عرفان
عرفان حصہ اوۤل
عرفان کے تعارف کے بارے میں آج سے بیس سال پیشتر میرے جو جذبات تھے آج بھی وہی ہیں۔ آج بھی جبکہ میرے تجربات، مشاہدات اور معلومات میں گوناگوں اضافہ ہوا ہے میں محسوس کرتا ہوں کہ میں عرفان کے شایانِ شان تعارف قلم بند کرنے کے فرض سے کماحقہ عہدہ برآنہیں ہوسکوں گا۔ تاہم چونکہ ناظرین پر اس کتاب کی اہمیت اور حقیقت واضح کرنا ضروری ہے اور یہ ایک ادبی روایت بھی ہے اس لیے میں اپنی کم مائیگی کے احساس کے باوجود اپنے خیالات اور جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی حتی المقدور کوشش کروں گا اور فقط اس شرف ہی کو اپنی کامیابی اور خوش نصیبی کے لیے کافی تصور کروں گا جو مجھے اس نادرِ روزگار کتاب کو ناظرین سے متعارف کرانے کے سلسلے میں حاصل ہوگا۔
کتاب عرفان جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مذہب و روحانیت اور فقر و تصوف کے اسرار و معارف اور حقائق کا ایک بیش بہا مجموعہ اور نایاب مرقع ہے۔ اس کی تدوین اور ترتیب میں ان تمام امور کو مدِّ نظر اور ملحوظ رکھا گیا ہے جو وقت کے ہمہ گیر تقاضوں سے مطابقت اور جدید اذہان کی تشفی اور تسلی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے مطالعے سے مذہب اور روحانیت کا حقیقی مقصد اورمفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
موجودہ خلائی اور جوہری(ایٹمی) عہد میں مادیت کو جو عروج اور فروغ حاصل ہوا ہے اس نے لوگوں کے ذہنوں کو یکسر بدل دیا ہے۔ آج اکثر لوگ مذہبی کتابوں اور روحانی موضوعات کو طویل، خشک اور پیچیدہ مسائل کا مجموعہ سمجھ کر ان کے مطالعے سے گریز اور پہلو تہی کرتے ہیں اور وہ اپنے اس خیال میں کسی حد تک حق بجانب بھی ہوتے ہیں کیونکہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔ آج دنیا اس مقام پر نہیں جہاں صدیوں پیشتر تھی۔ انسانی علم اور تجربے نے آفاق کی وسعتوں کو چھان مارا ہے۔ اب اس خاکی نژاد انسان کے قدم چاند اور ستاروں کی سرزمینوں کو چھونے لگے ہیں اور وہ خلاء اور کائنات کی تسخیر کے خواب دیکھ رہا ہے۔ انسانی علم نے خوردبینی ذرّات کے بطون میں داخل ہوکر ان کی اندرونی دنیا کے ناقابلِ درک اسرار اور مخفی راز آشکارا کردیئے ہیں۔ لہٰذا موجودہ دنیا مکمل عقلی تشریح اور پوری علمی توضیح کے بغیر کسی چیز کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہونے کو تیار نہیں۔ لیکن عرفان میں اس موضوع کو حیرت انگیز اور محیر العقول مشاہدات، انوکھے و نرالے تجربات اور عجیب و غریب و جدید معلومات کے ذریعے اس قدر دلچسپ اور پر لطف بنایا گیا ہے کہ طبیعت بالکل کوفت اور گرانی محسوس نہیں کرتی۔ کتاب کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اس کے دماغ سے ظلمت کے پردے ہٹارہا ہے اور وہ عالمِ روحانیت کا بہت نزدیک اور قریب سے مشاہدہ کررہا ہے۔
اس مختصر سے دیباچے میں تفصیلاً یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ عرفان میں کیا کچھ ہے۔ یہ بات کتاب کا مطالعہ کرنے سے ہی تعلق رکھتی ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ فقر و تصوف اور روحانیت کے موضوع پر اتنی دلچسپ اور پُراز معلومات کتاب آج تک نہیں لکھی گئی۔ یہ شرف بر صغیر پاک و ہند میں صرف عرفان کے مصنفؒ ہی کو حاصل ہوسکا ہے جس کے لیے آپ پوری اسلامی دنیا کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آپ نے اردو زبان میں پہلی بار اتنی عجیب و غریب اور معیاری کتاب لکھ کر نہ صرف اردو دان اصحاب ہی پر احسانِ عظیم کیا ہے بلکہ اردو لٹریچر میں ایک بیش قیمت اضافہ کرکے اردو ادب پر بھی بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس کے لیے آپ کا جس قدر شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔
موجودہ دور میں جہاں ایک طرف سائنسی ترقی کی بدولت وقت اور فاصلے پر قابو پایا جارہا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی نوبت آگئی ہے، آرام و آسائش اور عیش و عشرت کے سامانوں کی ہر طرف بہتات اور کثرت ہے وہاں دوسری طرف پوری انسانیت انتہائی روحانی کرب، ذہنی انتشار، نفسیاتی پیچیدگی، گہری قلبی بے اطمینانی اور ہمہ گیر بے یقینی کے مصائب میں گرفتار ہوکر درد والم، رنج و غم اور تکلیف سے بے طرح کراہ رہی ہے، مسلسل سسکیاں لے رہی ہے اور دم توڑ رہی ہے۔ مادی اور سائنسی ترقی انکے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکی بلکہ سائنس نے سیاسی طالع آزماؤں اور ذاتی مصلحت اندیشوں کے تابع ہوکر انسان کے آلام میں بے انتہا اضافہ کردیا ہے۔ پورا کرۂ ارض جہنم بنا ہوا ہے، ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے، ہرطرف موت کا بازار گرم ہے۔ آج سماجی تضادات، امارت و غربت کا فرق، عالمگیر ایٹمی اور خلائی جنگ کے خطرات، غذائی قحط، کمزور قوموں پر طاقتور قوموں کی یلغار، امراض، احتیاج، افلاس، زندگی سے مایوسی اور خودکشی کے اقدامات وغیرہ وغیرہ اپنے عروج پر ہیں۔ اس قدر عظیم عذاب اور عالمگیر ابتلا اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اقتصادیات ، نفسیات، عمرانیات اور جدید فلسفے کے ماہرین چاہے اس کی توجیہہ کچھ بھی کریں اور اس کے ظاہری اور فوری اسباب چاہے کچھ ہی بتائیں مگر اس کی اصلی وجہ مذہب و روحانیت، فقر و تصوف اور خود اپنے نفس کے عرفان سے انسانیت کی روگردانی اور غفلت ہے۔ آج کے دور میں مذہب اور روحانیت کی جس قدر شدید ضرورت ہے اس سے پہلے شاید ہی کبھی پڑی ہو۔ مذہب ہی ان عالمگیر دکھوں کا علاج ہے اور روحانیت ہی اس ابتلائے عظیم کا واحد مداوا ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب انسانیت انفرادی خودکشیوں کی بجائے اجتماعی خودکشی کی مرتکب ہوکر صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہوجائے گی۔
عرفان کا موضوع خالصتاً فقر و تصوف اور روحانیت ہے اور یہ اسلام کا ایک انتہائی ضروری پہلو ہے جس کو مسلمانوں نے تقریباً فراموش کردیا ہے۔ دین کے اس روحانی پہلو سے جس کو تصوف اور روحانیت کہا جاتا ہے مسلمانوں کی بے خبری اور غفلت کا یہ عالم ہے کہ آج اللہ تعالیٰ کے ذکر فکر، عبادت، تزکیۂ نفس اور صفائے قلب کے لیے مجاہدے اور ریاضت کے ایک ضابطے کے لیے بھی جو تصوف کے نام سے موسوم ہے ہمیں شرعی جواز اور سند پیش کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے اور فقر، طریقت اور معرفت جیسے مقدس علوم کو بھی خود مسلمانوں اور خصوصاً مسلمان علما کی دست بُردسے تحفظ کی حاجت پیش آگئی ہے۔ بلکہ اب تو خود اسلام، قرآن اور سنت کو بھی عامۃ المسلمین سے نہیں بلکہ بزعمِ خود اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار تصور کرنے والے ایسے علما کی زبان اور قلم سے خطرہ لاحق ہے جو مغربی مستشرقین اور عیسائی مبلغین کے پیش کردہ نظریات سے متاثر ہیں اور اسلامی عقائد اور روحانی اقدار کو مسخ کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے فروعات کے علاوہ اصولی مسائل تک کو مشکوک کرکے رکھ دیا ہے۔ کتاب اور سنت کی نئی حیثیت متعین کرنے کی جسارت کی ہے۔ سنت کا سرے سے ہی انکار کردیا ہے اور معجزات کی مادی تاویلیں شروع کردی ہیں۔
دینِ اسلام کے دو رُخ اور دوپہلو ہیں: ایک ظاہری اور دوسرا باطنی و روحانی۔ ظاہری رُخ اور پہلو شریعتِ ظاہرہ کے نام سے موسوم ہے جسے علماء اور فقہاء نے اپنایا ہے اور باطنی و روحانی رخ کو فقر و تصوف اور طریقت کا نام دیا گیا ہے جسے فقراء، صوفیا اور اولیا نے اختیار کیا ہے۔ علمِ تصوف اور فقر کا مقصد اسلام کے اسی دوسرے روحانی رُخ کو ثابت کرنا اور اس کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ کائنات کی ہر شے ظاہری اور باطنی پہلوؤں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر چیز کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ خود ہمارا وجود روح اور جسم میں منقسم ہے۔ جسم ظاہر ہے اور روح باطن ہے۔ اصل شأ روح ہے اسی پر جسم کی زندگی کا دارو مدار ہے ۔ تمام حقائق باطن میں مخفی اور پوشیدہ ہیں۔ اسی طرح اسلام میں شریعت گویا جسم ہے اور تصوف اور فقر اس کی روح ہے اور یہی اصلیت، حقیقت اور صداقت کا سرچشمہ ہے۔
رسولِ مقبول ﷺکی حیاتِ طیبہ کے یہی دونوں رُخ قرآن اور احادیث سے ثابت ہیں اور کوئی با شعور ذی عقل اور صحیح العقیدہ مسلمان اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی ظاہر و باطن کی جامع تھی اور آپ ﷺ ہی سے یہ دونوں طریقے دُنیا میں رائج ہوئے اور پھیلے ہیں۔ ظاہری بصارت کے ساتھ باطنی بصیرت بھی ضروری ہے اور شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کو اپنا نا بھی لازمی ہے۔ آفاق کے ساتھ انفس بھی ہے اور عالمِ شہادت کے پہلو بہ پہلو عالمِ غیب بھی موجود ہے اور اس کے لیے دل کی بینائی درکار ہے۔
دلِ بینا بھی کر خُدا سے طلب
آنکھ کا نور دِل کا نور نہیں
فقر و تصوف در حقیقت ر سول اکر م صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانی اور باطنی زندگی کی پیروی او رآپ ﷺ کے طفیل حسبِ استعداد با طنی کمالات تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے اور یہ وہ لائحہ عمل ہے جس کے ذریعے اسلام کے مذکورہ باطنی پہلو کو عملی طور پر ثابت کیا جاتا ہے۔ جب تک اسلام کا باطنی اور روحانی پہلو ثابت نہ ہو جائے اسلام مکمل طور پر سامنے نہیں آتا اور اس کی حقیقت پورے طور پر منکشف نہیں ہوتی او رجب تک رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی باطنی اور روحانی زندگی کو نہ اپنایا جائے مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان اور حقیقی معنوں میں مومن نہیں بن سکتا ۔
ہم جو کچھ ظاہری مادی حواس کے ذریعے محسوس اور مشاہدہ کرتے ہیں کائنات کا ماحصل یہی کچھ نہیں بلکہ کائنات ا سکے علاوہ اور بہت سی نادیدہ اشیاء اور غیر مرئی مخلوقات اور غیرمحسوس دنیاؤں سے بھری پڑی ہے۔ان کا مشاہدہ کرنے کے لیے باطنی حواس اور روحانی ادراک کی ضرورت ہے۔ ہر ظاہر کا ایک باطن ضرور ہے اور ہر وجود کے اندر ایک روح موجود ہے۔ یہاں تک کہ ہر ذرہ باطنی جوہری توانائی کا حامل ہے۔ اسی توانائی پر اس کے وجود و عدم، زندگی و موت ا ور نیستی و ہستی کا انحصار ہے۔ تصوف اور فقر کائنات کی ان نادیدہ اشیاء، غیر مرئی مخلوقات اور غیر محسوس دنیاؤں سے ہمیں روشناس کراتا ہے او رعالمِ غیب اور عالمِ روحانیت سے ہمارا رشتہ استوار کرتا ہے۔ مادی حواس اور عقل کی حدود جہاں ختم ہو جاتی ہیں وہیں سے راہنمائی کا فرض تصوف ادا کرتا ہے اور جہاں ظاہری شرعی علوم کے حاملین کی عقل دینی مسائل حل کرنے سے عاجز آتی ہے وہیں علمِ فقروتصوف کے حاملین قیادت اور پیشوائی کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔
ا ئمۂِ تصوف نے شرعی نصوص ہی سے تصوف کے مسائل اور اصول کا استنباط اور استخراج بالکل اسی طرح کیا ہے جس طرح ائمہ مجتہدین اور فقہا ء نے شرعی مسائل کا قرآن و سنت اور اجماع و قیاس کی روشنی میں استنباط اور استخراج کیا ہے۔ تصوف کا ماخذ معلوم کرنے کے لیے ہمیں قرآن و حدیث، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور صحابہ کرام کی زندگی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات میں اب ذرا بھی اشتباہ نہیں رہاکہ تصوف کا حقیقی ماخذ قرآن اور سنت ہیں اور فقر و تصوف باہم مترادف ہیں اور اسی کوشارعِ اسلام نے اپنے لیے باعثِ فخر قرار دیا تھا ۔
تاریخ شاہد ہے کہ جس وقت علومِ شریعت تالیف و تصنیف کا جامہ پہن کر کتابی شکل میں آنے لگے اور فقہاء نے فقہ و اصولِ فقہ اور کلام و تفسیر میں کتابوں کے ذخیرے مرتب کرنے شروع کیے تو صوفیاء نے بھی علمِ تصوف پر قلم اٹھایا۔ بعض نے ورع اور محاسبہ کے مضمون کو لیا اور اس میں کتاب تر تیب دی مثلاً قشیریؒ نے کتاب الرسالت لکھی اور سہر وردیؒ نے عوارف المعارف تحریر کی۔ پھر امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم لکھ کر ہر دو امور کو جمع کیا یعنی وَرع و محاسبہ پر تفصیلی بحث کی اور تصوف کے آداب واصطلاحات پر بھی کافی شافی گفتگو کی۔ اسی طرح علمِ تصوف جو صرف اس طریقِ عبادت یا ان احکام سے عبارت تھا جو سینہ بسینہ بزرگوں سے چلے آ رہے تھے اب کتابی شکل میں آ گیا اور آنے لگا اور اب تک آ رہا ہے اور یہ عمل صرف اسی علم تصوف کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ابتدا میں علومِ تفسیر، حدیث و فقہ بھی سینہ بسینہ منتقل ہوتے تھے۔ بعد میں ان میں تالیف و تصنیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر صوفیائے کرام اورفقرائے عظام کا مجاہدہ، مراقبہ ، ذکر فکر اور عزلت نشینی نے ان کو فقہاء پر فضیلت اور فوقیت بخشتی ہے کیو نکہ مراقبہ اور مجاہدہ وغیرہ کی برکت سے ان کے لیے حواس سے پردے اُٹھ جاتے ہیں اور وہ غیر مرئی عالم ان پر روشن ہو جاتے ہیں جن کی صاحبِ علمِ ظاہر ہوا بھی نہیں پا سکتا۔ صوفیا کو اپنے اعمال، عبادات اور مجاہدہ کے نتائج اور اثرات ہر لمحہ محسوس اور معلوم ہوتے رہتے ہیں اور ان کے اجرو ثواب کا اندازہ ان کو صحیح طور پر ہوتا رہتا ہے ۔
لفظ تصوف چاہے عجمی ہویا عربی اور اس کے لغوی معنی چاہے اصحابِ صفہ کے تاریخی پس منظر میں نظر آئیں یا صفائے قلب اور جامہ ہائے صوف سے متعین ہوتے ہوں مگر صدیوں سے اس کے اصطلاحی معنی صرف یہی متعین ہو کر رہ گئے ہیں کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ایسی زندگی بسر کرنا، ایسے مشاغل اختیارکرنا اور تصورات، تفکرات، ذکر فکر، مجاہدات اور عبادات کاایک ایسا متوازن لائحہ عمل اپنانا جس کے ذریعے تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح حاصل ہو۔ یاد رہے کہ نفس کے تزکیے اور تصفیے کے صرف مبہم اشارات ہی نہیں بلکہ واضح احکام سے قرآنِ مجید بھرا پڑا ہے۔
عرفان فقر و تصوف اور روحانیت کے موضوع پر اپنی نوعیت کی اوّلین اور بے مثل و بے بدل کتاب ہے۔ اس میں دین کے اس اہم پہلو کو علومِ جدید اور سائنسی معلومات کی روشنی میں جس خوبصورتی کے ساتھ واضح کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
عرفان میں ملحدوں، نیچریوں، دہریوں اور مادہ پرستوں کے تمام بے بنیاد اعتراضات، لغو خیالات اور باطل نظریات کے مدلّل اور مسکت جوابات دئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ خود ساختہ فریب کار پیروں، نام نہاد مکّار صوفیوں، جنت فروش جھوٹے مشائخ اور خدا کے نام کی تجارت کرنے والے نقلی درویشوں کی چالبازیوں اور تحزیب کاریوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جو تصوف کی ابجدتک سے بھی واقف نہیں۔ جو نفس، قلب ، روح، لطائف اور الہام و القا کے نام تک سے ناآشنا ہیں اور جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ شریعت، طریقت، معرفت، روشن ضمیری اور باطنی زندگی کس بلا کا نام ہے مگر اس کے باوجود وہ ہزاروں بندگانِ خدا کی بخشش اور نجات کے اجارہ دار بنے بیٹھے ہیں اور جو محض اپنے ذاتی توہمات، باطل خیالات اور بے بنیاد تصورات کو روحانیت اور فقرو تصوف کا معیار سمجھے بیٹھے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے فقراء اور صوفیا کو بد نام کر رکھا ہے۔ حضرت فقیر صاحب ؒ نے ان لوگوں کے اعمال اور کردار پر ایک بالغ نظر نقاد کی حیثیت سے بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔ آپؒ نے ان ظاہر بین اور روحانیت سے نا آشنا نام نہاد مسلمان علما کے غلط اور یک طرفہ نظریات پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے جو اسلام کو محض سیاسی نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے باطنی اور روحانی حقائق کا انکار کرتے ہیں اور تصوف کو عجمی تصورات اور عجمی عقائد و نظریات کا مجموعہ قرار دے کر اسے بدعت کہنے اور خارج از اسلام ثابت کرنے کی بے سود سعی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ حدیث رَجَعْنَا مِنَ الْجِہَادِ الْاَ صْغَرِ اِلٰی جِہَادِ الْاَ کْبَر (ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف رجوع کرتے ہیں) کے مقصد اور مفہوم کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں اس حدیث میں جہادِ اکبر سے مراد جہاد بالنفس ہے جو ظاہری جہاد سے افضل ہے۔ حضرت قبلہ فقیر صاحبؒ نے افضل جہاد یعنی جہاد بالنفس کی اہمیت پر زور دیا ہے جو اسلام کا ایک ضروری پہلو ہے لہٰذا عرفان کواگر اس حدیث کی تفسیر کہہ دیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔
لیکن عرفان کو جس خصوصیت نے نادرِ روزگار روحانی شاہکار کی حیثیت اور امتیاز بخشا ہے وہ اس میں مندرج دو نایاب، مخفی اور سربستہ علوم کی تشریح اور ان کے عمل کی مکمل وضاحت اور ان کے فلسفے کا اوّلین انکشاف ہے۔ ان میں سے ایک علم تصور اسمِ ذات ہے اور دو م علمِ دعوت القبور ہے۔ عرفان میں انہی دو علوم کو خصوصیت کے ساتھ اور نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے اوریہی دو علوم اس کتاب کا اصل موضوع ہیں۔ ان میں اوّل الذکر یعنی ’’تصور‘‘ انسانی خیالات اورپوشیدہ روحانی قوتوں کو ایک نقطے (اسم اللہ) پر مرکوز اور مجتمع کر کے اِرادی قوت اور روحانی طاقت حاصل کرنے کا نام ہے اور موخرالذکر یعنی ’’دعوت‘‘ ارواح کی حاضرات کا عجیب و غریب اور حیرت انگیز علم ہے۔ آج ایک دُنیا ایسے علوم کے پیچھے سرگرداں اور پریشاں ہے جن کے ذریعے ارواح کی حاضرات ممکن ہواور انسان ٹھوس روحانی قوتوں کامالک بن سکے۔ ہزاروں اشخاص نے ایسے علوم کے پیچھے اپنی عمریں گنوا دیں ہیں لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے۔ عرفان کے مصنفؒ نے ان محیرالعقول علوم اور اس قیمتی اور سربستہ راز کو تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر کے کمال فیاضی اور بڑی دریا دلی سے کام لیا ہے۔ علمِ تصور شاید بعض اصحاب کے لیے نئی اور غیر معروف شئے ہو اور یہ اصطلاح اس سے قبل ان کی نظروں سے نہ گزری ہو لیکن جہاں تک اس علم کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے یہ زمانۂ قدیم سے مختلف صورتوں اور شکلوں میں رائج رہا ہے اور مختلف ناموں اور اصطلاحات سے یاد کیا گیا ہے۔ کسی چمکدار چیز کو سامنے رکھ کر اور اس پر نظر جما کر اور توجہ مرکوز کر کے روحانی قوت حاصل کرنے کا طریقہ بہت پرانا ہے۔ چنانچہ زمانۂ قدیم سے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے بعض لوگ بلّور کی شفاف اور چمکدار قلم سامنے رکھ کر اس پر توجہ مرکوز کرتے تھے۔ بعض چراغ کی لَو پر نظر جماتے تھے اور بعض آئینوں اورشیشے کے گولوں سے یہ کام لیتے تھے۔ بعض چاند اور سورج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی مشق کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے نفس اور روح میں جِلا پیدا ہوتی ہے۔ اس کو بلّور بینی، شمع بینی اور آئینہ بینی وغیرہ مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس کی آخری اور ترقی یافتہ صورت مسمریزم اور ہپنا ٹزم کی شکل میں آج بھی دنیا میں اور خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ ڈاکٹر مسمر اور مسٹرکیرو وغیرہ نے اس قسم کی کچھ مشقیں کر کے اور چند مادی اور سفلی کمالات دکھا کر عالمگیر شہرت پائی ہے۔مسمریزم اورہپناٹزم وغیرہ میں صرف فرضی نقاط پر نظر جمانے کی مشق کر کے یہ مقصد حاصل کیاجاتاہے۔ عرفان میں مذکور تصور اگرچہ بادی النظر میں اصولی طور پر مسمریزم اور نظر کے ارتکاز کے دوسرے طریقہ ہائے تصور سے کچھ مماثلت رکھتا ہے مگر دراصل وہ اصولی طور پر بھی اور مقصدیت اور افادیت کے لحاظ سے بھی ان سب سے بہت کچھ مختلف ہے۔ اس میں نہ فرضی نقاط پر مشق کی جاتی ہے اور نہ شفاف اجسام پر بلکہ صرف اسم اللہ ذات کا تصور کیاجاتاہے۔ اس طریقے میں ابتداً کبھی اسم اللہ لکھا ہوا سامنے رکھ کر اور کبھی اس کے بغیر صرف تصور اور خیال میں اسے تحریر، مرقوم اور قائم کیا جاتاہے اور پھر اُسے دل و دماغ اور دیگر مطلوبہ اعضا میں تصور کے ذریعے تحریر اور منتقل کیا جاتا ہے اور چونکہ اسم کامسمّٰے کے ساتھ گہرا تعلق اور رابطہ ہوتا ہے اس لیے اسم کے انتقال کے ساتھ ساتھ مسمّٰے کی ذاتی اور صفاتی تجلیات اورانوار بھی منتقل ہوتے رہتے ہیں جس سے اعضا مذکور میں روحانی زندگی، روشنی اور احساس و قوت کا ظہور ہوتاہے۔ یہ اصطلاح گو حضرت فقیر صاحبؒ نے سلطان العارفین سلطان باہوؒ کی کتابوں سے اخذ کی ہے اور انہی کے فیض اور مہربانی اور باطنی توجہ سے آپ کو اس میں کمال حاصل ہوا ہے مگر اس کو پہلی بار شرح و بسط کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سہرا آپ کے سر ہے۔ تصور اسم اللہ ذات دراصل ذِکر اللہ کا ایک افضل ترین، مکمل ترین اوربہتر طریقہ ہے ۔
علم دعوت جیسا کہ مذکور ہوا ارواح کی حاضرات اور ان سے ہم کلام اور ملاقی ہونے کاعلم ہے۔ یہ اصطلاح بھی حضرت سلطان باہوؒ کی وضع کردہ ہے اور اُنہی کی کتابوں سے ماخوذ ہے۔ حضرت سلطان العارفینؒ کے تمام فقر کا دارو مدار انہی دو علوم پر ہے۔ یہی دو علوم فقر کی انتہائی بلندیوں اور رفعتوں تک پہنچنے اور اعلیٰ ترین روحانی مراتب و درجات کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ مصنفؒ نے ان ہر دو علوم کا انکشاف اوروضاحت کر کے اور ان کی فلاسفی کھول کر دنیا کے سامنے پیش کر کے تصوف اور روحانیت کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔
یاد رہے کہ ابتدا میں علومِ فقہ اور علومِ تصوف ہر دو سینہ بسینہ منتقل ہوتے تھے۔ اہلِ سلف ان کی ترتیب اور تدوین سے بے نیاز تھے۔ جب سلف کا زمانہ گزر گیا اور صدرِ اول ختم ہوا اور تمام علوم صناعت کے درجے میں آئے توفقہاء مجتہدین نے فقہ میں، صوفیا نے تصوف میں ضروری ضروری قواعد اور قوانین ضبط کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ صوفیاء کرام نے کچھ خاص آداب و اصطلاحات وضع کیں جو انہیں میں رائج اور مشہورہوئیں۔ مروّجہ اصناعِ لُغویہ چونکہ ان کے معانی و مطالب کی تعبیر سے عاجزاور قاصر تھیں اس لیے صوفیاء نے چند اور الفاظ وضع کر لیے جو اُن کے مطالب کو سہل طریقہ سے ادا کر سکتے ہیں اور یوں ان اصطلاحات نے ایک علیحدہ مستقل علم کی حیثیت اختیار کرلی۔ حضرت سلطان العارفینؒ اکابرصوفیا میں سے ہیں۔ علمِ تصور اسم اللہ ذات اور علمِ د عوت القبور مذکور سینہ بسینہ منتقل ہونے والے روحانی علوم میں سے ہیں۔ حضرت سلطان العارفینؒ نے ان کی تدوین و ترتیب کی ضرورت محسوس کی اور ان کو الفاظ و اصطلاحات کا جامہ پہنا کر کتابی شکل دی مگر آپ کی تمام کتابیں چونکہ فارسی زبان میں تھیں اور نایاب تھیں اس لیے یہ ہر دو علوم صدیوں تک پس منظر میں رہے اور ایک خزانے کی طرح پہلوی زبان کی کتابوں کے ویرانوں میں مدفون رہے اور اگر کسی نے ان کی کوئی ایک آدھ کتاب مطالعہ بھی کی تو وہ ان علوم کو سمجھ نہیں سکا اور نہ ہی ان سے استفادہ کر سکاکیونکہ اول تو حضرت سلطان العارفینؒ نے کسی ایک کتاب تک ان علوم کو محدود نہیں رکھا تھا بلکہ اپنی تقریباً سو سے زائد فارسی تصانیف میں ان کو پھیلا دیا تھا۔ دوم آپؒ نے ان علوم کا صرف اجمالی تذکرہ کیا تھا ان کی مکمل تفصیل اور پوری تشریح کی حاجت تھی۔ آپؒ کی تمام کتابوں کے نہایت عمیق مطالعے، بڑی چھان بین، انتہائی کھوج اور وسیع و طویل ریسرچ و تحقیق کی ضرورت تھی۔ اس عظیم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا کسی فردِ واحد کے بس کی بات نہ تھی۔ بلکہ یہ علما اور صوفیا کے ایک بہت بڑے ادارے اور اکیڈمی کا کام تھا اور اس کے لیے وسیع تجربات اور روحانی بصیرت اور عمل درکار تھا۔ لیکن بایں ہمہ اتنا مشکل اور عظیم کام حضرت فقیر صاحبؒ نے اپنی پوری عمر صرف کر کے تن تنہا باحسن و جو ہ تکمیل تک پہنچا کر کمال کر دیا۔ حضرت فقیر صاحب ؒ سب سے پہلے صاحبِ بصیرت بزرگ تھے جنہوں نے پہلے خود ان علوم کو سمجھا، ان پر انتہا تک عمل کیا اور ان کو مکمل طور پر حاصل کیا اور پھر پہلی بار عرفان کی صورت میں اردو زبان کے ذریعے اسے دنیا کے سامنے پوری طرح کھول کر پیش کر کے یارانِ نکتہ دان کو صلائے عام دے دی۔
اس کے علاوہ یورپ کے علم الارواح (سپرچولزم) پر بھی پہلی بار آپؒ نے قلم اٹھا کر اس کی حقیقت واضح کی ہے اور اس پرنہایت مدلل اور بصیرت افروزبحث کر کے اس کی پوری تاریخ قلم بند کی ہے۔ اس سے قبل کسی نے اردو زبان میں اس دلچسپ موضوع کو نہیں چھیڑا اور نہ ارواح اور علمِ روحانیت کے متعلق صحیح معلومات کسی نے اس طرح یکجا کی ہیں۔
عرفان کے متعلق بجا طور پر یہ کہاجا سکتا ہے کہ اردو نثر میں فقر و تصوف اور روحانیت کے موضوع پر یہ پہلی طبع زاد، منفرد اور عجیب و غریب کتاب ہے۔ فقر و تصوف اور روحانیت کے موضوع کو جس انوکھے، مؤثر اور دلکش انداز میں عرفان کے اندرپیش کیا گیا ہے اس کی نظیر دنیاکی کسی زبان کی کسی کتاب میں نہیں ملتی۔ عرفان اس موضوع پر مکمل اور جامع کتاب ہے۔ جس کے بعد کسی اور کتاب کے مطالعے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ عرفان معرفت کی کائنات، فقر کاخزینہ، تصوف کا بحرِبیکراں، روحانیت کا جامع العلوم (انسائیکلوپیڈیا) اور طریقت کا گو ہرِ نایاب ہے۔ جس نے بھی اس کو خلوص اور توجہ کے ساتھ پڑھا ہے اس نے اپنا دامن گو ہرِ مقصود سے بھرلیا ہے۔ عرفان کے ہر لفظ میں مصنف کی روح کار فرما اور جلوہ گر ہے اور اس کا ہرحرف فی نفسہٖ کرامتوں کا حامل ہے۔ اس کے مندرجات میں بلا کی کشش، اس کی عبارتوں میں غضب کی جاذبیت اور اس کے مضامین اور موضوعات میں بے انتہا تاثر اور نُدرت موجود ہے ۔
عرفان پہلی مرتبہ ۱۹۴۲ ء میں شائع ہوئی تھی جو بے حد مقبول ہوئی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ نشر و اشاعت اور تشہیر و پراپیگنڈے کے فقدان کے باوجود درجنوں بار اس کی اشاعت ہو رہی ہے جو شخص اسے صرف ایک مرتبہ پڑھتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کا گرویدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ عرفان حضرت فقیر صاحبؒ کی زندگی کاعظیم ترین کارنامہ اور وقت کا بے مثل شاہکار ہے۔ عرفان دوجلدوں پرمشتمل ہے۔ پہلے حصے میں تصور اسم اللہ ذات کی افادیت ، تشریح اور اس کی پوری فلاسفی اور مکمل عمل اور پوراطریقہ درج ہے۔ دوسرے حصے میں دعوات، موکلات، جنات اور ارواح کی حاضرات کا مفصّل بیان ہے ۔
عرفان کے مطالعے سے یہ بات صاف طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ مصنف ؒ نے جس قدر باتیں لکھی ہیں وہ صرف زبانی قیل وقال تک محدود نہیں بلکہ مصنفؒ نے اپنے عملی تجربات اور عینی مشاہدات کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ مصنف ؒ نے جو کچھ دیکھا ہے وہی کچھ لکھا ہے اور جو کچھ آ پکے ذاتی تجربات میں آیا ہے وہی کچھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں