حواس انسانی

،السلام علیکم

      پیش خدمت ہے اس سفر کا پہلا مرحلہ جس سفر سے گزر  کر مجھے وہ نصیب ہوا جس کی تلاش اس جہاں کے ہر اس انسان کو ہے جو سوچتا ہے، سمجھتا ہے اپنے آپ کو اشرفالمخلوقات کہتا تو ہے لیکن اس لفظ کے حقیقی معنی سے ناواقف ہے۔
  میں آپکو بتاتا چلوں کے میں اپنی اس تحریر میں جو کہ مختلف مراحل پر مشتمل ہوگی ہر ایک مرحلہ یعنی ایک پوسٹ کے تمام سوالات جو کہ اس تحریر کے متعلق  ہوں گے کا کمنٹس میں مکمل جواب دیا جایے گا۔میری اس چھوٹی لیکن محنت طلب کاوش کا اسکے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں کہ میں اس با سکون قلب اور بیدار روح جس میں حقیقی زندگی اپنے پورے جوش و خروش کے ساتھ جلوا افروز ہے کو آپ تک پہنچاوں۔
   اس سلسلہ میں دیکھیں گے اور جاننے کی کوشش کرینگے کہ ہمارا بے قابو دماغ جس نے ہماری زندگی کے حقیقی سکون کو برباد کیا ہوا ہے وہ کس کس طرح ہم پر حملہ آور ہو کر اس زندگی کے رنگ خون کہ طرح چوس رہا ہے اور ہم بیس،پچس یا صرف تیس سال کہ عمر میں موت کی تمنا کر رہے ہیں۔
ہم دیکھے گے ہماری حقیقی ہستی کیا ہے۔۔۔؟
اس ہستی یا خودی تک رسائی کیسے پا سکتے ہیں۔؟
غصہ کہا سے اور کیسے وجود میں آتا ہے۔۔؟
بیمار اور غیر فعال دماغ کیا ہے۔۔؟؟
مراقبہ، حقیقی بیداری، خودی، بیدار دماغ کیا ہوتے ہیں؟ اور اس طرح کے بہت سے سوالات کی
الجھی گتھیاں سلجھائے گیں۔ میں ان تمام مراحل میں آپ سے آاس سفر کی داستان بیان کرونگا جو میں نے ڈپریشن، اینیگژائیٹی اور شدید قسم کی بے چینی سے سکون قلب، اندرونی بیداری اور زندگی کی حقیقی خوشی کو حاصل کرنے کے درمیان طے کیا۔

یہ تبدیلی میری زندگی میں ایک 'دا پاور آف ناو (THE POWER OF NOW)' نام کی کتاب سےبرپا ہوئی جس کو بار ہا دفعہ پڑھنے کے بعد اب بھی کبھی پڑھتا ہوں تو میرے اندر کی ایک نئی دنیا اپنی زندہ حالت میں میرے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس کتاب کا مصنف 'آکہارٹ ٹولے'(Eckhart Tolly) نامی جرمن شخص پے۔ ٹولے کو آپ اس دور کا جدید صوفی بھی کہہ سکتے ہیں اور آپ اسکو روحانی اور دماغ کی گہری ترین سطحوں پر عبور رکھنے والا بیدار انسان بھی کہہ سکتے ہیں۔اس کتاب میں کوئی خیالی دنیا نہیں دکھائی گئی بلکہ در حقیقت انسان پر لکھی گئی شاندار کتاب ہے جس کا موزو سیدھا آپ ہیں۔
جی ہاں آپ خود محسوس کرے گے کہ میں تو آپ ہی کے دماغ کی کہانی سنا رہا ہوں سیدھا ان مسائل کو بیان کر رہا ہوں جو آپ سب کے ساتھ ہیں۔ اس بات کا اندازہ آپ کو میرے خیالات سن کر ضرور ہوگا۔ یہ کتاب اپنے آپ میں ایک جیتا جاگتا شاہ کار ہے جس کی نظیر گزشتہ کئی صدیوں میں سامنے نہ آ سکی۔ یہ کتاب دماغ کی الجھی ہوئی گتھیوں،  نفس، انسانی روئیے اور ان رویوں کے انسانیت پر پڑنے والے تمام عوامل کا بہت باریک بینی سے بحث کرتی اور جائزہ لیتی ہے۔ جسکو جیسے جیسے آپ پڑھتے جاتے ہیں ساتھ ساتھ آپ اپنی خودی یعنی حقیقی آپ میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں جو کہ کئی دماغی سوچوں کے نیچے کہیں دفن پڑی ہے۔
    1992 میں شائع ہونے والی اس کتاب کی 30لاکھ جلدیں صرف شمالی امریکہ میں فروخت ہوئیں اور باقی دنیا کے اعداد  شمار مختلف ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کی انیسویں صدی اور موجودہ دور میں انسانو  پر اپنا سب سے زیادہ اثر چھوڑنے والی کتاب یہی ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ جن کی زندگی اس کتاب نے بدلی ان میں سے میں بھی ایک نہ چیز ہو۔ جس کے دکھ درد غم شعور کی ایسی حالت میں پہنچ کر خود ہی تحلیل ہو گئے جو آصلی حقیقی شعور کی حالت تھی۔ پریشان مت ہوں آپ بھی اس حالت کو پاسکتے ہیں بس میرے ساتھ رہیئے اور اس نظریئے سے مجھے سنیئے کہ آپ بھی اپنے اندر یہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ میں اس تحریر میں چند الفاظ استعمال کروں گا جنکی تشریح ساتھ ساتھ کرتا رہونگا۔
  میں کوشش کروں گا کہ وہ سوالات جو میری تحریر پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں ابھرے گیں، خود لکھ کر جواب دیتا رہوں۔ لیکن پھر بھی اگر کسی بات یا لفظ کی آپکو مزید وضاحت چاہیئے ہوئی تو آپ کمنٹس میں پوچھ سکتے ہیں۔
اپنی اندرونی حالت کو عام طور پر بیان کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن میں ہر ممکن لفظ سے بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرونگا۔ گزارش ہے کہ پہلے مرحلے سے میرے ساتھ رہیئے تاکہ آپ آخر تک میری بات کو سمجھے اور اس قابل ہوسکیں کہ وہ سکون آپکو حاصل ہو جسکے آپ متلاشی ہیں۔ میں آپ کو آپ کے اندر موجود اس سچائی سے آگاہ کرواونگا جو آپ کے اندر پہلے سے ہی موجود ہے۔ وہی ہے حقیقت وہی ہیں اصل آپ۔۔

میری باتوں کو جج کرنے کی بجائے اپنے ذہن کو خالی کریں اور سچائی کو اندر اترنے دیں۔ آپ کا دماغ اس کو جھٹلانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا کیونکہ
جب آپ اپنے آپ کو پہچاننا شروع کرے گے تو ہمارے'آقا' دماغ کو اپنی موت نظر آرہی ہوگی لحاظہ دماغ کے فریب کو اس سچائی کے سفر میں رکاوٹ نہ بننے دیں میری تحریر کو دل کی آنکھ سے پڑھیے۔ میری چھوٹی سی کوشش ہے جو اس امید کے ساتھ شروع کر رہا ہوں کہ اپنے خیالات آپ کے اندر منتقل کر سکوں۔ آپ لوگوں کا رد عمل قابل ستائش ہوا تو سلسلہ جاری رہیگا۔۔۔
   گزارش ہے کہ کچھ مقامات ایسے آئے گیں جہاں میں آپ کو کچھ باطنی ورزشیں یا ایکسرسائیز کرواوگا جس سےآپ پریکٹکلی اس چیز کو محسوس کرے گے جس کی میں بات کر رہا ہونگا اس طرح اپنے ہی تجربات سے بات کو بہترین طریقے سےسمجھ پائے گے ان ورزشوں کو اسی وقت ضرور کجئیے۔
  آئیے ہاتھ تھامیں اور شروع کرتے ہیں۔

1#: حالت بیداری کیا ہے اور یہ کہاں موجود ہے۔۔؟
  
  ایک فقیر تھا جو ایک مصروف شاہ راہ پر تیس سال سے بھیک مانگ رہا تھا۔ آتے اور جاتے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا اور بھیک لینے کی کوشش کرتا۔
     ایک دن اک اجنبی  اس راہ سے گزرا اور بھکاری نے معمول کے مطابق  اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بھیک کی استدعا کی۔ اجنبی رکا بھکاری کو نظر بھر کے دیکھا اور بولا 'بابا میرے پاس آپکو دینے کے لئیے تو کچھ بھی نہیں۔ یہ کہتے ہی لڑکے نے بھکاری سے پوچھا
'بابا آپ جس چیز پر بیٹھے ہیں یہ کیا ہے۔۔؟
بھکاری چونکا اور بولا 'یہ تو کچھ بھی نہیں سوائے اک پرانے صندوق کے  جس پر میں شروع سے بیٹھ کر بھیک مانگتا ہوں۔۔۔ اجنبی نے کہا :
'کیا آپ نے کبھی اس صندوق کو کھول کر دیکھا ہے۔۔؟
کبھی نہیں۔۔ فقیر فوری بولا
لیکن اس سوال کا کیا مطلب۔۔؟؟
اجنبی نے اسرار کیا۔۔ ایک دفعہ اسکے اندر دیکھ تو لو!
بھکاری نے ناگوار انداز میں صندوق کا ڈھکن کھولا تو اسکی آنکھیں حیرت اور یقین نہ آنے والے انداز میں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔
  صندوق  سونے سے بھرا ہوا تھا۔۔۔
میں وہی اجنبی ہوں، جس کے پاس آپکو دینے کےلئے کچھ بھی نہیں میں تو بس کہہ رہا ہوں اپنے اندر جھانکوں۔ صندوق فقیر سے پھر بھی دور تھا لیکن آپ کا اندر آپکی خودی آپ کا سیلف کہیں دور نہیں ہے بس تھوڑا گرد آلود ہو چکا ہے۔ جب تک آپ اس دنیا کو دماغ کی نظر سے دیکھتے رہے گیں تب تک یہ دنیا آپ کو سوائے دکھ دینے کی چیز سے زیادہ کچھ نہیں لگے گی۔ لیکن جب آپ اپنے اندر کو شعور Presence  کی حالت میں لیکر آتے ہیں تو وہاں سب درد تحلیل ہو جاتے ہیں تکلیفیں ختم ہو جاتی ہیں پھر دکھ کا کوئی وجود نہیں رہتا۔
میں آگے چل کر بیدار شعور کی حالت یا  سٹیٹ کو مزید کھول کر بیان کرونگا۔
  دراصل ہم سب بھکاری ہیں ہمارے پاس مال و زر کے ڈھیر ہی کیوں نہ لگے ہوں لیکن سکون ہے کہ آنے کا نام نہیں لیتا۔ مجھے بتائیں سکون آخر آئے بھی تو کس طرح۔۔۔؟ ہم اس جسم کے لئیے سامان پیدا کر رہے ہیں جو بھوکا ہے ہی نہیں اندر کا نفس حقیقت میں جو آپ ہیں وہ بھوکا ہے۔ اس حقیقی آپ کو آپکی سوچوں نے خود میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم اپنی خوشی باہر کی دنیا سے حاصل کرنے کی کوشش میں عمر گنوا دیتے ہیں لیکن عمر گزارنے کے بعد مرتے ہوئے بھی یہی شکوہ لئیے مر جاتے ہیں کہ خوشی نصیب ہی نہیں ہوئی۔ اصل خوشی تو آپ خود ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے آپ ایسی خوشی ہیں جو اس پوری کائنات  سے بڑھ کر ہے۔
وہ خوشی جو کسی دوسرے پر منحصر نہیں ہوتی۔ بس آپ نے کرنا کیا ہے اپنے اندر موجود سیلف Real Self کو جو آپ کی آصل شناخت ہے کو روشن کرنا ہے۔  خود کو اس عالم میں داخل کرنا ہے جو عالم اس فانی دنیا سے کہیں اوپر ہے یمارا مقصد اندر کے شعور کو بیدار کرنا ہے۔
  حقیقت میں اندرونی طور  پر بیدار با شعور ہونا انسان کی وہ فطری حالت ہے جس پر وہ پیدا  ہوتا ہے۔ شعور کی یہ حالت نام اور شکل سے ماورا ہوتی ہےجس کی کوئی شناخت نہیں کوئی شکل نہیں آپ صرف اندر کے شعور کو محسوس کر سکتے ہیں۔
   اندرونی بیداری کی سب سے بہترین تعریف مہاتما بدھا نے 2700 سال پہلے کی تھی۔ وہ کہتے ہے ،'انسانی شعور کی یہ حالت دراصل وہ حالت ہے جہاں دکھ درد تکلیف بیکار سوچیں کچھ بھی نہیں رہتا سب فنا ہو جاتا ہے رہ جاتا ہے تو صرف سیلف'۔۔ سیلف یعنی اصلی اور خالص ترین آپ۔ اور آپ کبھی فنا نہیں ہوتے۔۔ شعور ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ یاد رکھیں ختم وہ چیز ہوتی ہے جو بنائ جاتی ہے۔ جو بنا ہی نہ ہو اور ہمیشہ سے موجود ہے ہو وہ نہیں مٹتا۔ مثال سے سمجھیئے۔
     ایک گھر مٹ سکتا ہے کیونکہ اسکی اکائی اینٹ ہے۔۔ اینٹ ختم ہو سکتے ہے کیونکہ اسکی اکائی مٹی ہے، لیکن مٹی نہیں مٹ سکتی کیونکہ مٹی کو بنایا نہیں گیا۔ وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہےگی۔ آپکا سیلف یا خودی ہی ہے جو اس جہان سے اگلے جہان منتقل ہوتی ہے۔
   اسی طرح آپ کا سیلف آپکی خودی بنائی نہیں گئی وہ کائنات سے پہلے کی کوئی چیز ہے اس خودی پر نظر ڈالے جو آپ کے اندر کہی دب چکی ہے۔ اسکو بیدار کریں اور لاشعوری سے شعور کا سفر شروع کریں۔
  آپ صرف ایک جسم نہیں ہیں۔۔۔ ہم نے خود کو چیزوں سے جوڈ لیا ہے۔۔ یاد رہیں جب ہم کہتے ہیں میری گاڑی، میرا گھر یا میرے کپڑے۔ ذرا غور فرمائیے وہ گاڑی آپ 'کی' ہے لیکن وہ گاڑی آپ نہیں۔۔۔ وہ گھر اور کپڑے آپ 'کے ہیں لیکن آپ نہیں۔ اسی طرح یہ جسم بھی آپ کا ہے لیکن ہر گز ہر گز آپ نہیں۔۔ اس الیوژن  Allusion  سے باہر نکلیں ایک آپ یہ جسم نہیں آپ وہ ہیں جو اس جسم کو آبزرو(Observe) کر رہے ہیں اس میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں اسکے گواہ ہیں آپ مشاہدہ کرنے والے ہیں لیکن جسم ہر گز نہیں۔ جسم سے باھر نکلیئے تو آپ کے سامنے ایک نئی دنیا کھل کے سامنے آئے گی۔۔
  وہ دنیا جو لا فانی ہے جو لا مادی ہے جو لا تحلیل ہے۔
اس بات کو سمجھیں آپ محض ایک جسم کا نام نہیں ہیں آپکے اندر 2 جہاں پوشیدہ ہیں۔ آپ فقط مٹی کی پتلی نہیں ہیں۔ جو آخر  میں مٹی سے مٹی ہو جائے۔ زندگی دراصل آپکے باہر نہیں آپ کے اندر اپنی پوری شان کے ساتھ موجود ہے ۔۔ زندگی کو دوسروں کے ساتھ مت باندھ لیں چیزوں کے داتھ زندگی کو جوڈ کر زندگی کی تزلیل نی کریم۔۔۔ آپ وہ ہستی ہیں جو سکون کا مرکز ہے وہ خودی جو موت سے ماورا ہے وہ کہیں دور نہیں آپکے بلکل قریب ہے بلکہ بے حد قریب جسے آپ ابھی محسوس کر سکتے ہیں۔۔ ۔ خود کو اپنے جسم سے جاننا پہچاننا چھوڑ دیں اسی وقت۔
میں ابھی اسی وقت آپ کو آپکی حقیقی خودی اصل ہستی سے ملواتا ہوں۔!
  آپ اس ندی کی طرح پر سکون حالت میں بیٹھ جائیے۔۔۔ جس ندی میں کوئی لہر نہیں۔۔ کوئی شور نہیں کچھ حل چل نہیں۔۔۔۔ دماغ کو سکون دیں۔۔ دماغ کو چپ کروائیں۔۔۔
سب سکون میں آجائے۔۔ تو بھول جائیں ماضی کو۔۔۔ ماضی کچھ نہیں ہوتا۔۔ مستقبل کچھ نہیں ہوتا۔۔ یہ سب دماغ کا بنایا ہوا وقت ہے۔۔۔ حقیقی وقت صرف لمحہ موجود ہے۔۔۔ یہ وقت جو ابھی موجود ہے۔۔ یہ گزر گیا تو سمجھو مر چکا۔۔۔ کیونکہ تب یہ رہا ہی نہیں۔۔ جو رہا ہی نہیں وہ ہماری زات پر کس طرح اثر ا داز ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ زرا سوچیں تو سہی۔۔ مسقبل کا لمحہ جب آئے گا اسکو تب جی لینگے۔۔۔  جو ابھی آیا ہی نہیں وہ ہم پر اثر انداز کس طرح ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟؟
اس لمحہ کو محسوس کیجیئے بس۔۔۔ خدا کے لئیے گزرا ہوا یا آنے والا لمحہ جس کا اب کوئی وجود ہی نہیں ان کے لئیے اس موجودہ لمحہ کو قربان مت کریں زندگی درحقیقت اسی لمحہ میں برپا ہے۔۔ آپ اس لمحہ کی بے قدر کرکے اصل میں زندگی کی بے قدری کرتے ہی۔۔
   ماضی اور مستقبل آپ کے دماغ کا بنایا ہوا وقت ہے کیونکہ آپکا دماغ ان دو وقتوں کے علاوہ کبھی زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔ موجودہ لمحہ میں دماغ کو سوچنے کے لئیے کچھ ملتا ہی نہیں اس لئیے دماغ لمحہ موجود سے ہمیشہ فرار اختیار کرتا ہے۔
#2:
دماغ کیا ہے اور کیا ہماری خودی/ہستی دماغ سے اوپر کی کوئ چیز ہے۔۔؟؟

       جی ہاں۔۔!
دماغ ایک آلہ(instrument) ہے جس کے زمہ کچھ خاص کام کرنا ہیں۔ جیسے جسم کو چلانا ہر مخصوص پارٹ کو اسکی مطلوبہ چیز فراہم کرنا بھوک پیاس کا بوقت ضرورت احساس دلانا وغیرہ وغیرہ۔
بات یہاں تک رہے تو ٹھیک ہے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ دراصل مسئلہ تب خراب ہوتا ہے جب ہم دماغ کو ایک الہ یا جس کا ایک حصہ سمجھنے کہ بجائے خود اپنے آپ کو دماغ سمجھنے لگتے ہیں۔  میری بات کو زرا سمجھنے کی کوشش کریں آپ کے بہت سارے سوال
حل ہو جائیگیں۔
     میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب دماغ کو ہم نہیں بلکہ دماغ ہمیں مکمل کنٹرول کرتا ہے۔ آپ نے انگریزی کی ایک بہت مشہور مثال ضرور سنی ہوگی کی:

'Mind is a wonderful servant and terrible  Master'
(Robin Sharma)

'دماغ ایک حیرت انگیز نوکر بھی ہے اور خوفناک ماسٹر بھی'
(روبن شرما)

دیکھے اب ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔؟؟
ہمارا دماغ ہم پر ہر طرف سے قابو پا چکا ہے وہ بھی۔اس طرح سے کہ ہم اس کے غلام بن چکے ہیں جو گھٹنے زمین پر ٹیک کر جی حضور جی حضور کر رہے ہیں۔۔ ہم سوچتے بہت ہیں۔ کبھی غور کریں
آپکا دماغ کبھی خالی نہیں بیٹھتا یا تو یہ آپ کو ماضی میں لے جاکر ازیت دے گا یا پھر مستقبل کہی بھول بھلیا میں زلیل کروائے گا۔ سوچنا اپنے آپ میں دراصل ایک بیماری ہے وہ بیماری جو آج ہر کسی کو لا حق ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ایک دماغ میں 24 گھنٹے کے دوران ہمارے دماغ میں 60000 سے 70000 سوچیں آتی ہیں جن میں سے 90% کا تعلق دور دورتک حقیقت سے نہیں ہوتا۔ بلکہ 90% سوچیں آتی ہیں ماضی کی یا مستقبل کی جن کا کوئی وجود سرے سے ہے ہی ہیں۔ ہمارا دماغ ہر وقت بولتا رہتا ہے کبھی چپ نہیں ہوتا۔ یہ چلاتا ہے شور کرتا ہے تا کہ آپ مسلسل سوچوں میں ڈوبے رہیں اور اس طرح دماغ اپنا وجود قائم رکھ لے۔ آپ ابھی زرا اپنا احتساب کریں مجھے بتائیں ک گزشتہ دن آپ نے جو سوچیں سوچی تھیں کیا انکا کوئی واسطہ زندہ حقیقت جو موجود ہے جو سامنے ہے اسکے متلعق  تھا۔۔۔۔؟؟؟؟
کیا آپ۔ایسا کہہ سکتے ہیں کہ جی مجھے 90% سوچیں صرف ضروری چیزوں کے بارے میں آتی ہیں۔۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔
وہ انسان جو ہر وقت خود سے باتیں کرتا رہتا ہے، شور کرتا رہتا ہے اس شخص کو ہم اپنی زبان میں 'پاگل' کے لقب سے نوازتے ہیں۔۔۔۔لیکن زرا رکئیے۔۔۔۔!
  آپ کا دماغ اس وقت کیا کر رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟ کیا وہ ہر وقت بولتا نہیں رہتا۔۔۔؟؟ کیا خود کلامی نہیں کرتا۔۔؟؟ کیا آپ کو ایسی باتیں نہیں بتاتا جن باتوں کا آپ سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیا آپ ہر وقت خود سے کلام نہیں کرتے رہتے۔۔؟؟ بس فرق صرف اتنا ہے کہ پاگل وہ کلام اونچی آواز میں کرتا ہے اور آپ بغیر آواز کے لیکن در حقیقت ہیں دونو ہی پاگل۔!
      
  دماغ ہر وقت شور تخلیق کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے اگر اس نے آپ کو سوچوں سے خالی جھوڈا تو اسکی موت واقعہ ہو جائے گی آپ اس پر کنٹرول حاصل کرلے گے اور بیدار ہو جائے گیں آپ اس سیلف تک رسائی حاص کر لینگیں جو کہ اصلی آپ ہیں۔ وہ جو آبزرور  Observer ہے۔۔ وہ جو سب ہوتے دیکھتا ہے۔۔
وہ شعور کی آعلی ترین سطح ہے۔
آپ کو بتاوں کہ دماغ دکھ تخلیق کرتا ہے خود سے کیونکہ یہ چیزوں کےساتھ خود کو جوڈ لیتا ہے چیزوں سے الجھ جاتا ہے اور الگ نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ 10 سال پرانی چیزیں سوچ کر پھر دکھی ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی اچھی چیز سوچ کر مسکرا دیتے ہیں۔ لیکن یہ دونو ہی صورتیں دراصل دکھ اور غم کریٹ کرتی ہیں۔ کیونکہ اس اچھی چیز کے دوبارہ حصول کی تمنا آپکو پھر غمگین کرنے آئے گی۔ یہی وجہ ہے دکھ یا تو ماضی میں ہوتا ہے یا مستقبل میں ۔دکھ سے بچنے کا سب سے بہترین ذریعہ صرف یہ ہے کی موجودہ لمحہ میں جیا جائے۔ کیونکہ موجودہ اور میسر لمحہ دکھ اور غم سے خالی ہوتا ہے۔ آپ بطور ایک ہستی کے چیزوں کو ہوتا دیکھیں ہونے کا مزہ لیں اپنی موجودگی کا احساس کریں۔ ہاتھ دھوتے ہوئے اپنی شعوری حالت میں موجود رہے پانی کی آواز کو محسوس کریں۔۔۔۔۔ صابن کی خوشبو کا مزہ لیں۔۔۔ اپنے ہاتھوں کی نرم ملائم سکن کو محسوس کریں۔۔۔ سیڑھیا چڑھتے یا اترتے ہوئیے اپنے جسم کی اک اک موومنٹ کو ہوتا دیکھیں۔۔۔۔ جسم میں زندگی کی اس لحر کو محسوس کریں جو بدن میں بجلی کی رفتار سے بھاگ رہی ہے۔۔۔ جب آپ اس طرح کی پریکٹس اپنے روز کے کاموں میں کرینگیں تو آپ ماضی اور مستقبل سے آزادی حاصل کرنا شروع کرینگیں پھر اس دھوکے اس جال سے باھر آنا شروع کریگیں جو اس زہن نے اپنی بقا کے لئیے تخلیق کر رکھا ہے اور آپکو مسلسل اندھیروں میں لے جا رہا ہے۔
میں اپنے اس بیان کو ایک اور مثال سے ثابت کرتا ہوں۔
فرض کریں 5 سال پہلے آپ کو کاروبار میں نقصان ہوگیا۔ اب دماغ کا کام صرف یہ ہے کہ آپ کو اس نقصان کو پورا کرنے کے راستے بتائے آپ کو دوبارا اپنے پاوں پر کھڑا کرے۔۔۔ لیکن زرا غور کریں زہن کر کیا رہا ہے۔۔؟؟
    زہن بار بار آپکو ہر روز 5 سال پیچھے لے جاتا ہے اور اس نقصان کی تلخ یادیں آپ کو یاد دلاتا ہے جس سے ہر روز اسی کیفیت اسی درد سے دوبارہ دوبارہ دو چار ہوتے ہیں اور روز مر رہے ہیں غور کیجئیے یہ کیا ہے۔۔؟؟؟  
  
آپ کے آفس میں باس نے آپ کو کسی بات پر ڈانٹ دیا۔۔ یہ ایک واقع تھا جو ہو گیا بس گزر گیا اور ماضی بن گیا۔۔۔ لیکن آپ کا دماغ اس واقع  کو بار بار آپ کو یاد دلائے گا آپ کو دکھی کرے گا اور آپ اس شیطانی زہن کے ہاتھوں ہر لمحہ مرتے رہے گیں۔۔ ماضی سے اپنے آپ کو الجھا کے خود کو زخمی کرتے رہے گے۔
    یہ ٹھیک اسی زہنی غلامی کی بہترین مثال ہے جس سے میں آپ بلکہ اس جہان کے 7 ارب لوگ شکار ہیں۔
سب سے پہلے اپنے آپکے اس زہن سے علیحدہ  کوئی چیز سمجھیں جو آپ کے جسم اور دماغ سے بہت بڑی حقیقت ہے۔ اس زہن سے خود کو نہ جوڈیں۔  اس کے اس طرح سمجھیں کہ یہ ایک جنگ ہے جو آپکے دماغ اور آپکی حقیقی ہستی حقیقی سیلف کے درمیان ہر لمحہ جاری ہے اور دماغ تقریبا  ہماری زات پر قابو پا چکا ہے۔
    
    آپ سب نے زندگی میں کبھی نا کبھی مراقبہ کرنے کی کوشش کی ہوگی اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ناکام ہوئے ہونگے۔ کیونکہ آپ کو اپنے اندر جھانکنے میں سب سے بڑی رکاوٹ جو پیش آتی ہے وہ یہی دماغ ہے جو کسی بھوت کی طرح آپ کو گھیرے ہوئے ہے۔

سوال #3: زہن کی اس سوچنے کی بیماری کو کس طرح ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔۔۔؟؟

     جی میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ بہت آسان ہے۔ میں دیکھتا ہوں اس گروپ میں ایک سوال بہت پوچھا جاتا ہے کہ 'مراقبہ کیا ہے۔۔؟؟
آئیے آج میں آپکو بتاتا ہوں کہ حقیقت میں مراقبہ یا تزکیہ نفس کیا ہے۔ آپ اس کو بہت کوئی جادوئی چیز تصور کرتے ہیں جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے آپ میں سے ہر کوئی اس کو ابھی کر سکتا ہے میرے ساتھ رہیئے اور جیسا کہتا ہوں ویسا کریں۔۔
    جس حالت میں بیٹھے ہیں اس حالت میں رہیئے لیکن کوشش کریں کہ آپ سکون کی حالت میں ہوں۔۔
تین سانسیں اندر سے باھر کی طرف لیں۔۔۔ آنکھیں بند کریں۔۔۔ اور اپنا پورا دھیان سانسوں پر رکھیں۔۔۔ آپ خاموش ہیں لیکن حاضر ہیں۔۔۔ خود کا مکمل  جاگتا ہوا بیدار رکھییے۔۔۔ ہوش کو بحال رکھیئے سوچ کو موجود رکھیئے اس لمحہ میں۔۔۔ ہوشباش Presence  رہیں۔۔
        اب آہستہ آہستہ دماغ کے اندر جھانکنا شروع کریں۔۔۔ وہ ہستی بن کر جو دماغ کو کرتا دیکھ رہی ہے۔۔۔ دیکھیں سوچیں کس جگہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔۔۔۔ اس مقام کو دیکھیں جہاں اک شور سا برپا ہے۔۔۔ جہاں سیکنڈ  کے دسویں حصے میں سوچیں بن اور مٹ رہی ہیں۔۔۔۔ یہ آپکا زہن ہے۔۔۔۔۔ اور جو ہستی زہن کو دیکھ رہی ہے وہ 'آپ' ہیں۔۔۔۔ حقیقی آپ۔۔۔۔۔ سیلف۔۔۔۔ جو اس زہن سے ماورا ہے جس کا زہن سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ مشاہدہ کرتے رہیں دماغ کا۔۔۔
اس مشق کی کامیابی کا پتہ صرف اس بات سے لگ جائیگا کی آپ پر ایک خاص حالت کا غلبہ  ہوجائگا جو شائد 30 سیکنڈ یا اس سے کچھ زیادہ یا کم بھی ہو سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مشق کرتے رہیں اور سوچوں کے درمیان وقفوں کا فاصلہ بڑھاتے جائیں۔ اور ایک دن آپ اس مقام پر پہنچ جائے گے جہاں سوچیں آپ کی مرضی کے بغیر ابھر بھی نہیں سکتیں۔ اور یہ فقیری کا عالم ہے۔۔۔۔ یہی ہے وہ مقام جہاں سے درویشی کا مقام سوچوں کو زنجیروں میں جکڑ کر حاصل ہوتا ہے۔
میں اپکو بتاتا چلوں کہ آپ کی یہ حالت کوئی مد ہوشی کی کیفیت نہیں ہوگی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی آپ کی مکمل  بیداری کی حالت ہے یہی ہے شعور کی اعلی  ترین حالت۔ جہاں آپ Real Observer تھے جو کسی اونچے مقام پر بیٹھ کر چیزوں کو ہوتا دیکھ رہے تھے۔
اب کوشش کریں کو سوچیں اس زہن میں آ اور جا رہی ہیں ان سوچوں میں وقفے ڈالیں۔۔۔ سوچنا بند کریں۔۔۔۔
      جی جی کوشش کریں۔۔۔ ایک سیکنڈ کا وقفہ۔۔۔ دو سیکنڈ کا بریک۔۔۔۔۔۔ کوشش کرتے رہیں۔۔۔۔۔ لیکن خیال رہے آپ ان سوچوں کو صرف آتا ہوا دیکھیں مداخلت یا سوچوں کو بدلنے کی کوشش نہ کریں صرف بغور مشاہدہ کریں۔ ٹھیک ان والدین کہ طرح جو اپنے بچے کے شرارتیں کرتا ہوا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اگر دو سیکنڈ کا وقفہ بھی آپ نے کرلیا تو یہ آپ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ شروع میں یہ وقفہ بہت ہے آپ جیسے جیسے اس کی پریکٹس کرتے جائیگے فقفے بڑھتے جائیگے۔ جب آپ نے دماغ کو خاموش کر لیا تو سمجھیں آپ اس حقیقی آپ سے مل چکے ہیں جو ان سوچوں کے نیچے کہیں دبا ہوا تھا اور آخری سانسیں لے رہا تھا۔ وہ آپ وہ ہستی جو وقت سے آزاد ہے جسکا وقت صرف لمحہ موجود ہے جس کی اصل حالت یہ بیداری کی حالت ہے جس کا مشاہدہ ابھی آپ نے کیا۔ ہستی جو دماغ نہیں بلکہ دماغ سے کہیں زیادہ عظیم چیز یے جو اصل Observer ہے اس کائینات کی سب سے خالص ترین حقیقت۔
    یہ ہے مراقبہ کرنے کی سب سے پہلی حالت، یہی ہے وہ واحد راستہ جس سے سب دکھوں کی نجات ہے بس خود کو دماغ مت سمجھے بلکہ دماغ کو ایک آلہ ایک مشین سے زیادہ کوئی اہمیت نہ دیں اس سے خود کو جوڈ کر نہ رکھے بس وہ ہستی بنے جو پورے جسم کا مشاہدہ کرتی ہے۔
دماغ اس حقیقی ہستی کی تلاش کی جدوجہد کو بہت الجھا الجھا کر پیش کرتا ہے۔ جیسے یہ کوئی بہت گہری اور باریک چیز ہو۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں صرف گرد و غبار ہے جس کی پرتیں ہٹاکر صفائی کی جا سکتی ہے دماغ کے فریب سے نکلا جا سکتا ہے ان جھوٹے خیالات سے جو ماضی اور مستبقل  کے درمیاں چکر کھا رہے ہیں اس حقیقی دنیا کی طرف جہاں زندگی اپنی مسرتوں کے ساتھ آپکے لئیے بانہیں پھیلائے کھڑی ہے۔
  میں آپ کو بتاوں کہ میں یہاں کوئی نئی بات نہیں کر رہا بلکہ میں تو اس حقیقت کو آسان الفاظ میں بیان کر رہا ہوں جس پر علامہ اقبال جیسے بڑے انسان کا فلسفہ خودی کھڑا ہے۔ اس اندرونی چیز کی بات کر رہا ہوں جس پر مولانا رومی کی شاہ کار تصنیف مثنوی اپنے جلال کے ساتھ موجود ہے۔ اس مقام کی بات کر رہا ہوں جس مقام تک پہنچنے کے لئے ہمارے برصغیر کے بڑے صوفیوں نے مراکز قائم کئیے جہاں اسی حقیقی ہستی تک سفر کی تعلیمات دی جاتی تھیں۔ اس اندر سے آپ کو آشنا کروا رہا ہوں جس کے متعلق بابا بلھے شاہ اور شاہ لطیف بھٹائی جیسے لوگ لکھتے ہوئیے اس جہان سے چلے گئیے۔
مجھے دل سے پڑھیئے نہ کہ دماغ سے۔ دماغ وہ دشمن ہے جو ہمارے بہت قریب ہے اسی وجہ سے یہ ہر لمحہ ہم پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔
مبارک ہو آج آپ بیداری کی سفر کا آغاز کر چکے ہیں اس مشق سے جس نے آپ کو دکھایا کہ آپ دماغ نہیں ہیں آپ یہ جسم نہیں ہے بلکہ آپ وہ ہستی ہیں جو دماغ اور جسم کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اسی بنیادی فرق کو لے کر آگے کا سفر جاری رکھے گے جس میں آپ کو اس طرز کی مزید مشقیں Exercises کروائی جائیں گی جو خودی اور حقیقی آپ کو زیادہ وظاحت سے آپ پر کھول دے گیں۔
  آنے والی تحریر میں ہم جانے گے کہ خواہش کس بلا کا نام ہے اور یہ کس طرح پیدا اور حملہ اور ہوتی ہے۔۔۔؟؟

کس طرح دماغ اور خواہش ایک دوسرے کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔۔۔۔؟
'انا' کس بھوت کا نام ہے اور یہ کس کس شکل میں ہماری زندگی برباد کرتی ہے۔۔۔؟

  اس سچائی کے سفر میں ساتھ رہیئے اور آج کی تحریر کے حوالے سے اگر کوئی سوال ہے تو کمنٹس میں وضاحت کے ساتھ مجھ سے پوچھئیے۔ جتنے سادہ انداز میں آپ کو جواب دے سکا میں ضرور دوں گا۔
   جیسا میں نے شروع میں کہا کہ اندرونی حالات کو محسوس کرنا تو آسان لیکن بیان کرنا اپنے آپ میں ایک مشکل عمل ہے اور پھر میں کوئی پروفیشنل یا پیشہ ور لکھنے والا ہوں نہیں جس کو اس کام پر مہارت حاصل ہو۔ اس لئیے پڑھتے ہوئیے میری باتوں کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے دماغ اور عقل کی سطح سے اوپر اٹھ کر بطور اس ہستی کے جو شعور کی آعلی ترین سطح پر فائز ہے۔ باتوں کی حقیقت خود اپنے اندر اترنے کا موقع  دیجیئے۔
آللہ پاک میری اس کاوش میں برکتیں عطا  فرمائے کہ میں اپنی بات، خیالات اور اپنی اس باشعور حالت کو آپکو سمجھا سکوں۔
     ا سے ے تک پڑھنے کے بعد اپنی رائے اور سوالات سے مجھے آگاہ فرمائے۔

  االلہ نگہبان ❤

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری