کرومو پیتھی

‏تتلیاں ، کونپلیں ، رنگ و بُو اور تو،
چاندنی ، شاعری ، یہ سب اور تو،

دامنِ کوہ کے منظرِ خواب میں،
روشنی ھو میرے چار سو اور تو

صندلی صندلی خامشی اور میں،
مخملی مخملی گفتگو اور تو

جس طرف دیکھئے اور کچھ بھی نہیں،
صرف میں اور میں ،صرف تو اور تو♡♡
شاعر نامعلوم

سائنس کہتی ہے کہ روشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہے اور یہی ساتھ رنگ ہمارے ارد گرد کی تمام بصری رعنائیوں میں کارفرما ہیں ۔ پھولوں کی خوبصورتی سے لے کر قوس قزح کی جھلک تک ہر طرف یہی سات رنگ جلوہ گر ہیں۔
مرجا گالب ناک پہ عینک درست کرتے ھوئے بخار میں سلگتے  میاں آصف سے سوال کرتے ھے‛
میاں آصف سید ؛ دنیا بھر میں علاج و معالجہ کے سینکڑوں طریقے رائج ہیں اور ہر طریقہ علاج کے ماننے والے بھی موجود ہیں۔تو    کیا یہ رنگ و روپ کی دنیا ہمارے مزاج و جسم پہ اثرانداز بھی ھوتی ھے ؟
مسکراتے ھوئے میاں آصف سید نے پانی کا بھرا  گلاس پیتے پیتے مسکراتی آنکھوں کیساتھ جواب دیا ؛
جناب گالب صاحب ‛ اس سوال کیلئے  نزدیک ترین مثال ڈھونڈتے ھوئے پاکستان کا مقبول روحانی سلسلہ  کے مرشد کریم خواجہ شمس الدّین عظیمی ، اپنی کتاب ’’  رنگ و روشنی سے علاج‘‘  کے موضوع: ’’ رنگ اور روشنی سے علاج کا اصول‘‘ میں مرض پیدا ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں
’’ لہروں کے ذریعہ انسان کے اندر رنگ ٹوٹ کرزندگی بنتے ہیں۔ جب یہ رنگ انسانی جسم میں اپنی صحیح مقدار میں موجود ہوتے ہیں توانسان بالکل تندرست رہتاہے۔ اگر ان رنگوں میں اعتدال باقی نہ رہے تو کوئی نہ کوئی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر رنگ کی مقدار کوکنٹرول کر لیا جائے تو مرض کا علاج ہوجاتاہے۔ ان رنگوں کی کمی کو پورا کرنے یا زیادتی کو ختم کرنے کے لئے سورج کی شعاعوں اور روشنی سے مدد لی جاتی ہے۔
ارے میاں اس طریقہ علاج کے بارے کوئی تفصیل بھی بیان کروگے یا پہلیاں ہی بجھاو گے ‛
ورنہ ہمارے ھاں تو ڈاکٹروں کو جب کسی بیماری کا سر پیر نظر نہ آئے ! تو وہ فوراً کہہ دیتے ھیں کہ الرجی ھے، اب یہ الرجی ھر قسم کی ھو سکتی ھے، جتنے باڈی پارٹس ھیں اتنی ھی الرجی کی قسمیں ھیں، بلکہ جتنے فیملی ممبرز ھیں اتنی ھی الرجی کی قسمیں ھیں۔

نہیں جناب آپ مجھے تھوڑا ٹائم دے میں آپ کو آسان لفظوں میں طریقہ علاج کیساتھ ساتھ خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتاب ‛ کلر تھیراپی کا پی ڈی ایف لنک کیساتھ
(   https://drive.google.com/file/d/1nlGNf5ggTbk5uMTo7URGD87kOTDlM9Mv/view?usp=drivesdk      
  ایک اور مشہور کتاب ‛علاج شمسی ‛بھی پی ڈی ایف 
https://drive.google.com/file/d/1oNbL8H9osbXGqcT_1KCWAwV-rpbpVM17/view?usp=drivesdk

کی صورت دونگا البتہ دیگر احباب کیلئے معمولی تفصیل بیان کر دیتا ھوں ۔رنگ یاروشنی سے امراض کا علاج اس قدر آسان ہے کہ معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتاہے۔ اور مزے دی گل کہ دوائی ھر ویلے تازہ بنا کے استمال کر سکدے او ۔
ویسے تو تفصیل تہانوں کتاب پڑھ کے مل جائے گی فیر وی طریقہ علاج دی آسانی دیکھے کہ جس رنگ کی ضرورت ہوا س رنگ کی ایک بوتل بازار سے خرید کر پہلے اسے ٹھنڈے پانی سے اورپھر گرم پانی سے خوب اچھی طرح صاف کرلیناچاہئے۔ تاکہ بوتل کے اندر کی سطح میں کسی قسم کا میل باقی نہ رہے۔ اگربوتل کے اوپر کوئی لیبل یا کاغذ وغیرہ لگاہواہواسے بھی دورکردینا چاہئے۔ شیشی کو صاف کرنے کے بعد اس میں آبِ مقطر(DISTILLED WATER)اس طرح بھرنا چاہئے کہ بوتل یا شیشی کا ایک چوتھائی اوپری حصہ خالی رہے۔ اس بھری ہوئی بوتل یا شیشی کو لکڑی کی میزیا چوکی پر ایسی جگہ رکھنا چاہئے جہاں صاف اورکھلی ہوئی دھوپ ہو۔ اگر بازار میں مطلوبہ رنگ کی بوتل یاشیشی فراہم نہ ہوسکے تو صاف پکّے شیشے کی سفید بوتل خرید کر اس پر ٹرانسپرنٹ کا غذااس طرح چپکا دیا جائے کہ بوتل اوپر ، نیچے اور اطراف میں کاغذ کے اندر آجائے۔ ٹرانسپرنٹ سے مراد وہ کاغذہے جو اگر بتیوں وغیرہ کے پیکٹ پر خوبصورتی کے لئے لگایا جاتاہے۔ اگرایسا کاغذ دستیاب نہ ہوتوٹرانسپرنٹ پلاسٹک شیٹ سے بھی کام لیا جاسکتاہے۔

۱۔ ایک چوتھائی خالی بوتل چھوڑ کر پانی کو بوتل میں دھوپ میں چاریا چھ گھنٹہ تک رکھا جائے ۔ پانی تیارکرنے کا بہترین وقت دن میں دس گیارہ بجے سے چار بجے تک ہے ۔ پانی تیارہونے کی شناخت یہ ہے کہ بوتل کے خالی حصہ پر بھاپ کی طرح کچھ بوندیں جمع ہوجاتی ہیں۔

۲۔ ایک شیشی کو دوسری شیشی کے قریب اس طرح نہ رکھیں کہ ایک شیشی کا سایہ دوسری شیشی پرپڑے۔

۳۔ جس مقام پر شیشیاں رکھی جائیں وہاں کسی قسم کا گردوغبار یا دھواں نہیں رہنا چاہئے ۔ شیشیوں کے اوپر کارک مضبوطی سے لگا رہناچاہئے۔
مرجا گالب نے آصف سید کی زبانی تفصیل سنی تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے ۔
مرجا گالب کو ایسا دیکھ کر میاں آصف سید شرما کر دھمیے سے بولے ‛میاں جی تہاڈے آنکھوں کے ڈھیلے میگنی فائیر گلاس کی عینک کے شیشوں سے مزید وڈے وڈے نظر آ رھے تسی مجھے نظر لگا دینی ۔
مرجاگالب جھینپ گئے اور میاں آصف کے معصوم چہرے سے نظر ہٹا کر گویا ھوئے‛
تم اپنے مریض غم ہجراں کی خبر لو‛
میاں جب دھوپ نہ ھو تب مریض کیا کرے ۔
میاں جی ایک دن دھوپ نہ نکلے تو دوسرے دن سورج نکلنا ہی نکلنا میاں آصف معمولی غصے سے سرخ چہرے لئے بھنائے ‛ پھر بھی برسات کے دنوں میں جب کہ سورج کبھی نکلتاہے اور کبھی ابرمیں رہتاہے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس رنگ کی ضرورت ہو اسی رنگ کی بوتل میں شوگر آف مِلک کی دوگرین کی ٹکیاں حسبِ قاعدہ بھر کر متواتر پندرہ یوم یا ایک ماہ تک روزانہ چھ گھنٹہ دھوپ میں رکھی جائیں۔ درمیان میں ہر چوتھے روزان کو ہلاتے رہیں تاکہ گولیوں میں سورج کی کرنیں خوب اچھی طرح جذب ہوجائیں۔ پندرہ روزکے بعدان گولیوں کوبطور دواستعمال کیا جاسکتاہے۔
اور آپ جیسا کند ذہن اب بھی مطمین نہ ھوسکے
تہاڈے واسطے شاعر بیان کر گیا
نہیں ھوتا کسی طبیب سے تمھارے دماغ کا علاج
عشق تہاڈا  لاعلاج ھے تسی بس  پرھیز کیجئے

بہرحال تسی  کرومو پیتھی کے اصول پہ تیل بنا لوں ۔
میاں  آصف  بخار میں ھو تمھاری  تیماداری میرا فرض بنتا ھے لیکن آپ نے خوبصورت اور وقت کی ضروت کا ٹاپک  اتنا سلیس اور خوبصورت الفاظ میں بیان کیا کہ آتش شوق بھڑک اٹھا ۔
اب لگے ھاتھوں کلر تھیراپی آئیل کا بھی بتا دو لیکن درخواست ھے کہ اداسی کا دامن جھٹک کر خوشگوار انداز سے بیان کرو کہ
  وہ جب اپنے لب کھولیں
شہد فضاؤں میں گھولیں
مرجا گالب کی شاعری سے متاثر ھوکر آصف میاں گویاں ھوئے ‛

تیل بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف رنگوں کی بوتلوں میں کچّی گھانی کا خالص السی کا تیل ‛ سفید تل کا تیل اور سرسوں کا تیل  بھرکر چالیس یوم تک دھوپ میں رکھیں۔
اگر اس عرصہ میں بارش آجائے یا بادل چھا جائیں تو یہ دن شمار کرلیں اور چالیس روزکے بعد اتنے روزمزید دھوپ میں رکھ کر کورس پوراکرلیں ۔ تیل تیارہوجانے کے بعد اس کی مالش کرائی جائے۔ مالش صبح وشام پانچ پانچ منٹ وائروں میں کرنی چاہئے۔
اچھا اب لگے ھاتھ فوائد بھی بیان کر دو تو سونے پہ سہاگا ھو جانا ‛ مرجا گالب اپنی بے چین طبعیت سے مجبور ھو کر بولے ۔
سید آصف بخار کے ھاتھوں بے چین تھے گلہ کھنکھار کر دبی دبی آواز میں کہنے لگے  دیکھے گالب صاحب ٰ؛ اب تسی خود وی محنت کرو اور لنک سے کتاب ڈانلوڈ کر کے مطالعہ کر دیکھوں ‛تسی تو پڑھنے سے ایسے بھاگتے ھو جیسے اپنے بچپن میں کتابوں کا  بیگ سکول کے باہر کھڑی ریڑھی میں چھپا کر سکول سے پھُٹ جاتے تھے ۔
مرجا گالب زیر مونچھ مسکرا کر گنگنانے لگے ؛
رنگین ھے تو رنگوں سے بھی زیادہ
شوخ لگتی ھو رہ کر بھی سادہ
اتنے میں مرجا گالب کو کھانسی کا ٹھسکا آیا اور وہ گانا روک کر بولے میاں آصف تسی موبائیل وچ Coloring Book کلر بک کی ایپ انسٹال کرواور فیر بچوں کی رنگ بھرنے والے اس ڈیجیٹل کتاب میں رنگ بھرو
یہ ایسی کامیاب تھیراپی ہے جسے شروع کرتے ہی
پہلے پانچ منٹ میں بیزاری دور ہوجائے گی
اور نیند بہترین آئے گی. بھلا ھو انگریج دا جس نے پلے سٹور تے آپ کی آسانی کیلئے بے تحاسہ ایپ ڈال رکھی ان میں سے ایک ۔
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.coloringstudio.colorfy

’’اگر انسان کی عظمت کو اس کی خوبیوں کے حوالے سے نام دیا جائے تو یہ اس کی جرأت، وسعت نظری اور فراخدلی میں ملے گی۔ یہ خوبیاں شاید ابتدا میں اتنی اہم نظر نہ آئیں لیکن ذرا غور کیجیے کہ ان میں کتنی گہرائی اور پروان چڑھنے کی صلاحیت ہے۔ ایک کشادہ ذہن کی تعلیم کبھی ختم نہیں ہوتی۔ پھر فراخدلی، اس کو اپنے قریب آنے والے لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں جھانکنے کے قابل بناتی ہے۔ وہ ان کی دھڑکنوں کو محسوس کرسکتا ہے، ان کے دکھ درد کو سمجھنے کی صلاحیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے دل میں ہمدردی کا جذبہ کتنا ہے۔ اس کے علاوہ اور کون سا جذبہ ہے جو ہمیں خودغرضی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کشادہ دلی میں جرأت کو اور شامل کردیجیے۔ اب آپ کے سامنے ایک ایسا انسان ہے جو ہر صورت میں خود پر قابو رکھ سکتا ہے، ہر آزمائش میں ثابت قدم رہ سکتا ہے، اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرسکتا ہے اور مختصراً وہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لاسکتا ہے جو ہمدردی اور کشادہ ذہنی نے اس میں ودیعت کی ہیں۔‘‘

سر آرتھر ہلیس نے اپنے اس خوبصورت پیغام میں ہمیں زندگی کی حقیقی عظمتوں سے روشناس کرایا ہے۔ اوپر  دئیے گئے مکالمہ کے ایک کردا۔ جناب سید آصف بخاری جو ہمہ گیر خوبیوں کے مالک ھے وہ سر آرتھر ہلیس کی بیان کردہ تعریف پہ اترنے کی اہلیت رکھتے ھیں ۔
مکالمہ کے دوسرے کردار مرجا گالب اپنے تئیں خود کو مخفی علوم کا طالب علم سمجھتے ھیں اور اکثر سوالات کر کر کے جناب سید آصف بخاری کو اکسا کر علم و حکمت کے موتی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ھے یہ انکے درمیان بیان کئے مکالمہ کی ایک شکل آپ نے ملاخطہ کی ان شاء اللہ تعالی ‛ ٹائپنگ کی ہمت رہی تو مرجا گالب کے کچھ اور سوالا از قسم ‛ تصوف اور فلسفہ تصوف کیساتھ کشف کی صلاحیت منفی یاں مثبت کو لیکر ان دو حضرات کا مکالمہ لے کر حاضر ھونگے ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گندی شاعری

مراقبہ ، کنڈالینی ٹ ، قسط دوئم

شہوانی و گندی شاعری