عرفان 9

جس طرح انسان کا بچپن دینِ فطرت یعنی اسلام کے موافق ہوتا ہے اسی طرح زمانے کا بچپن یعنی پہلا زمانہ مذہب اور روحانیت کے بہت موافق تھا۔ اس لیے تمام پیغمبر اس زمانے میں مبعوث ہوئے اور اولیاء اللہ اور روحانی لوگ بکثرت پیدا ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سلف صالحین قدرتی اور فطرتی طور پر مذہب اور روحانیت کے قائل اور اس کی طرف دل و جان سے مائل تھے۔ جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے شیطان اس کی دینی استعداد اور اسلامی فطرت کو بگاڑنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ بلوغ تک اس کو مسخ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح جوں جوں زمانہ گذرتا گیا شیطان سامری کی طرح سیم و زر کے بچھڑے کو طرح طرح کے زیب و زینت دے کر لوگوں کو اس کے سحرِ محبت میں مسحور اور محصور کرتا رہا۔ اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور محبت ان کے دل و دماغ سے کافور کرتا رہا۔ یہاں تک کہ آج زمانہ گومادی طور پر مہذب اور مزین معلوم ہوتا ہے لیکن اخلاقی مذہبی اور روحانی لحاظ سے تقریباً مسخ ہوگیا ہے اور حیوانی اور طبعی زندگی بسر کررہا ہے۔ دین اور مذہب کے فطرتی چیز ہونے کی اس سے زیادہ بین دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ بعض ایسے جہالت اور تاریکی کے زمانوں میں جب کہ پیغمبر مبعوث نہیں ہوئے تھے اور لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اسماء سے بالکل بے خبر تھے لوگوں کو اپنے خالق مالک اور معبودِ برحق کا خیال خود بخود فطرتی طور پر کھٹکتا تھا۔ لیکن بسبب کور چشمی اور لا علمی کے لوگ اس اسم کے خاص محل یعنی مسمّٰے سے بھٹک جاتے تھے۔ چونکہ ان کے پاس بصائر اور نورِ ہدایت نہیں آیا تھا۔ اس لیے وہ اندھوں کی طرح اندھیرے کے اندر اس کی جستجو میں ہاتھ پاؤں مارتے تھے۔ اور جس چیزسے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کی بو پاتے تھے اس کے سامنے جھکتے، اسے پوجتے اور اسے اپنا معبود بنالیتے تھے۔ چنانچہ اس زمانے کی بعض اقوام نے اجرامِ فلکی مثلاً سورج، چاند اور ستارے پوجے۔ بعض نے دریا، پہاڑ اور جنگلی درخت اور پتھروں کے بت تراش کر اپنے معبود بنائے۔ اور بعض نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے آدمیوں اور بادشاہوں کی پرستش شروع کی۔ آج کل بھی افریقہ کی بعض وحشی قومیں جو زمانہ کی دستبرد سے ابھی تک محفوظ ہیں، ایسی موجود ہیں کہ اگر ان کے مذہبی ریکارڈ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ان لوگوں میں آج تک نہ کوئی پیغمبر مبعوث ہوا ہے اور نہ انہیں کسی روحانی راہبر یا مذہبی پیشوا نے دین کی طرف دعوت دی ہے۔ بلکہ انہوں نے آج تک اللہ تعالیٰ کا نام بھی نہیں سنا ہے۔ لیکن پھر بھی ان میں اپنے خالق مالک اور معبودِ برحق کا خیال اور اعتقاد نہایت محکم اور مضبوط پاتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح اسے پوجتے ہیں۔ ان وحشی اور جنگلی لوگوں کی روحانی طاقتیں آج کل کے نام نہاد مہذب اور روشن خیال شہری لوگوں سے بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی سرشت اور فطرت اللہ تعالیٰ کے نام اور ذکر کے خمیر سے مخمر ہے۔
انسان کسی چیز کے دیکھنے اور پہچاننے کے لیے دو طرح کے نور کا محتاج ہوتا ہے : ایک نورِا نفس، دوم نورِ آفاق۔ا نفس میں نورِ بصارت اور آفاق میں نورِ نیّرو آفتاب وغیرہ سے کسی چیز کو دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح باطن میں بھی سالک دو قسم کے نور کا محتاج ہوتا ہے۔ ایک نورِ بصیرت باطنی جسے نورِ یقین اور نورِ ایمان بھی کہتے ہیں۔ دوم نورِ دعوت و ہدایتِ انبیا و اولیا آفاق ہیں۔ چونکہ سب سے بڑا معدن و مخزنِ انوار جس سے تمام مادی دنیا روشن ہے آفتاب ہے۔ چنانچہ باطنی دنیا کے سب سے بڑے معدنِ انوار ہمارے آقائے نامدار حضرت احمدِ مختار صلعم ہیں اور ہر دو کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک ہی لفظ سراجاً مّنیرا سے خطاب فرمایا ہے۔ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاoلا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًاo (الاحزاب۳۳:۴۵۔۴۶)ط ترجمہ:’’اے میرے نبیﷺ! ہم نے تم کو شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والا اور ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ دنیا میں اشیا کے لیے یہ ہر دو نور یعنی آنکھیں اور روشنی لازم و ملزوم ہیں۔ یعنی اگر روشنی نہ ہو تو آنکھیں بے کار ہیں۔ اگر آنکھیں نہ ہوں تو تمام روشن دنیاتاریک ہے۔قولہٗ تعالیٰ: قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِقف ؔ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْط (یوسف۱۲:۱۰۸)۔ ترجمہ: ’’ کہہ دے اے محمد صلعم! یہی میری راہِ اسلام (فطرتی دین) ہے کہ بلاتا ہوں میں اور میرے پیچھے آنے والے اللہ کی طرف لوگوں کو بصیرتِ باطنی کی طفیل۔‘‘جہالت کے بعض تاریک زمانوں میں جب کہ یہ باطنی اور نوری سراج مفقود تھے اس لیے فطری مجبوری کے سبب ٹھوس مادی خدا مثلاً سورج، چاند اور پتھر وغیرہ لوگوں کے معبود تھے۔ جیسے کوئی شخص جب کسی تاریک مکان میں کسی چیز کی خوشبو پاتا ہے تو وہ اس کی تلاش میں اندھوں کی طرح کبھی ایک چیز پر اور کبھی دوسری چیز پر ہاتھ مارتا ہے۔ یہی حال جہالت کے زمانوں میں بغیر راہبروں اور پیغمبروں کے مخلوق کا تھا۔ چونکہ مخلوق کے اندر اپنے خالق کے اسم کا نور بالقویٰ مستور ہوتاہے اس لیے وہ ہر زمانے میں اس کی طلب و تلاش میں فطری طور پر بے چین اور مجبور ہوتی ہے۔اس لیے انسان محبتِ ازلی اور جذباتِ فضلی کے سبب اللہ تعالیٰ کے خیال میں مست اور بے خود ہوکر اس کے شمعِ جمال کی مادی مثالوں اور مثالی اشیا پر مرتا ہے۔ اور جہاں کہیں جماد، نبات، حیوان، انسان اور اجرامِ فلکی میں اس کے جلال و جمال کی بو پاتا ہے وہ اندھوں کی طرح ان سے بغل گیر ہوتا ہے اور اپنے دل کی فطری امنگ ان کی پرستش سے نکالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہالت کے تاریک زمانوں میں لوگ قدرت کے مختلف مظاہر اَور مادی اکابر کو اللہ تعالے کے پاک اسما سے موسوم کر کے پوجتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اپنی اندرونی فطری طلب اور تلاش اوراسم اللہ ذات کی قدرتی حرارت اور پیاس نے سورج ،چاند اور ستاروں کی طرف ملتفت کیا۔ قولہٗ تعالیٰ: فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ رَاٰکَوْکَبًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَo فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْج فَلَمَّآ اَفَلَج قَالَ لَءِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَo فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ھٰذَآ اَکْبَرُج فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓء’‘ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَo اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo (الانعام۶:۷۶۔۷۹)۔ ترجمہ:’’ جب ابراہیم علیہ السلام (کے دل) پر اس زمانے کے اصنام اور اجرام پرستی کے ماحول کی رات چھائی اور معبود کے خیال سے اس نے ستارے کی طرف دیکھا تو اس نے (لوگوں کی تقلید میں اپنے دل میں) کہا کہ یہی میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو اس نے کہا کہ میں چھپنے اور غروب ہونے والوں کو الوہیت کے لیے پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد اس نے چاند کو چمکتے دیکھا تو اس نے اپنے دل میں کہا کہ شاید یہی میرا رب ہو۔ لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو اس نے کہا کہ اگر اس طرح زوال پذیر چیزوں میں سے کسی کو معبود بنایا اور اپنے حقیقی رب نے مجھے اپنی طرف ہدایت نہ کی تو البتہ میں بھی ان اجرام اور اصنام پرستوں کی طرح گمراہ ہو جاؤں گا۔ پھر جب اس نے سورج کو چمکتے دیکھا تو اس نے کہا یہ بہت بڑا ہے۔ یہی میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تواس نے کہا کہ اے جاہل قوم میں تمہارے ان سب مخلوق اور فنا پذیر معبودوں سے بیزار ہوں جو تم نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرائے ہیں۔ میرادل تو اب ایسی عظیم الشان ہستی کی طرف متوجہ ہے جس نے زمین اور آسمان اور مافیہا کو پیدا کیا ہے اور میں نے اسی ایک واحد ذات کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ اور میں مشرکوں سے نہیں رہا۔‘‘ انسان کے اندر فطری طور پر اپنے خالق کا خیال روزِ ازل سے موجزن ہے اور اس کی طبیعت او رجبلت میں اس کے نام کا نور اور اس کے ذکر کا تخم روزِ اول سے ودیعت کیا گیا ہے۔ اور اگر یہ اندرونی استعداد اور باطنی قابلیت انسان کے اندر پہلے سے موجود نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کا لوگوں کو پیغمبروں کے ذریعے اپنی طرف بلانا صریح ظلم ثابت ہو تا۔ اور اللہ تعالےٰ کسی نفس کو اس کی وسعت اور استعداد سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ یہاں پر نیچریوں اور دہریوں کے اس باطل خیال کی قلعی کھل جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ مذہب اور اللہ تعالیٰ کی پرستش اور عبادت کی بنیاد خوف سے پڑی ہے اور حیات بعد الموت اور روح کی بقاء کا خیال اور اعتقاد انسان کے اپنے سائے اور عکس سے پیدا ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں بلکہ انسان کی اپنی فطرت اور سرشت ہی مذہبی اعتقاد اور روحانی خیال کی پہلی محرک ہے اور بس۔ اور خوف ورجا تو یقین اور ایمان باللہ کی فطری تحریک کے بعد کے لازمی نتائج ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی فطرتی طلب اور طبعی پیاس کے لیے بے چینی کو معلوم کیا تو بسبب رحم اور شفقتِ خالقی اپنے بندوں میں سے خاص خاص ہستیوں کو اپنی قدرت کا مظہر بنا کر انہیں مخلوق کا پیشوا اور راہبر بنا کر بھیجا ۔اور ان کے ذریعے اپنی ذات و صفات و اسما سے روشناس کیا اور اپنے نام و نشان کا پتہ دیا۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً مختلف زمانوں میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰلِ عمرٰن۳:۱۶۴) ’’اللہ تعالیٰ نے نورِ ایمان والوں پر بہت احسان فرمایاجب کہ اس نے ان کی طرف اپنی جنس کا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آئیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں اس کی کتاب اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی اور تاریکی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ چونکہ ہر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا علیحدہ علیحدہ معاملہ اس کی قدرت اور حکمت کے منافی ہے اس لیے یہ کلیہ قاعدہ رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں اپنی مخلوق میں سے ایک کامل انسان کو پہلے نورِ ایمان اور نیرِ اسم اللہ ذات سے منور کر کے شمعِ رشد و ہدایت بنا کر بھیج دیتا ہے۔ بعدہٗ اس کے نور سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن کر دیتا ہے۔ اور ایک کامل اور قابل ہستی کے دل کی زمین میں پہلے اسم اللہ ذات کے فطرتی تخم کو اپنی قدرتِ کاملہ سے سرسبز کر دیتا ہے اور جب وہ شجرِ طیبہ بن کر پورے طور پر پھلتا اور پھولتا ہے تو اس کے پھلوں سے لاکھوں کروڑوں نوری درخت پیدا کر کے دینِ قیم کا ایک سر سبز او ر شاداب باغ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کے سین�ۂ بے کینہ میں پہلے تخم اسم اللہ ذات سے شجرۃ الانوارِ قرآن کو نمودار کیا اوراس کی روشنی سے تمام دنیا کو منور کیا۔ جس کی کیفیت یوں تھی کہ جب آنحضرت صلعم کے وجودِ مسعودمیں تخم اسم اللہ ذات نے پھلنے پھولنے کا تقاضا شروع کیا اور آپﷺ نے اپنے اندر نزولِ وحی کے آثار محسوس کیے۔ یعنی حضرت مریم ؑ کی طرح آپﷺ نے اپنے بطنِ باطن میں حملِ وحی کی بے واسطہ ثقالت کو معلوم کیا اور بمقتضائے فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّاo (مریم۱۹:۲۲)آپﷺ نے دشت و بیابان کا رخ کیا اور آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں جسے غارِ حرا کہتے ہیں جا کر معتکف اور گوشہ نشین ہو گئے۔ اور باطنی تخم کے سینچنے اور پھوٹنے اور روحانی عیسیٰ کے وضعِ حمل اور تولد ہونے کے انتظارمیں بار بار وہاں جایا کرتے اور کئی روز بیٹھے رہتے۔ آخر ایک روز جبرئیلِ امین اس نوری تخم اسم اللہ ذات کو پانی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کے بحر انوار سے چشمۂ حیات اپنے سینے میں بھر لائے اور آنحضرتﷺ کے سینے سے سینہ ملا کر آپﷺ کو زور سے دبا کر فرمایا اِقْرَاْ یعنی پڑھ۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے جواب میں کہاکہ اَنَا لَیْسَ بِقَارِیءٍ۔ یعنی میں توقاری اور پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ چنانچہ تین دفعہ جبرئیل امین ؑ نے سینے سے دبایا اور ہر دفعہ آپﷺ اَنَا لَیْسَ بِقَارِی ءٍ فرماتے رہے۔ آپﷺ کے ہر بار اَنَا لَیْسَ بِقَارِیءٍ فرمانے سے مراد یہ تھی کہ پانی تو مل رہا ہے مگر ابھی تک وہ نوری شجرِ قرآن پھوٹاہوا نظر نہیں آتا۔ چنانچہ آخری دفعہ جب جبرئیلِ امین ؑ نے سینے سے دبا کر فرمایا اِقْرَاْ تو آپﷺ کی زبانِ حق ترجمان پر قرآن کی یہ پہلی سورۃ یوں جاری ہو گئی اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَoج خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍoج اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْo (العلق۹۶:۱۔۵)۔ ترجمہ:’’ پڑھ (اے محمدﷺ!) قرآن کو اپنے اس پرور دگار کے نام (کی برکت) سے جس نے مخلوق کو پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خونِ منجمد سے بنایا۔پڑھے جاؤ (اے محمدﷺ) تیرے بڑے عزت والے رب کی قسم جس نے (عوام کو) قلم (کے کسی علم) سے سکھایا ہے اور( خواص کو بے واسطہ) وہ علم لدنی سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ غرض قرآن کریم کی یہ پہلی آیت اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَoج (العلق۹۶:۱۔۵)۔ یعنی قرآن پڑھ اے محمد صلعم اپنے رب کے اسم کے ذریعے صاف بتا رہی ہے کہ جس چیز کے پڑھنے کی جبرئیل امین ؑ تاکید فرما رہے تھے وہ اسم اللہ ذات کی نوری تحریر تھی۔ بہت لوگ اس موقع پر یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ آنحضرت صلعم پڑھے ہوئے نہیں تھے اور اس وقت نہ قرآن کا کوئی نشان موجود تھا اور نہ پڑھنے کی کوئی چیز جبرئیل ؑ کے پاس تھی جس کی نسبت جبر ئیل ؑ بار بار اِقْرَاْ کہہ کر پڑھنے کی تاکید فرماتے تھے۔ سو وہ اسم اللہ ذات کی نوری تحریر تھی جس کے تصور یعنی باطنی طور پر اس کے پڑھنے اور مرقوم کرنے کی جبرئیلؑ آنحضرت صلعم کو تعلیم اور تلقین فرمارہے تھے۔ چنانچہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَoج (العلق۹۶:۱۔۵)۔ یعنی پڑھ قرآن کو اے محمدﷺ! اپنے رب کے اسم کی برکت سے۔ سوبِاسْمِ رَبِّکَ میں صاف طور پر اسم اللہ ذات کی طرف اشارہ ہے کہ اے محمدﷺ! اب اسم اللہ ذات تیرے سینے میں پھوٹ کر سر نکال چکا ہے اور شجرِ قرآنی بن رہا ہے اب قران کو پڑھ اور اس کے معارف و علوم اور اسرار و انوار کے پھل خود کھا اور امتِ مرحومہ کوقیامت تک کھلائے جا۔اس طرح شجرِ قرآن آں حضرت صلعم کے وجودِ مسعود کی زمین میں اسم اللہ ذات کے نوری تخم سے پیدا ہوا۔ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ (الفتح۴۸:۲۹)۔ ترجمہ: ’’جیسا کہ نبات اور سبزی پہلی ڈالی اور شاخ کو نکالتی ہے اور پھر اس کو مضبوط اور محکم کرتی ہے۔ اور پھر وہ موٹا اور تن آور درخت بن کر اپنے تنے کے بل سیدھا زمین پر قائم اور کھڑا ہو جاتا ہے۔ ‘‘
سو قرآن کی یہ بھاری امانت اس طرح جبرئیل امین ؑ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آں حضرت صلعم کے سین�ۂبے کینہ میں منتقل ہوئی۔ یہی وہ بھاری اور ثقیل امانت تھی جس کی برداشت سے زمین و آسمان اورپہاڑ عاجز آ گئے تھے۔ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُومًا جَھُوْلًاo (الاحزاب۳۳:۷۲)۔ ترجمہ:’’ ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ پس سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا لیکن کامل انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے) ظالم اور نادان ثابت ہوا۔ حدیث قدسی: لَا تَسْعُنِیْ اَرْضِیْ وَلَا سَمَاءِیْ وَلٰکِنْ یَسَعُنِیْ قَلْبُ عَبْدِالْمُؤْمِنِ۔ یعنی ’’ میں آسمانوں اور زمینوں میں نہیں سماتا۔ لیکن مومن مسلمان کے قلب میں سما جاتا ہوں۔‘‘
پر توِ حسنت ۱؂نہ گنجد در زمین و آسماں
من دریں فکرم کہ اندر سینہ چوں جا کردہٖ
قولہٗ تعالیٰ: لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِط (الحشر۵۹:۲۱)۔ ترجمہ:’’ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ سنگین اور سخت پہاڑ بھی قرآن کی ثقالت اور عظمت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے: اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاo (المزمل۷۳:۵)۔ یعنی’’ ہم عنقریب تم پر بھاری اور ثقیل قول (قرآن) اُتارنے والے ہیں۔‘‘ چنانچہ قرآن کے نزول کے وقت آں حضرت صلعم کی یہ حالت ہوتی کہ آپﷺ بے ہوش ہو جاتے، آپﷺ کے چہرۂ مبارک کا رنگ فق ہو جاتا اور سخت سردی میں بھی آپﷺ کے چہرے مبارک سے پسینہ ٹپکنے لگ جاتا تھا اور اگر سواری کی حالت میں آپﷺپر وحی نازل ہوتی تو وحی کے بوجھ اور قرآن کی ثقالت سے سواری بیٹھ جایا کرتی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آں حضرت صلعم میری ران پر سر مبارک رکھ کر سو رہے تھے کہ آپﷺ پر وحی نازل ہونے کے آثار نمودار ہوئے تو وحی کے بوجھ اور قرآن کی ثقالت سے میری ران ٹوٹنے لگی۔ غرض قرآنِ کریم کی ثقالت اور عظمت وہی لوگ سمجھتے ہیں جن پر اس کلام پاک کی واردات کما حقہٗ ہوئی ہے اور جن کے قلوب نورِ قرآن کی قابلیت اور استعداد رکھتے ہیں۔ اس امانتِ گراں کا تحمل اس کامل انسان سرورِ دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا ورنہ عوام کا لانعام قرآن کی قدرو عظمت کو کیا جانیں کہ قرآن ان کے حلقوم سے نیچے نہیں اترتا اوربہت لوگ قرآن پڑھتے ہیں درآنحالیکہ قرآن انہیں لعنت کر رہا ہوتاہے۔ غرض قرآن کریم مع جملہ معارف و اسرار اور تمام علوم وانوار اسم اللہ ذات کے اندر اس طرح مندرج ہے جس طرح تخم اور گٹھلی کے اندردرخت ہوتا ہے۔ اور جس عارف کا مل کے وجود میں اسم اللہ ذات قائم ہو جاتا ہے تو وہ بلا واسطہ تلمیذالرحمن اور حافظِ قرآن ہوجاتا ہے۔اسی لیے بزرگانِ دین نے سلوکِ باطنی کے لیے صرف اسم اللہ ذات کے ذکر یا اس کے تصور کو نصب العین ٹھہرایا ہے۔
اے طالب ! ہم نے اب دلائلِ عقلی اور نقلی سے نیز آیات و احادیث سے تجھے اللہ تعالیٰ کی پاک اور مقدّس بارگاہ تک پہنچنے کا سب سے آسان، نزدیک اور بے خوف و خطر راستہ بتا دیا ہے اور گنجِ کونین اور سعادتِ دارین کی طرف سچی، پوشیدہ ترین راہ دکھا دی ہے۔اگر تیر ی قسمت یاور اور ہماری بات پر باور ہے تو عنقریب اس پر چل کر تو جلدی زندگی کی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا۔
چہ در طولِ امل ازحرص بے با کانہ آویزی
بایں زلفِ پریشان ہر نفس چوشانہ آویزی
بقیل و قال نتواں در حریمِ کعبہ محرم شد
ہماں بہتر کہ ایں نا قوس ور بتخانہ آویزی
نخواہی شدادِ گرمحتاج دامن گیرئ مردم
اگر یک بار در دامانِ شب مردآنہ آویزی 
بہ ہمت گوہر یکدانہ چوں مرداں بدست آور
چو زاہدتا بکے در سبحہ صددانہ آویزی
ترجمہ:
۱۔ تولمبے چوڑے خام خیالوں میں کیوں بے باکی سے الجھ رہا ہے اور اس پریشان زلف میں کنگھی کی طرح پھنس رہا ہے۔
۲۔ تو محض باتوں سے حرمِ کعبہ کا واقف نہیں بن سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ اس باتوں کے ناقوس (سنکھ) کو بت خانہ میں لٹکادے۔
۳ تو پھر دوبارہ کسی کا دامن پکڑنے کا محتاج نہیں رہے گا۔ اگر ایک بار کسی رات کو جاگنے والے مرد کا دامن پکڑلے۔
۴۔ جوانمردوں کی طرح ہمت سے ایک دانہ گوہر کا حاصل کرلے۔ زاہد کی طرح تو کب تک سودانوں والی تسبیح میں الجھا رہے گا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری