتی باطنی شخصیت کا ابھی صرف پتہ لگایاہے اور اسے معلوم اور محسوس کیا ہے ہمارے سلف صالحین اور فقرا کاملین نے ان لطیف معنوی شخصیتوں کا ایک باقاعدہ سلسلہ قائم کیا ہوا ہے اور ایک سے ایک اعلیٰ اور ارفع سات شخصیتوں کو اپنے وجود میں زندہ اور بیدار کرکے ان کے ذریعے وہ حیرت انگیز روحانی کشف و کرامات ظاہر کیے ہیں کہ اگر اہلِ سائنس اور اہلِ فلسفہ جدید کو اس کا شمہ بھی معلوم ہوجائے تو وہ مادے کی تمام خاکرانی کو خیرباد کہہ کر روحانیت کی طرف دوڑ پڑیں اور دنیا کے تمام کام کاج چھوڑ کر اسی ضروری، نوری اور حضوری علم میں دن رات محو اور منہمک ہوجائیں۔ یہ ادنےٰ باطنی شخصیت جس کا ابھی حال ہی میں اہلِ یورپ کو پتہ لگا ہے تصوف اور اہلِ سلوک کی اصطلاح میں اسے لطیفۂ نفس کہتے ہیں۔ یہ لطیفہ ہر انسان کے اندر خام نا تمام حالت میں موجود ہے۔ اسی ابتدائی باطنی جثے کے ذریعے انسان خواب کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ نفس کا یہ لطیفہ جسدِ عنصری کو لباس کی طرح اوڑھے ہوئے ہے۔ اس جثے کا عالم ناسوت ہے۔ جنّ، شیاطین اور سفلی ارواح اس مقام میں رہتی ہیں۔ پرانے زمانے کے جادوگر اور کاہن اسی ادنےٰ شخصیتِ نفس کے طفیل جادو اور کہانت کے کرشمے دکھایا کرتے تھے اور لوگوں کو غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے۔ یورپ میں آج کل کے مسمریزم، ہپناٹزم، اور سپرچولزم کے تمام حیرت انگیز کرشموں اور عجیب کارناموں کا سرچشمہ بھی یہی لطیفۂ نفس ہے۔ غرض جو کچھ بھی ہو یہ بات اب سب علما متقدّمین اور متاخّرین اور اہلِ سلف اور اہلِ خلف محققین کے نزدیک یکساں طور پر مسلّم ہے کہ روح موت کے بعد زندہ اور باقی رہتی ہے اور زندگی سے پہلے بھی ارواح ازل کے مقام میں موجود تھیں۔ انسانی وجود میں نفس کا لطیفہ وہ ابتدائی باطنی شخصیت ہے جس کے زندہ اور بیدار ہونے سے انسان جنات کے باطنی لطیف عالم میں قدم رکھتا ہے۔ اس لطیفے کے زندہ اور بیدار ہونے کے دو مختلف طریقے ہیں: ایک نوری اور دوم ناری۔ نیک عمل، اللہ تعالیٰ کا ذکر فکر، عبادت، نماز، روزہ اور تصوّر اسم اللہ ذات وغیرہ اشغال نوری طریقہ ہے اور خالی نفس کی مخالفت، ریاضت اور یکسوئی سے ناری صورت میں یہ لطیفہ زندہ اور بیدار ہوجاتا ہے اور یہ نوری یا ناری صورت میں لطافت اختیار کرتا ہے۔ اور وہ زندہ اور بیدار ہوکر نفس کے لطیف عالمِ ناسوت میں داخل ہوجاتاہے۔ ناری نفس کے ہمراہ جنّ اور شیاطین اور سفلی ارواح باطن میں ملاقی اور رفیق بن جاتے ہیں۔ یورپ کے سپرچولسٹس(SPIRITUALISTS)اس مقام میں جنّ، شیاطین اور سفلی ارواح کی حاضرات کرتے ہیں۔ اسی مقام میں کاہنوں کی کہانت اور ساحروں کے سحر کا عمل ہوتا ہے اور اسی مقام میں ہپناٹسٹ(HYPNOTIST) اپنے معمول کو مقناطیسی نیند سُلاکر اس سے کام لیتا ہے۔ یہ لطیفہ خام اور خوابیدہ حالت میں ہر شخص کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعے انسان خواب دیکھتا ہے۔ اسی کو نفسِ تحت الشعوری((UNCONSCIOUS MIND بھی کہتے ہیں جس کے ذریعے مسمرائیزرمسمرزم کے عمل کرتا ہے۔ اس لطیفے کے عجائبات بے شمار ہیں۔ اگر سب کو تفصیل کے ساتھ لکھا جائے تو ایک الگ کتاب بن جائے۔ اسی کی بدولت طالبوں کو کشفِ جنونی حاصل ہوتا ہے۔ ماضی و مستقبل کے حالات کو بتاتا ہے اور لوگوں کے نزدیک صاحبِ کشف و کرامات مشہور ہوجاتاہے۔ اس مقام میں عالمِ غیب کے جن مسخر ہوجاتے ہیں اور عامل ان سے ہر طرح کی خدمت اور کام لیتا ہے۔ اپنے مخالفوں کو جنات کے ذریعے نقصان اور دکھ پہنچاتا ہے۔زمین پر طیرسیر کرتا ہے۔ جنّات کے ذریعے لوگوں میں محبت اور عداوت پیدا کرتا ہے۔ جنات سے آسیب دور کرتا ہے اور سلبِ امراض کرتا ہے۔ غرض اس لطیفے کے ذریعے عوام لوگوں کے سامنے بے شمار سفلی شعبدے اور ناسوتی کرشمے دکھائے جاسکتے ہیں۔ خام جہلا کو ایک ہی نظر سے توجہ جنونّیت کے ذریعے دیوانہ اور پاگل بنایا جاسکتا ہے۔ غرض اسی ایک ادنےٰ لطیفے کے عجائب و غرائب بے شمار ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی ہے۔ اس قسم کا ابتدائی عامل اگر اس مقام پر ساکن اور راضی ہوجائے تو خواص کاملین عارفین کے نزدیک مکھی کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اس قسم کے سفلی کرشمے ایک بے دین جوگی، سنیاسی، تارک الصلوٰۃ اور غیر شرع آدمی سے بھی صادر ہوسکتے ہیں۔غرض اس مقام میں جنّ، شیاطین اور سفلی ارواح سے اتحاد پیدا کرکے وہ سب کچھ کرسکتا ہے جو ایک جنّ، شیطان، اور سفلی روح کرسکتی ہے۔ ہوا میں پرندوں کی طرح اڑتا ہے، آگ میں داخل ہوتا ہے اور اسے کچھ ضرر نہیں پہنچتا، دریا پر چلتا ہے، ایک جگہ غوطہ لگاتا ہے اور دوسری جگہ نمودار ہوجاتاہے،ایک دم میں اور ایک قدم پر مشرق سے مغرب تک جاپہنچتا ہے۔ اس لیے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے کہ اِذَارَ أَیْتَ رَجُلاًیَّطِیْرُفیِ الْھَوَآءِ وَیَمْشِیْ عَلَی الْمَاءَ وَتَرَ کَ سُنَّۃً مِّنْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاضْرِبْہُ بِالنَّعْلَیْنِ فَاِنَّہٗ شَیْطَان’‘ وَّمَا صَدَ رَمِنْہُ فَھُوَ مَکْر’‘ وَّ اِسْتِدْ رَاج’‘۔ ترجمہ:’’جب تو کسی شخص کو دیکھے کہ ہوا میں اڑتا ہے اور پانی پر چلتا ہے درآں حالیکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کا تارک ہو تو بلا تامل اسے جوتوں سے مار کیونکہ وہ شیطان ہے اور جو کچھ اس سے صادر اور ظاہر ہورہا ہے وہ مکر اور استدراج ہے۔‘‘
مردِ۱ درویش بے شریعت اگر
بپرد بر ہوا مگس باشد
درچوں کشتی رواں شود بر آب
اِعتمادش مکن کہ خس باشد
(ذکریہ رازیؔ )
یورپ کے جملہ روحانیین اور علمِ نفسیات کے ماہرین خصوصاً اہلِ سپرچولزم(SPIRITUALISM) جو اپنے روحانی حلقوں اورنشستوں میں ارواح کی حاضرات کرکے ان سے بات چیت کرتے ہیں اور ا ہلِ ہپناٹزم (HYPNOTISM)جس کے ذریعے عامل معمول کو مقناطیسی نیند سلا کر اس کی باطنی شخصیت یعنی اسی لطیفۂ نفس سے مختلف کام لیتا ہے۔ اور اہلِ مسمرزم(MYSMERISM) جو مختلف سفلی شعبدے دکھاتا ہے، دنیا کے تمام ساحرو جادوگر اور جملہ سفلی عاملین کی دوڑ دھوپ اسی ادنےٰ لطیفۂ نفس تک محدود ہوتی ہے۔ اس سے آگے ذرّہ بھر تجاوز نہیں کرتے۔ اگرچہ نفسانی مادی عقل والوں کے نزدیک یہ ناسوتی کرشمے بڑے کمالات سمجھے جاتے ہیں لیکن کامل عارفوں کے نزدیک پرِکاہ کے برابر وقعت بھی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب ناسوتی نفسانی کمال والے اپنے ان شعبدوں اور کرشموں کے ذریعے کمینی دنیا کی تجارت کرتے پھرتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے خالق خدا کی کچھ خبر ہوتی تو وہ چند روزہ فانی اور ہیچ دنیا کے بدلے اپنے عمل کو فروخت نہ کرتے پھرتے۔ سچ پوچھو تو یورپ کی سپرچولزم، ہپناٹزم اور مسمرزم یہ سب اسلامی باغِ تصوف کے ابتدائی خام میوے کے خوشہ چین ہیں۔ ہپناٹزم کا پیشرو مسمرزم ہے۔ یورپ کے اندر اس علم کو فروغ سب سے زیادہ ہنگری اوراس کے بعد آسٹریا میں ہوا۔ مسمرزم کاداعیِ اوّل ڈاکٹر مسمرآسٹریا کے پایۂ تخت ویانہ کا رہنے والا تھا۔ یورپ میں ہنگری ہی وہ ملک ہے جسے ٹرکی کے مشہور بکتاشی صوفیوں نے اپنا سب سے بڑا روحانی مرکز بنایا تھا۔ بوڈاپسٹ میں حضرت بابا گلشن بکتاشیؒ کا مزار آج بھی مرجعِ انام ہے۔ یہاں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی بھی اپنی مرادیں مانگنے کے لیے بکثرت جاتے ہیں۔ حضرت بابا گلشنؒ کے متعلق مشہور ہے کہ یہ بزرگ مریضوں پر ہاتھ پھیر کر ان کے مرض دور کردیتے تھے۔ ان کے مزار کے قریب ایک چھوٹا سا چشمہ ہے جس کے پانی کو آج تک دفعِ امراض کے لیے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔ اٹھارھویں صدی کے وسط میں حاجی قندش بکتاشی ہنگری کے مشہور ترین صاحبِ کرامت بزرگ ہوگذرے ہیں۔ ان کی خانقاہ ہنگری کے قصبہ ناغی کنیزسا (NAGHI KANIZSA)میں تھی۔ ابی سینیا وغیرہ کے ہزاروں مسلمانوں کے علاوہ بہت سے عیسائی بھی ان کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔ یورپ کے مشہور مستشرق ڈاکٹر زویمر نے حاجی قندش بکتاشی کے حالات قلم بند کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب حاجی صاحب کے سامنے کوئی مریض لایا جاتا تھا تو آپ چند دعائیں پڑھ کر اس پر دم کرتے تھے اور اسے چت لٹا کر دونوں ہاتھ اس پر پھیرتے تھے تو مریض چند ہی منٹوں میں صحت یاب ہوجاتا تھا۔ ان کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ ان کا عطا کردہ تعویذ جس شخص کے بازو سے بندھا ہوتا اس پر تلوار، سنگین اور بندوق کی گولی اثر نہیں کرتی تھی اور حاجی صاحب تلواروں، سنگینوں اور گولیوں کے گہرے زخموں کو ہاتھ پھیر کر اور اپنا لعابِ دہن لگا کر اچھا کرتے تھے۔ اور یہ بات آپ کی نسبت مشہور تھی کہ آپ جس شخص کی طرف گھور کر دیکھتے تھے وہ شخص بے ہوش اور بے خود ہوجاتا تھا۔ اس لیے حاجی صاحب اکثر اپنے چہرے پر نقاب ڈالے رہتے تھے۔
ڈاکٹر مسمر کی شہرت کا آغاز اٹھارھویں صدی کے آخری حصے میں ہوا۔ جس طرح سے اور بہت سے عیسائی حضرت حاجی صاحب کے سلسلۂ بکتاشی میں داخل تھے اسی طرح ڈاکٹرمسمر کو بھی حضرت حاجی صاحب یا ان کے کسی خلیفہ سے ارادت تھی۔ ڈاکٹرمسمر نے ان سے اسلامی تصوف کا طریقۂ توجہ معلوم کیا اور سیکھا اور بعدہٗ اسے مادیت کا رنگ دے کر حیوانی مقناطیسیت کے نام سے اُسے موسوم کرکے سلبِ امراض میں اسے استعمال کیا۔عملِ تنویم یا مسمرزم اور ہپناٹزم کے دامن میں جوکچھ بھی ہے وہ صوفیوں کے ابتدائی لطیفۂ نفس کے اشغال کا دھویا ہوا خاکہ اور چربہ ہے۔ فرق اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ تصوف کامل ہے اور مسمرزم ناقص۔ تصوف نور ہے اورمسمرزم نار ہے۔ تصوف کا رخ دین کی طرف ہے اور مسمرزم کا رخ دنیا کی جانب ہے۔ تصوف کا مرجع خدا ہے اور مسمرزم کا مرجع دنیا و مافیہا ہے۔
جنّ شیاطین اور ارواحِ خبیثہ بعض دفعہ کسی گھریا مکان کے اندر سکونت اور رہائش اختیار کرلیتے ہیں اور وہاں کے رہنے والوں کو خواب اور بیداری میں ڈراتے اور دکھ پہنچاتے ہیں۔ دنیا میں تقریباً کوئی شہر ایسا نہ ہوگا جس کے کسی گھر یا مکان میں یہ غیبی لطیف مخلوق نہ رہتی ہو۔ ایسے مکانوں کو عُرفِ عام میں آسیب زدہ یا بھارے مکان کہتے ہیں۔ یورپ میں ایسے مکانوں کو ہا نٹیڈ ہاؤسز(HAUNTED HOUSES) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بعض جِنّ بے آزار ہوتے ہیں اور گھروالوں کو کوئی دکھ اور آزار نہیں پہنچاتے بلکہ ان کی دیگر موذی جنّات سے حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے بذاتِ خود اس قسم کے آسیب زدہ گھر دیکھے ہیں اور انہیں جن شیاطین کی آماجگاہ پایا ہے۔ بعض جن شیاطین اور ارواحِ خبیثہ انسانوں پر مسلط ہوجاتے ہیں جس سے ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے اور وہ لا علاج امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لیکن شیطان اور بد روح کے انسانی جسم میں داخل ہونے سے علاوہ اور امراضِ بدنی کے ان کے اخلاق اور اعتقادات پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور جب ان کے ناری اور خبیث اثر سے کسی انسان کا دل اور دماغ متاثر ہوجاتا ہے تو وہ پاگل، دیوانہ اور مجنون ہوجاتا ہے۔ ان کے مختلف فرقے اور اقسام ہیں اور ان کے علیحدہ وصف اور الگ الگ کام ہیں۔ ان کی ایک قسم وہ ہے جو پہاڑوں کے چشموں اور غاروں میں رہتی ہے۔ ان میں ایک دوسرا گروہ ہے جو شہروں کے گھروں اور مکانوں میں رہائش رکھتا ہے۔ تیسرا ایک فرقہ ہے جو قبرستانوں اور مرگھٹوں کے اندر رہتا ہے۔ یہ انسانوں کے ہمراہ رہنے والے طبعی جنّ اور شیاطین ہوتے ہیں جو موت کے بعد انسان سے مفارقت اختیار کرکے کچھ عرصہ ان کی قبروں اور مرگھٹوں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہ جنّ شیاطین اکثر مردوں کے خویش و اقارب پر بھی مسلّط ہوجایا کرتے ہیں۔ ہندو لوگوں میں یہ بات مشہور چلی آتی ہے کہ مرنے کے بعد مردہ کی روح بھوت بن کر اس کے خویش و اقارب میں سے کسی پر مسلط ہوجاتی ہے۔ اسی لیے یہ لوگ مردہ جلاتے وقت اپنا حلیہ اور لباس تبدیل کرلیا کرتے ہیں اور بعض ہندو قبیلے تو تبدیلئ ہیئت میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ اپنے سر، داڑھی اور مونچھوں کے بال تک منڈھوا ڈالتے ہیں تاکہ مردہ کی روح بھوت بن جانے کے بعد انہیں پہچان نہ سکے اور اس طرح وہ اس کے تسلط سے محفوظ ہوجائیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں