مراقبہ ، کنڈالینی شکتی ،،،
آئیے مراقبہ توجہات سیکھے قسط 1
پوچھا گیا شاہ جی ؛ یہ مراقبہ کیا ہوتا ہے؟
فوری طور پہ ذہن میں خیال آیا : جہاں ماضی کی پچھتاوے نہ ہو اور نہ ہی مستقبل کی فکر ہو جہاں بندہ صرف حال ہی میں مست ہوکر منہمک رہے یہی تو مراقبہ ہے۔
کچھ دیر کے لیے دنیا ومافیہا سے تعلقات توڑ کر ہمہ تن اپنے خالق ومالک کی طرف متوجہ ہونے کا نام مراقبہ ہے ۔
مراقبہ (Mediatation)کے متعلق آج کل کے جدیدسائنسدانوں نے جو تحقیق شدہ انکشافات کیے ہیں اس سے مراقبہ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ابتدائی مراقبہ کے اسباق ، سیکھنے اور عمل کرنے کے لیے کسی بھی مشق کی ضرورت نہیں، چہلا (چلا) نہیں کرنا ہوتا، تسبیح نہیں کرنا ہوتی، کوئی ذکر اذکار نہیں ہوتا، تزکیہ نفس نہیں کرنا ہوتا اس کے باوجود انسانی جسم کا ہر ایک حصہ روحانی طور پر بیدار ہوجاتا ہے، ایک ایک سانس ذکر الٰہی کرنے لگتا ہے، پورا جسم سراپا عبادت بن جاتا ہے۔ سفلی اور منفی خیالات ختم ہوجاتے ہیں، روحانی مثبت خیالات قائم ہوتے ہی، انسان مثبت طرز عمل اختیار کرلیتا ہے، فرقہ بازی ختم، نفرت محبت میں تبدیل ہو جاتی ھے
فرمان الٰہی ہے ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ ترجمہ: خبردار ! اللہ کے ذکر میں ہے دلوں کا سکون ہے۔ اس لیے دل کے مریضوں کو ذکر قلبی مع مراقبہ (تسبیح کے ساتھ) کرانے سے، تسبیح کی آواز کو ( اللہ اللہ ) دھڑکن دل سے ملانے سے سکون ملتا ہے۔
آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ تین اوقات صبح دوپہر اور شام صبح فجر پڑھنے کے بعد اور شام کو مغرب کے بعد (یہ اوقات ہی اس کے لئے زیادہ اچھے ہیں) آپ بیس منٹ نکال کر موسم کے لحاظ سے ہوادار کمرے یا کھلی فضا میں شمال کی طرف رخ کرکے سیدھے کھڑے ھوجائے اور سر کو پیچھے جھکالیں نظر دونو بھنوؤں یعنی ابروں کے درمیان میں رھے اس حالت میں تیزی سے سانس اندر لیں اور پھر تیزی سے خارج کریں ایسے جیسے کوئی بھاگ کر آئے تو تیز تیز سانس لیتا ھے اسی طرح آپ سانس تیز تیز لیں جب چکر آنے لگیں تو بس کر دے ۔ ابتدا میں پچیس بار سے شروع کریں اور بتدریج بڑھاتے جائیں ۔
اب آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیے۔ کمر، گردن اور پشت و سر کو ایک سیدھ میں کرلیں۔ گردن میں اکڑاؤ اور سینے میں تناؤ نہ ہو، یعنی نہ گردن اکڑی ہوئی ہو نہ سینہ باہر کو نکلا ہوا ہو، اس عالم میں بیٹھے ہوئے آپ اپنے کو پرسکون محسوس کریں۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کا طریقہ سب کو معلوم ہے یعنی داہنی پنڈلی اور پاؤں کو بائیں ران کے نیچے رکھ لیں اور بائیں پنڈلی اور پاؤں کو داہنے طرف کی ران کے نیچے رکھ لیں، جیسے زمین یا فرش پر جم کر بیٹھا کرتے ہیں، قدرتی مضبوط نشست یہی ہے اور بہتر یہ ہے کہ تمام شعبوں میں اسی قدرتی مضبوط نشست کو اختیار کیا جائے۔
اگر یہ انداز نشست اختیار کرنا مشکل اور تھکاوٹ کا باعث بنے تو کسی دیوار کے ساتھ سیدھی کمر ٹیکا کر آپ چار زانو ہو کر “ چوکڑی “ مار کر بیٹھ جائیں۔ اپنی پشت کو بالکل دیوار کے ساتھ لگا لیں، کوئی جھکاؤ “ کُب“ نہ پیدا ہو۔ یہ بہت ضروری ہے، کیونکہ جو کرنٹ چلنا ہے، ( کنڈلینی شکتی ) نیچے سے اوپر تک وہ سیدھے راستے سے چلے۔اب ماڈرن زندگی ہے، بہت سے لوگ چوکڑی مار کر نہیں بیٹھتے۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھ جائیں، لیکن اس صورت میں پاؤں زمیں کے ساتھ لگے رہنے چاہیں۔
جاری ھے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں