پروین شاکر

سخن سرا
اردو اور پنجابی ادب کی شاہکار نظمیں، غزلیں اور نثر
مینو چھوڑیں مواد پر جائیں
تلاش کریں:
زمرہ جات کے محفوظات: پروین شاکر
بچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلہمسفر، ہنر، ور، گر، گزر، بھنور، در، زر، شجر
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 26
تمام لوگ اکیلے، کوئے رہبر ہی نہ تھا
بچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں
وہ رات تھی کہ کہیں چاند کا گزر ہی نہ تھا
تمھارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی مگر
جہاں پہ دھوپ کھڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا
سمیٹ لیتی شکستہ گلاب کی خوشبو
ہوا کے ہاتھ میں ایسا کوئی ہنر ہی نہ تھا
میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی
کہ ترے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا
کہاں سے آتی کرن زندگی کے زنداں میں
وہ گھر ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا
بدن میں پھیل گیا شرخ بیل کی مانند
وہ زخم سوکھتا کیا، جس کا چارہ گر ہی نہ تھا
ہوا کے لائے ہوئے بیج پھر ہوا میں گئے
کھلے تھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا
قدم تو ریت پہ ساحل نے بھی رکھنے دیا
بدن کو جکڑے ہوئے صرف اک بھنور ہی نہ تھا
پروین شاکر
Rate this:
      7 Votes
تبصرہ چھوڑیں
سرطان مرا ستارا کب تھا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلہمارا، گوارا، گزارا، اشارا، تارا، سنوارا، سارا، ستارا
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 25
یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا
سرطان مرا ستارا کب تھا
لازم تھا گزرنا زندگی سے
بِن زہر پیئے گزارا کب تھا
کچھ پل مگر اور دیکھ سکتے
اشکوں کو مگر گوارا کب تھا
ہم خود بھی جُدائی کا سبب تھے
اُس کا ہی قصور سارا کب تھا
اب اور کے ساتھ ہے تو کیا دکھ
پہلے بھی وہ ہمارا کب تھا
اِک نام پہ زخم کھل اٹھے تھے
قاتل کی طرف اشارا کب تھا
آئے ہو تو روشنی ہوئی ہے
اس بام پہ کوئی تارا کب تھا
دیکھا ہوا گھر تھا پر کسی نے
دُلہن کی طرح سنوارا کب تھا
پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
تبصرہ چھوڑیں
پلک جھپکتے ، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزللکیر، اسیر، تیر، خمیر، سفیر، شریر
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 24
وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
پلک جھپکتے ، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اسے تو دوست ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ بھی تھے
خطا نہ ہوتا کسی طور ، تیر ایسا تھا
پیام دینے کا موسم نہ ہم نوا پاکر
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا
کسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میں
مجھے وہ توڑ ہی لیتا، شریر ایسا تھا
ہنسی کے رنگ بہت مہربان تھے لیکن
اُداسیوں سے ہی نبھتی ، خمیر ایسا تھا
ترا کمال کہ پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں
غزالِ شوق کہاں کا اسیر ایسا تھا!
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلکمال، زوال، سوال
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 23
اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا
کہاں جاؤ گےمجھے چھوڑ کے، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گئی
وہ جواب مجھ کو دے نہ سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو پر کمال تھا
پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
ابھی تک ایک تبصرہ
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلچناب، کتاب، گلاب، آفتاب، انتخاب، اِنتساب، جواب، خواب
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 22
دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا
قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہُوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ،لُہو کو چناب کر دے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا، اورلا جواب کر دے گا
اَنا پرست ہے اِتنا کہ بات سےپہلے
وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا
سکوتِ شہرِ سخن میں وہ پُھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا
اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی ا پنی
تُمھاری یاد کے نام اِنتساب کر دے گا
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
مسئلہ پُھول کا ہے ، پُھول کدھر جائے گا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلکدھر، گُزر، ٹھہر، اُتر، سر
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 21
وہ تو خوشبو ہے ، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پُھول کا ہے ، پُھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے ، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گُزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اُس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے ،اُتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جُرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروین شاکر
Rate this:
      6 Votes
تبصرہ چھوڑیں
اے چشمِ انتظار ! ترا زخم سِل چُکا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلمِل، چِھل، کھِل، گِل، سِل
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 20
جب سوزنِ ہوا میں پرویا ہو تارِ خوں
اے چشمِ انتظار ! ترا زخم سِل چُکا
آنکھوں پہ آج چاند نے افشاں چُنی تو کیا
تارہ سا ایک خواب تو مٹی میں مِل چُکا
آئے ہوائے زرد کہ طوفان برف کا
مٹّی کی گود کر کے ہری ، پُھول کھِل چُکا
بارش نے ریشے ریشے میں رَس بھر دیا ہے اور
خوش ہے کہ یوں حسابِ کرم ہائے گِل چُکا
چُھو کر ہی آئیں منزلِ اُمید ہاتھ سے
کیا راستے سے لَوٹنا ، جب پاؤں چِھل چُکا
پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
تبصرہ چھوڑیں
سِواہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلنارسائی، وفائی، آزمائی، بُرائی، بڑائی، بھائی، جدائی، رہنمائی، ردائی
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 19
شدید دُکھ تھا اگرچہ تری جُدائی کا
سِواہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا
تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہو گا
ہمیں بھی شوق تھا کُچھ بخت آزمائی کا
جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا
اُسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا
سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے
جنھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنمائی کا
ردا چھٹی مرے سر سے،مگر میں کیا کہتی
کٹا ہُوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا
ملے تو ایسے،رگِ جاں کو جیسے چُھو آئے
جُدا ہُوئے تو وہی کرب نارسائی کا
کوئی سوال جو پُوچھے ،تو کیا کہوں اُس سے
بچھڑنے والے!سبب تو بتا جدائی کا
میں سچ کو سچ ہی کہوں گی ،مجھے خبر ہی نہ تھی
تجھے بھی علم نہ تھا میری اس بُرائی کا
نہ دے سکا مجھے تعبیر،خواب تو بخشے
میں احترام کروں گی تری بڑائی کا
پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
تبصرہ چھوڑیں
میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلنظر، گھر، بھر، دوپہر، رہگزر
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 18
آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا
میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا
رات کی خموشی تو پھر بھی مہرباں نکلی
کِتنا جان لیوا ہے دوپہر کا سناٹا
صُبح میرے جُوڑے کی ہر کلی سلامت نکلی
گونجتا تھا خوشبو میں رات بھر کا سناٹا
اپنی دوست کو لے کر تم وہاں گئے ہو گے
مجھ کو پوچھتا ہو گا رہگزر کا سناٹا
خط کو چُوم کر اُس نے آنکھ سے لگایا تھا
کُل جواب تھا گویا لمحہ بھر کا سناٹا
تُونے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد!
کُچھ تو کہہ رہا ہو گا اُس نظر کا سناٹا
پروین شاکر
Rate this:
      3 Votes
تبصرہ چھوڑیں
مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلمحبت، وحشت، حُجت، رخصت، زحمت
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 17
دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا
مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا
اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو
کچھ تو لازم ہُوا وحشت کرنا
جُرم کس کا تھا سزا کِس کو مِلی
کیا گئی بات پہ حُجت کرنا
کون چاہے گا تمھیں میری طرح
اب کِسی سے نہ محبت کرنا
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مِل جائے تو زحمت کرنا
پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
تبصرہ چھوڑیں
نیند کی جھیل پہ اِک خواب پرانا اُترا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزللکھا، کیا، گہرا، پرانا، اُترا، دریا، صحرا
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 16
پانیوں پانیوں جب چاند کا ہالہ اُترا
نیند کی جھیل پہ اِک خواب پرانا اُترا
آزمائش میں کہاں عشق بھی پُورا اُترا
حسن کے آگے تو تقدیر کا لکھا اُترا
دُھوپ ڈھلنے لگی،دیوار سے سایا اُترا
سطح ہموار ہُوئی،پیار کا دریا اُترا
یاد سے نام مٹا،ذہن سے چہرہ اُترا
چند لمحوں میں نظر سے تری کیا کیا اُترا
آج کی شب میں پریشاں ہوں تو یوں لگتا ہے
آج مہتاب کا چہرہ بھی ہے اُترا اُترا
میری وحشت رمِ آہو سے کہیں بڑھ کر تھی
جب مری ذات میں تنہائی کا صحرا اُترا
اِک شبِ غم کے اندھیرے پہ نہیں ہے موقوف
تونے جو زخم لگایا ہے وہ گہرا اُترا
پروین شاکر
Rate this:
      3 Votes
تبصرہ چھوڑیں
میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزللیے، کھولیے، گھولیے، سنپولیے
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 15
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کِس سے بولیے
میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے
بس یہ ہُوا کہ اُس نے تکلّف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
پلکوں پہ کچی نیندوں کا رَس پھیلتا ہو جب
ایسے میں آنکھ دُھوپ کے رُخ کیسے کھولیے
تیری برہنہ پائی کے دُکھ بانٹتے ہُوئے
ہم نے خُود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے
میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی
سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے!
’’خوشبو کہیں نہ جائے‘‘ یہ اصرار ہے بہت
اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زُلف کھولیے
تصویر جب نئی ہے ، نیا کینوس بھی ہے
پھر طشتری میں رنگ پُرانے نہ گھولیے
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلچھنکائے، پلائے، آئے، بُلائے، جائے، دکھائے
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 14
اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
مٹّی کی مہک سانس کی خوشبو میں اُتر کر
بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بُلائے
دریا کی طرح موج میں آئی ہُوئی برکھا
زردائی ہُوئی رُت کو ہرا رنگ پلائے
بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے
اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے
شاخیں ہیں تو وہ رقص میں ، پتّے ہیں تو رم میں
پانی کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جائے
ہر لہر کے پاؤں سے لپٹنے لگے گھنگھرو
بارش کی ہنسی تال پہ پا زیب جو چھنکائے
انگور کی بیلوں پہ اُتر آئے ستارے
رکتی ہوئی بارش نے بھی کیا رنگ دکھائے
پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
تبصرہ چھوڑیں
ذرا سی دُھوپ نکل آئی اور ماند ہُوئی
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلہوئی، ہُوئی
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 13
میں جگنوؤں کی طرح رات بھر کا چاند ہُوئی
ذرا سی دُھوپ نکل آئی اور ماند ہُوئی
حدودِ رقص سے آگے نکل گئی تھی کبھی
سو مورنی کی طرح عمر بھر کو راند ہوئی
مہِ تمام ! ابھی چھت پہ کون آیا تھا
کہ جس کے آگے تری روشنی بھی ماند ہوئی
ٹکے کا چارہ نہ گیّا کو زندگی میں دیا
جو مر گئی ہے تو سونے کے مول ناند ہوئی
نہ پُوچھ ، کیوں اُسے جنگل کی رات اچھی لگی
وہ لڑکی تھی جو کہ کبھی تیرے گھر کا چاند ہوئی
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
اچھی ندیا! آج ذرا آہستہ بہہ
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلکہہ، بہہ، راہ، سہہ
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 12
ہم سے جو کُچھ کہنا ہے وہ بعد میں کہہ
اچھی ندیا! آج ذرا آہستہ بہہ
ہَوا! مرے جُوڑے میں پُھول سجاتی جا
دیکھ رہی ہوں اپنے من موہن کی راہ
اُس کی خفگی جاڑے کی نرماتی دُھوپ
پاروسکھی! اس حّدت کو ہنس کھیل کے سہہ
آج تو سچ مچ کے شہزادے آئیں گے
نندیا پیاری! آج نہ کُچھ پریوں کی کہہ
دوپہروں میں جب گہرا سناٹا ہو
شاخوں شاخوں موجِ ہَوا کی صُورت بہہ
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
کشش بچھانے لگا ہے ہر اگلا سیارہ
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلہوا، لگا، گا، ٹھہرا، تھا، خلا، سیارہ
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 11
زمیں کے حلقے سے نکلا تو چاند پچھتایا
کشش بچھانے لگا ہے ہر اگلا سیارہ
میں پانیوں کی مسافر ، وہ آسمانوں کا
کہاں سے ربط بڑھائیں کہ درمیاں ہے خلا
بچھڑتے وقت دلوں کو اگرچہ دُکھ تو ہُوا
کُھلی فضا میں مگر سانس لینا اچھا ہو گا
جو صرف رُوح تھا ، فرقت میں بھی ، وصال میں بھی
اُسے بدن کے اثر سے رہا تو ہونا تھا
گئے دنوں جو تھا ذہن و جسم کی لذّت
وہی وصال طبیعت کا جبر بننے لگا
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
برس سکے تو برس جائے اس گھڑی ، ورنہ
بکھیر ڈالے گی بادل کے سارے خواب ، ہوا
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
سیلاب کی سماعتیں ، آندھی کو رہن تھیں
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلہوئیں، کہیں، گئیں!، تھیں، دیں، رہیں، زمیں
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 10
کیا ڈوبتے ہَوؤں کی صدائیں سمیٹتیں
سیلاب کی سماعتیں ، آندھی کو رہن تھیں
کائی کی طرح لاشیں چٹانوں پہ اُگ گئیں
زر خیزیوں سے اپنی پریشان تھی زمیں
پیڑوں کا ظرف وہ کہ جڑیں تک نکال دیں
پانی کی پیاس ایسی کہ بجھتی نہ تھی کہیں
بچوں کے خواب پی کے بھی حلقوم خشک تھے
دریا کی تشنگی میں بڑی وحشتیں رہیں
بارش کے ہاتھ چُنتے رہے بستیوں سے خواب
نیندیں ہوائے تُند کی موجوں کو بھا گئیں
ملبے سے ہر مکان کے ، نکلے ہوئے تھے ہاتھ
آندھی کو تھامنے کی بڑی کوششیں ہوئیں
تعویذ والے ہاتھ مگر مچھ کے پاس تھے
تہہ سے ، دُعا لکھی ہُوئی پیشانیاں تھیں
موجوں کے ساتھ سانپ بھی پھنکارنے لگے
جنگل کی وحشتیں بھی سمندر سے مل گئیں
بس رقص پانیوں کا تھا وحشت کے راگ پر
دریا کو سب دھنیں تو ہَواؤں نے لکھ کے دیں
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلہُوئیں، لگیں، کہیں، گئیں!، ٹکیں، زمیں
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 9
ذرے سرکش ہُوئے ، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
آ کے دیوار پہ بیٹھی تھیں کہ پھر اُڑ نہ سکیں
تتلیاں بانجھ مناظر میں نظر بند ہُوئیں
پیڑ کی سانسوں میں چڑیا کا بدن کھنچتا گیا
نبض رُکتی گئی ، شاخوں کی رگیں کھلتی گئیں
ٹوٹ کر اپنی اُڑانوں سے ، پرندے آئے
سانپ کی آنکھیں درختوں پہ بھی اب اُگنے لگیں
شاخ در شاخ اُلجھتی ہیں رگیں پَیڑوں کی
سانپ سے دوستی ، جنگل میں نہ بھٹکائے کہیں
گود لے لی ہے چٹانوں نے سمندر سے نمی
جھوٹے پُھولوں کے درختوں پہ بھی خوشبوئیں ٹکیں
پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
آؤ کوئی زخم گر تلاشیں
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلقاشیں، لاشیں، تلاشیں، تاشیں، تراشیں
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 8
مرجھانے لگی ہیں پھر خراشیں
آؤ کوئی زخم گر تلاشیں
ملبوس برہنہ کھیتوں کے
پیراہنِ اَبر سے تراشیں
بادل ہیں کہ نیلی طشتری میں
رقصاں ہیں سفید یوں کی قاشیں
پیڑوں کی قبا ہی تھی قیامت
اوراُس پہ بہار کی تراشیں
تاروں کی تو چال اور ہی تھی
جیتا کیے ہم اگرچہ تاشیں
اہرام ہے یا کہ شہر میرا
انسان ہیں یا حنوط لاشیں
سڑکوں پہ رواں ، یہ آدمی ہیں
یا نیند میں چل رہی ہیں لاشیں
پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
ہَوا ہوں ، اپنی گرہیں آپ کھولوں
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزللوں، کھولوں، گھولوں، بولوں، رولوں، سمولوں، سولوں
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 7
نہ قرضِ ناخنِ گُل ، نام کو لُوں
ہَوا ہوں ، اپنی گرہیں آپ کھولوں
تری خوشبو بچھڑ جانے سے پہلے
میں اپنے آپ میں تجھ کو سمولوں
کُھلی آنکھوں سے سپنے قرض لے کر
تری تنہائیوں میں رنگ گھولوں
ملے گی آنسوؤں سے تن کو ٹھنڈک
بڑی لُو ہے ، ذرا آنچل بھگو لوں
وہ اب میری ضرورت بن گیا ہے
کہاں ممکن رہا ، اُس سے نہ بولوں
میں چڑیا کی طرح ، دن بھر تھکی ہوں
ہُوئی ہے شام تو کُچھ دیر سولوں
چلوں مقتل سے اپنے شام ، لیکن
میں پہلے اپنے پیاروں کو تو رولوں
مرا نوحہ کناں کوئی نہیں ہے
سو اپنے سوگ میں خُود بال کھولوں
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
کس مان پہ تجھ کو آزماؤں
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزللگاؤں، لاؤں، آؤں، آزماؤں، بڑھاؤں، جاؤں، دکھاؤں
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 6
اب کیا ہے جو تیرے پاس آؤں
کس مان پہ تجھ کو آزماؤں
زخم اب کے تو سامنے سے کھاؤں
دشمن سے نہ دوستی بڑھاؤں
تتلی کی طرح جو اُڑ چکا ہے
وہ لمحہ کہاں سے کھوج لاؤں
گروی ہیں سماعتیں بھی اب تو
کیا تیری صدا کو منہ دکھاؤں
اے میرے لیے نہ دُکھنے والے!
کیسے ترے دُکھ سمیٹ لاؤں
یوں تیری شناخت مجھ میں اُترے
پہچان تک اپنی بُھول جاؤں
تیرے ہی بھلے کو چاہتی ہوں
میں تجھ کو کبھی نہ یاد آؤں
قامت سے بڑی صلیب پاکر
دُکھ کو کیوں کر گلے لگاؤں
دیوار سے بیل بڑھ گئی ہے
پھر کیوں نہ ہَوا میں پھیل جاؤں
پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
تمام رات میں یاقوت چُن رہی تھی مگر
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلمگر، کھنڈر، کر، اُتر، سفر، صَر
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 5
چراغِ ماہ لیے تجھ کو ڈھونڈتی گھر گھر
تمام رات میں یاقوت چُن رہی تھی مگر
یہ کیا کہ تری خوشبو کا صرف ذکر سُنوں
توعکسِ موجہ ءِ گُل ہے تو جسم وجاں میں اُتر
ذرا یہ حبس کٹے،کُھل کے سانس لے پاؤں
کوئی ہوا تو رواں ہو، صبا ہو یا صَر صَر
گئے دنوں کے تعاقب میں تتلیوں کی طرح
ترے خیال کے ہمراہ کر رہی ہوں سفر
ٹھہر گئے ہیں قدم،راستے بھی ختم ہُوئے
مسافتیں رگ وپے میں اُتر رہی ہیں مگر
میں سوچتی تھی،ترا قرب کچھ سکوں دے گا
اُداسیاں ہیں کہ کُچھ اور بڑھ گئیں مِل کر
ترا خیال،کہ ہے تارِ عنکبوت تمام
مرا وجود،کہ جیسے کوئی پُرانا کھنڈر
پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
تبصرہ چھوڑیں
آئی ہے عجب گھڑی وفا پر
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلور، کھوکر، گھر، پر، تھوہر، سمندر، سر
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 4
مٹّی کی گواہی خوں سے بڑھ کر
آئی ہے عجب گھڑی وفا پر
کس خاک کی کوکھ سے جنم لیں
آئے ہیں جو اپنے بیج کھوکر
کانٹا بھی یہاں کا برگِ تر ہے
باہر کی کلی ببول ، تھوہر
قلموں سے لگے ہُوئے شجر ہم
پل بھر میں ہوں کِس طرح ثمر ور
کچھ پیڑ زمین چاہتے ہیں
بیلیں تو نہیں اُگیں ہوا پر
اس نسل کا ذہن کٹ رہا ہے
اگلوں نے کٹائے تھے فقط سر
پتّھر بھی بہت حسیں ہیں لیکن
مٹّی سے ہی بن سکیں گے کچھ گھر
ہر عشق گواہ ڈھونڈتا ہے
جیسے کہ نہیں یقیں خود پر
بس اُن کے لیے نہیں جزیرہ
پَیر آئے جو کھولتے سمندر
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
فرد فرد
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلفہمی، ہیں، ہے، نہیں، کیا، گھاس، گئے، ایسا
متفرق اشعار
خُوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
موجِ ہَوا کے ہاتھ میں اس کا سُراغ ہے
ہمیں خبر ہے ،ہَوا کا مزاج رکھتے ہو
مگر یہ کیا ، کہ ذرا دیر کو رُکے بھی نہیں
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے اُلجھ جاتی ہیں
میں جب بھی چاہوں ، اُسے چھُو کے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا
ہمارے عہد میں شاعر کے نرخ کیوں نہ بڑھیں
امیرِ شہر کو لاحق ہُوئی سخن فہمی
گھر کی ویرانی کی دوست
دیواروں پر اُگتی گھاس
حال پوُچھا تھا اُس نے ابھی
اور آنسو رواں ہو گئے
لو! میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں ، اب تم رخصت ہو
دل تو جانے کیا کہتا ہے،لیکن دل کا کہنا کیا
پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزللگا، گیا، آسکا، جا، رہا
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 2
تمام رات میرے گھر کا ایک در کُھلا رہا
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
وہ شہر ہے کہ جادوگرنیوں کا کوئی دیس ہے
وہاں تو جوگیا،کبھی بھی لوٹ کر نہ آسکا
میں وجہِ ترکِ دوستی کو سُن کر مُسکرائی تو
وہ چونک اُٹھا۔عجب نظر سے مجھ کو دیکھنے لگا
بچھڑ کے مُجھ سے، خلق کو عزیز ہو گیا ہے تُو
مجھے تو جو کوئی ملا، تجھی کو پُوچھتا رہا
وہ دلنواز لمحے بھی گئی رُتوں میں آئے۔جب
میں خواب دیکھتی رہی، وہ مجھ کو دیکھتا رہا
وہ جس کی ایک پل کی بے رُخی بھی دل کو بار تھی
اُسے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔مجھ کو بُھول جا
دمک رہا ہے ایک چاند سا جبیں پہ اب تلک
گریزپا محبتوں کا کوئی پل ٹھہر گیا
پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا
اکتوبر 25, 2015پروین شاکر، شعراء، غزلہوا، ہُوا، دِکھاناہُوا
پروین شاکر ۔ غزل نمبر 1
وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا
وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا بُلاوا تو اِک بہانہ ہوا
خُدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
یہ آنکھیں جن کو کبھی دُکھ کا حوصلہ نہ ہُوا
کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے
وہ روز صبح کا مِلنا تو اَب فسانہ ہُوا
میں سوچتی ہوں کہ مُجھ میں کمی تھی کِس شے کی
کہ سب کا ہوکے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہُوا
کِسے بُلاتی ہیں آنگن کی چمپئی شامیں
کہ وہ اَب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہُوا
دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے
اب یہ دُکھ ، کہ پہن کرکِسے دِکھاناہُوا
میں اپنے کانوں میں بیلے کے پُھول کیوں پہنوں
زبانِ رنگ سے کِس کو مُجھے بُلانا ہُوا
پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمیہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں

یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں یہ شعر تیری شکایتیں ہیں

میں سب تری نذر کر رہا ہوں ، یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں

جو زندگی کے نئے سفر میں تجھے کسی روز یاد آئیں

تو ایک اک حرف جی اٹھے گا پہن کے انفاس کی قبائیں

اداس تنہائیوں کے لمحوں میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں

مجھے ترے درد کے علاوہ بھی اور دکھ تھے ، یہ جانتا ہوں

ہزار غم تھے جو زندگی کی تلاش میں تھے ، یہ جانتا ہوں

مجھے خبر ہے کہ تیرے آنچل میں درد کی ریت چھانتا ہوں

مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر یہ ریت رنگِ حنا بنی ہے

یہ زخم گلزار بن گئے ہیں یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے

یہ درد موجِ صبا ہوا ہے ، یہ آگ دل کی صدا بنی ہے

اور اب یہ ساری متاعِ ہستی، یہ پھول، یہ زخم سب ترے ہیں

یہ دکھ کے نوحے ، یہ سکھ کے نغمے ، جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں

جو تیری قربت، تری جدائی میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں

وہ تیرا شاعر، ترا مغنی، وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں

وہ جس کے انداز خسروانہ تھے اور ادائیں غریب سی تھیں

وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں

نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے

وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے

وہ تھک چکا ہے اور اس کا تیشہ اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے

پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
ویسٹ لینڈ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمویسٹ لینڈ
ترے بغیر سرد موسموں کے خوشگوار دن اُداس ہیں

فضا میں دُکھ رچا ہُوا ہے!

ہَوا کوئی اُداس گیت گنگنا رہی ہے

پُھول کے لبوں پہ پیاس ہے

ایسا لگتا ہے

ہَوا کی آنکھیں روتے روتے خشک ہو گئی ہوں

صبا کے دونوں ہاتھ خالی ہیں

کہ شہر میں ترا کہیں پتہ نہیں

سانس لینا کِس قدر محال ہے!

اُداسیاںِ__اُداسیاں

تمام سبز سایہ دار پیڑوں نے

ترے بغیر وحشتوں میں اپنے پیرہن کو تار تار کر دیا ہے

اب کسی شجر کے جسم پر قبا نہیں

سُوکھے زرد پتے

کُو بہ کُو تری تلاش میں بھٹک رہے ہیں

اُداسیاںِ___اُداسیاں

مرے دریچوں میں گلابی دُھوپ روز جھانکتی ہے

مگر اب اس کی آنکھوں

وہ جگمگاہٹیں نہیں

جو تیرے وقت میں زمین کے صبیح ماتھے پر

سُورجوں کی کہکشاں سجانے آتی تھیں

زمین بھی مری طرح ہے!

ترے بغیر اس کی کوکھ سے اب بھی

کوئی گُلاب اُگ نہ پائے گا

زمین بانجھ ہو گئی ہے

اور مری رُوح کی بہار آفریں کوکھ بھی!

میری سوچ کے صدف میں

فن کے سچے موتی کس طرح جنم لیا کریں

کہ میں سراپا تشنگی ہوں

اور دُور دُور تک____وصالِ اَبر کی خیر نہیں !

میرے اور تیرے درمیان

پانچ پانیوں کے دیس میں

(کچے گھڑے بھی تو میری دسترس سے دُور ہیں )

میں شعر کس طرح کہوں

میری سوچ کے بدن کو،تُو،نمو تو دے

میں ترے بغیر’’ویسٹ لینڈ‘‘ ہوں !

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
وہی نرم لہجہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظموہی نرم لہجہ
وہی نرم لہجہ

جو اتنا ملائم ہے ، جیسے

دھنک گیت بن کر سماعت کو چُھونے لگی ہو

شفق نرم کومل سُروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو

کِس قدر!___رنگ و آہنگ کا کِس قدر خُوبصورت سفر!

وہی نرم لہجہ

کبھی اپنے مخصوص انداز میں مُجھ سے باتیں کرے گا

تو ایسا لگے

جیسے ریشم کے جُھولے پہ کوئی مدھر گیت ہلکورے لینے لگا ہو!

وہی نرم لہجہ

کسی شوخ لمحے میں اُس کی ہنسی بن کے بکھرے

تو ایسا لگے

جیسے قوسِ قزح نے کہیں پاس ہی اپنی پازیب چھنکائی ہو،

ہنسی کی وہ رِم جھم!

کہ جیسے بنفشی چمک دار بوندوں کے گھنگرو چھنکنے لگے ہوں !

کہ پھر

اس کی آواز کا لمس پا کے

ہواؤں کے ہاتھوں میں اَن دیکھے کنگن کھنکنے لگے ہوں !

وہی نرم لہجہ!

مُجھے چھیڑنے پر جب آئے تو ایسا لگے

جیسے ساون کی چنچل ہوا

سبز پتوں کے جھانجھن پہن

سُرخ پُھولوں کی پائل بجاتی ہُوئی

میرے رُخسار کو

گاہے گاہے شرارت سے چُھونے لگے

میں جو دیکھوں پلٹ کے، تو وہ

بھاگ جائے____مگر

دُور پیڑوں میں چُھپ کر ہنسے

اور پھر__ننھے بچوں کی مانند خوش ہوکے تالی بجانے لگے!

وہی نرم لہجہ!

کہ جس نے مرے زخمِ جاں پر ہمیشہ شگفتہ گلابوں کی شبنم رکھی ہے

بہاروں کے پہلے پرندے کی مانند ہے

جو سدا آنے والے نئے سُکھ کے موسم کا قاصد بنا ہے

اُسی نرم لہجے نے پھر مُجھ کو آواز دی ہے!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظموہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
تمہاری پوروں کا لمس اب تک

مری کفِ دست پر ہے

اور میں سوچتا ہوں

وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے

وہ کہہ گئے تھے

کہ اب کے جو ہاتھ تیرے ہاتھوں کو چھو گئے ہیں

تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہیں

وہ کہہ گئے تھے

تمہاری پوریں

جو میرے ہاتھوں کو چھو رہی تھیں

وہی تو قسمت تراش ہیں

اور اپنی قسمت کو

سارے لوگوں کی قسمتوں سے بلند جانو

ہماری مانو

تو اب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا

میں اُس سمے سے

تمام ہاتھوں

وہ ہاتھ بھی

جن میں پھول شاخوں سے بڑھ کے لطف نمو اٹھائیں

وہ ہاتھ بھی جو سدا کے محروم تھے

اور ان کی ہتھیلیاں زخم زخم تھیں

اور وہ ہاتھ بھی جو چراغ جیسے تھے

اور رستے میں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑھے تھے۔

وہ ہاتھ بھی جن کے ناخنوں کے نشان

معصوم گردنوں پر مثال طوق ستم پڑے تھے

تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے

دست کش یوں رہا ہوں جیسے

یہ مٹھیاں میں نے کھول دیں تو

وہ ساری سچائیوں کے موتی

مسرتوں کے تمام جگنو

جو بے یقینی کے جنگلوں میں

یقین کا راستہ بناتے ہیں

روشنی کی لکیر کا قافلہ بناتے ہیں

میرے ہاتھوں سے روٹھ جائیں گے

پھر نہ تازہ ہوا چلے گی

نہ کوئی شمع صدا جلے گی

میں ضبط اور انتظار کے اس حصار میں مدتوں رہا ہوں

مگر جب اک شام

اور وہ پت جھڑ کی آخری شام تھی

ہوا اپنا آخری گیت گا رہی تھی

مرے بدن میں مرا لہو خشک ہو رہا تھا

تو مٹھیاں میں نے کھول دیں

اور میں نے دیکھا

کہ میرے ہاتھوں میں

کوئی جگنو

نہ کوئی موتی

ہتھیلیوں پر فقط مری نامراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں

اور ان میں

قسمت کی سب لکیریں مٹی ہوئی تھیں۔

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
وہ صورت آشنا میرا
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظموہ صورت آشنا میرا
میں اُس کے سامنے

چپ رہ کے بھی یوں بات کرتی ہوں

کہ آنکھوں کا کوئی حرفِ بدن ناآشنا

آلودۂ پیکر نہیں ہوتا

خواہ موسم پہ مرا اظہار ہو

یا ٹیلی ویژن پر

وہ میرے لمحہ موجود کا دُکھ جان لیتا ہے

مجھے پہچان لیتا ہے

مری ہر بات کا چہرہ نہ چھوکر دیکھنے پر بھی

وہ صورت آشنا میرا

مرے لہجوں کے پس منظر سمجھتا ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
وہ شام کیا تھی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظموہ شام کیا تھی
وہ شام کیا تھی جب اس نے بڑی محبت سے

کہا کہ تو نے یہ سوچا بھی ہے کبھی احمد

خدا نے کتنی تجھے نعمتیں عطا کی ہیں

وہ بخششیں کہ ہیں بالا تر از شمار و عدد

یہ خال و خد یہ وجاہت یہ تندرست بدن

گرجتی گونجتی آواز استوار جسد

بسان لالۂ صحرا تپاں تپاں چہرہ

مثال نخل کہستاں دراز قامت و قد

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
ابھی تک ایک تبصرہ
وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں ؟
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظموہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں ؟
وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں

جنھیں اب تم چاہا کرتے ہو!

تم کہتے تھے

مری آنکھیں ، اِتنی اچھی، اِتنی سچی ہیں

اس حُسن اور سچائی کے سوا، دُنیا میں کوئی چیز نہیں

کیا اُن آنکھوں کو دیکھ کے بھی

تم فیض کا مصرعہ پڑھتے ہو؟

تم کہتے تھے

مری آنکھوں کی نیلاہٹ اتنی گہری ہے

’’مری روح اگر اِک بار اُتر جائے تو اس کی پور پور نیلم ہو جائے‘‘

مُجھے اتنا بتاؤ

آج تمھاری رُوح کا رنگ پیراہن کیا ہے

کیا وہ آنکھیں بھی سمندر ہیں ؟

یہ کالی بھوری آنکھیں

جن کو دیکھ کے تم کہتے تھے

’’یوں لگتا ہے شام نے رات کے ہونٹ پہ اپنے ہونٹ رکھے ہیں ‘‘

کیا اُن آنکھوں کے رنگ میں بھی،یوں دونوں وقت مِلا کرتے ہیں ؟

کیا سُورج ڈُوبنے کا لمحہ،اُن آنکھوں میں بھی ٹھہر گیا

یا وہاں فقط مہتاب ترشتے رہتے ہیں ؟

مری پلکیں

جن کو دیکھ کے تم کہتے تھے

اِن کی چھاؤں تمھارے جسم پہ اپنی شبنم پھیلا دے

تو گُزرتے خواب کے موسم لوٹ آئیں

کیا وہ پلکیں بھی ایسی ہیں

جنھیں دیکھ کے نیند آ جاتی ہو؟

تم کہتے تھے

مری آنکھیں یُونہی اچھی ہیں

’’ہاں کاجل کی دُھندلائی ہُوئی تحریر بھی ہو__تو

بات بہت دلکش ہو گی!‘‘

وہ آنکھیں بھی سنگھار تو کرتی ہوں گی

کیا اُن کا کاجل خُود ہی مِٹ جاتا ہے؟

کبھی یہ بھی ہُوا

کِسی لمحے تم سے رُوٹھ کے وہ آنکھیں رو دیں

اور تم نے اپنے ہاتھ سے اُن کے آنسو خُشک کیے

پھر جُھک کر اُن کو چُوم لیا

(کیا اُن کو بھی!!)

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
وحی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظموحی
عجیب موسم تھا وہ بھی،جب کہ

عبادتیں کورچشم تھیں

اور عقیدتیں اپنی ساری بینائی کھو چکی تھیں

خُود اپنے ہاتھوں سے ترشے پتھر کو دیوتا کہہ کے

خیر و برکت کی تعمتیں لوگ مانگتے تھے!

مگر وہ اِک شخص

جو ابھی اپنے آپ پر بھی نہ منکشف تھا

عجیب اُلجھن میں مبتلا تھا

یہ وہ نہیں ہیں ،وہ کون ہو گا کا کربِ بے نام چکھ رہا تھا!

سواپنے ان نارسادُکھوں کی صلیب اُٹھائے

غموں کی نا یافت شہریت کو تلاش کرتے

وہ شہرِ آذر سے دُور

اپنے تمام لمحے

حرا کے غاروں کے خواب آساسکوت کو سونپنے لگا تھا

یہ سوچ کا اعتکاف بھی تھا

اور ایک اَن دیکھی رُوحِ کُل کے وجود کا اعتراف بھی تھا

وہ رات بھی ارتکاز کی ایک رات تھی

جبکہ لمحہ بھرکو

فضا پہ سناٹاچھا گیا

اور ہواؤں کی سانس رُک گئی تھی

ستارۂ شب کے دل کی دھڑکن ٹھہر گئی تھی

گریزپا ساعتیں تحیر زدہ تھیں

جیسے وجود کی نبض تھم گئی ہو!

یکایک اِک روشنی جمال و جلال کے سارے رنگ لے کر

فضا میں گونجی

’’پڑھو!‘‘

’’میں پڑھ نہیں سکوں گا!‘‘

’’پڑھو!‘‘

’’میں پڑھ نہیں سکوں گا!‘‘

’’پڑھو!‘‘

’’(مگر)میں کیا پڑھوں ؟‘‘

پڑھو___تم اپنے (عظیم)پروردگار کا نام لے کے

جو سب کو خلق کرتا ہے

جس نے انسان کو بنایا ہے منجمد خون سے

پڑھو(کہ) تمھارا پروردگار بے حد کریم ہے

(اور)جس نے تم کو قلم سے تعلیم دی

اُسی نے بتائیں انسان کو وہ باتیں

کہ جن کو وہ جانتا نہیں تھا……۔۔‘‘

فضائے بے نطق جیسے اِقراء کا ورد کرنے لگی تھی

وہ سارے الفاظ،جو

تیرگی کے سیلاب میں کہیں بہہ چکے تھے

پھر روشنی کی لہروں میں

واپسی کے سفر کا آغاز کر رہے تھے

دریچۂ بے خیال میں

آگہی کے سُورج اُتر رہے تھے

اس ایک پل میں

وہ میرا اُمی ّ

مدینۃ العلم بن چکا تھا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
واہمہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمواہمہ
تمھارا کہنا ہے

تم مجھے بے پناہ شّدت سے چاہتے ہو

تمھاری چاہت

وصال کی آخری حدوں تک

مرے فقط میرے نام ہو گی

مجھے یقین ہے مجھے یقین ہے،

مگر قسم کھانے والے لڑکے !

تمھاری آنکھوں میں ایک تِل ہے !

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
واٹر لُو
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمواٹر لُو
اُس کے کنول ہاتھوں کی خوشبو

کتنی سبز آنکھوں نے پینے کی خواہش کی تھی

کتنے چمکیلے بالوں نے

چُھوئے جانے کی آس میں خود کو، کیسا کیسا بکھرایا تھا

کتنے پُھول اُگانے والے پاؤں

اُس کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھائے پھرتے تھے

لیکن وہ ہر خواب کے ہاتھ جھٹکتی ہُوئی

جنگل کی مغرور ہَوا کی صُورت

اپنی دُھن میں اُڑتی پھرتی

آجِ___مگر

سُورج نے کھڑکی سے جھانکا

تو اُس کی آنکھیں ،پلکیں جھپکنا بُھول گئیں

وہ مغرور سی، تیکھی لڑکی

عام سی آنکھوں ، عام سے بالوں والے

اِک اکھّڑ پردیسی کے آگے

دو زانو بیٹھی

اُس کے بوٹ کے تسمے باندھ رہی تھی

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمہم اپنے خواب کیوں بیچیں
فقیرانہ روش رکھتے تھے

لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے

کہ اپنے خواب بیچیں

ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے

لیکن رو کشِ بازار کب تھے

ہمارے ہاتھ خالی تھے

مگر ایسا نہیں پھر بھی

کہ ہم اپنی دریدہ دامنی

الفاظ کے جگنو

لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے

“خواب لے لو خواب”

لوگو

اتنے کم پندار ہم کب تھے

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں

کہ جن کو دیکھنے کی آرزو میں

ہم نے آنکھیں تک گنوا دی تھیں

کہ جن کی عاشقی میں

اور ہوا خواہی میں

ہر ترغیب کی شمعیں بجھا دی تھیں

چلو ہم بے‌نوا

محرومِ سقف و بام و در ٹھہرے

پر اپنے آسماں کی داستانیں

اور زمیں کے انجم و مہتاب کیوں بیچیں

خریدارو!

تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو

ہوس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو

تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو

مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس

اپنے خون کے سرخاب کیوں بیچیں

ہمارے خواب بے‌وقعت سہی

تعبیر سے عاری سہی

پر دل‌زدوں کے خواب ہی تو ہیں

نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں

کہ اپنی خواہشوں کے یوسفوں پر تہمتیں دھرتے

نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر ہیں

تعبیر جن کی اس کے زندانی بیان کرتے

نہ یہ ان آمروں کے خواب

جو بے‌آسرا خلقِ خدا کو دار پر لائیں

نہ یہ غارت‌گروں کے خواب

جو اوروں کے خوابوں کو تہہ شمشیر کر جائیں

ہمارے خواب تو اہلِ صفا کے خواب ہیں

حرف و نوا کے خواب ہیں

مہجور دروازوں کے خواب

محصور آوازوں کے خواب

اور ہم یہ دولتِ نایاب کیوں بیچیں

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نئی رات
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنئی رات
گہن کو اپنے نوشتہ جان کے ، میں نے

روشنیوں سے سارے ناتے توڑ لیے تھے

رات کو اپنی سکھی مان کے

اپنے سارے دُکھ بس اُس سے کہہ کے

جی ہلکا کر لیتی تھی

شام ڈھلے ، تنہائی کے بازو پر سر رکھے سو جاتی

اور نیند کے بے آباد جزیروں میں تنہا

اک تھکی ہُوئی خوشبو کی طرح بھٹکا کرتی!

آج بھی میں تنہا ہوں سفر میں

لیکن خود سے پُوچھ رہی ہوں

میرے وجود کے گرد یہ کیسا ہالہ ہے!

یوں لگتا ہے

چادرِ شب شانوں سے سرکتی جاتی ہے

چاند مرے آنچل میں ستارے ٹانک رہا ہے

آج کی رات

نیند پلکوں کی جھالر کو چُھوتی ہوئی

اوس میں اپنا آنچل بھگو کے

مرے دُکھتے ماتھے پہ رکھنے چلی ہے

مگر__آنکھ اور ذہن کے درمیاں

آج کی شب وہ کانٹے بچھے ہیں

کہ نیندوں کے آہستہ رَو، پھول پاؤں بھی چلنے سے معذور ہیں

ہر بُنِ مو میں اِک آنکھ اُگ آئی ہے

جس کی پلکیں نکلنے سے پہلے کہیں جھڑ چکی ہیں

اور اب ، رات بھر

روشنی اور کُھلی آنکھ کے درمیاں

نیند مصلوب ہوتی رہے گی!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نئی آنکھ کا پُرانا خواب
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنئی آنکھ کا پُرانا خواب
نئی آنکھ کا پُرانا خواب

آتش دان کے پاس

گُلابی حّدت کے ہالے میں سمٹ کر

تجھ سے باتیں کرتے ہوئے

کبھی کبھی تو ایسا لگاہے

جیسے اُوس میں بھیگی گھاس پہ

اُس کے بازو تھامے ہوئے

میں پھر نیند میں چلنے لگی ہوں !

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نیا دُکھ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنیا دُکھ
یہ دُکھ جو برف کا طوفان بن کے آیا ہے

پہاڑ والوں پہ کیسے عذاب لایا ہے

یہ زندہ رہنے کی خاطر ، اجازتوں کا دُکھ

بطور قرض کے حاصل ، محبتوں کا دُکھ

یہ غم کہ رات کی دہلیز اپنا گھر ہو گی

تمام عالمِ امکاں میں جب سحر ہو گی

یہ دُکھ کہ چھوڑ گئے انتہا پہ آکر ساتھ

سیاہ ہاتھوں پہ تقدیر لکھنے والے ہاتھ

مسافرانِ شبِ غم ، اسیرِ دار ہُوئے

جو رہنما تھے ، بِکے او ر شہر یار ہُوئے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نوید
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنوید
سماعتوں کی نوید ہو—کہ

ہَوائیں خُوشبو کے گیت لے کر

دریچہ گُل سے آ رہی ہیں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نوحہ گر چُپ ہیں
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنوحہ گر چُپ ہیں
نوحہ گر چُپ ہیں کہ روئیں بھی تو کِس کو روئیں

کوئی اس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو

کون سا دل ہے کہ جس کے لئے آنکھیں کھولیں

کوئی بِسمل کسی شب خوں کی علامت بھی تو ہو

شُکر کی جا ہے کہ بے نام و نسب کے چہرے

مسندِ عدل کی بخشش کے سزاوار ہوئے

کتنی تکریم سے دفنائے گئے سوختہ تن

کتنے اعزاز کے حامِل یہ گنہگار ہوئے

یوں بھی اِس دور میں جینے کا کِسے تھا یارا

بے نوا بازوئے قاتِل سے گِلہ مند نہ ہوں

زندگی یوں بھی تو مُفلِس کی قبَا تھی لیکن

دلفگاروں کے کفن میں بھی تو پیوند نہ ہوں

ناوکِ ظِلّ الٰہی اجل آہنگ سہی

شُکر کی جا ہے کہ سَونے کی انی رکھتے ہیں

جاں گنوائی بھی تو کیا مَدفن و مَرقد تو ملا

شاہ جم جاہ طبیعت تو غنی رکھتے ہیں

پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
نہ کوئی عہد، نہ پیمان
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنہ کوئی عہد، نہ پیمان
نہ کوئی عہد، نہ پیمان

نہ وعدہ ایسا

نہ تیرا حُسن ہی ایسا کوئی انگشت تراش

نہ میرے ہاتھ میں تاثیرِ زلیخائی ہے

رقص گہ ہے یہ جہاں اور نہ میں سِنڈریلا ہوں

نہ تُو شہزادہ ہے

ہم تو بس رزم گہِ ہستی میں

دو مبارز دِل ہیں

اِس تعلق کا کوئی رنگ اگر ہے تو حریفانہ ہے

ایک ہی تھال سے چُننی ہے ہمیں نانِ جویں

ایک ہی سانپ کے منہ سے ہمیں من چھیننا ہے

اور اس کشمکشِ رزق میں موہوم کشائش کی کلید

جس قدر میری قناعت میں ہے

اتنی تیری فیاضی میں

میں تیری چھاؤں میں پروان چڑھوں

اپنی آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا سایہ کر کے

تیرے ہمراہ میں سُرج کی تمازت دیکھوں

اس سے آگے نہیں سوچا دل نے

پھر بھی احوال یہ ہے

اِک بھروسہ ہے کہ دل سبز کئے رکھتا ہے

ایک دھڑکا ہے کہ خوں سرد کیئے رہتا ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
ننھے دوست کے نام ایک نظم
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمننھے دوست کے نام ایک نظم
گھنے درختوں کی سبز شاخوں پہ کِھلنے والے حسیں شگوفے!

سُنا ہے

تیرے گلاب چہرے کو برفباری کی رُت نے نرگس بنا دیا ہے

سوننھی کونپل!اُداس مت ہو

کہ تیرے رُخسار کی شفق کو

کبھی بھی دستِ شبِ زمستاں نہ چُھوئے پائے گا

اِس شفق میں محبتوں کا لُہو رواں ہے

عظیم گہری محبتوں کے صدف میں

اَبرِ بہار کی پہلی سانس ہے تو

جو ان جسموں کی مشترک دھڑکنوں کا پہلا جمیل نغمہ

جو ان راتوں کی کوکھ سے پھوٹتا ہُوا پہلا چاند ہے تُو

زمین اور آسماں کے سنگم پہ

زندگی کا نیا اُفق تُو

سواے مرے اَدھ کِھلے شگوفے!

تمام سچی محبتوں کے تمام گیتوں کی طرح تُو بھی اَمر رہے گا

وہ لمحہ آواز دے رہا ہے

جب ایسی ویران شاخساروں کے بے نمو جسم پر نئی کونپلیں اُگیں گی

شجر شجر کی برہنگی سبز پوش ہو گی

وہ ساعتیں راستے میں ہیں

جبکہ تیرے کم سِن بدن کی کچّی مہک کو

دستِ بہار کا لمس

وصفِ گویائی دے سکے گا،

یہ زرد رُت جلد بِیت جائے گی

سبز موسم قریب تر ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نن
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنن
وہ میری ہم سبق

زمین پر جو ایک آسمانی رُوح کی طرح سفر میں ہے

سفید پیرہن،گلے میں نقرئی صلیب

ہونٹ___مستقل دُعا!

میں اُس کو ایسے دیکھتی تھی جیسے ذرہ آفتاب کی طرف نظر اُٹھائے! پر____یہ کل کا ذکر ہے

کہ جب میں اپنے بازؤوں پہ سر رکھے

ترے لیے بہت اُداس تھی

تو وہ مرے قریب آئی

اور مجھ سے کیٹس کے لکھے ہُوئے کسی خیال تک رسائی چاہنے لگی

سو مَیں نے اُس کو شاعرِ جمال کی شریک خواب،فینی،کا پتہ دیا

مگر وہ میری بات سُن کے سادگی سے بولی:

’پیار کس کو کہتے ہیں ؟،

میں لمحہ بھر کو گُنگ رہ گئی!

دماغ سوچنے لگا

یہ کتنی بدنصیب ہے

جو چاہتوں کی لذتوں سے بے خبر ہے

میں نے اُس کی سمت پھر نگاہ کی

اور اُس سمے

مُجھے مری محبیتں تمام تر دُکھوں کے ساتھ یاد آ گئیں

محبتوں کے دُکھ___عظیم دُکھ!

مُجھے لگا

کہ جیسے ذرہ___آفتاب کے مقابلے میں بڑھ گیا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نِک نیم
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنِک نیم
تم مجھے گُڑیا کہتے ہو

ٹھیک ہی کہتے ہو ۔۔۔!!!

کھیلنے والے سب ہاتھوں کو میں گڑیا ہی لگتی ہوں

جو پہنا دو، مجھ پہ سجے گا

میرا کوئی رنگ نہیں

جس بّچے کے ہاتھ تھما دو

میری کسی سے جنگ نہیں

سوچتی جاگتی آنکھیں میری

جب چاہے بینائی لے لو

کُوک بھرو اور باتیں سن لو

یاں میری گویائی لے لو

مانگ بھرو، سیندور لگاؤ

پیار کرو، آنکھوں میں بساؤ

اور جب دل بھر جائے تو

دل سے اُٹھا کہ طاق پہ رکھ دو

تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو

ٹھیک ہی کہتے ہو

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نظم
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنظم
اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو

جب کوئی عہد و پیماں سلامت نہیں

اب کسی کنج میں بے اماں شہر کی

کوئی دل کوئی داماں سلامت نہیں

تم نے دیکھا ہے سر سبز پیڑوں پہ اب

سارے برگ و ثمر خار و خس ہو گئے

اب کہاں خوبصورت پرندوں کی رت

جو نشیمن تھے اب وہ قفس ہو گئے

صحن گلزار خاشاک کا ڈھیر

اب درختوں کے تن پر قبائیں کہاں

سرو و شمشاد سے قمریاں اڑ گئیں

شاخ زیتون پر فاختائیں کہاں

شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا

رند بدنام کوئے خرابات میں

فاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیں

فتوہ دیں میں ہو اور کفر کی بات میں

اب تو سب رازداں ہمنوا نامہ بر

کوئے جانا ں کے سب آشنا جا چکے

کوئی زندہ گواہی بچی ہی نہیں

سب گنہگار سب پارسا جا چکے

اب کوئی کس طرح قم بہ اذنی کہے

اب کہ جب شہر کا شہر سنسان ہے

حرف عیسیٰ نہ صور اسرافیل ہے

حشر کا دن قیامت کا میدان ہے

مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں

اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا

کب سے توقیر لالہ قبائی گئی

کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
نارسائی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمنارسائی
تتلیاں

فصیلِ شب عبور کر کے

میری کور کوکھ کے لیے

پروں میں رنگ ، آنکھ میں کرن لیے

کلائیوں سے ہو کے اب ہتھیلیوں تک آ گئیں

مگر

مری تمام اُنگلیاں کٹی ہُوئی ہیں

پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
ناٹک
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمناٹک
رُت بدلی تو بھنوروں نے تتلی سے کہا

آج سے تم آزاد ہو

پروازوں کی ساری سمتیں تُمھارے نام ہُوئیں

جاؤ

جنگل کی مغرور ہوا کے ساتھ اُڑو

بادل کے ہمراہ ستارے چُھو آؤ

خوشبو کے بازو تھامو، اور رقص کرو

رقص کرو

کہ اس موسم کے سُورج کی کِرنوں کا تاج تُمھارے سر ہے

لہراؤ

کہ ان راتوں کا چاند، تمھاری پیشانی پر اپنے ہاتھ سے دُعا لکھے گا

گاؤ

ان لمحوں کی ہوائیں تم کو ، تمھارے گیتوں پر سنگیت دیں گی

پتّے کڑے بجائیں گے

اور پُھولوں کے ہاتھوں میں دف ہو گا!

تتلی ، معصومانہ حیرت سے سرشار

سیہ شاخوں کے حلقے سے نکلی

صدیوں کے جکڑے ہُوئے ریشم پَر پھیلائےِ_اور اُڑنے لگی

کُھلی فضا کا ذائقہ چکھا

نرم ہَوا کا گیت سُنا

اَن دیکھے کہساروں کی قامت ناپی

روشنیوں کا لمس پیا

خوشبو کے ہر رنگ کو چُھو کر دیکھا

لیکن رنگ ، ہَوا کا وجدان ادھورا تھا

کہ رقص کا موسم ٹھہر گیا

رُت بدلی

اور سُورج کی کِرنون کا تاج پگھلنے لگا

چاند کے ہاتھ، دُعا کے حرف ہی بُھول گئے

ہَوا کے لب برفیلےسموں میں نیلے پڑکر اپنی صدائیں کھو بیٹھے

پتّوں کی بانہوں کے سُر بے رنگ ہُوئے

اور تنہا رہ گئے پُھولوں کے ہاتھ

برف کی لہر کے ہاتھوں ، تتلی کو لَوٹ آنے کا پیغام گیا

بھنورے شبنم کی زنجیریں لے کر دوڑے

اور بے چین پَروں میں ان چکھی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلا دی

اپنے کالے ناخونوں سے

تتلی کے پَر نوچ کے بولے___

احمق لڑکی

گھر واپس آ جاؤ

ناٹک ختم ہُوا!

(خواتین کا عالمی سال)

پروین شاکر
Rate this:
      2 Votes
تبصرہ چھوڑیں
موسم کی دُعا
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمموسم کی دُعا
پھر ڈسنے لگی ہیں سانپ راتیں

برساتی ہیں آگ پھر ہوائیں

پھیلا دے کسی شکستہ تن پر

بادل کی طرح سے اپنی بانہیں

پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
موسم
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمموسم
چڑیا پُوری بھیگ چکی ہے

اور درخت بھی پتّہ پتّہ ٹپک رہا ہے

گھونسلا کب کا بکھر چکا ہے

چڑیا پھر بھی چہک رہی ہے

انگ انگ سے بول رہی ہے

اس موسم میں بھیگتے رہنا کتنا اچھا لگتا ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مورنی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممورنی
بارش نے

جب سے مجھ کو پا زیب پہنائی ہے

میں رقص میں ہوں

اور اتنی خوش ہوں

اپنے پاؤں کی بد رنگی کو

دیکھ دیکھ کے بھول رہی ہو

پَر پھیلائے

بھیگے ہُوئے جنگل میں مسلسل ناچ رہی ہوں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
من و تو
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممن و تو
معاف کر مری مستی خدائے عز و جل

کہ میرے ہاتھ میں ساغر ہے میرے لب پہ غزل

کریم ہے تو مری لغزشوں کو پیار سے دیکھ

رحیم ہے تو سزا و جزا کی حد سے نکل

ہے دوستی تو مجھے اذن میزبانی دے

تو آسمان سے اتر اور مری زمین پہ چل

بہت عزیز ہے مجھ کو یہ خاکداں میرا

یہ کوہسار یہ قلزم یہ دشت یہ دلدل

مرے جہاں میں زمان و مکان و لیل و نہار

ترے جہاں میں ازل ہے ابد ہے نہ آج نہ کل

تو اپنے عرش پہ شاداں ہے سو خوشی تیری

میں اپنے فرش پہ نازاں ہوں اے نگار ازل

مجھے نہ جنت گم گشتہ کی بشارت دے

کہ مجھ کو یاد ابھی تک ہے ہجرت اول

ترے کرم سے یہاں بھی مجھے میسر ہے

جو زاہدوں کی عبادت میں ڈالتا ہے خلل

وہ تو کہ عقدہ کشا و مسب اللا سباب

یہ میں کہ آپ معمہ ہوں آپ اپنا ہی حل

میں آپ اپنا ہی ہابیل اپنا ہی قابیل

مری ہی ذات ہے مقتول و قاتل و مقتل

برس برس کی طرح تھا نفس نفس میرا

صدی صدی کی طرح کاٹتا رہا پل پل

ترا وجود ہے لاریب اشرف و اعلیٰ

جو سچ کہوں تو نہیں میں بھی ارذل و اسفل

یہ واقعہ ہے کہ شاعر وہ دیکھ سکتا ہے

رہے جو تیرے فرشتوں کی آنکھ سے اوجھل

یہی قلم ہے جو دکھ کی رتوں میں بخشتا ہے

دلوں کو پیار کا مرہم سکون کا صندل

یہی قلم ہے کہ جس کے ہنر سے نکلے ہیں

رہ حیات کے خم ہوں کہ زلف یار کے بل

یہی قلم ہے کہ جس کی عطا سے مجھ کو ملے

یہ چاہتوں کے شگوفے محبتوں کے کنول

تمام سینہ فگاروں کو یاد میرے سخن

ہر ایک غیرت مریم کے لب پہ میری غزل

اسی نے سہل کئے مجھ پہ زندگی کے عذاب

وہ عہد سنگ زنی تھا کہ دور تیغ اجل

اسی نے مجھ کو سجھائی ہے راہ اہل صفا

اسی نے مجھ سے کہا ہے پل صراط پہ چل

اسی نے مجھ چٹانوں کے حوصلے بخشے

وہ کربلائے فنا تھی کہ کار گاہ جدل

اسی نے مجھ سے کہا اسم اہل صدق امر

اسی نے مجھ سے کہا سچ کا فیصلہ ہے اٹل

اسی کے فیض سے آتش کدے ہوئے گلزار

اسی کے لطف سے ہر زشت بن گیا اجمل

اسی نے مجھ سے کہا جو ملا بہت کچھ ہے

اسی نے مجھ سے کہا جو نہیں ہے ہاتھ نہ مل

اسی نے مجھ سے قناعت کا بوریا بخشا

اسی کے ہاتھ سے دست دراز طمع ہے شل

اسی نے مجھ سے کہا بیعتِ یزید نہ کر

اسی نے مجھ سے کہا مسلک حسین پہ چل

اسی نے مجھ سے کہا زہر کا پیالہ اٹھا

اسی نے مجھ سے کہا، جو کہا ہے اس سے نہ ٹل

اسی نے مجھ سے کہا عاجزی سے مات نہ کھا

اسی نے مجھ سے کہا مصلحت کی چال نہ چل

اسی نے مجھ سے کہا غیرت سخن کو نہ بیچ

کہ خون دل کے شرف کو نہ اشرفی سے بدل

اسی نے مجھ کو عنایت کیا ید بیضا

اسی نے مجھ سے کہا سحر سامری سے نکل

اذیتوں میں بھی بخشی مجھے وہ نعمت صبر

کہ میرے دل میں گرہ ہے نہ ماتھے پہ بل

تری عطا کے سبب یا میری انا کے سبب

کسی دعا کا ہے موقع نہ التجا کا محل

کچھ اور دیر ابھی حسرت وصال میں رہ

کچھ اور دیر آتش فراق میں جل

سو تجھ سا ہے کوئی خالق نہ مجھ سی ہے مخلوق

نہ کوئی تیرا ہی ثانی نہ میرا کوئی بدل

فراز تو بھی جنوں میں کدھر گیا ہے نکل

ترا دیار محبت تری نگار غزل

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مقدر
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممقدر
میں وہ لڑکی ہوں

جس کو پہلی رات

کوئی گھونگھٹ اُٹھا کے یہ کہہ دے۔

میرا سب کُچھ ترا ہے ، دِل کے سوا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مفاہمت
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممفاہمت
زندگی کے لیے

اب تمھارا رویہ ،اچانک بہت صلح جُو ہو گیا ہے

(سمندر کی سرکش ہواؤں کو

جُوئے شبستاں کی آہستہ گامی مبارک!)

یہ اچھا شگن ہے

ہوا کے مقابل

اگر پُھول آئے

تو پھر پنکھڑی پنکھڑی

اُجلے بادل کے خوابوں کی صُورت بِکھر جائے گی

سو ایسے میں ،جھکنے میں ہی خیر ہے!

بارشِ سنگ میں

خواب کے شیش محل کو کب تک بچائے رکھیں

اِتنے ہاتھوں میں پتھر ہیں

کوئی تو لگ جائے گا

اور پھر

گُھپ اندھیرے میں کب تک نظر کرچیاں ان کی ڈھونڈے

کیا یہ بہتر نہ ہو گا

کہ ایسی قیامت سے پہلے ہی

ان شیش محلوں کو ہم

مصلحت کی چمکتی ہوئی ریت میں دفن کر دیں

اور پھر خواب بُنتی ہُوئی آنکھ سے معذرت کر لیں !

سو تم نے بھی اب

ایک ہاری ہُوئی قوم کے رہنما کی طرح

اپنے ہتھیار دُشمن کے قدموں میں رکھ کر

نئی دوستی کا لرزتا ہُوا ہاتھ اس کی طرف پھر بڑھایا ہے

اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے

کہ ہتھیار دینے کی اس رسم میں

کیا کروں

تمھاری چمکدار ،متروکہ تلوارکو

بڑھ کے چُوموں

کہ اپنے گلے پر رکھوں ؟

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
معبود
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممعبود
بہت حسین ہیں تیری عقیدتوں کے گلاب

حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا

ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں

تجھے عزیز مرا فن مجھے جما ل ترا

مگر تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم

تری نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے

تجھے خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری

لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے

تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں

یہ فن نہیں ہے اذیت ہے زندگی بھر کی

یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے

یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مشورہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممشورہ
ننّھی لڑکی

ساحل کے اِتنے نزدیک

ریت سے اپنے گھر نہ بنا

کوئی سرکش موج اِدھر آئی ،تو

تیرے گھر کی بنیادیں تک بہہ جائیں گی

اور پھر اُن کی یاد میں تُو

ساری عُمر اُداس رہے گی

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مشترکہ دُشمن کی بیٹی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممشترکہ دُشمن کی بیٹی
ننھے سے اک ریستوران کے اندر

میں اور میری نیشنلسٹ کولیگز

کیٹس کی نظموں جیسے دل آویز دھند لکے میں بیٹھی

سُوپ کے پیالے سے اُٹھتی ، خوش لمس مہک کو

تن کی سیرابی میں بدلتا دیکھ رہی تھیں

باتیں ’’ہوا نہیں پڑھ سکتی‘‘، تاج محل، میسور کے ریشم

اور بنارس کی ساری کے ذکر سے جھِلمل کرتی

پاک و ہند سیاست تک آ نکلیں

پینسٹھ__اُس کے بعد اکہتّر__جنگی قیدی

امرتسر کا ٹی وی____

پاکستان کلچر__محاذِ نو__خطرے کی گھنٹی۔۔

میری جوشیلی کولیگز

اس حملے پر بہت خفا تھیں

میں نے کُچھ کہنا چاہا تو

اُن کے منہ یوں بگڑ گئے تھے

جیسے سُوپ کے بدلے اُنھیں کونین کا رس پینے کو ملا ہو

ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی بھی

میری طرف شاکی نظروں سے دیکھ رہی تھی

(شاید سنہ باسٹھ کا کوئی تِیر ابھی تک اُس کے دل میں ترازو تھا!)

ریستوران کے نروز میں جیسے

ہائی بلڈ پریشر انساں کے جسم کی جیسی جھلاّہٹ در آئی تھی

یہ کیفیت کچھ لمحے رہتی

تو ہمارے ذہنوں کی شریانیں پھٹ جاتیں

لیکن اُس پل ، آرکسٹراخاموش ہُوا

اور لتا کی رس ٹپکاتی، شہد آگیں آواز ، کچھ ایسے اُبھری

جیسے حبس زدہ کمرے میں

دریا کے رُخ والی کھڑکی کھلنے لگی ہو!

میں نے دیکھا

جسموں اور چہروں کے تناؤ پر

ان دیکھے ہاتھوں کی ٹھندک

پیار کی شبنم چھڑک رہی تھی

مسخ شدہ چہرے جیسے پھر سنور رہے تھے

میری نیشنلسٹ کولیگز

ہاتھوں کے پیالوں میں اپنی ٹھوڑیاں رکھے

ساکت و جامد بیٹھی تھیں

گیت کا جادو بول رہا تھا!

میز کے نیچے

ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی کے

نرم گلابی پاؤں بھی

گیت کی ہمراہی میں تھرک رہے تھے!

مشترکہ دشمن کی بیٹی

مشترکہ محبوب کی صورت

اُجلے ریشم لہجوں کی بانہیں پھیلائے

ہمیں سمیٹے

ناچ رہی تھی!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مسئلہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممسئلہ
’’پتھر کی زباں ‘‘ کی شاعرہ نے

اک محفلِ شعر و شاعری میں

جب نظم سُناتے مُجھ کو دیکھا

کُچھ سوچ کے دل میں ،مُسکرائی!

جب میز پر ہم مِلے تو اُس نے

بڑھ کر مرے ہاتھ ایسے تھامے

جیسے مجھے کھوجتی ہو کب سے

پھر مجھ سے کہا کہ۔۔۔۔آج،پروین!

جب شعر سناتے تم کو دیکھا

میں خود کو بہت یہ یاد آئی!

وہ وقت،کہ جب تمھاری صُورت

میں بھی یونہی شعر کہہ رہی تھی

لکھتی تھی اِس طرح کی نظمیں

پر اب تو وہ ساری نظمیں ،غزلیں

گزرے ہُوئے خواب کی ہیں باتیں !

میں سب کو ڈِس اون کر چکی ہوں !

’’پتھر کی زباں ‘‘کی شاعرہ کے

چنبیلی سے نرم ہاتھ تھامے

’’خوشبو‘‘کی سفیر سوچتی تھی

در پیش ہواؤں کے سفر میں

پل پل کی رفیقِ راہ۔۔میرے

اندر کی یہ سادہ لوح ایلس

حیرت کی جمیل وادیوں سے

وحشت کے مہیب جنگلوں میں

آئے گی۔۔۔۔تو اُس کا پُھول لہجہ

کیا جب بھی صبا نفس رہے گا!؟

وہ خود کو ڈس اون کرسکے گی!؟

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مسفٹ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممسفٹ
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں

مجھ میں لوگوں کو خوش رکھنے کا ملکہ

اتنا کم کیوں ہے

۔کچھ لفظوں سے۔کچھ میرے لہجے سے خفا ہیں

پہلے میری ماں میری مصروفیت سے

نالاں رہتی تھی

اب یہی گلہ مجھ سے میرے بیٹے کو ہے

رزق کی اندھی دوڑ میں رشتے کتنے پیچھے رہ جاتے ہیں

جبکہ صورتِ حال تو یہ ہے

میرا گھر میرے عورت ہونے کی

مجبوری کا پورا لطف اٹھاتا ہے

ہر صبح میرے شانوں پر زمہ داری کا بوجھا لیکن

پہلے سے بھاری ہوتا ہے

پھر بھی میری پشت پہ نا اہلی کا کوب

روز بروز نمایاں ہوتا جاتا ہے

پھر میرا دفتر ہے

جہاں تقرر کی پہلی ہی شرط کے طور پہ

خود داری کا استعفی دائر کرنا تھا

میں پتھر بنجر زمینوں میں پھول اگانے کی کوشش کرتی ہوں

کبھی ہریالی دکھ جاتی ہے

ورنہ

پتھر

بارش سے اکثر ناراض ہی رہتے ہیں

مرا قبیلہ

میرے حرف میں روشنی ڈھونڈ نکالتا ہے

لیکن مجھ کو

اچھی طرح معلوم ہے

کس کی نظریں لفظ پہ ہیں

اور کس کی خالق پر

سارے دائرے میرے پاووءں سے چھوٹے ہیں

لیکن وقت کا وحشی ناچ

کسی مقام نہیں رکتا

رقص کی لے ہر لمحہ تیز ہوئی جاتی ہے

یا تو میں کچھ اور ہوں

یا پھر یہ میرا سیارہ نہیں ہے۔۔۔

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مری دعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممری دعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام
مری دُعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام!

کہ میں نے اپنی محبت سپرد کی ہے تجھے

سو دیکھ!میری امانت سنبھال کے رکھنا

اسے بہار کی نرماہٹوں نے پالا ہے

سو اس کو گرم ہوا سے بہت بچا رکھنا

یہ گُل عذار نہیں آشنائے سختی گل

یہ ساتھ ہو تو بہت احتیاط سے چلنا

مزاج اس کا ہَواؤں کی طرح سرکش ہے

سو اس کی جنبشِ ابرو کو دیکھتے رہنا

نہیں ، یہ سُننے کا عادی نہیں رہا ہے کبھی

سو اس کی بات ، وہ کیسی ہو، مانتے رہنا

اطاعت اس کی بہر گام اَب ہے تیرا کام!

ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے

کہ خوش نصیب ہے تو اس کا ہمسفر ٹھہرا

میں تیرہ بخت تھی، اس سے بچھڑ گئی کب کی

بھٹک رہی ہوں گھنے جنگل میں اب تنہا

تو اس کے لمس سے ہر روز زندگی پائے

میں اُس کے ہجر میں ہر رات لمسِ مرگ چکھوں

ترے گلے میں وہ ہر روز باہیں ڈالتا ہے

مرے بدن کو وہ حلقہ مگر نصیب نہیں

وہ تیرے جسم سے کتنا قریب ہوتا ہے

مگر میں اُس کے بدن کی مہک کہاں ڈھونڈوں

کہ اُس کے شہر کی پاگل ہوائیںِ__ میرے گھر

نجانے کون سی گلیوں سے ہوکے آتی ہے

کہ وہ مہک کہیں رستے میں چھوٹ جاتی ہے

اُسی کی یاد میں ہوتی ہے اب تو صبح وشام

ہَوا کے ہاتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے

کہ تیری عُمر خُدائے ازل دراز کرے

جو خواب بھی تری آنکھوں میں ہو،وہ پورا ہو

کہ تیرے ساتھ نے اُس کو بہت خوشی دی ہے

وہ اپنے سارے رفیقوں میں سربلند ہُوا!

شکستہ دل تھا مگر آج ارجمند ہُوا

غریبِ شہر کو جینے کا آسرا تو دیا

بہت اُداس تھا، تُو نے اُسے ہنسا تو دیا

(میں کس زباں میں ،بتا،تجھ کو شکریہ لکھوں )

دُعا یہ ہے کہ تجھے ہر خوشی میسر ہو!

اِسی طرح سے کبھی تو بھی سر اُٹھا کے چلے

کبھی تجھے بھی کوئی بھیجے تہنیت کا پیام!

ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے

کہ اپنے آقا کے ہمراہ سیر کو نکلے

تواسپِ تازی،کسی دِن زقند ایسی بھرے

کہ اُڑ کے میرے نگر،میرے شہر آ پہنچے

تمام عُمر دعائیں رہیں گی اُس کے نام!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
محاصرہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممحاصرہ
مرے غنیم نے مجھکو پیام بھیجا ہے

کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے

فصیل شہر کے ہر برج، ہر منارے پر

کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُسکے

وہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی

بچھا دیا گیا بارود اسکے پانی میں

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے

سپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے

تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام

امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کلاہ میں ہیں

معززینِ عدالت حلف اٹھانے کو

مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں

تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے

وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں

بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا

گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں

قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو

تمھارے ساتھ ہے کون؟‌آس پاس تو دیکھو

تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا

بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو

یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے

تو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے

کہ مجھکو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ

اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت

اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ

مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے

مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا

جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے

مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں ، یقیں ہے مجھے

کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم

مرے قلم کا سفر رائگاں نہ جائے گا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
مجبوری
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظممجبوری
ہوائیں

دستکوں میں میرا نام لے رہی ہیں

میں ،کواڑ کیسے کھولوں

میرے دونوں ہاتھ پُشت کی طرف بندھے ہُوئے ہیں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
لیلۃ الصّک
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظملیلۃ الصّک
عجب پُراسرار سی فضا تھی

ہَوا میں لوبان و عود عنبر کی آسمانی مہک رچی ہوئی تھی

سپید، مخروطی،مومی شمعیں

عجیب نا قابلِ بیاں مذہبی تیقن سے جل رہی تھیں

کہ جیسے آبی قباؤں میں کچھ اُداس ،معصوم لڑکیاں

دونوں ہاتھ اٹھائے

دُعا میں مصروف ہوں

اور اُن کی چنبیلی سی اُنگلیوں کی لو تھرتھرا رہی ہو!

دریچوں میں ،طاقچوں میں

ننھے چراغ یوں جھلملا رہے تھے

کہ جیسے نو زائیدہ فرشتے

زمین کو دیکھ کر

تعجب سے اپنی پلکیں جھپک رہے ہوں !

کتابِ الہام کی تلاوت

سروشِ جبریل کے تصور کی جیسے تجسیم کر رہی تھی!

میں ہلکے رنگوں کے اک دوپٹے میں اپنی زیبائشیں چھپائے

ترے بہت ہی قریب،

سر کو جُھکائے بیٹھی تھی

اور تو اپنے سادہ ملبوس میں مرے پاس تھا

مگر ہم ،ایک اور دُنیا میں کھو چکے تھے

زمین کی خواہشیں دھنک پر ہی رہ گئی تھیں

وجود،تتلی کے پَر کی صُورت،لطیف ہو کر

ہَوا میں پرواز کر رہا تھا!

ہمیں بزرگوں نے یہ بتایا،کہ آج کی رات

آسمانوں میں زندگی اور موت کے فیصلے بھی انجام پا رہے ہیں

دُعاؤں کی باریابیوں کا یہی سمے ہے!

سو ہم نے اپنے دیے جلا کر

حیاتِ تازہ کی آرزو کی

محبتوں کی ہمیشگی کی دُعائیں مانگیں !

میں آج اپنے اکیلے گھر میں

ہَوا کے رُخ پر چراغ ہاتھوں میں لے کر بیٹھی

خدا کے اُس فیصلے کا مفہوم سوچتی ہوں

(کہ جس کی تکمیل میں یہ دیکھا

بدن تو زندہ ہے میرا اب تک

مگر مری رُوح مر چکی ہے)

میں آج جا کر سمجھ سکی ہوں

کہ آج سے ایک سال پہلے

ترا جلایا ہُوا دیا جَلد کیوں بُجھا تھا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
لیکن
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظملیکن
یہ جو دفعتاً اُدھر سے

گلُ مہر کی شاخ کو ہٹاکر

اُبھرا ہے اُفق پہ چاند میرا

اس چاند کا حُسن تو وہی ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
لڑکیاں اُداس ہیں
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظملڑکیاں اُداس ہیں
پھر وہی نرم ہوا

وہی آہستہ سفر موجِ صبا

گھر کے دروازے پہ ننھی سی ہتھیلی رکھے

منتظر ہے

کہ کِسی سمت سے آواز کی خوشبو آئے

سبز بیلوں کے خنک سائے سے کنگن کی کھنک

سُرخ پُھولوں کی سجل چھاؤں سے پائل کی جھنک

کوئی آواز۔۔۔بنامِ موسم!

اور پھر موجِ ہوا،موجۂ خُوشبو کی وہ البیلی سکھی

کچی عمروں کے نئے جذبوں کی سر شاری سے پاگل برکھا

دھانی آنچل میں شفق ریز،سلونا چہرہ

کاسنی چُنری،بدن بھیگا ہوا

پشت پر گیلے ،مگر آگ لگاتے گیسو

بھوری آنکھوں میں دمکتا ہُوا گہرا کجرا

رقص کرتی ہوئی، رِم جھم کے مُدھر تال کے زیرو بم پر

جُھومتی ،نقرئی پازیب بجاتی ہوئی آنگن میں اُتر آئی ہے

تھام کر ہاتھ یہ کہتی ہے

مرے ساتھ چلو!

لڑکیاں

شیشوں کے شفاف دریچوں پہ گرائے ہُوئے سب پردوں کو

اپنے کمروں میں اکیلی بیٹھی ہے

کیٹس کے ’’اوڈس‘‘پڑھاکرتی ہیں

کتنا مصروف سکوں چہروں پہ چھایا ہے۔۔مگر

جھانک کے دیکھیں

توآنکھوں کو نظر آئے،کہ ہر مُوئے بدن

گوش برساز ہے!

ذہن بیتے ہُوئے موسم کی مہک ڈھونڈتا ہے

آنکھ کھوئے ہُوئے خوابوں کا پتہ چاہتی ہے

دل ،بڑے کرب سے

دروازوں سے ٹکراتے ہوئے نرم رِم جھم کے مُدھر گیت کے اس سُرکو بُلانے کی سعی کرتا ہے

جو گئے لمحوں کی بارش میں کہیں ڈوب گیا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
گئے جنم کی صدا
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمگئے جنم کی صدا
وہ ایک لڑکی

کہ جس سے شاید میں ایک پل بھی نہیں ملی ہوں

میں اُس کے چہرے کو جانتی ہوں

کہ اُس کا چہرہ

تُمھاری نظموں ،تُمھارے گیتوں کی چلمنوں سے اُبھر رہا ہے

یقین جانو

مُجھے یہ چہرہ تُمھارے اپنے وُجود سے بھی عزیز تر ہے

کہ اُ س کی آنکھوں میں

چاہتوں کے وہی سمندر چُھپے ہیں

جو میری اپنی آنکھوں میں موجزن ہیں

وہ تم کو اِک دیوتا بنا کر،مِری طرح پُوجتی رہی ہے

اُس ایک لڑکی کا جسم

خُود میرا ہی بدن ہے

وہ ایک لڑکی____

جو میرے اپنے گئے جنم کی مَدھُر صدا ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
گوری کرت سنگھار
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمگوری کرت سنگھار
بال بال موتی چمکائے

روم روم مہکار

مانگ سیندور کی سندرتا سے

چمکے چندن وار

جوڑے میں جوہی کی بینی

بانہہ میں ہار سنگھار

کان میں جگ مگ بالی پتّہ

گلے میں جگنو ، ہار

صندل ایسی پیشانی پر

بندیا لائی بہار

سبز کٹارا سی آنکھوں میں

کجرے کی دو دھار

گالوں کی سُرخی میں جھلکے

ہر دے کا اقرار

ہونٹ پہ کچھ پُھولوں کی لالی

کُچھ ساجن کے کار

کَساہوا کیسری شلوکا

چُنری دھاری دار

ہاتھوں کی اِک اِک چُوڑی میں

موہن کی جھنکار

سہج چلے ، پھر بھی پائل میں

بولے پی کا پیار

اپنا آپ درپن میں دیکھے

اور شرمائے نار

نار کے رُوپ کو انگ لگائے

دھڑک رہا سنسار

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
گمان
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمگمان
میں کچی نیند میں ہوں

اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اترتی

چاندنی کی چاپ سنتی ہوں

گماں ہے

آج بھی شاید

میرے ماتھے پہ تیرے لب

ستارے ثبت کرتے ہیں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
گِلہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمگِلہ
اے خدا

میری آواز سے ساحری چھین کر

تو نے سانپوں کی بستی میں کیوں مجھ کو پیدا کیا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کیا کیا دکھ دل نے پائے
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکیا کیا دکھ دل نے پائے
کیا کیا دکھ دل نے پائے

ننھی سی خوشی کے بدلے

ہاں کون سے غم نہ کھائے

تھوڑی سی ہنسی کے بدلے

زخموں کا کون شمار کرے

یادوں کا کیسے حصار کرے

اور جینا پھر سے عذاب کرے

اس وقت کا کون حساب کرے

وہ وقت جو تجھ بن بیت گیا !

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کنگن بیلے کا
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکنگن بیلے کا
اُس نے میرے ہاتھ میں باندھا

اُجلا کنگن بیلے کا

پہلے پیار سے تھامی کلائی

بعد اُس کے ہولے ہولے پہنایا

گہنا پُھولوں کا

پھر جُھک کر ہاتھ کوچُوم لیا!

پُھول تو آخر پُھول ہی تھے

مُرجھا ہی گئے

لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں

بانہوں پر وہ لمس ابھی تک تازہ ہے

(اخِ صنوبر پر اِک چاند دِمکتا ہے)

پُھول کا کنگن

پیار کا بندھن

اَب تک میری یاد کے ہاتھ سے لپٹاہُوا ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کن رس
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکن رس
یہ جھکی جھکی آنکھیں

یہ رُکا رُکا لہجہ

لب پہ بار بار آ کے

ٹوٹتا ہُوا فقرہ

گرد میں اٹی پلکیں

دُھوپ سے تپا چہرہ

سر جُھکائے آیا ہے

ایک عمر کا بُھولا

دل ہزار کہتا ہے

ہاتھ تھام لُوں اس کا

چُوم لُوں یہ پیشانی

لَوٹنے نہ دُوں تنہا

کوئی دل سے کہتا ہے

سارے حرف جُھوٹے ہیں

اعتبار مت کرنا!

اعتبار مت کرنا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کشف
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکشف
ہونٹ بے بات ہنسے

زُلف بے وجہ کُھلی

خواب دکھلا کہ مجھے

نیند کس سمت چلی

خُوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی

اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سُنی

اور پھر جان گئی

میری آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا !!!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کرنوں کے قدم
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکرنوں کے قدم
خوش پوش مسافروں کے آگے

ننّھا سا وہ کم لباس بچہ

کِس شانِ انا سے چل رہا تھا

سُورج کی تمازت کے باوصف

سائے کی تلاس تھی__نہ اس کو

دردکار تھیں نقرئی پناہیں

جیبوں پہ نگاہ تھی نہ رُخ پر

سکّوں سے وہ بے نیاز آنکھیں

کُچھ اور ہی ڈھونڈنے چلی تھیں

اُس کو تو مسافروں سے بڑھ کر

سایوں سے لگاؤں ہو گیا تھا

اپنے نئے کھیل میں مگن وہ

لوگوں کے بہت قریب جا کر

میلی ، بے رنگ اُنگلیوں سے

سایوں کو مزے سے گن رہا تھا

دلدل سے اُگا ہُوا وہ بچہ

خوشبو کا حساب کر رہا تھا

کُہرے میں پلا ہُوا وہ کیڑا

کرنوں کا شمار کر رہا تھا

کس نے اُسے گنتیاں سکھائیں

جس نے کبھی زندگی میں اپنی

اسکول کی شکل تک نہ دیکھی

اُستاد کا نام تک نہ جانا

سچ یہ ہے کہ سورجوں کو چاہے

بادل کا کفن بھی دے کے رکھیں

کب روشنیاں ہوئی ہیں زنجیر!

تنویر کا ہاتھ کِس نے تھاما!

کونوں کے قدم کہاں رُکے ہیں !

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کتھارسس
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکتھارسس
میرے شانوں پہ سر رکھ کر

آج

کسی کی یاد میں وہ جی بھر کہ رویا !!!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کتنی دیر تک
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکتنی دیر تک
کتنی دیر تک

املتاس کے پیڑ کے نیچے

بیٹھ کر ہم نے باتیں کیں

کچھ یاد نہیں

بس اتنا اندازہ ہے

چاند ہماری پشت سے ہو کر

آنکھوں تک آپہنچا !!!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کتبہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکتبہ
یہاں پہ وہ لڑکی سو رہی ہے

کہ جسکی آنکھوں نے نیند سے خواب مول لے کر

وصال کی عمر رتجگے میں گزار دی تھی

عجیب تھا انتظار اسکا

کہ جس نے تقدیر کے تنک حوصلہ مہاجن کے ساتھ

بس اک دریچۂنیم با ز کے سکھ پہ

شہر کا شہر رہن کروا دیا تھا

لیکن وہ ایک تارہ

کہ جس کی کرنوں کے مان پر

چاند سے حریفانہ کشمکش تھی

جب اس کے ماتھے پہ کھلنے والا ہوا

تو اس پل

سپیدۂصبح بھی نمودار ہو چکا تھا

فراق کا لمحہ آ چکا تھا۔۔۔

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کانچ کی سُرخ چوڑی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکانچ کی سُرخ چوڑی
کانچ کی سُرخ چوڑی

میرے ہاتھ میں

آج ایسے کھنکنے لگی

جیسے کل رات شبنم سے لکھی ہوئی

ترے ہاتھوں کی شوخیوں کو

ہواؤں نے سَر دے دیا ہو ۔۔۔

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
کالا بھوت
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمکالا بھوت
جیسے کوئلے کے نطفے سے جنم لیا ہو

ایک جہنمی درجۂ حرارت پر رہتے ہوئے

اُس کا کام

دہکتی بھٹی میں کوئلے جھونکتے رہنا تھا

اُس کے بدلے

اُس کو اُجرت بھی زیادہ ملتی تھی

اور خوراک بھی خصوصی

اور ایک وقت میں چار گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جاتا تھا

لیکن شاید اس کو یہ نہیں معلوم

کہ خود کشی کے اس معاہدے پر

اُس نے

بقائمی ہوش و حواس دستخط کئے ہیں

اس بھٹی کا ایندھن دَراصل وہ خود ہے!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
فلاور شو
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمفلاور شو
پُھول ہی پُھول ہیں

تا بہ حدِ نظر

آتشی، آسمانی، گُلابی

کاسنی، چمپئی،ارغوانی

کتنے مشتاق ہاتھوں نے، کتنی،

یاسمین یاسمن اُنگلیوں نے

اِ س طرح سے سجایا،سنواراانھیں

اور پھر دادِ اہلِ نظر اور تحسینِ چشمِ نگاراں ملی

یہ نہ سوچا کسی نے،کہ گُل نے

شاخ سے ٹُوٹ کر

حسن کے اس سفر میں

کِس طرح کی اذیت اُٹھائی!

ہم کہ شاعر ہیںِ__نوکِ قلم سے

فِکر کے پُھول مہکا رہے ہیں ،

اپنی سوچوں کی تابندگی سے

عارضِ وقت چمکا رہے ہیں

ایک وقت ایسا بھی ا رہا ہے

جب کہ دیوان اپنے

آبنوس اور مرمر کے شیلفوں میں پتھر کی مانند سج جائیں گے

یاسمن یاسمن اُنگلیاں

شعر کے لمس سے بے خبر

ان کو ترتیب دیں گی

نرگسی نرگسی کتنی آنکھیں

حُسنِ ترتیب کی داد دیں گی

اس حقیقت سے نا آشنا___

حُسنِ تخلیق کے اس سفر میں

ہم نے کیسی اذیت اُٹھائی !

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
فاصلے
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمفاصلے
چند خط روز لِکھا کرتے تھے

دُوسرے تیسرے ، تم فون بھی کر لیتے تھے

اور اب یہ ، کہ تمھاری خبریں

صرف اخبار سے مل پاتی ہیں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
عیادت
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمعیادت
پت جھڑ کے موسم میں تجھ کو

کون سے پُھول کا تحفہ بھیجوں

میر ا آنگن خالی ہے

لیکن میری آنکھوں میں

نیک دُعاؤں کی شبنم ہے

شبنم کا ہرتارہ

تیراآنچل تھام کے کہتا ہے

خوشبو،گیت ہَوا،پانی اور رنگ کو چاہنے والی لڑکی!

جلدی سے اچھی ہو جا

صبحِ بہار کی آنکھیں کب سے

تیری نرم ہنسی کا رستہ دیکھ رہی ہیں !

آئینہ

لڑکی سرکوجُھکائے بیٹھی

کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے

لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل

لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو

اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے

دونوں میری نظر بچا کر

اک دُوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں !

میں دونوں سے دُور

دریچے کے نزدیک

اپنی ہتھیلی پراپنا چہرہ رکھے

کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی ہوں

سوچ رہی ہوں

گئے دنوں میں ہم بھی یونہی ہنستے تھ

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
ضِد
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمضِد
میں کیوں اُس کو فون کروں !

اُس کے بھی تو علم میں ہو گا

کل شب

موسم کی پہلی بارش تھی

پروین شاکر
Rate this:
      1 Vote
تبصرہ چھوڑیں
صرف ایک لڑکی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمصرف ایک لڑکی
اپنے سر د کمرے میں

میں اُداس بیٹھی ہوں

نیم وا دریچوں سے

کاش میرے پَر ہوتے

نَم ہوائیں آتی ہیں

تیرے پاس اُڑ آتی

میرے جسم کو چُھو کر

کاش میں ہَوا ہوتی

آگ سی لگاتی ہیں

تجھ کو چُھو کے لوٹ آتی

تیرا نام لے لے کر

میں نہیں مگر کُچھ بھی

مُجھ کو گدگداتی ہیں

سنگ دِل رواجوں کے

آہنی حصاروں میں

عمر قید کی ملزم

صرف ایک لڑکی ہوں

تیری ہم رقص کے نام

رقص کرتے ہوئے

جس کے شانوں پہ تُو نے ابھی سر رکھا ہے

کبھی میں بھی اُس کی پناہوں میں تھی

فرق یہ ہے کہ میں

رات سے قبل تنہا ہُوئی

اور تُو صبح تک

اس فریبِ تحفظ میں کھوئی رہے گی

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
شہرِچارہ گراں
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمشہرِچارہ گراں
پس شہرِ چارہ گراں

نرم آبی قباؤں میں ملبوس کُچھ نوجواں

اپنے اپنے فرائض کی تکمیل میں

مثلِ موجِ صبا ،پھر رہے ہیں

آنسوؤں کا مداوا

دُکھوں کی مسیحائی

زخمِ ہُنر کی پذیرائی کرتے ہُوئے

پُھول چہرہ،فرشتہ قبا،زندگی رنگ،شبنم زباں ،چاندنی لمس،عیسیٰ نفس چارہ گر مجھ کو بے طرح اچھے لگے

جی یہ چاہا کہ اُن کے لیے کُچھ لکھوں

اُن کے چہروں کی یہ مہرباں چاندنی

اُن کی آنکھوں کی یہ نرم دل روشنی

ان کے لہجوں کی غم خوار تابندگی

ان کے ہونٹوں کی دلدار پیاری ہنسی

یوں ہی روشن رہے، جگمگاتی رہے

زندگی اُن کے ہمراہ ہنستی رہے

یہ دُعا میرے ہونٹوں پہ لیکن اُدھوری رہی

دفعتاً جانے کس سمت سے

ایک انساں کا زخمی بدن ا گیا

خُوں میں ڈوبا ہُوا،کرب آلُود چہرہ

مرے ذہن پر اس طرح چھا گیا

میری پلکوں کی مانند لہجہ بھی نم ہو گیا

گفتگو کی قبا بھی لُہو رنگ ہونے لگی

مگر جو مسیحا مِرے سامنے تھا

کھڑا مُسکراتا رہا

سلسلہ اُس کی باتوں کا چلتا رہا

اُس کی آنکھوں میں ہلکا سا بھی دُکھ نہ تھا

بلکہ وہ

میری افسردگی دیکھ کر ہنس دیا___:

’’بی بی ! اس طرح تو روز ہوتا ہے

کوئی کہاں تک پریشان ہو

کون اوروں کے دُکھ مول لے

روز کی بات ہے

چھوڑیے بھی اسے۔آئیں باتیں کریں !‘‘

میری آنکھیں تقدس کے پیکر کو حیرت سے تکنے لگیں

میں فرشتوں کے پرسے تراشے ہُوئے

نرم آبی لبادے میں ملبوس انسان کو دیکھتی رہ گئی

مجھ کو لوگوں نے سمجھایا۔۔’’دیکھو۔۔سُنو۔۔

یہ مسیحا ہیں ،ان کے لیے موت بھی

عام سا واقعہ ہے،قیامت نہیں !‘‘

چارہ سازی کی منزل مبارک انھیں

پر یہاں تک یہ جس راہ سے آئے ہیں

اُس میں ،ہر موڑ پر

ان کے دِل کے پیروں تلے آئے ہیں

نرم حسّاس دل کے عوض،چارہ سازی خریدی گئی

اور یہ قیمت بہت ہی بڑی ہے۔۔بہت ہی بڑی

سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا

وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہَوا ہی لگا

میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں

جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھی بھلا ہی لگا

زباں سے چُپ ہے مگر آنکھ بات کرتی ہے

نظر اُٹھائی ہے جب بھی تو بولتا ہی لگا

جو خواب دینے پہ قادر تھا، میری نظروں میں

عذاب دیتے ہُوئے بھی مجھے خدا ہی لگا

نہ میرے لُطف پہ حیراں نہ اپنی اُلجھن پر

مُجھے یہ شخص تو ہر شخص سے جُدا ہی لگا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
شہر آشوب
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمشہر آشوب
اپنی بود و باش نہ پُوچھو

ہم سب بے توقیر ہوئے

کون گریباں چاک نہیں ہے

ہم ہوئے تم ہوئے میر ہوئے

سہمی سہمی دیواروں میں

سایوں جیسے رہتے ہیں

اس گھر میں آسیب بسا ہے

عامل کامل کہتے ہیں

دیکھنے والوں نے دیکھا ہے

اک شب جب شب خون پڑا

گلیوں میں بارود کی بُو تھی

کلیوں پر سب خون پڑا

اب کے غیر نہیں تھا کوئی

گھر والے دشمن نکلے

جن کو برسوں دودھ پلایا

ان ناگوں کے پھن نکلے

رکھوالوں کی نیت بدلی

گھر کے مالک بن بیٹھے

جو غاصب تھے محسن کُش تھے

صوفی سالک بن بیٹھے

جو آواز جہاں سے اُٹھی

اس پر تیر تبر برسے

ایسے ہونٹ سلے لوگوں کے

سرگوشی کو بھی ترسے

گلی گلی میں بندی خانے

چوک چوک میں مقتل ہیں

جلادوں سے بھی بڑھ چڑھ کر

منصف وحشی پاگل ہیں

کتنے بے گنہوں کے گلے پر

روز کمندیں پڑتی ہیں

بُوڑھے بچے گھروں سے غائب

بیبیاں جیل میں سڑتی ہیں

اس کے ناخن کھینچ لئے ہیں

اس کے بدن کو داغ دیا

گھر گھر قبریں در در لاشیں

بجھا ہر ایک چراغ دیا

ماؤں کے ہونٹوں پر ہیں نوحے

اور بہنیں کُرلاتی ہیں

رات کی تاریکی میں ہوائیں

کیسے سندیسے لاتی ہیں

قاتل اور درباری اس کے

اپنی ہٹ پر قائم ہیں

ہم سب چور لُٹیرے ڈاکو

ہم سب کے سب مجرم ہیں

ہمیں میں کوئی صبح سویرے

کھیت میں مُردہ پایا گیا

ہمیں سا دہشت گرد تھا کوئی

چھُپ کے جسے دفنایا گیا

سارا شہر ہے مُردہ خانہ

کون اس بھید کو جانے گا

ہم سارے لا وارث لاشیں

کون ہمیں پہچانے گا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
شکست
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمشکست
بارہا مجھ سے کہا دل نے کہ اے شعبدہ گر

تو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ہے

کبھی اس حسنِ دل آرا کی بھی تصویر بنا

جو تری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ہے

بارہا دل نے یہ آواز سنی اور چاہا

مان لوں مجھ سے جو وجدان میرا کہتا ہے

لیکن اس عجز سے ہارا میرے فن کا جادو

چاند کو چاند سے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
شرط
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمشرط
ترا کہنا ہے

’’مجھ کو خالقِ کون و مکاں نے

کِتنی ڈھیروں نعمتیں دی ہیں

مری آنکھوں میں گہری شام کا دامن کشاں جادو

مری باتوں میں اُجلے موسموں کی گُل فشاں خوشبو

مرے لہجے کی نرمی موجۂ گل نے تراشی ہے

مرے الفاظ پر قوسِ قزح کی رنگ پاشی ہے

مرے ہونٹوں میں ڈیزی کے گلابی پُھولوں کی رنگت

مرے رُخسار پر گلنار شاموں کی جواں حِدّت

مرے ہاتھوں میں پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے

مرے بالوں میں برساتوں کی راتیں اپنا رستہ بُھول جاتی ہیں

میں جب دھیمے سُروں میں گیت گاتی ہوں

تو ساحل کی ہوائیں

اَدھ کھلے ہونٹوں میں ،پیاسے گیت لے کر

سایہ گُل میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہیں

مرا فن سوچ کو تصویر دیتا ہے

میں حرفوں کو نیا چہرہ

تو چہروں کو حروفِ نوکا رشتہ نذر کرتی ہوں

زباں تخلیق کرتی ہوں ۔‘‘

ترا کہنا مجھے تسلیم ہے

میں مانتی ہوں

اُس نے میری ذات کو بے حد نوازا ہے

خدائے برگ و گل کے سامنے

میں بھی دُعا میں ہوں ،سراپا شکر ہوں

اُس نے مجھے اِتنا بہت کُچھ دے دیا، لیکن

تجھے دے دے تو میں جانوں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
سمندر کی بیٹی
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمسمندر کی بیٹی
وسعتوں سے سدا اُس کا ناتا رہا تھا

کُھلے آسمانوں

کُھلے پانیوں

اور کُھلے بازؤوں سے ہمیشہ محبت رہی تھی

ہَوا،آگ،پانی،کرن اور خوشبو

وہ سارے عناصر جو پھیلیں تو ہر دو جہاں اپنی بانہوں میں لے لیں

سد ا اُس کے ساتھی رہے تھے

وہ جنگل کی اَلھڑ ہوا کی طرح راستوں کے تعین سے آزاد تھی

وہ تو تخلیقِ فطرت تھی

پر خُوبصورت سے شوکیس میں قید کر دی گئی تھی

قفس رنگ ماحول کے حبس میں سانس روکے ہُوئے تھی

کہ اِک دم جو تازہ ہَوا کی طرح

اِک نویدِ سفر آئی۔تو

ایک لمحے کو آزاد ہونے کی وحشی تمنا میں ۔وہ

ایک بچے کی صُورت مچلنے لگی

شہر سے دُور

ماں کی محبت کی مانند

بے لوث،بے انتہا مہرباں دوست اُس کے لیے منتظر تھا

نرم موجیں کُھلے بازؤوں اس کی جانب بڑھیں

اور وہ بھی ہوا کی طرح بھاگتی ہی گئی

اور پھر چند لمحوں میں دُنیا نے دیکھا

سمندر کی بیٹی سمندر کی بانہوں میں سمٹی ہُوئی تھی!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
سُکھ کے موسم کا دُکھ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمسُکھ کے موسم کا دُکھ
آنے والی رُتوں کے آنچل میں

کوئی ساعت سعید کیا ہو گی

رات کے وقت رنگ کیا پہنوں

روشنی کی کلید کیا ہو گی

جبکہ بادل کی اوٹ لازم ہو

جانتی ہوں ،کہ دید کیا ہو گی

زردموسم کی خشک ٹہنی سے

کونپلوں کی اُمید کیا ہو گی

چاند کے پاس بھی سُنانے کو

اب کے کوئی نوید کیا ہو گی

گُل نہ ہو گا تو جشنِ خوشبو کیا

تم نہ ہو گے تو عید کیا ہو گی

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
سفر
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمسفر
بارش کا اِکقطرہ آکر

میری پلک سے اُلجھا

اور آنکھوں میں ڈُوب گیا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
سرشاری
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمسرشاری
ہاں ، یہ موسم تو وہ ہے

کہ جس میں نظر چُپ رہے

اور بدن بات کرتا رہے

اُس کے ہاتھوں کے شبنم پیالوں میں

چہرہ میرا

پھول کی طرح ہلکورے لیتا رہے

پنکھڑی پنکھڑی

اُس کے بوسوں کی بارش میں

پیہم نِکھرتی رہے

زندگی اس جنوں خیز بارش کے شانوں پر سر کو رکھے

رقص کرتی رہے!

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
سرِ شاخِ گُل
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمسرِ شاخِ گُل
وہ سایہ دار شجر

جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی

لطیف چھاؤں

سجل، نرم چاندنی کی طرح

مرے وجود،مری شخصیت پہ چھائی ہے!

وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں

جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں

وہ ایک مشفقِ دیرینہ کی دُعا کی طرح

شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی

کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے

وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح

شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو

مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں !

اُداسیوں کی کسی جانگذار ساعت میں

میں اُس کی شاخ پہ سر رکھ کے جب بھی روئی ہوں

تو میری پلکوں نے محسوس کر لیا فوراً

بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس!

(نِمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں !)

کڑی دھوپ ہے

تو پھر برگ برگ ہے شبنم

تپاں ہوں لہجے

تو پھر پُھول پُھول ہے ریشم

ہرے ہوں زخم

تو سب کونپلوں کا رَس مرہم!

وہ ایک خوشبو

جو میرے وجود کے اندر

صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے

کرن کرن مری سوچوں میں جگمگاتی ہے

(مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند مرا یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر!)

وہ ایک جھونکا

جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا

اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں

میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے

بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بند کیے

جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جا رہی ہوں میں !

وہ سایہ دار شجر

جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے

وہ رات میں ،مرے آنگن پہ ٹھہرنے والا

شفیق ،نرم زباں ،مہرباں بادل ہے

مرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی

جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے

تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں

دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں

ہزار چاند ،سرِشاخ گُل اُبھرتے ہیں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
سالگرہ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمسالگرہ
یہی وہ دن تھا

جب آج سے چار سال پہلے

اسی روش پر،بنفشی بیلوں کے نرم سائے میں ہم ملے تھے

وہ لمحہ جبکہ ہمارے جسموں کو اپنے ہونے کا

حیرت آمیز،راحت افزا،نشاطِ اثبات مل سکا تھا

ہماری رُوحوں نے اپنا اپنا ،نیا سنہری جنم لیا تھا

وہ ایک لمحہ

ہماری روحوں کو اپنے دستِ جمال سے چُھو رہا ہے اب تک نظر کو شاداب کر رہا ہے

بدن کو مہتاب کر رہا ہے

ہم اس کے مقروض ہو چکے ہیں !

سو آؤ اب اس عظیم لمحے کے نام کوئی دُعا کریں ہم

اُٹھائیں ہاتھ

اور محبتوں کی تمام تر شدتوں سے چاہیں

کہ جب بھی چھبیس جون کا آفتاب نکلے

تو ہم اُسے ایک ساتھ دیکھیں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
ساتھ
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمساتھ
کتنی دیر تک

املتاس کے پیڑ کے نیچے

بیٹھ کے ہم نے باتیں کیں

کچھ یاد نہیں

بس اتنا اندازہ ہے

چاند ہماری پشت سے ہو کر

آنکھوں تک آ پہنچا

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
زود پشیماں
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمزود پشیماں
گہری بھوری آنکھوں والا اک شہزادہ

دور دیس سے

چمکیلے مشکی گھوڑے پر ہوا سے باتیں کرتا

جَگر جَگر کرتی تلوار سے جنگل کاٹتا

دروازے سے لپٹی بیلیں پرے ہٹاتا

جنگل کی بانہوں میں جکڑے محل کے ہاتھ چھڑاتا

جب اندر آیا تو دیکھا

شہزادی کے جسم کی ساری سوئیاں زنگ آلودہ تھیں

رستہ دیکھنے والی آنکھیں سارے شکوے بھول چکی تھیں

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
زمیں پہ جب کسی نئے وجُود نے جنم لیا
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمزمیں پہ جب کسی نئے وجُود نے جنم لیا
زمیں پہ جب کسی نئے وجود نے جنم لیا

یقین ا گیا

خدا ابھی بشر سے بدگماں نہیں

مگر نئی کلی کا رنگ دیکھ کر

یہ واہمہ بھی جاگ اُٹھا

خدا بہار سے خفا ہے کیا؟

خدا خفا ہو یا نہ ہو

ہَوا ضرور بدگمان ہے!

یہ زرد رُو،دریدہ جاں

یہ پور پور استخواں

اماوسوں کی رات میں نہ لوریاں ،نہ پالنا

خزاں کے ہاتھ بچ سکیں نہ شوخیاں نہ بچپنا

نہ ان کا ذہن آگہی کے لمس کا شریک ہے

نہ ان کی آنکھ روشنی کے ذائقے سے آشنا!

ضِدوں کا وقت اور خود کو روکنا

شرارتوں کی عُمر اور سوچنا!

یہ سراُٹھائیں کیا،انھیں کسی پہ مان ہی نہیں

کسی کا پیار ان کے حوصلوں کی جان ہی نہیں

ہَوائیں خوشبوؤں کے تحفے دلدلوں کے پار لے گئیں

گھٹائیں بارشوں کے سب سندیس ندیوں کو دے گئیں

غزال اب بھی تشنہ کام ہی رہے

ہَوا سے صرف نامہ و پیام ہی رہے

وہی ہے تشنگی،وہی رُتوں کی کم نگاہیاں

وہی اکیلا پن،وہی سمے کی کج ادائیاں

ہَوا میں طائرانِ آہنی کا وصل(اگرچہ)خُوب ہے

(خلا سے لے کر چاند تک زمیں کہاں غروب ہے؟)

مگر زمیں کے اپنے چاند،آج بھی گہن میں ہیں

جبیں کے داغ کیا دُھلیں ،سیاہیاں کرن میں ہیں

صبا نفس حیات کا جمال بے نمو رہا!

ہوا گزیدہ پُھول کا لباس بے رفو رہا

ہمکتے کِھلکھلاتے بچے اب خیال و خواب ہو گئے

ہمارے اگلے

اپنی بے بضاعتی میں کیا عذاب گئے

یہ شب نصیب

جن کو بُھوک نے جنم دیا ہے

تشنگی نے دیکھ بھال کی

یہ کھوکھلی جڑیں

نئی رُتوں میں شاخسارِجاں کو

کیسی کونپلیں عطا کریں گی؟

(کرسکیں گی؟۔۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے)

شدید موسموں پہ پلنے والے پیڑ

کتنے اُونچے جائیں گے؟

یہ بے ثمر درخت

اپنی چھاؤں کتنی دُور لائیں گے؟

جڑوں کی بانجھ کھوکھ میں نہ رنگ ہے ،نہ رُوپ ہے

نظر کی آخری حدوں تلک

فضا میں صرف دُھوپ ہے!

نوادرات ،سیم و زر،گئے زمانوں کی کہانیاں بھی

محترم ہیں

ان کو جمع کرنا نیک کام ہے

مگر یہ بچے زندگی ہیں

میوزیم کے افسران زندگی جمع کریں

اِسے پناہ دیں !

اسے نمود دیں !

اسے غرور دیں !

یہ بے اماں ۔۔یہ بے مکاں

یہ کم لباس، کم زباں

انھیں بھی راستوں میں نرم چھاؤں کی نوید ہو

ہرے بھرے لباس میں کبھی تو ان کی عید ہو

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
روزنا جرمن نژاد
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمروزنا جرمن نژاد
روزنا جرمن نژاد

اس کے ہونٹوں میں حرارت

جسم میں طوفاں

برہنہ پنڈلیوں میں آگ

نیت میں فساد

رنگ و نسل و قامت و قد

سرزمین و دین کے سب تفرقوں سے بے نیاز

ہر کسی سے بے تکلف، ایک حد تک دلنواز

وہ سبھی کی ہم پیالہ، ہم نفس

عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس

روزنا جرمن نژاد

اور دیکھنے والوں میں سب

اس کی آسودہ نگاہی، بے محابا میگساری کے سبب

پیکر تسلیم و سر تا پا طلب

ان میں ہر اک کی متاع کل

بہائے التفات نیم شب

روزنا جرمن نژاد

اور اس کا دل۔ ۔ ۔ زخموں سے چُور

اپنے ہمدردوں سے ہمسایوں سے دور

گھرکی دیواریں نہ دیواروں کے سایوں کا سرور

جنگ کے آتش کدے کا رزق کب سے بن چکا

ہر آہنی بازو کا خوں

ہر چاند سے چہرے کا نور

خلوتیں خاموش و ویراں

اور دہلیز پر اک مضطرب مرمر کا بت

ایستا وہ ہے بچشم ناصبور

کون ہے اپنوں میں باقی

تو سن راہ طلب کا شہسوار

ہر دریچے کا مقدر، انتظار

اجنبی مہمان کی دستک خواب

شاید خواب کی تعبیر بھی

چند لمحوں کی رفاقت جاوداں بھی

حسرت تعمیر بھی

الوداعی شام، آنسو، عہد و پیماں

مضطرب صیاد بھی، نخچیر بھی

کون کر سکتا ہے ورنہ ہجر کے کالے سمندر کو عبور

اجنبی مہماں کا اک حرف فوار

نومید چاہت کا غرور

روزنا اب اجنبی کے ملک میں خود اجنبی

پھر بھی چہرے پر اداسی ہے نہ آنکھوں میں تھکن

اجنبی کا ملک جس میں چار سو

تاریکیاں ہی خیمہ زن

سب کے سایوں سے بدن

روزنا مرمر کا بت

اور اس کے گرد

ناچتے سائے بہت

سب کے ہونٹوں پر وہی حرف وفا

ایک ہی سب کی صدا

وہ سبھی کی ہم پیالہ، ہم نفس

عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس

اس کی آنکھوں میں تجسس اور بس

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
ابھی تک ایک تبصرہ
رقص
نومبر 14, 2014پروین شاکر، آزاد نظمرقص
آئینہ سے فرش پر

ٹوٹے بدن کا عکس،

آدھے چاند کی صورت لرزتا ہے

ہوا کے وائلن کی نرم موسیقی

خنک تاریکیوں میں

چاہنے والوں کی سرگوشی کی صورت بہہ رہی ہے

اور ہجومِ ناشناساں سے پرے

نسبتاً کم بولتی تنہائی میں

اجنبی ساتھی نے ، میرے دل کی ویرانی کا ماتھا چُوم کر

مجھ کو یوں تھاما ہُوا ہے

جیسے میرے سارے دُکھ اب اُس کے شانوں کے لیے ہیں !

دونوں آنکھیں بند کر کے

میں نے بھی اِن بازؤوں پر تھک کے سریوں رکھ دیا ہے

جیسے غربت میں اچانک چھاؤں پاکر راہ گم گشتہ مسافر پیڑ سے سر ٹیک دے!

خواب صورت روشنی

اور ساز کی دلدار لے

اُس کی سانسوں سے گُزر کر

میرے خوں کی گردشوں میں سبز تارے بو رہی ہے

رات کی آنکھوں کے ڈورے بھی گُلابی ہو رہے ہیں

اُس کے سینے سے لگی

میں کنول کے پُھول کی وارفتگی سے

سر خوشی کی جھیل پر آہستہ آہستہ قدم یوں رکھ رہی ہوں

جیسے میرے پاؤں کچّی نیندوں میں ہوں اور ذرا بھاری قدم رکھے تو پانی ٹوٹ جائے گا

شکستہ روح پر سے غم کے سارے پیرہن

ایک ایک کر کے اُترتے جا رہے ہیں

لمحہ لمحہ

میں زمیں سے دُور ہوتی جا رہی ہوں

اب ہَوا میں پاؤں ہیں

اب بادلوں پر

اب ستاروں کے قریب

اب ستاروں سے بھی اُوپر،…۔۔

اور اُوپر…۔۔اور اُوپر…۔۔اور۔۔۔۔۔۔

پروین شاکر
Rate this:
      Rate This
تبصرہ چھوڑیں
یاور ماجد

یاور ماجد
تصاویر

This slideshow requires JavaScript.

سخن سرا پر ۔۔۔

شکیل سروش کا ادبی رسالہ ادب و ثقافت
آفتاب اقبال شمیم
احمد فراز
افتخار فلک
امیر مینائی
امیر خسرو
باصر سلطان کاظمی
پروین شاکر
توقیر عباس
جون ایلیا
داغ دہلوی
رفاقت حیات
سعادت حسن منٹو
شکیب جلالی
عرفان ستار
عرفان صدیقی
قمر جلالوی
گلناز کوثر
ماجد صدیقی
مرزا اسد اللہ خان غالب
مجید امجد
مصطفٰی خان شیفتہ
منصور آفاق
مولانا الطاف حسین حالی
میر تقی میر
ن م راشد
نینا عادل
Follow Blog via Email

Enter your email address to follow this blog and receive notifications of new posts by email.

Join 180 other followers

اپنا ای میل ایڈریس لکھیں

فالو کریں

سخن سرا

آفتاب اقبال شمیم عرفان صدیقی فیض احمد فیض ماجد صدیقی مجید امجد مرزا اسد اللہ خان غالب منصور آفاق میر تقی میر نظم پروین شاکر
تلاش

تلاش کریں:
تلاش کریں …
WordPress.com پر بلاگ.
:)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری